(الہدیٰ) بے حیائی کو پھیلانے والوں کے لیے دردناک عذاب - ادارہ

10 /

الہدیٰ

بے حیائی پھیلانے والوں کے لیے دردناک عذاب

{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (19)}(النور)
’’بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی کا چرچا ہو ‘اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
تشریح: یعنی وہ لوگ جو مختلف حربوں سے معاشرے میں بے حیائی کو عام کرتے ہیں۔ آیت کے الفاظ اشاعت ِفحش کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ آج کل اس کا بہت بڑا ذریعہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ہے۔ کمرشل اشتہارات میں عورتوں کی نیم عریاں تصاویر دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ برائی کی اشاعت یوں بھی ہو رہی ہے کہ ناجائز تعلقات کے سیکنڈلز کی تشہیر کی جاتی ہے اور بغیر کسی معقول اور مناسب تحقیق کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی کرامت سے ان کی خبریں دنیا بھر میں گھر گھر پہنچ جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ چھوٹی عمر کے بچے اور بچیاں بھی ایسے بے ہودہ سکینڈلز کو پڑھتے‘ سنتے اور اس موضوع پر اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ بہر حال ایسے واقعات کو خبر بنا کر شائع کر دینا بہت بڑا جرم ہے اور جو لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہیں وہ اس آیت کے مصداق ہیں۔ شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو حتی الوسع برائی کا چرچا نہ کیا جائے۔ لیکن اگر قانونی تقاضے پورے ہوتے ہوں تو مجرموں کو کٹہرے میں ضرور لایا جا ئے اور انہیں ایسی سزا دلوائی جائے کہ ایک کو سزا ہو اور ہزاروں کے لیے باعث ِعبرت ہو۔

فرمان نبویﷺ

شرم وحیا اور زبان کو قابو رکھنا

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (( الْحَيَاءُ وَالْعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الْإِيمَانِ ، وَالْبَذَاءُ وَالْبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ)) (جامع الترمذی)
حضرت ابوامامہؓ آنحضرت ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:’’ شرم و حیا اور زبان کو قابو میں رکھنا ایمان کی دو شاخیں ہیں جبکہ فحش گوئی اور لاحاصل بکو اس نفاق کی دو شاخیں ہیں۔ ‘‘
تشریح: شرم و حیا کا ایمان کی شاخ ہونا ایک ظاہر و معروف بات ہے، زبان کو قابو میں رکھنے کا ایمان کی شاخ ہونا اور فحش گوئی و لا حاصل بکو اس کا نفاق کی شاخ ہونا اس اعتبار سے ہے کہ مومن اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرم و حیا، انکساری، مسکینی و سلامتی طبع کے جن اوصاف سے مزین ہوتا ہے، وہ اپنے اللہ کی عبادت، اپنے اللہ کی مخلوق کی خدمت اور اپنے باطن کی اصلاح میں جس طرح مشغول و منہمک رہتا ہے، اس کی بناء پر اس کے بے فائدہ تقریر بیان پر قدرت ہی حاصل نہیں ہوتی۔ وہ اس بات پر قادر ہی نہیں ہوتا کہ اپنے مفہوم و مدعا کو مبالغہ آرائی اور زبان کی تیز و طرار کے ذریعہ ثابت و ظاہر کر سکے بلکہ وہ اس خوف سے کم گوئی کو اختیار کرتا ہے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے کہ مبادا زبان سے کوئی بڑی بات نکل جائے اور وہ فحش گوئی اور بد زبانی کا مرتکب ہو جائے۔ اس کے برخلاف منافق کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ چرب زبانی یا وہ کوئی اور مبالغہ آمیزی کی راہ اختیار کرتا ہے اور نتیجہ کے طور پر وہ بے فائدہ تقریر و بیان، زبان درازی اور فحش گوئی پر قادر و دلیر ہو جاتا ہے۔