جنت کے سچے طالب
(سورۃ الواقعہ کی آیات 22تا 40کی روشنی میں)
جامع مسجد شادمان ٹاؤن کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے21جنوری 2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
قرآن مجید کے سلسلہ وار مطالعہ کے ضمن میں ہم سورۃالواقعہ کامطالعہ کررہے ہیں ۔زیر مطالعہ آیات میں ان نعمتوں کا ذکر جاری ہے جو اہل جنت کے لیے تیار کی گئی ہیں ۔فرمایا:o
{وَحُوْرٌ عِیْنٌo} (آیت:22)’’اور حوریں ہوں گی بڑی بڑی آنکھوںوالی۔‘‘
ایک خاتون کے حسن کا ایک پہلو ظاہر کے اعتبار سے آنکھوں کابڑا ہونا بھی ہے ۔قرآن حکیم جنت کی حوروں کے اس حسن کو اس مقام پرنمایاں فرمارہا ہے ۔
{کَاَمْثَالِ اللُّــؤْلُـــؤِ الْمَکْنُوْنِo}(آیت:23) ’’جیسے موتی ہوں چھپا کر رکھے گئے۔‘‘
موتی سیپی میں جب تک ہو تواس کاحسن ،چمک دمک محفوظ رہتاہے۔اسی طرح یہاں اشارہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ہوں گی بڑی آنکھوں والی جیسے کہ موتی سیپی میں چھپے ہوئے ہوں۔ یعنی ان کے حسن اور ان کے پوشیدہ رہنے کی طرف بھی اشارہ ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ جب جنتی عورتوں کاذکرفرماتاہے توان کے پردے میں رہنے ، پوشیدہ رہنے کا ذکر فرماتا ہے ۔ سورۃالرحمن میں ہم نے پڑھا:
{حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِo}(الرحمن:72)
’’(وہ) حوریں(ہیںجو) خیموں میںمستور(پوشیدہ) ہیں۔‘‘
جیسے قیمتی گوہر ہوں چھپا کر رکھے گئے ہوئے ۔ آج وہ عورت جو حیا کاپیکربنے اور چادر کااہتمام کرے،حجاب اورپردے کااہتمام کرے ان شاء اللہ کل وہی جنتی عورت بھی ہوگی۔ آگے ارشادہوا:
{جَزَآئً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o}(آیت:24) ’’یہ بدلہ ہو گا ان کے اعمال کا جو وہ کرتے رہے تھے۔‘‘
یہاں ایک اہم نکتہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ ایک اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے اور ایک مومن کی بندگی کا تقاضا ہے ۔ مومن کی بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر وقت اللہ سے ڈرتا رہے اور اس کے فضل اور رحمت کا متلاشی رہے کیونکہ بندہ دنیا میں جتنے بھی اچھے اعمال کر لے لیکن اللہ کی رحمت اور فضل شامل نہیں ہوگا تو وہ اعمال کام نہیں آئیں گے ۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ بالفرض ایک شخص اپنی پیدائش سے لے کر اپنی موت تک سجدے کی حالت میں پڑا رہے ،جب یہ قیامت کے دن کھڑا ہوگاا وراللہ رب العالمین کے جلال کودیکھے گاتواسے اپنی ساری زندگی کے اعمال کی حیثیت اپنی نگاہوں میں کچھ نہیں ہوگی۔ (جامع ترمذی)۔ اسی طرح حدیث مبارک ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اپنے عمل کی بنیاد پرجنت میں داخل نہ ہوگا۔ایک صحابیؓ عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ! کیاآپﷺ بھی ؟آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں میں بھی داخل نہ ہوں گاجب تک کہ اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہو۔(صحیح مسلم) یہ حضورﷺ کی عاجزی کابیان بھی ہے او ر اُمت کی تعلیم کے لیے بھی ذکرہے ۔اس میں اُمت کے لیے تعلیم یہ ہے کہ بندہ نیک اعمال کرے لیکن ان پر انحصار اور گھمنڈ کرکے نہ بیٹھ جائے کہ بس میرے اعمال مجھے ضرور جنت میں لے جائیں گے بلکہ صحیح راستہ یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے نیک اعمال کیے جائیں اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کا فضل بھی مانگا جائے ۔ نیک اعمال کے ساتھ ساتھ بندہ اللہ کی رحمت کا بھی ہر وقت طالب رہے ۔ یہ بندگی کا تقاضا ہے کہ وہ کہتا ہے : مولاتیرا کرم ہے ،تیرا انعام ہے، میرا کوئی اس میں کمال نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنت والوں کایہ جملہ قرآن میں نقل ہوا:
’’ اور وہ کہیںگے کل شکر اور کل تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچنے کے لیے ہدایت دی ۔ اور ہم یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر اللہ ہی ہمیں ہدایت نہ دیتا۔ یقیناً ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ آئے تھے۔‘‘(الاعراف:43)
اس سے یہ اندازہ کریں کہ ہمیں ہدایت کی کہاں تک ضرورت ہے ۔جنت میں داخلے تک ہم ہدایت کے محتاج ہیں ۔ا س احساس کے ساتھ یہ دعا ہونی چاہیے :
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ3 }(الفاتحہ:5) ’’ہم کو سیدھی راہ پر چلا۔‘‘
بندے کی بندگی کاتقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ کے فضل و کرم کاسوال بھی کرے اوراس کی طرف سے ہدایت کا طالب بھی رہے ۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی شان کریمی یہ ہے کہ وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے اس کے اعمال کا بدلہ دے اور اس پر انعامات کی بارش کر دے ۔ قرآن میں فرمایا :{فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُo} (البروج:16) ’’وہ جو ارادہ کر لے ‘ کر گزرنے والا ہے۔‘‘
وہ جوچاہے سوکہے جوچاہے سوکرے۔ اسی طرح اللہ کی شان کریمی یہ ہے کہ وہ کہے گاکہ جاتیرے عمل کے بدلے تجھے جنت عطا فرمادی۔یہاں ارشاد ہے :
{جَزَآئً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o}(الواقعہ:24) ’’یہ بدلہ ہو گا ان کے اعمال کا جو وہ کرتے رہے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ یہ فرماسکتاہے اس کی شان کریمی ہے۔ اس کا فضل اس کاانعام ہے۔ لیکن بندے کی بندگی کاتقاضا یہ ہے کہ وہ رب کے فضل اور انعام کی طرف توجہ رکھے نہ کہ اپنی نیکیوںپرناز کرنے کی کوشش کرے ۔ہونایہ چاہیے کہ بندہ جتنا اللہ کی بندگی کی طرف بڑھے اتنااس میں عاجزی بڑھنی چاہیے ،اتنی انکساری بڑھنی چاہیے نہ کہ تکبر اور گھمنڈ کرنے لگ جائے۔اللہ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے ۔آگے فرمایا:
{لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًاo} (آیت:25) ’’وہ نہیں سنیں گے اس میں کوئی لغو بات اور نہ ہی کوئی الزام۔‘‘
یعنی کوئی فضول اورگناہ کی بات نہیں ہوگی۔یہ بھی کتنی بڑی نعمت ہوگی اس کا اندازہ ایک بندہ مومن دنیامیں رہ کرکرسکتاہے جہاں ایمان بھی لانا ہے ،ایمان کے تقاضوں پر بھی عمل کرنا ہے، اپنے کانوں،اپنی نگاہوں، اپنی زبانوں کی بھی حفاظت کرنی ہے مگر کتنے مواقع ایسے آجاتے ہیں کہ لغو او ر بیہودہ باتیں سننی پڑجاتی ہیں،بندہ بچنا چاہتا ہے مگر دائیں بائیںسے گناہ کی دعوت آتی ہے۔ بندہ خو د کچھ نہیں کررہا ہوتا لیکن محلے والے زور سے گانے بجارہے ہوتے ہیں۔شادی بیاہ کاموقع آجائے توکئی لغو اور بے ہودہ چیزیں برداشت کرنا پڑتی ہیں ، مخالفت کی تو کئی باتیں سننا بھی پڑتی ہیں ۔ ان سارے بیہودہ امور اورفضولیات سے نجات مل جائے گی جب انسان جنت میں داخل ہو گا۔ جنت میں کہ نہ کوئی لغو بات ہوگی،نہ بیہودہ بات ہوگی،نہ گناہ کی بات ہوگی،نہ گناہ سننے میں آئے گا،نہ دیکھنے میں آئے گا،نہ کرنے میں آئے گا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس قدر بڑی نعمت ہے جوجنت میں اللہ تعالیٰ نے تیار کررکھی ہے ۔ آگے فرمایا:
{اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًاo}(آیت:26)’’مگر (ان کے لیے ‘ ہر طرف سے) سلام سلام ہی کی آوازیں ہوں گی۔‘‘
اس کی ایک تعبیریہ کی گئی ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے سے ملیں گے توسلام کہیں گے ۔دنیا میں ملاقات کے آداب یہ ہیں کہ کوئی ہاتھ جوڑ رہاہے ،کوئی کچھ اور کہہ رہاہے ۔جنت والوں کے آداب یہ ہوں گے کہ وہ ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔فرشتے استقبال کریں گے جنت میں توکہیں گے :سلام علیکم۔اور سب سے بڑھ کررب العالمین کہے گا:
{سَلٰمٌ قف قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ o}(یٰسین:58) ’’ سلام کہا جائے گا ربّ ِرحیم کی طرف سے۔‘‘
ذرا تنہائی میں بیٹھ کر اس بات کوہم محسوس تو کریںکہ ہماری حیثیت کیاہے ، ہماری اوقات کیا ہے کہ رب کائنات اپنے بندوں کو جنت میں سلام کہے گا۔ ہاں مگر وہ بندے جنہوں نے دنیا میں اللہ کی بندگی کے لیے عیش و آرام اور ذاتی پسند و نا پسند کوچھوڑ دیا ہوگا ۔ ایسے بندوں کو اللہ نے کبھی زمین پربھی سلام بھجوایا ہے ۔رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اورعرض کی :یارسول اللہﷺ!آپﷺ کی زوجہ محترمہ خدیجہ ؓ آپ ﷺ کوکھانا پیش کرنے آرہی ہیں، ان سے کہیے گا کہ رب کائنات نے آپ کوسلام بھیجا ہے۔ یہ زمین پراماں خدیجہ ؓ کااعزاز ہے۔اللہ اکبر کبیرا!
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہاں ہرایک کی زبان پر سلامتی کی ہی بات ہوگی۔یہ تودنیا ہے جہاں زبان پرجھوٹ بھی ہے ،غیبت بھی ہے ،گالیاں بھی ہیں، منافقت بھی ہے ، سازش بھی ہے لیکن وہاں کوئی ایسی بات جنتی سنیں گے ہی نہیں اور جو سنیں گے وہ صرف سلامتی ، امن اور خیر کی بات ہوگی۔ یہ ہے جنت دارالسلام۔ سلامتی کاگھر،جہاں سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔
’’اے اللہ! ہم تجھ سے جنت الفردوس کا سوال کرتے ہیں۔‘‘
یہاںمقربین کابیان مکمل ہوا۔اب آگے اصحاب یمین یعنی دائیںہاتھ والوں کا بیان ہے۔فرمایا:
{وَاَصْحٰبُ الْیَمِیْنِلا مَآ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ o} (آیت: 27) ’’اور اصحاب الیمین! کیا کہنے ہیں اصحاب الیمین کے!‘‘
اللہ جہنم سے بچاکرجنت کے بارڈر پربھی کسی کولے آئے تووہ بھی بہت بڑی نعمت ہوگی ۔ لیکن اصحاب یمین یعنی دائیں ہاتھ والے وہ ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ جہنم سے بچا کر سیدھا جنت میں لے جائے گا۔یہ بھی بہت خوش قسمت لوگ ہوں گے ۔ آگے ان کے بارے میں فرمایا گیا :
{فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ o}’’(آیت:28) ’’وہ ہوںگے بیری کے درختوں میں جن میں کانٹے نہیں ہوں گے۔‘‘
اس دنیا میں بیر اوربیریاں پائی جاتی ہیں ۔ بعض علاقوں میں بیر بہت زیادہ لذیذ ہوتے ہیں اور خوشبودار بھی ہوتے ہیں۔جواعلیٰ نسل کابیر ہوتاہے اُس میں بھی کانٹے ہوتے ہیں لیکن جنت میں بغیر کانٹے کے بیریاں ہوں گی۔ایک بدو نے حضورﷺ سے پوچھاکہ یارسول اللہﷺ !ایسا کیسے ہوگا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہرکانٹے کی جگہ اللہ ایک پھل بنالے گا۔بعض احادیث میں یہ بھی اشارات موجود ہیںکہ ایک ایک درخت کے اندر کئی کئی طرح کے ذائقہ دار پھل ہوں گے۔ یہی توانہونی سی بات ہے تبھی توجنت ، جنت ہے۔ آگے فرمایا:
{وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ o} (آیت:29) ’’اور تہ بر تہ کیلے۔‘‘
جس ماحول میں قرآن حکیم نازل ہورہا تھاوہاں لوگوں کے مشاہدات میں جو چیزیں تھیں انہی کا ذکر قرآن میں آیا ۔ لیکن حقیقت میں جنت میں ایسے ایسے پھل بھی ہوں گے جن کا دنیا میں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ آگے فرمایا:
{وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ o} (آیت:30)’’اور پھیلے ہوئے سائے۔‘‘
وہاں کے درختوں کاعالم یہ ہوگاکہ اللہ کے رسول ﷺفرماتے ہیں کہ جنت کاایک درخت اتناطویل ہو گا کہ ایک سوار سوبرس تک اس کے سائے میں چلتا رہے توسایہ ختم نہیں ہوگا۔ تبھی توجنت ،جنت ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جنت میں جس سایہ کاذکر ہورہا ہے وہ کوئی دھوپ کی تپش سے بچنے کے لیے نہیں ہوگا ، وہاں تو گرمی اور سردی کا تصور ہی نہیں ہوگا ۔ یہ سایہ صرف زینت اور آرائش کے لیے ہوگا ۔ جیسے آج کل ترقی یافتہ ممالک میںبنکوئٹس میں شہروں کوسجایاجاتاہے،وہاں مصنوعی قسم کے درخت لگے ہوتے ہیں ، پھول اور پتیاں مصنوعی ہوتی ہیں ، حالانکہ وہاں گرمی نہیں ہوتی ۔ یہ سب چیزیں زینت اورآرائش کے لیے ہوتی ہیں۔یہ توہمارا مشاہد ہ ہے جنت کاعالم کیاہوگا اللہ بہترجانتا ہے ۔ آگے فرمایا:
{وَّمَآئٍ مَّسْکُوْبٍ o}(آیت:31)’’اور بہتا ہوا پانی۔‘‘
ہرجنتی کواللہ بادشاہ بنائے گا۔اس کے بہت سارے باغات ہوں گے، جہاںآبشاریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی اس دنیا میں انسان خواہش کرتاہے ۔ شداد نے بھی اپنی جنت بنائی تھی لیکن وہ بدنصیب استفادہ بھی نہ کرسکااور دنیا سے چلا گیا ۔ اسی طرح آج بھی بڑے لوگوں نے بہت سے سامان کررکھے ہیںلیکن سامان سوبرس کاپل کی خبر نہیں۔ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ :
{وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَـآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِo} (آل عمران:185) ’’اور یہ دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔‘‘
اللہ اس دھوکے سے بچائے اور جواصل رہنے کی جگہ ہے وہ نصیب فرمائے ۔جس کے بارے میں فرمایا کہ :
{وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ } (العنکبوت:64)
’’اور آخرت کا گھر ہی یقیناً اصل زندگی ہے۔ ‘‘
یہ ہمیشہ رہنے والے درخت،ہمیشہ رہنے والی آبشاریں ان کاذکر چل رہاہے ۔ آگے فرمایا:
{وَّفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ o} (آیت:32)’’اور کثرت کے ساتھ میوے۔‘‘
اس سے ایک مرا دیہ بھی ہے کہ ان کی بہت ساری اقسام ہوں گی ۔ مختلف قسم کے پھل بھی ہوں گے اورا ن کی تعداد بھی بے شمار ہوگی۔ ایسا نہیں ہوگا جیسے آگے ذکر آرہا ہے ۔ فرمایا:
{ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ o}(آیت:33)’’نہ ٹوٹے ہوئے اور نہ ہی پہنچ سے باہر۔‘‘
آج دنیا میں بعض اوقات دکھاتے کچھ اور ہیں اندر سے نکلتا کچھ اور ہے ، دھوکہ اور فراڈ ہے ۔ صحیح سلامت چیز نہیں ملتی ۔ اسی طرح آج جیسے اچھے اور معیاری پھل غریب کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں یا پھر کسی وادی میں چلے جائیں وہاں پھلوں کے درخت نظر آئیں تو ہم انہیں توڑ نہیں سکتے کیونکہ وہ ہماری پراپرٹی نہیں ہوتی ۔ لیکن جنت میں نہ تو پھل خراب ہوں گے اور نہ ہی پہنچ سے دور ہوں گے ، یہاںتک کہ یہ درخت جھکے ہوئے ہوں گے ۔ بندے کا جب دل چاہے گا تو درخت جھک کر بالکل پاس آجائے گا یاوہ خدام لاکرپیش کردیں گے ۔آگے فرمایا:
{وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ o} (آیت:34)’’اور اونچے اونچے بچھونے۔‘‘
یعنی جنتیوں کے تخت ہوں گے ، اونچے اور زیب و زینت والے ۔ ان پرخوبصورت قالین بچھے ہوں گے اور خوبصورت تکیے ہوں گے جن سے ٹیک لگائے وہ بیٹھے ہوں گے ۔ آگے فرمایا:
{اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَآئًo}(آیت:35)’’ان (کی بیویوں) کو اٹھایا ہے ہم نے بڑی اچھی اُٹھان پر۔‘‘
حوروں کوتواللہ خاص انداز سے پیدا فرمائے گا اور جوجنتی عورتیںہوں گی ان کو بھی اللہ تعالیٰ ایک نئی اُٹھان عطا فرمائے گا ۔ سیرت النبی ﷺ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک بوڑھی خاتون نے آکر عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے جنت عطا فرما دے۔ آپ ﷺ نے مزاح کے انداز میں فرمایا:کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیںجائے گی۔وہ پریشان ہوگئیں اور رونا شروع کر دیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جس عورت کوجنت میں داخل کرے گا اُس کو دوبارہ جوانی کی حالت میں داخل کرے گا ۔ (ابن ماجہ)۔ یعنی جو عورت دنیا میں رب کی بندگی اختیار کرے گی رب کائنات اُسے نئی اُٹھان کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ہر جنتی کی عمر 33برس ہوگی ۔ آگے فرمایا:
{فَجَعَلْنٰہُنَّ اَبْکَارًا o}’’(آیت:36)پس ہم نے بنایا ہے انہیں کنواریاں۔‘‘
{عُرُبًا اَتْرَابًاo} (آیت:37)’’پیار دینے دلانے والیاں‘ ہم عمر۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ خواہش رکھی ہے اور دنیا میں اس کے لیے نکاح کا بندھن عطا کیاہے ۔ اس خواہش کی تکمیل کاسامان جنت میں بھی ہوگااور وہاں حوریں اور جنتی عورتیں نئی اُٹھان کے ساتھ کنواریاں پیدا کی جائیں گی ۔ وہ محبت کرنے والیاں اور ہم عمر ہوں گی۔ آگے ارشاد فرمایا؛
{لّاَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ o}(آیت:38)’’(یہ سب کچھ ہو گا ) اصحاب الیمین کے لیے۔‘‘
{ثُـلَّـۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَo}(آیت:39)’’جو پہلوں میں سے بھی بہت ہوں گے۔‘‘
{وَثُـلَّـۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَo} (آیت:40) ’’اور پچھلوں میں سے بھی بہت ہوں گے۔‘‘
مقربین کے حوالے سے کہاگیا تھاکے وہ اولین میں سے زیادہ ہوں گے اور بعد والوں میںسے کم ہوں گے لیکن دائیں ہاتھ والوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ اولین میں سے بھی ہوں گے اور بعد والوں میں سے بھی ۔ بہرحال جنت محض بیٹھے بٹھائے اور صرف تمنائوں سے نہیں ملے گی۔اللہ کی جنت کو مشقتوں کے ساتھ گھیرا گیا ہے ۔اس کے لیے سچا ایمان بھی لازم ہے اور ایمان کے تقاضوں پر عمل بھی لازم ہے ۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنا بھی لازم ہے ۔ اطاعت الٰہی اور اطاعت رسولﷺ بھی لازم ہے۔ خود اللہ کی بندگی کی کوشش زندگی کے تمام گوشوں میں کرنا اور اُمتی ہونے کے ناطے دین کی دعوت اور دین کے نفاذ کی جدوجہد کی محنت کرنابھی لازم ہے۔یہ سب چیزیں ہوں گی اور ساتھ اللہ کی رحمت اور فضل کی طلب بھی ہوگی تو ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول فرما کر جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کومنہج رسول ﷺ پر چل کر جنت کا سچا طالب بنائے ۔ آمین !
***
tanzeemdigitallibrary.com © 2025