پاکستان کےداخلی اور خارجی مسائل(قسط:15)پاکستانی معیشت کے خدوخال (انسدادِ سود کی جدوجہد-3)
’’انسدادِ سود کی کوششوں کا دورِ ثانی2012ءسے شروع ہوتا ہے۔ تنظیم اسلامی نے مرکزی سطح پر یہ فیصلہ کیا کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں انسدادِ سود کا معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے ریمانڈ شدہ 2002 ءسے معرضِ التواء میں پڑا ہے‘ لہٰذا کوشش کی جائے کہ اسے سماعت کے لیے ’’Fix‘‘ کروایا جائے۔ چنانچہ4؍اگست2012ءکو ایک درخواست بعنوان “Application to Fix for Hearing”خالد محمود عباسی (اُس وقت تنظیم اسلامی کے ایک ذمہ دار) بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان بذریعہ سپریم کورٹ کے وکیل کوکب اقبال صاحب ‘ فیڈرل شریعت کورٹ میں داخل کی گئی‘ جس میں انسدادِ سود کی سابقہ کوششوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے1999ءاور2002 ء کو بنیاد بناتے ہوئے یہ استدعاکی گئی کہ :
“It is therefore, respectfully prayed that the above case (PLD 2002, SC 800( may kindly be ordered to be fixed for hearing at a very early date convenient to this Honourable Court.”
اس درخواست کے جواب میں 17 اگست 2012ء کو فیڈرل شریعت کورٹ کی جانب سے یہ جواب وصول ہوا کہ چونکہ درخواست گزار متذکرہ بالا کیس میں ایک ’’پارٹی‘‘ نہیں ہے اور چونکہ یہ درخواست فیڈرل شریعت کورٹ کے1981ء Procedure کے مطابق نہیں‘ اس لیے یہ درخواست رد کی جاتی ہے۔
اس جواب کے موصول ہونے پر 28جولائی 2013ء کو خالد محمود عباسی صاحب (اُس وقت تنظیم اسلامی کے ایک ذمہ دار)کی جانب ہی سے ایک دوسری درخواست بعنوان : Petition under article 203-D of the Constitution of Pakistan 1973. دائر کی گئی جو کہ ایک آئینی درخواست تھی جو فیڈرل شریعت کورٹ میں آئین کے سیکشن 34-CPC/ Interest being against the injunction of Islamکے تحت تھی۔ اس درخواست میں پاکستان کے آئینی تشخص اور ریاست پاکستان کی آئینی ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ استدعاکی گئی تھی:
In this spirit that this petition is being filed and the petitioner believes that Allah and Prophet Muhammad (S.A.W) will be pleased with all those who will strive to achieve this noble cause and will be displeased who will show reluctant in the matter.
It is therefore, respectfully prayed that a declaration may be made to the effect that interest (Ribah) in all its forms is Haram/prohibited in Islam and the Government of Pakistan may be directed to take prompt measures for the eradication of the evil of (Ribah) interest from the Islamic Republic of Pakistan.
اسpetitionکے دائر کیے جانے کے نتیجے میں فیڈرل شریعت کورٹ نے 26ستمبر2013ءکو اپنے مراسلے میں یہ petition برائے سماعت قبول کر لی اور 22اکتوبر 2013ءکی تاریخ برائے ابتدائی سماعت دے دی اور اس جیسی دوسری متعدد درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے مشترکہ طورپر تمام کیسز سننے کا عندیہ ظاہر کیا۔
22اکتوبر2013 ءسے 2018ء تک چند رسمی کارروائیوں کے علاوہ اس کیس میں کوئی قابل ذکرپیش رفت نظر نہیں آئی۔ پہلی اور ابتدائی سماعت میں محض اس کیس اور اس کے ساتھ lumped دیگر 117کیسز کو acknowledge کیا گیا اور کہا گیا کہ دوسری سماعت پر دلائل کا جائزہ لیا جائے گا اور petitioner کو اپنی بات کہنے کا موقع ہوگا۔
دوسری پیشی پر ڈپٹی اٹارنی اور اٹارنی جنرل کی غیرموجودگی کو بنیاد بنا کر ایک نئی تاریخ دینے کی نوید سنائی گئی۔ نیز یہ بھی بتایا گیا کہ ایک سوال نامہ تمام petitioners اور ماہرین قانون، علماء اور فنانشل ایکسپرٹس کو ارسال کیا جائے گا جس کی روشنی میں ریمانڈ کردہ اس کیس پر بحث کی جائے گی۔ چنانچہ 14 سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ فیڈرل شریعت کورٹ کی جانب سے بذریعہ مراسلہ واخباری اطلاع بھیجا گیا اور کہا گیا کہ اس کا جواب تیار کر کے فیڈرل شریعت کورٹ کے رجسٹرار کو حسبِ استطاعت و توفیق ارسال کیا جائے۔
تنظیم کی طرف سے ان 14 سوالات کے جوابات مفصل طور پر تیار کر کے وکلاء کے ذریعے فیڈرل شریعت کورٹ میں داخل کروا دیے گئے اور کورٹ سے استدعا کی گئی کہ معاملے کی اہمیت و نزاکت کے پیش نظر اس کیس کو تیزی سے نمٹایا جائے۔
کورٹ کو assist کرنے کے لیے تنظیم اسلامی کی جانب سے تین مزید وکلائے سپریم کورٹ کی خدمات حاصل کی گئیں‘ جن میں رائے بشیر احمد‘ غلام فرید سنوترہ اور اسد منظور بٹ شامل تھے۔ تنظیم اسلامی کے علاوہ بعض دوسرے افراد اور آرگنائزیشنز کی طرف سے بھی جوابات داخل کیے گئے جن میں متحدہ ملی مجلس‘ جماعت اسلامی اور شیخ ابراہیم ودیلو اور دوسرے شامل تھے۔
2014ء کے آغاز تک یہ تمام کارروائی مکمل ہوگئی تھی اور اب اس بات کا انتظار تھا کہ یہ معاملہ کورٹ میں ایک نئی قوت کے ساتھ زیر بحث آئے گا اور ہم سود کی اس لعنت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ لیکن 2018ء تک فیڈرل شریعت کورٹ میں اس معاملے پرباقاعدہ بحث کا آغاز نہیں ہوسکا اور معاملہ ایک مرتبہ پھر التواء کا شکار ہوگیا۔
اس دوران تنظیم اسلامی کے سینئر رفیق اور مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے ناظم اعلیٰ اور شعبہ تحقیق کے انچارج حافظ عاطف وحید صاحب نے مختلف وکلاء اور ماہرین سے رابطہ جاری رکھا اور اس بات کے امکانات کا جائزہ لیا کہ کیا اس کیس کو از سر نو سپریم کورٹ آف پاکستان میں کھلوایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ تاثر یہ تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کا 1999ء والا فیصلہ ایک حجت کی حیثیت رکھتا ہے جسے بعد میں 2002ء میں PCO پر حلف اٹھائی ہوئی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا‘ لہٰذا اگر موجودہ سپریم کورٹ سے یہ استدعا کی جائے کہ 1999ء والا فیصلہ بعض ریاستی اور غیر ملکی اداروں کے دباؤ پر معطل کیا گیا تھا اس لیے اسے کالعدم قرار دیاجائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ مراحل آسانی سے سَر ہو جائیں گے۔
اس خواہش اور امید کے پیش نظر متعدد ماہرین سے رابطہ کیا گیا اور سپریم کورٹ میں اس کیس کی نمائندگی کے لیے مختلف وکلاء سے رابطہ کیاگیا۔ کافی سوچ بچار اور مشاورت کے بعد راجہ محمد ارشاد صاحب‘ جو کہ انجمن خدام القرآن سندھ سے طویل عرصہ وابستہ رہے ہیں اور بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی فکر سے آگاہ ہیں اور عدالتی طورطریقوں سے بخوبی واقف ہیں‘ انہیں اس کام کی ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا گیا۔
راجہ صاحب نے اپنے ساتھ سپریم کورٹ کے دو اور وکلاء جناب سردار محمد غازی اور شمشاد اللہ چیمہ کو ٹیم میں شامل کیا۔ عاطف وحید صاحب نے ان حضرات کے ساتھ اسلام آباد میں متعدد ملاقاتیں کیں اور انہیں اس کیس کی تاریخ اور معاملے کے مالہ‘ اور ما علیہ سے آگاہ کیا۔
وکلاء کے اس گروپ نے تمام کیس کا جائزہ لے کر یہ رائے قائم کی کہ1999ء کا فیصلہ بحال کرانا بوجوہ آسان نہ ہوگا‘ بلکہ اس کے بجائے اس معاملے کو آئین کی دفعہ 38-F کے تحت اٹھانا یا پیش کرنا زیادہ موزوں رہے گا۔ چنانچہ انہوں نے 30 مارچ 2015 ء کو یہ کیس انہی بنیادوں پر تیار کیا اور اسے (سابقہ)امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید صاحب کی طرف سے ایک Constitution Petition بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان بعنوانPetition under article 184 (3) of the Constitution of Pakistanتیار کیا اور سپریم کورٹ میں داخل کروادیا۔ اس Constitution Petition میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ :
In view of the above, it is therefore, respectfully prayed that this Hon’ble Court may graciously be pleased to issue direction to the respondents to implementArticle 38-F of the constitution to eliminate “Riba” as early as possible to save this country from the wrath of Almighty Allah.
مورخہ 9مئی 2015ء رجسٹرار آفس سے یہ جواب موصول ہوا کہ متعدد وجوہات کی بنا پر یہ درخواست مسترد کر دی گئی ہے‘ لہٰذا یہ قابل سماعت نہیں۔
چونکہ بیان کردہ وجوہات نامعقول اور غیر آئینی تھیں لہٰذا 23 مئی 2015ء کو ایک Civil Miscellaneous اپیل داخل کی گئی‘ جس میں یہ تقاضا کیا گیا تھا کہ رجسٹرار آفس اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ کسی ایسی آئینی پٹیشن کو رد کر سکے جس میں بنیادی حقوق کا معاملہ پیش نظر ہو۔ لہٰذا یہ درخواست کی گئی کہ رجسٹرار آفس کی طرف سے عائد کردہ اعتراضات مسترد کرتے ہوئے ہماری پٹیشن کو کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔
اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے رجسٹرار نے معاملے کو جسٹس سرمد جلال عثمانی کے سامنے پیش کیا جنھوں نے کیس کا جائزہ لے کر یہ رائے دی کہ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر اِس کیس کو ایک سے زائد ججز کا سماعت کرنا مناسب ہوگا۔ چنانچہ 5اکتوبر 2015ء کوایک دوسرے جج جسٹس عظمت سعید کو جسٹس سرمد جلال عثمانی کے ساتھ شامل کر کے اس کیس کی سماعت کی گئی اور ایک مختصر سی کارروائی کے بعد ان دونوں ججز نے اس بنیاد پر کہ معاملہ پہلے سے فیڈرل شریعت کورٹ میں subjudice ہے اس درخواست کو مسترد کردیا۔
اس فیصلے سے قطع نظر‘ ججز کے جو ریمارکس اور بیانات اخبارات میں رپورٹ ہوئے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان اعلیٰ عدالتوں میں ایسے ’’نامور‘‘ ججز کا تعین کیا جانا بجائے خود ایک لمحہ فکریہ ہے اور اس سے ان کی اہلیت پر متعدد سوالات اٹھتے ہیں۔ (جاری ہے)
ززز
tanzeemdigitallibrary.com © 2025