(زمانہ گواہ ہے) صدارتی نظام کی بازگشت اور ملکی مسائل کا حل - وسیم احمد

10 /

پاکستان میں اگر صحیح اسلامی معاشرہ نہیں ہے توپھر چاہے صدارتی نظام ہویاپارلیمانی ، ملک میں استحکام نہیں آسکتا:ایوب بیگ مرزا
صدارتی نظام کی بحث ہمارے لیے نان ایشو ہے ۔ اسے اچھالنے میں میڈیا کا بڑا کردار ہے : سینیٹرعرفان صدیقی
بانی ٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے مطابق صدارتی نظام اگر اسلام کی بنیادی شرائط کے تابع ہو تو پارلیمانی نظام کی

نسبت نظامِ خلافت کے قریب ترہے : رضاء الحق

 

صدارتی نظام کی بازگشت اور ملکی مسائل کا حل کے موضوعات پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

 

میز بان :وسیم احمد

 

سوال:پاکستان میںوقفے وقفے سے صدارتی نظام کے حوالے سے آوازیںاٹھناشروع ہوجاتی ہیں ۔ کیایہ محض اتفاق ہے کہ اس وقت پورے پاکستان میں یہ بحث شروع ہوگئی ہے یااس کے پیچھے کوئی قوتیں ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا: آئین کے مطابق ہمارا نظام پارلیمانی ہے لیکن جب بھی لوگ اس نظام سے مایوس ہوتے ہیں تو صدارتی نظام کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ اس دفعہ زیادہ زور دار انداز میں یہ آواز اٹھ رہی ہے ۔ اس کی ایک وجہ سوشل میڈیا ہو سکتا ہے ۔ پہلے سوشل میڈیا نہیں تھا لیکن اب سوشل میڈیا پر جو بات پھیل جاتی ہے اس کو الیکٹرانک میڈیا بھی لے لیتا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ صدارتی نظام کی آواز کی پشت پر ہمیشہ وقت کی حکومت ہوتی ہے اور اس کی مخالفت ہمیشہ وقت کی اپوزیشن کررہی ہوتی ہے ۔ آج جواپوزیشن میں ہیں کل جب وہ حکومت میں آئیں گے تووہ بھی زوردار انداز سے کسی نہ کسی سے یہ بات اٹھوائیں گے اور آج حکومت والے کل اپوزیشن میں صدارتی نظام کی مخالفت کریں گے ۔ ابھی حال ہی میں پی ڈی ایم کااجلاس ہوا جس میں ان کی قیاد ت نے بڑے زوردار انداز میں صدارتی نظام کی مخالفت کی ۔ پی ڈی ایم میں نواز شریف کی حیثیت مرکزی لیڈر کی ہے ۔ ماضی میں نواز شریف بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹرا سراراحمدؒسے دوتین دفعہ ملاقات کرنے کے لیے قرآن اکیڈمی تشریف لائے تھے ۔ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب ؒ خود ان سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے ۔ وہاں انہوں نے نوا ز شریف سے ملاقات میں کہا کہ پاکستان میں صدارتی نظام پارلیمانی نظام سے زیادہ مفید ہے ۔ جواب میں نواز شریف نے کہا کہ میں صدارتی نظام کاشدت سے حامی ہوں بلکہ اس سے ایک قدم آگے کاسوچتاہوںکہ صدر کواختیا رہونا چاہیے کہ وہ اسمبلی ممبران کو خود pick کرے۔حقیقت یہ ہے کہ آج تک ہماری کوئی حکومت ڈلیور نہیں کرسکی۔ اگر کسی حکومت نے عوام کے لیے کچھ بھی ڈلیو ر کیاہوتا توآج عوام کی حالت یہ نہ ہوتی۔ میںنے اپنی طویل زندگی میں کبھی نہیں دیکھا کہ پاکستان کے عوام کبھی کسی حکومت سے مطمئن ہوئے ہوں ۔ ایک سے ناراض ہوتے ہیں تودوسرے کو لے آتے ہیں، دوسرے سے ناراض ہوتے ہیں توپھر پہلے کو لے آتے ہیں۔ یعنی ہمارے عوام ہرحکومت سے دو تین سال بعد نالاں ہو جاتے ہیں۔ابھی حال ہی میں عمران خان نے کہا کہ اگر مجھے نکالاگیا تومیں بڑا خطرناک ثابت ہوں گا۔ کوئی خطرناک ثابت نہیں ہوسکتا ہے، نہ عمران خان ہوسکتاہے اور نہ ہی اس سے پہلے جانے والے خطرناک ثابت ہوئے ہیں کیونکہ کسی نے ڈلیور نہیں کیا۔ ترکی میں اردگان اس لیے خطرناک ثابت ہوا تھا کہ اس نے ڈلیو ر کیاہوا تھاجس کی وجہ سے عوام ٹینکوں کے سامنے آئے ۔ یہاںاس لیے عوام سامنے نہیں آتے کیونکہ انہیں پتا ہے کہ بد جائے گا توبدتر آجائے گا۔ صورت حال ایسی ہے کہ کوئی بھی عوام کوریلیف دینے کی پوزیشن میںنہیں ہے ۔جس طرح کانظام چل رہا ہے اوربالخصوص معیشت کاجوحال ہے ،کسی ماہرمعاشیات نے درست کہا ہے کہ اگر یہی نظام چلتا رہاتوکوئی بھی حکومت میں آجائے تیس سال بعد اس سے بدتر حال ہو گا۔ معیشت کے معاملے میں جس طرح ہم پھنس چکے ہیں یا جس طرح ہمیں پھنسالیاگیاہے اس کو سامنے رکھا جائے توپاکستان کے حالات عوام کو ریلیف دینے والے ہیں ہی نہیں ۔اپنی بات تو یہ ہے کہ ہم نہ اپوزیشن میں ہیں اور نہ حکومت میں ۔ میں بحیثیت ایک عام پاکستانی یہ محسوس کرتاہوںکہ صدارتی نظام پاکستان کے لیے واقعتاًبہتر ہے ۔ کیونکہ ہمارے ہاں ہوس اقتدار کا معاملہ لوگوںکو ٹکنے نہیں دیتااور وزیراعظم کو اپنے عہدے کاہروقت خدشہ لگارہتاہے کہ کچھ ممبر دوسری طرف چلے گئے توکرسی چھن جائے گی یاپارلیمنٹ میں معاشی بل پاس نہیں ہوا تووزیراعظم صاحب چلتے بنیں گے ۔ یعنی پارلیمانی نظام میں اس طرح کے خدشا ت کی وجہ سے استحکام نہیں آسکا۔اس نظام میں ایک اقتدار میں آتاہے تو دوسرا اس کی ٹانگ کھینچنا شروع کردیتا ہے ۔ اسی لیے تو پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ میںاتنے کپڑے نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدلتی ہیں۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پارلیمانی نظام ہمارے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ ایک دفعہ پتاچل جائے کہ یہ حکومت پانچ سال رہے گی توپھر لوگوں کاطرزعمل مختلف ہوگا۔ اسی طرح پارلیمانی نظام میں وزیراسی کوبنایاجاتاہے جوپارلیمان کا ممبر ہوگاچاہے وہ اس وزارت کااہل ہویا نہ ہو۔ باہر سے کسی کو وزیر بنانا ہوتواس کے لیے شرط یہ لگائی جاتی ہے کہ وہ چھ ماہ کے اندر اندر پارلیمان کاممبر بنے اور یہ نئی مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے۔ بہرحال پارلیمانی نظام میں اس طرح کی مشکلات ہیں جو صدارتی نظام میںنہیں ہوں گی۔باقی اصل بات یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اگر صحیح مسلمان معاشرہ نہیں ہے توپھر چاہے صدارتی نظام ہویاپارلیمانی ، ملک میں استحکام نہیں آسکتا۔ اصل بات یہی ہے کہ عوام اوربالخصوص حکمران اپنے ملک کے ساتھ مخلص نہیںہیں۔ جس کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔
سوال: صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام میںبنیادی فرق کیا ہے ؟
رضاء الحق: صدارتی اور پارلیمانی نظاموں میں واضح فرق ذریعہ الیکشن اور منصب ہے۔ پارلیمانی نظام میں عوام اسمبلی ممبران کومنتخب کرتے ہیںاور پارلیمنٹ پھر چیف ایگزیکٹو کومنتخب کرتی ہے جووزیراعظم کہلاتا ہے اوروہ پارلیمنٹ کوجوابدہ بھی ہوتاہے ۔ جبکہ صدارتی نظام میں ڈائریکٹ الیکشن کاتصور ہے ۔ جیسے امریکہ میںپہلے ہر پارٹی صدارتی اُمیدوار کے لیے پارٹی کے اندر الیکشن کرواتی ہے ۔ پھر ان صدارتی اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا اور عوام براہِ راست ان کو ووٹ دیں گے ۔ جس کو اکثریت حاصل ہو جائے گی وہ مملکت کا صدر بن جائے گا ۔ کئی ممالک میںاس سے ہٹ کربھی طریقہ ہے جیسے چین میں ون پارٹی سسٹم ہے ۔ یہ پارٹی اپنے اندر سے صدارتی اُمیدوار کو منتخب کرتی ہے ۔کئی ممالک میںتمام لوگ ریفرنڈم کے ذریعے صدر کومنتخب کرتے ہیں۔ دوسرا فرق separation of powersکے اصول کاہے ۔صدارتی نظام میں انتظامیہ ،مقننہ اورعدلیہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ہیڈ آف سٹیٹ اورہیڈ آف دی گورنمنٹ صدر ہوتا ہے ۔وہ اپنی کابینہ جہاں سے مرضی ہو چن کربناسکتاہے ۔اس کو مقننہ سے چند استثنائی عہدوں کے علاوہ مشاورت کی بھی ضرورت نہیںہوتی کیونکہ مقننہ کاکام قانون سازی ہے اور ملک کو چلانا صدر کاکام ہے۔ وہ اپنی ٹیم میں چاہے ٹیکنوکریٹس کولائے چاہے کوئی اور لے آئے۔ وہ مقننہ کوجوابدہ نہیں ہے البتہ اگر وہ حدود کراس کرنا شروع کردے تواس کوimpeachکیاجاسکتاہے ۔ پھر اس کا فکس ٹرم ہوتاہے لیکن اگر مقننہ اس کوہٹانا چاہے تو اس کے لیے بڑا لمباپراسس ہوتاہے ۔ پارلیمانی نظام میں ہیڈ آف دی گورنمنٹ وزیراعظم ہوتاہے اور ہیڈ آف دی سٹیٹ صدر ہوتاہے جو محض رسمی عہدہ ہوتاہے۔وزیراعظم اپنی کابینہ پارلیمنٹ کے ممبرز کی بناتاہے۔ اس کے علاوہ کسی کونہیں لاسکتے البتہ کچھ آپشنز ہوتی ہیں کہ کسی کو مشیر خصوصی کے طور پرمنتخب کیا جا سکتا ہے۔دوسرا لیول پروہ یونیٹری ہوسکتاہے یافیڈرل یاکنفیڈرل ہوسکتاہے ۔ یونیٹری کا مطلب ہے کہ مرکزکے پاس تمام اختیارا ت ہوں گے اور اگر اس کے ساتھ اکائیاں ہوں تو ان کے پاس بہت کم اختیارات ہوں گے ۔د وسرا فیڈرل نظام ہے جس میں مرکز اور دوسری اکائیاں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں صوبے ہیں جن کی اپنی حکومتیں ہیں ۔ اسی طرح کنفیڈرل نظام ہوتاہے جس میں مرکز اور اکائیاں ہوتی ہیں لیکن فیڈرل میں صوبوں کے پاس اپنی علیحدہ حاکمیت کاآپشن نہیںہوتا۔ کنفیڈرل میں سب علیحدہ ہوتی ہیں، ان کے پاس اپنی ساورنٹی کاحق ہوتاہے اوراس کی بنیاد پروہ مرکز کے ساتھ حکومت چلانے کے لیے طریقہ کار وضع کرتی ہیں۔ یونیٹری سسٹم برطانیہ اور اٹلی میں ہے ۔ فیڈرل سسٹم پاکستان اورامریکہ میں ہے ۔البتہ انڈیا میں کچھ ہائبرڈ سسٹم ہے۔ کنفیڈرل سسٹم پہلے وسطی ایشیائی ریاستوں میں تھا۔ اس وقت یورپی یونین اس سے قریب تر ہے ۔ جہاں تک فوائد کاتعلق ہے توجوفوائد صدارتی نظام کے ہیں اصل میں وہ پارلیمانی نظام کے نقصانات ہوں گے ۔ separation of powersکاایک جگہ بہت بڑا فائدہ بھی ہے کہ آپ آزادانہ کام کرسکتے ہیں، ملکی ترقی کے لیے جوبھی کوشش کررہا ہواس کے کام میں کوئی دوسرا ٹانگ نہیں اڑائے گا۔صدارتی نظام کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عوام صدر کا انتخاب کرتے ہیں اس وجہ سے عوام براہ راست حکمران کے ساتھ لنک ہوتے ہیں ۔ تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ صدارتی نظام میں فیصلے جلدی ہوتے ہیں جبکہ پارلیمانی نظام میں لمبے پراسس کی وجہ سے بہت تاخیر ہو جاتی ہے ۔ چوتھا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ریاست میں استحکام آتاہے ۔بہت سارے ممالک میں جب صدارتی نظام آیا تووہاں موروثیت اور مافیاز وغیرہ کا خاتمہ ہوا۔اسی طرح صدارتی نظام کے تین بڑے بڑے نقصانات ہیں ۔
1۔صدارتی نظام اختیار کلی کی طرف جاسکتاہے یعنی اس میں آمریت کے خدوخال آنے کے چانسز ہوتے ہیں۔
2۔ ایسا ممکن ہے کہ صدر ایک پارٹی کا ہواور مقننہ میں دوسری پارٹی کے لوگ ہوں تو اس وجہ سے سیاسی کھچائو کاماحول پیدا ہوسکتاہے اور ملکی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے ۔
3۔ کہتے توہیںکہ صدرکوimpeachکیاجاسکتاہے لیکن بعض ممالک صدر کاٹرم بہت لمبا رکھ دیتے ہیں،جیسے چین کا صدر تاحیات تک صدر ہے اورروس کاصدر 2036ء تک صدر رہے گا ۔ ایسی لیڈر شپ کو اگر تبدیل کرنے کی ضرورت پڑـجائے توپھر بہت مشکل معاملہ بن جاتاہے ۔
سوال: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ چند شرائط کے ساتھ صدارتی نظام کوپاکستان کے لیے بہترسمجھتے تھے۔ اس حوالے سے آپ کیاکہیں گے ؟
رضاء الحق: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی مساعی اور فکر کوئی اپنی طرف سے گھڑی ہوئی نہیں ہے۔وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ تنظیم اسلامی کی فکر منصوص،مسنون، ماثور اور معقول ہے ۔انسانی زندگی دوگوشوں پرمشتمل ہے۔ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی۔ اجتماعی گوشے میں سیاسی ،معاشی اور معاشرتی نظام آتے ہیں۔ ان اجتماعی گوشوں میں قرآن وسنت کی روشنی میں نظام لے کے آنا، اس کے لیے اقامت دین کی جدوجہد کرنامسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ مقصد صدارتی نظام نہیںہے بلکہ ڈاکٹر صاحبؒ کہتے ہیں کہ صدارتی نظام خلافت سے قریب تر ہے ۔یعنی موجودہ مروجہ حالات میں نظاموں کا موازنہ کیاجائے تواس میں صدارتی نظام پارلیمانی نظام کی نسبت خلافت کے نظام سے زیادہ قریب ہے ۔ البتہ تین شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے یعنی حاکمیت اعلیٰ و مطلقہ صرف اللہ کی ہو ، قرآن و سنت کو تمام معاملات میں مکمل بالا دستی حاصل ہو اور اسلامی مملکت کی قانون سازی میں غیر مسلم شریک نہ ہوں ۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحبؒ کے نزدیک اصل فوکس اسلام کانفاذ یاخلافت کا نظام تھا۔ صدارتی نظام میںہم کم از کم نظام خلافت کے قریب تر ہو جائیں گے البتہ صدارتی نظام ہدف نہیں ہے بلکہ دنیوی طور پر ہدف نظام خلافت ہے۔ صدارتی نظام جب آپ لائیں گے توگویا نظام خلافت کی طرف ایک قدم بڑھے گا ۔
سوال: اس وقت پاکستان میں صدارتی نظام کے خواہشمند کون لوگ ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پرصدارتی نظام کے حق میں اشتہاری مہم کس کی ایماء پرچل رہی ہے؟
عرفان صدیقی:اس معاملہ کو مہم کا رنگ دینے میں میڈیا کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔اطلاعات کے مطابق امریکہ میں ایک شخصیت ہیں جو انفرادی طور پریہ سب کچھ کررہے ہیں۔انہوں نے سپریم کورٹ کادروازہ بھی کھٹکھٹایاجہاں سے یہ ساری صورت حال مسترد ہوگئی۔ میڈیا نے احتیاط نہیں کی اوراس موضوع کو اتنا اچھالنا اور کھنگالنا شروع کردیاکہ اب ہرطرف کوئی دوسرا موضوع نظر نہیں آرہا۔ سینٹ میںبھی کچھ بہت سینئر لوگوںنے کہا کہ ہم سینٹ کے اندر ایک قرارداد لانا چاہتے ہیں کہ صدارتی نظام کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔ میں نے کہا کہ ضرور لے کے آئیے لیکن میری ذاتی رائے ہے کہ اس معاملے کو مت اچھالیںکیونکہ یہ ایک نان ایشو ہے ۔ اگر کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ایشوز سے ہٹ کرنان ایشو پربات کریں تو پھرآپ ضرور کریں ۔لیکن اگر سینٹ سے قرارداد آئے گی توکیاحکومت بھی اس کی حمایت کرے گی اور متفقہ ایک قرارداد منظور ہوجائے گی لیکن اس سے آپ اس مسئلہ کو عالمی ایشو بنادیں گے ۔ ہمارے ہاں عملاً 30،35 سال صدارتی نظام رہا ہے لیکن یہ نظام کبھی جمہوری شکل میں نہیں آیا،یعنی عوام کے ووٹوں سے نہیں آیا۔ ہمیشہ آمروں نے اس نظام کوپسند کیا۔ ہرصدارتی نظام کاٹانکا مارشل لاء سے جڑا ہوا ہے او ر عوام نے کبھی بھی صدارتی نظام کی حمایت نہیں کی ۔ آمر جب آگئے اور انہوں نے اپنا تحکم قائم کرلیا تو کسی نے ریفرنڈم کے ذریعے کیا،کسی نے پی سی او جاری کردیا ۔تواس طرح کے کرتب کاری سے یہ نظام چلتا رہا ہے لیکن عوام کی امنگوں کی مطابق یہ نظام کبھی نہیں آیا۔ یہ کوئی ایشو نہیں ہے بلکہ اصل ایشو ز سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے ۔کیونکہ مہنگائی، بے روزگاری، مسئلہ کشمیر، پاکستان کی تنہائی اور ڈوبتی ہوئی معیشت جیسے ایشوز اس وقت موجود ہیں۔ا گر ان کو چھوڑ کر ہم صدارتی نظام کی بحث میں پڑیں گے تویہ عوام اور جمہوری نظام کی حق تلفی ہوگی ۔
سوال:74 سال گزرنے کے بعد بھی ہم ابھی تک اس بحث میں کیوں اُلجھ جاتے ہیں کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ہونا چاہیے یاصدارتی نظام ہونا چاہیے ؟
عرفان صدیقی:اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک مضبوط ،مستقل ، مستحکم ،غیرمتزلزل قسم کاجمہوری نظام ٹکنے نہیں دیاگیا۔ پاکستان بننے کے تقریباً 23 سال بعد یہاںعام انتخابات ہوئے لیکن ان کے نتائج کو بھی تسلیم نہیں کیاگیااور ملک ٹوٹ گیا ۔ جب ایک جمہوری پارلیمانی نظام میں اس طرح رخنے آتے رہیں ، سفر ٹوٹتا رہے ، جھٹکے لگتے رہیں توپھر ایک بے یقینی کی کیفیت رہتی ہے ۔ اس لیے یہ بحثیں چلتی رہیں گی شاید آئندہ بھی چلتی رہیں گی ۔ حالانکہ ہمارے پڑوس میں بھارت بھی ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا لیکن وہاں اس طرح کی بحثیں نہیں ہیں۔ اس لیے کہ وہاںانہوں نے 74 سال تک جیسی بھی جمہوریت تھی اس کو قائم رہنے دیا ہے ۔
سوال: اگر صدارتی نظام کی مہم آگے بڑھتی ہے تو کیا یہاں صدارتی نظام ممکن بھی ہے ؟اگر ہے توکیسے؟ اور اگر نہیں توکیوں ؟
عرفان صدیقی:اس کاکوئی امکان نہیں ہے کہ یہ مہم آگے بڑھے گی بلکہ اگلے چنددنوں میں یہ ختم ہوجائے گی۔ یہاں صدارتی نظام کاکوئی امکان نہیں ہے۔ اس نظام کا پودا جس کھیتی میںپھوٹتا ہے یہ وہ کھیتی نہیںہے ۔یہاں ہمارے چار صوبے وفاق کی اکائیاں ہیں انہوں نے اپنی خوشدلانہ مرضی کے ساتھ پاکستان کوقائم رکھا ہوا ہے اور وہ جمہوری پارلیمانی نظام اور وفاق کاحصہ ہیں ۔ اگر وفاق اپنا پیرہن اور چولہہ بدل لیتاہے اور وہ کوئی نیانظام لانے کی کوشش کرتاہے تویہ وفاق پرمنحصر ہوگاکہ وہ اکائیاں اس کا حصہ بنتی ہیںیانہیں بنتی ۔ اس وقت کوئی ایک اکائی بھی صدارتی نظام نہیں چاہتی۔ پھر ہمارے آئین میںبھی اس کی کوئی گنجائش نہیںہے ۔ عدالتیںفیصلے دے چکی ہیں کہ پاکستان کے آئین کی چند بنیادی چیزیں ہیں: عدلیہ کی آزادی ، اسلامک قواعدو ضوابط اور جمہوری پارلیمانی نظام۔ عدالتیں کہہ چکی ہیں کہ اس بنیادی ڈھانچے کو پارلیمنٹ بھی نہیں چھیڑ سکتی۔ البتہ اگرآپ نے آئین بدلنا ہے اور صدارتی نظام کی طر ف جانا ہے توآپ کو نئی دستور ساز اسمبلی کا انتخاب کرانا پڑے گااور اس کواختیار ہو گا کہ وہ نیادستور لے کرآئے ۔
ایوب بیگ مرزا: مجھے عرفان صدیقی صاحب کی تین باتوں سے اختلا ف ہے اور اختلاف ہرآدمی سے کیا جا سکتا ہے ۔ ایک انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ہراکائی کو صدارتی نظام سے اختلاف ہے حالانکہ ہم نے کب جائزہ لیاہے کہ ان اکائیوں کو صدارتی نظام پسند ہے یانہیں پسند۔ یعنی بعض صوبوں کے عوام اور لیڈر بھی صدارتی نظام کے شدت سے حامی ہیں۔ دوسرا یہ کہ جو تیس پینتیس سال صدارتی نظام آزمانے کی بات کی جاتی ہے تو وہ فوجی آمروں کے ادوار تھے جنہوں نے صدر کا لبادہ اوڑھ لیا تھا ورنہ پاکستان میں صدارتی نظام تو خالص شکل میں ایک دن کے لیے بھی نہیں آزمایا گیا ۔ تیسرا انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان تنہائی کا شکا رہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کو بعض ممالک میںسہولت حاصل ہوئی ہے ۔ کچھ ممالک کے قریب آیاہے ۔مثلاً چین کے بہت قریب آیا ہے ۔ روس کے صدر پیوٹن نے پہلی دفعہ چند دن پہلے عمران خان سے بات کی ہے۔ روسی وزیرخارجہ پاکستان آئے حالانکہ پاکستان اور روس کی پہلے بڑی دشمنی ہوتی تھی۔ فروری میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان چین کا دور ہ کر رہے ہیں اور وہاں امکان ہے کہ صدر پیوٹن کے ساتھ ان کی ملاقات ہوگی۔ پھر ایران کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات ہیں ۔ اسی طرح ہمارے سعودی عرب سے تھوڑی دیر کے لیے تعلقا ت خراب ہوئے تھے لیکن اب وہ اپنی جگہ پرآگئے ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ خارجی سطح پر پاکستان تنہائی کاشکار نہیںہے ۔
سوال: اس وقت دنیا کاٹرینڈ یہ ہے کہ پارلیمانی نظام کااختیار کلی نظام کی طرف جھکائو بڑھتا جارہا ہے ۔ اس کی کیاوجہ ہے ؟
رضاء الحق:پاکستان میں سیاستدانوں کے اپنے مفادات پارلیمانی نظام سے منسلک ہیں۔ مغرب سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن نظریاتی طور پر پاکستان کو پچھلی پون صدی میں جوچیز حاصل کرنی چاہیے تھی وہ حاصل نہیں کرسکاجس کی بہت ساری وجوہات بتائی جا رہی ہیں کہ آمریت رہی ، صدارتی نظام رہاحالانکہ اس میںبھی آمرنے اقتدار پر قبضہ کرکے صدر کالبادہ اوڑھ لیا ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود پارلیمانی نظام کومشرف کے بعد کافی وقت ملا اس کواب تک استحکام مل جاناچاہیے تھا۔ لیکن پارلیمانی نظام کے تحت رہتے ہوئے ہمارا آئین منافقت کا پلندہ بن چکا ہوا ہے ۔ اب جبکہ ہمارا ہدف اسلامی نظام ہے تو ہمیں اس طرف جانا ہے ۔ لہٰذا صدارتی نظام اپنے مقاصد کوحاصل کرنے کے لیے ہمیں زیادہ فائدہ دے سکتا ہے۔
سوال: اگر کوئی پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنا بھی چاہے تواس کاطریقہ کار کیا ہوگااور کیایہ پاکستان کے لیے مفید اور فیزایبل بھی ہے ؟
ایوب بیگ مرزا: جیساکہ عرفان صدیقی صاحب نے کہا کہ پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان کاآئین بنیادی طورپرپارلیمانی نظام کے لیے بناہے لہٰذا اس آئین کو برقرار رکھتے ہوئے صدارتی نظام نہیں آسکتا۔ آئینی ترمیم سے بھی نہیں آسکتا بلکہ اس کے لیے پورا آئین ختم کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ صدارتی نظام ہمارے آئین کے ڈھانچہ کے خلاف ہے اور عدلیہ کے الفاظ ہیں کہ کوئی ترمیم آئین کے ڈھانچے کے خلاف نہیں کی جاسکتی۔ اصل میں ہمارا گول صدارتی طرز حکومت نہیں ہے بلکہ یہ نظام خلافت کے لیے پہلا قدم ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ کم ازکم پہلا قدم تواٹھے ۔ صدارتی نظام آئے لوگوں کواس کے فوائد حاصل ہوں او ر پھر ہم نظام خلافت کی طرف بڑھیں ۔ اہم ترین بات یہ کہ ہمارے لیے آئین کوئی صحیفہ آسمانی نہیں ہے ،ہمارے لیے اصل شے اللہ اور اس کے رسولﷺ کاحکم ہے ،ہمارے لیے اصل شے اللہ کا دیاہوا نظام ہے ۔ اگر دیانتداری سے یہ مقصد ہو کہ ہم نے نظام خلافت لانا ہے اس کے لیے پہلا قدم صدارتی نظام قائم کرنا ہے تواس کے لیے ہم ایک ہزار آئین قربان کرسکتے ہیں ۔ لیکن اس کے لیے حقیقی نظام خلافت قائم کرنے کی نیت ہوایسا نہ ہوکہ چونکہ ہمارے مفادات اس سے ٹکراتے ہیں بلکہ جواللہ کا حکم ہے اس کے مطابق نیا آئین بن جائے توکوئی حرج نہیں۔ ہمارا اصل دنیوی مقصد نظامِ خلافت ہے اور ہماری اخروی منزل اللہ کو راضی کرنا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتا جب تک اللہ اور اس کے رسولﷺ کادیاہوا نظام نافذ نہ ہو۔
ززز