(اداریہ) بت کدہ ہند میں تکبیر ِ رب کی گونج - ایوب بیگ مرزا

10 /

بت کدہ ہند میں تکبیر ِ رب کی گونج

ایوب بیگ مرزا

 

بعض لوگوں کی رائے ہے کہ میدانِ جنگ میں بہادری اور شجاعت اُس وقت مطلوب اور فیصلہ کن ہوتی تھی جب میدانوں میں تلواریں اور نیزوں سے دوبدو جنگ لڑی جاتی تھی۔ آج کے ایٹمی میزائلوں کے دور میں جب بٹن دبانے سے دشمن کی سرزمین پر تباہی پھیلائی جا سکتی ہے تو جنگجوؤں کی بہادری غیر اہم ہو چکی ہے۔ ہماری رائے میں ایسا میدان جنگ جس میں اسلحہ کا استعمال ہو تمام تر ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود اُس میں افراد کی بہادری اور دلیری کا رول کچھ کم تو ہو سکتا ہے ختم نہیں ہو سکتا جس کی موجودہ دور میں بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ البتہ اخلاقی، معاشرتی اور ذہنی سطح پر آج بھی بہادری اور شجاعت کا رول انتہائی اہم اور فیصلہ کن ہے۔ اس حوالے سے بہادری اور دلیری کسی حق اور سچ کی بنیاد پر ہو سکتی ہے کسی اہم میٹنگ میں 99 فیصد لوگ ایک رائے رکھتے ہوں اور آپ اکیلے الگ رائے رکھتے ہوں تو آپ کا مخالفین کی زیادہ تعداد کی رائے کا اثر قبول نہ کرنا اور اپنے برحق مؤقف پر ڈٹ جانا بھی بہادر ی ہے۔

اسلامی معاشرے میں بگاڑ کی وجہ سے اگر کسی مجلس میں ایک دو کے سوا تمام خواتین بے پردہ اور کم لباس ہوں تو ان ایک دو خواتین کا مکمل ستر اورحجاب میں رہنا اور ان بے پردہ خواتین کا رتی بھر اثر قبول نہ کرنا بھی بہادر ی ہے۔ کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ انتہائی قلیل تعداد میں یہ مستور خواتین اجنبی بن کر رہ جائیں گی لیکن اگر ملک بھارت جیسا ہو اور حکومت بی جے پی کی ہو جو آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے اور صورتِ حال یہ ہو کہ مسلمان گائے ذبح کرتے کرتے خود ذبح ہو جائے اور جس ملک میں یہ نعرہ زور دار انداز میں لگ رہا ہو ’’مسلمان کے دو استھان پاکستان یا قبرستان‘‘ وہاں کی حکومت آرایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مسلمان خواتین پر اگر غیر آئینی، غیر قانونی پابندی لگا رہی ہو اور آر ایس ایس کے غنڈے کسی کالج کے باہر جمع ہو کر ایک باپردہ مسلمان عورت پر آوازیں کسیں تو اُس اکیلی عورت کا گھبرانا نہ بلکہ ’’جے شری رام‘‘ کے مشرکانہ نعرے کے خلاف رب ِ واحد کی تکبیر کا واشگاف اعلان کرنا اخلاقی اور معاشرتی سطح پر بہادری اور شجاعت کی بلند ترین سطح ہے۔ لیکن ایسی ہمت جرأت کا اظہار تب ہی ممکن ہے اگر انسان کا اپنے نظریے پر ایمان غیر متزلزل ہو بلکہ نظریہ جان سے زیادہ عزیز ہو اور شہادت مطلوب و مقصود ہو اور انسان دنیوی سود و زیاں سے بے نیاز ہو چکا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کو ہندوتوا کی طرف دھکیلنے والی انتہائی متعصب مودی حکومت اکیلی خاتون کے ہاتھوں دنیا بھر میں ایسی رسوا ہوئی کہ اُس کے اتحادی بھی مسلمانوں کے دشمن ہونے کے باوجود اس کا کھل کر ساتھ نہ دے سکے۔ اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک کا اِس موقع پر کھل کر ساتھ نہ دینا درحقیقت اپنی ساکھ کو بچانا اور یہ بھرم قائم کرنے کی کوشش تھی کہ ا نسانی حقوق خاص طور پر حقوق نسواں جہاں کہیں بھی
روندے جائیں گے ہم اُس کا نوٹس لیں گے اور اُس پر احتجاج کریں گے۔ یہ پوزیشن صرف اِس لیے لی گئی کیونکہ کسی بڑے رد عمل سے اُنھیں بچنا تھا۔
ہم ثبوت کے طورپر بعض مغربی ممالک کا حجاب کے خلاف طرزِ عمل اور وہاں کی گئی قانون سازی قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔ اسلام سے نفرت، اسلاموفوبک دہشت گردی کی سرپرستی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اِس رویے اور پالیسی میں فرانس مغرب کو لیڈ کر رہا ہے جہاں 2010ء میں برقعہ پر پابندیاں لگائی گئیں کہ عوامی جگہوں پر چہرہ ڈھانپنے کی پابندی ایک انتظامی آرڈر کے ذریعے نافذ کی گئی۔ 2021ء میں حجاب پر پابندی کے خلاف مسلمان خواتین نے آن لائن احتجاج رجسٹرڈ کرایا۔ دسمبر میں فرانسیسی حکومت کا مسلم مخالف ایک اور فیصلہ آ گیا اور مسلم خواتین پر حجاب پہن کر کھیل میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی۔ اور چالاکی کا مظاہرہ یوں کیا کہ پابندی کا جواز ڈسپلن کی خلاف ورزی بنایا گیا۔ فرانسیسی سینٹ بھی پیچھے نہ رہا، اس نے بھی جوں کی توں اِس پابندی کی منظوری دے دی۔ سپین میں 2010ء میں برقعہ پہننے کی پابندی لگی لیکن عدالت نے 2013ء میں یہ قانون منسوخ کر دیا۔ بیلجیئم میں 2012ء میں برقعہ پر پابندی فرانس کی طرز کا ایک قانون بنایا۔ اس میں قانون شکنی پر 380 یورو جرمانہ اور سات دن کی قید مقرر کی گئی۔ علاوہ ازیں ڈنمارک، ناروے اور ہالینڈ میں بھی قانون کے ذریعے پردے پر پابندی لگا دی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ پردے اور حجاب پر پابندی ایک زبردست حکمت ِ عملی کے تحت لگائی گئی علاوہ ازیں مادر پدر آزادی، عریاں لباس، بے حیائی اور فحاشی کا پھیلاؤ یہ سب ایک بڑی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ حقیقت کچھ یوں ہے کہ صیہونی جب سرمائے اور میڈیا کے ذریعے  یورپ کو بالواسطہ طور پر زیر تسلط لے آئے تو اُنھوں نے دنیا پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے غالب آنے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ 1903ء میں شائع ہونے والے یہودی صیہونی پروٹوکولز اِس خواب کی تعبیر کی طرف ایک تحریری قدم تھا۔ کیونکہ اُس زمانے میں سلطنت عثمانیہ اُن کا ہدف تھی لہٰذا مسلمان کو خاص طور پر اِس حوالے سے ٹارگٹ کیا گیا تاکہ وہ اِن چیزوں میں ملوث ہو کر اُن کا آسان شکار بن جائیں۔ صیہونیوں نے سمجھا کہ دنیا میں اگر بے حیائی، عریانی اور فحاشی عوام میں زیادہ سے زیادہ پھیلائی جائے تو وہ نہ صرف اپنے اِس ایجنڈے کی طرف تیزی سے بڑھ سکیں گے بلکہ بہت سے دوسرے ممالک اُن کے معاون اور سہولت کار خود بخود بن جائیں گے۔ یہاں اس بات کا ضمنی طور پر ذکر آ جائے کہ صیہونیوں نے دنیا کو بہت سی ایسی چیزوں میں پھنسایا ہے جس سے وہ خود گریز کرتے رہے ہیں مثلاً فاسٹ فوڈ وغیرہ وغیرہ۔
یاد رہے اسرائیل میں باقاعدہ سرکاری طور پر فاسٹ فوڈ چھوڑنے کی ترغیب و تشویق دی جاتی ہے۔ یورپ کی جب ایسی صورتِ حال بنی تو علامہ اقبالؒ جیسا مفکر اِس نتیجہ پر پہنچا کہ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ تب یہودیوں نے عالمی قوت کا مرکز لندن سے واشنگٹن منتقل کرالیا، کیونکہ امریکہ مستقبل میں عظیم ترین قوت بننے جا رہا تھا۔ جبکہ یورپ اپنی حیثیت کو قائم دائم رکھنے کے لیے بھی ہاتھ پاؤں مار رہا تھا لہٰذا امریکہ کو مغربی یورپ کا مائی باپ بنایا اور خود اپنے سرمائے اور میڈیا کی قوت سے طاقتور امریکہ کے کندھوں پر سوار ہو کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہو گیا اور آج اس حوالے سے کافی سفر طے کر چکا ہے۔ ہماری رائے میں بھارت نادانی اور حماقت اور اصلاً اسلام دشمنی میں صیہونیوں کا ایجنٹ بنا ہوا ہے۔ بھارت کا متعصب ہندو مسلمان دشمنی میں یہ بھول چکا ہے کہ صیہونیوں کا اصل ہدف دنیا کا واحد حکمران بننا ہے وہ امریکہ اور بھارت کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کریں گے اور خدانخواستہ اگر صیہونی اپنے مکروہ عزائم کے عین مطابق ایک عالمی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ عربوں، ہندوؤں اور امریکیوں کو استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ یہ اُن کے اس عقیدے کا لازمی جز ہے کہ اصل اور حقیقی انسان صرف یہودی ہیں باقی سب Gentile اور Goyim ہیں جو انسان نما شکل رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ غیر یہودیوں کو جانوروں کی طرح ننگا کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی ہندو اور عیسائی دنیا تو اُن کے عزائم نہ سمجھتے ہوئے انجانے میں صرف اسلام دشمنی میں ان صیہونیوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں لیکن امت مسلمہ اگر اِس کا وجود کہیںہے، وہ سب کچھ سمجھ کر اور جان بوجھ کر اپنے بدترین دشمنوں کو اپنا دوست بلکہ رہنما بنائے ہوئے ہے۔
امت کو سوچنا چاہیے کہ اُن کی بیٹیوں کو عریاں کیوں کیا جا رہا ہے۔ دخترانِ اسلام کی حیا کس کے ایجنڈے کی تکمیل میں حائل ہے؟ مسلمان مردوں کی غیرت کو دفن کرنے کی کوشش کیوں ہو رہی ہے۔ اسلام کے چہرے پر بدنما داغ لگانے کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اسلام بحیثیت دین انسانی زندگی کے تین اجتماعی گوشوں میں سے سیاست اور معیشت پرتو صرف راہنما اصول دیتا ہے جبکہ معاشرتی گوشے کو اتنی تفصیل سے قرآن و حدیث کے ذریعے امت پر کیوں واضح کرتا ہے۔ وہ مرد اور عورت کا اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے کا حکم کیوں اتنی سختی سے دیتا ہے؟ وہ صالح معاشرے کے قیام کے لیے کیوں مخلوط مجالس اور بے پردگی سے بچنے کا حکم دیتا ہے؟ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ انسان جس کی سرشت بلکہ فطرت میں ِحیا رکھی گئی ہے، اُس کو مسخ نہ کر دے۔ تمام انسان درحقیقت اس جوڑے کی اولاد ہیں جوبھول کر ممنوعہ شجر کا پھل کھا بیٹھا تھا۔ لیکن اِس بھول سے جب اُس کے پوشیدہ عضا ظاہر ہوئے تو اُس نے انتہائی پریشانی سے جنت کے پتوں سے اپنے ستر کو چھپایا گویا حیا انسان کا ازلی، پیدائشی اور فطری جذبہ ہے۔ جسے دبانا یا ختم کرنا انسان کی فطرت کو مسخ کرنا ہے۔ فطرت دشمن قوتیں انسان کی روحانیت بلکہ اُس کی انسانیت کے درپے ہیں۔ امت مسلمہ کے نام نہاد پاسبانوں ذرا سوچو تو سہی ایک تنہا نہتی لڑکی اپنے نظریے، عقیدے اور ایمان کی پختگی کی وجہ سے سینکڑوں مسلح غنڈوں کو للکارتی ہے تو اُن کے پاس رسوائی بھری پسپائی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوتا، اگر پونے دو ارب پر مشتمل امت مسلمہ ہمت کرکے اپنے بنیادی نظریے کو دانتوں سے پکڑ لے اور شیطان کے ایجنٹوں کو پوری قوت سے للکارے تو کیا وہ ناکام رہے گی؟
ہمت مرداں مرد خدا