(منبرو محراب) تخلیق انسان میں انسان کے لیے سبق - ابو ابراہیم

10 /

تخلیق ِ انسان میں انسان کے لیے سبق(سورۃ الواقعہ کی آیات 45تا 49کی روشنی میں)

جامع مسجد شادمان ٹاؤن کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے4فروری 2022ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
سورۃ الواقعہ کی آیت 45تک ہم نے مطالعہ کیا تھا۔ زیر مطالعہ آیات میں مترفین کا ذکر آرہا ہے کہ جنہوں نے دنیا پرستی میں آخرت کو بھلا دیا ان کا انجام بہت بھیانک ہوگا۔ آیت 45 میں ذکر تھاکہ:
{اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ (45)}’’یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) بڑے خوشحال تھے۔‘‘
یعنی دنیا میں ان کوخوب آسائشیں اور نعمتیں ملیں توبجائے اس کے کہ یہ اللہ کی نعمتوںپرشکر ادا کرتے ،اس کی فرمانبرداری کی روش اختیار کرتے وہ غفلت میں مبتلا ہوگئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی آخرت کی منزل کو انہوں نے کھوٹا کردیا۔اب اگلی آیت میں فرمایا:
{وَکَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ(46)} ’’اور یہ اصرار کرتے تھے بہت بڑے گناہ پر۔‘‘
بھاری گناہ سے ایک مراد شرک اور کفر ہے۔ اُخروی کامیابی کے لیے اولین شرط ایمان ہے ۔ جو ایمان کی بجائے کفر اور شرک کا راستہ اختیار کرے گا اور اسی حالت میں دنیا سے جائے گا تو اُس کے لیے آخرت میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ۔ مترفین اس بھاری گناہ پر دنیا میں اڑے رہے ۔ آگے فرمایا:
{وَکَانُوْا یَقُوْلُوْنَ لا اَئِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ئَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ (47)}’’اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ کیا ہم جب مر جائیں گے اور ہو جائیں مٹی اور ہڈیاں تو کیا پھر سے اُٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟‘‘
{اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ (48)} ’’اور کیا ہمارے آباء و اَجداد بھی جو پہلے گزر چکے ہیں؟‘‘
مترفین کی دوسری علامت یہ بتائی گئی کہ وہ دنیا پرستی میں مست ہو کر آخرت کا ہی انکار کرنے لگے ۔ گناہوں پر اصرار کی وجہ سے وہ سمجھنے لگے تھے اس دنیا میں جو مرضی کرلو ، مرکر دوبارہ کون اُٹھا ہے ، یہی سرکشی انہیں دلاسہ دیتی تھی کہ کیا جب ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ جائیں گی تو دوبارہ اُٹھنا ممکن ہوگا ؟ کتنے لوگ دنیا سے چلے گئے ، کوئی لوٹ کرآیا؟مترفین کی اس سوچ کا جواب اللہ تعالیٰ یوں دے رہا ہے :
{قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ(49)}
’’(اے نبیﷺ!) آپؐ کہیے کہ یقیناً پہلے بھی اور پچھلے بھی۔‘‘
{لَـمَجْمُوْعُوْنَ لا اِلٰی مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ (50} ’’لازماً جمع کیے جائیں گے ایک مقرر دن کے طے شدہ وقت پر۔‘‘
آج تک جو بھی دنیا سے گیا ہے اورآئندہ بھی قیامت تک جو پیدا ہوگا اُن سب کو روز محشر جمع کیا جائے گا اور پھر ان تمام باتوں کا حساب لیا جائے گا ۔
ہم توالحمدللہ مسلمان ہیں ،ہمارایہ مسئلہ نہیںکہ ہم آخرت کو مانتے نہیں ہیں ، ہم تونماز کی ہررکعت میں اقرار کرتے ہیں:{ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ} (الفاتحہ)
’’جزا و سزا کے دن کا مالک و مختار ہے۔‘‘
یعنی ہم آخرت کو مانتے ہیں ۔ ہمارا وہ مسئلہ نہیں ہے جوکھلے کافروں کاہے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ضرور ہے کہ کیاواقعی ہم آخرت پریقین رکھتے ہیں ؟زبان سے اقرار کرنا الگ بات ہے ،لیکن کیا ہمارا عمل یہ ثابت کررہا ہے کہ ہم واقعی آخرت پر یقین رکھتے ہیں ؟جب دل میں یقین ہوتاہے تو عمل اس کاثبوت پیش کرتاہے لیکن ہمارے اعمال کیا ہیں ؟ سود کے دھندے جاری رکھ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کا واضح اعلان کر رہے ہیں ۔ ناحق قتل بھی کیے جارہے ہیں ، چوریاں ڈاکے ، جائیدادیں ہڑپ کرنا سب کچھ ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے ، سب سے بڑھ کر قبضہ مافیا نے جو ظلم اور استحصال کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کی مثالیں شاید غیر مسلم معاشروں میں بھی نہ مل سکیں ، جس کے پاس طاقت ہے وہ کمزور کا حق غصب کررہا ہے ، اس سب کے باوجود ہم خود کو مسلمان بھی مانتے ہیں اور آخرت پر ایمان کازبانی اقرار بھی کرتے ہیں لیکن عمل کیا ثبوت پیش کر رہاہے ، آخرت میں نتیجہ تو اعمال کی بنیاد پر ہی بولے گا ۔ ان حالات میں ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہماری عادات و اطوار بھی مترفین والی تو نہیں ؟اللہ تعالیٰ اس طرزعمل سے ہماری حفاظت فرمائے اورہمیں مالک یوم الدین کا یقین عطا فرمائے ۔ آگے فرمایا:
{ثُمَّ اِنَّـکُمْ اَیُّـہَا الضَّآلُّوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ(51)} ’’پھر تم ‘ اے گمراہو اور جھٹلانے والو!‘‘
{لَاٰکِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ (52)} ’’ ضرور کھائو گے زقوم کے درخت سے۔‘‘
یہ مترفین کی سزا کا بیان ہے ۔زقوم کا درخت عرب علاقوں میں بھی ہوتاہے جس کا پھل کڑوا اور بدبو والا ہوتاہے لیکن جہنم میں زقوم کا درخت اس سے کئی گنابڑھ کر مترفین کے لیے آزمائش ہوگا ۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اس زقوم کے درخت اور اس کے پھل کے رس کا ایک قطرہ دنیا میں ٹپکا دیا جائے تولوگوں کی زندگی، معیشت، گھرگرہستی کے معاملات اور تمام تر کاروبارزندگی تباہ ہو جائے گا ۔ اندازہ کیجئے جب مترفین کو یہ پھل کھانا پڑے گا تو ان کی کیا حالت ہوگی ۔ ((اللھم اجرنامن النار)) ’’اے اللہ !ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔‘‘
مترفین نے دنیا میںاپنے عیش و عشرت کے لیے دیگر انسانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ، لوگوں پر مظالم ڈھائے ، عوام کے جیبوں سے خون پسینے کی کمائی نکالنے کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشے ، اب ان کو جہنم میں زقوم کا پھل کھانا پڑے گا ۔ یہ پھل دیکھنے میں کیسا ہوگا ، دوسری جگہ فرمایا:
{طَلْعُہَا کَاَنَّہٗ رُئُ وْسُ الشَّیٰطِیْنِ(65)} (الصّٰفّٰت)
’’اُس کے خوشے ایسے ہوں گے جیسے شیاطین کے سر۔‘‘
جس طرح شیطان کا سر انتہائی بھیانک اور کراہیت والا ہے اسی طرح زقوم کا یہ پھل دیکھنے میں بھی انتہائی مکروہ شکل والا ہوگا ۔ آگے فرمایا:
{فَمَالِئُوْنَ مِنْہَا الْبُطُوْنَ (53)} ’’پس اسی سے تم اپنے پیٹ بھرو گے۔‘‘
یعنی بھوک لگے گی تواسی کوکھانا ہوگا۔ دوسرے مقامات پر خاردار گھاس کا بھی ذکر آتاہے ،کانٹے دار جھاڑیوں کاذکر بھی آتاہے ۔ یہاں زقوم کاذکر آیا۔آگے فرمایا:
{فَشٰرِبُوْنَ عَلَیْہِ مِنَ الْحَمِیْمِ (54)}’’پھر پیو گے اس پر کھولتا ہوا پانی ۔‘‘
ایک توجہنم کی تپش اورگرمی ، اس پر بھوک لگے گی تو کھانے کے لیے زقوم کا کانٹے دار ، بدبو دار اور کڑوا پھل ہوگا ، پیاس لگے گی تو پینے کے لیے پانی بھی کھولتا ہوا ملے گا۔ا ستغفراللہ!یہ قرآن اللہ کا سچا کلام ہے ۔یہ صرف ڈرانے کے لیے نازل نہیں کیا گیا جیسا کہ جاہلانہ تصورات رکھنے والے فلسفیوں اور جاہل صوفیوں کا خیال ہے بلکہ جو قرآن میں فرمایا گیا ہے وہ حقیقت ہے ۔ اللہ نے فرمایا :
{وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ط}(بنی اسرائیل:105)
’’اور اس (قرآن) کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے۔‘‘
اور حق کا ایک ترجمہ بامقصد بھی ہے ۔یعنی یہ بے مقصد کلام نہیں ہے بلکہ بامقصد کلام ہے ۔ جیسے فرمایا:
{اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ(13)وَّمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ(14)} (الطارق)
’’یہ (قرآن) قولِ فیصل ہے۔اوریہ کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے۔‘‘
جہنم کے بیان میں جن عذابوں کا ذکر آرہا ہے یہ حقیقت میں موجود ہیں اور جہنمیوں کو ان عذابوں سے گزرنا پڑے گا ۔ آج اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں ان عذابوں کا ذکر اس لیے کر رہا ہے کہ آج ہمارے پاس مہلت ہے ، ہم وہ حرکتیں چھوڑ دیں جو جہنم میں لے جانے والی ہیں ۔یہ جہنم کا عذاب بتادیاجانا بھی اللہ کی نعمت ہے تاکہ اندھیرے میں کوئی نہ رہے ۔ اللہ نے واضح کردیا اور اپنے رسول ﷺ کے ذریعے وضاحت فرمادی۔اب ہمارا کام ہے کہ ہم سمجھ جائیں ، اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کے عذابوں سے بچا لیں ۔ آگے فرمایا :
{فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْہِیْمِ (55)}’’اور ایسے پیو گے جیسے پیاس کا مارا اونٹ پیتا ہے۔‘‘
کھولتے ہوئے پانی کا ذکر ہورہا ہے ۔ جیسے صحرا کی گرمی میں کئی دنوں سے پیاس کا مارا اونٹ جب پانی کے قریب پہنچتا ہے تو لپک کر پینا شروع کر دیتا ہے ، اتنی شدید پیاس ہوتی ہے کہ پانی پیتے چلا جاتاہے مگر اس کی پیاس نہیں بجھتی ۔ یہی حال مترفین کا ہوگا ۔ جب جہنم کی گرمی اور شدتِ پیاس سے بُرا حال ہوگا اور ایسے میں انہیں پانی نظر آئے گا تو لپک کر پینا شروع کر دیں گے مگر ان کی پیاس نہیں بجھے گی بلکہ یہ پانی بھی کھولتا ہو ا ہوگا اور ان کے اندر کو جلاتا ہوا نیچے جائے گا ۔ یہ مستقل عذاب ہوگا جو ان مترفین کے لیے ہوگا ۔ وہاں یہ موت مانگیں گے مگر انہیں موت نہیں آئے گی ۔
آج ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم جہنم کے اس ذکر کو سنجیدہ لے رہے ہیں ؟اگر سنجیدہ لے رہے تو اپنے آپ کو ان اعمال سے دور رکھتے جو آخرت سے انکار پر مبنی ہیں ۔ اگر ہمارے دل میں اللہ کا خوف ہوتا ، آخرت کا احساس ہوتا تو ہمارے اعمال مختلف ہوتے ۔ اللہ کے کلام کی سینکڑوں آیات میں جنت اور جہنم کا ذکر ملتاہے اوریہ مذا ق نہیں ہے حقیقت ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں یقین عطا فرمائے اور جہنم کا خوف بھی عطا فرمائے ۔آگے فرمایا:
{ہٰذَا نُزُلُہُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ (56)}’’یہ ہو گی ان کی ابتدائی ضیافت جزاکے دن۔‘‘
مترفین کی ذلت میں اضافہ کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں ۔ عرب علاقوں میں ایک روایت تھی کہ جیسے ہی مہمان آتا اُس کی ضیافت کے لیے ٹھنڈا یا گرم پیش کرتے تھے ۔ اسی انداز میں اللہ تعالیٰ مترفین کی ذلت میں اضافہ کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ زقوم کا درخت اور کھولتا ہوا پانی ان کی ابتدائی ضیافت ہوگی ۔اصل ضیافت تو اس کے بعد شروع ہوگی ۔ یعنی مترفین کے لیے جواصل عذاب ہیں وہ اس کے بعد شروع ہوں گے لیکن یہاںان کا ذکر کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ غوروفکر کی دعوت دیتا ہے تاکہ ہم راہ راست پر آئیں ۔ فرمایا:
{نَحْنُ خَلَقْنٰـکُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ(57)}’’ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے ‘تو تم لوگ تصدیق کیوں نہیں کرتے؟‘‘
اللہ کے کلام کااسلوب سادہ ہے ،فطری ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ بندوں کو خود اپنی تخلیق پر غور وفکر کی دعوت دیتاہے، مخلوقات پر غورو فکر کی دعوت دیتا ہے ، جا بجا نشانیوں پر غورو فکر کی دعوت دیتا ہے تا کہ ہم مانیں کہ :
کوئی توہے جو نظام ہستی چلارہاہے ،وہی خدا ہے
اس غور وفکر کے نتیجے میں توحیداور آخرت کاسبق بھی بندوں کو حاصل ہوتا ہے ۔ جب بندہ تخلیق پرغور وفکر کرتاہے تو تخلیق بامقصد نظر آتی ہے۔جب ہر تخلیق بامقصد (purposefull) ہے توبندہ اس نتیجے تک بھی پہنچتاہے یاپہنچے گاکہ میری تخلیق بھی بامقصد ہے، بے مقصد نہیں ہے ۔یہ توحید او رآخرت کا درس قرآن پاک میں مختلف پیرایوں میں ساتھ ساتھ باربار بیان ہوتاہے ۔ جتنا اس کتاب کائنات پر غور کریں گے اتنااس کتاب ہدایت پر یقین بڑھے گا۔ یہ’’ کتاب ہدایت‘‘ قرآن ’’کتاب کائنات‘‘ پر غور وفکر کی دعوت دیتی ہے ۔
قرآن اللہ کاکلام ہے ،کائنات اللہ کاعمل ہے۔ اللہ کے قول اور عمل میں تضا دنہیں ملے گا۔ قرآن پرغوروفکر کرو گے تو وہ اس کائنات پر غوروفکر کی دعوت دیتاہے۔ کائنات پرغوروفکر کرو گے تو قرآن کی عظمت کو پہنچو گے کہ کیا کیا حقائق قرآن میں پوشیدہ ہیں ۔
یہاں مترفین سے خطاب ہے ۔ وہ لوگ شرک اور کفر پراڑے ہوئے تھے، خالق کائنات کے منکر تھے، آخرت کے منکر تھے ،مرنے کے بعد زندگی کے منکر تھے ان کو اللہ غور وفکر کی دعوت دے رہاہے لیکن اس میں ہمارے لیے بھی یاددہانی اور سبق ہے۔ اسی طرح موجودہ دور میں جو لوگ کفر اور شرک کی روش پر ہیں اور آخرت کے انکاری ہیں ان کے لیے بھی وارننگ ہے کہ وہ سُدھر جائیں، اپنی اصلاح کر لیں ۔ آج ایتھی ازم (انکار رب) کے عنوان سے ایک بہت بڑا فتنہ پھیل رہا ہے کہ کوئی کائنات کاپیدا کرنے والا نہیں، ہم خود بخود بن گئے اور خود بخود مرجائیں گے ۔ اس سے بڑا کفر اور کیا ہوگا کہ خالق ِ کائنات کا ہی انکار کر دیا جائے ۔ اسی لیے یہاں اللہ یاد دلا رہا ہے ، جھنجھوڑ رہا ہے کہ :
{نَحْنُ خَلَقْنٰـکُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ(57)}’’ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے ‘تو تم لوگ تصدیق کیوں نہیں کرتے؟‘‘
پھر آگے فرمایا:
{اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ (58)}’’کیا تم نے کبھی غور کیا اس پر جو (منی) تم ٹپکادیتے ہو؟‘‘
{ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ(59)}’’کیا اس کی تخلیق تم کرتے ہو یا ہم تخلیق کرنے والے ہیں ؟‘‘
اللہ اکبرکبیرا!مر د اور عورت کے کس ملاپ کے نتیجے میں ،کس قطرے کے کس جزکو توفیق ہوگی کہ وہ رحم مادر میں جاکر ایک بچے یابچی کی تخلیق کاباعث بنے۔ یہ صرف ربِ کائنات کو معلوم ہے اور توفیق دینے والا بھی رب ہے۔ اللہ اکبر۔ پھر یہ قرآ ن پاک انسان کی تخلیق کے مراحل بیان فرماتاہے :
{فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ط}(الزمر:6)
’’(یہ تخلیق ہوتی ہے) تین اندھیروں کے اندر‘‘
وہ رحم مادر کے اندر بچہ تین جھلیوں میں لپٹا ہواہوتا ہے ۔ ان تین تاریکیوں میں ایک قطرے کے معمولی جزو سے اللہ تخلیق کے عمل کوشرو ع کرتاہے ۔ کیا اس حقیر سے قطرے کے معمولی جز کی یہ اوقات تھی کہ وہ خود پیدا ہوتا یا ان تین تاریکیوں میں وہ خود ایک انسان بننے کا عمل شروع کرتا ؟یہاں اللہ ایتھی ازم کے پیروکاروں کے باطل نظریہ کا رد اس سوال کے ذریعے کر رہا ہے کہ کیا اس قطرے کے معمولی جز کو تم پیدا کرتے ہو یا اللہ پیدا کرتا ہے؟پھر اس جز سے بچے یا بچی کی تخلیق تم کرتے ہو یا اللہ کرتاہے ؟کئی مرتبہ انسان کے چاہنے کے باوجود اولاد پیدا نہیں ہوتی ، تو اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی پیدا کرکے دکھائے؟پھر اس معمولی قطرے کے اندر آنکھ نہیں ،ناک نہیں، کان نہیں ،زبان نہیں،دل نہیں ،ہاتھ نہیں ،پیر نہیں، بال نہیں، خون نہیں ،گردے نہیں ۔ لیکن اللہ اسی معمولی قطرے کے معمولی جزسے علقہ (جما ہوا خون) بناتا ہے ، پھر اسے مضغہ (گوشت کی بوٹی)کی شکل دیتاہے ، پھر عظاما (ہڈیوں) کی شکل دیتاہے پھر لحما(ہڈیوں پر گوشت چڑھانے) کے مرحلے سے گزارتاہے اور اس طرح مختلف مراحل سے گزار کر اللہ تعالیٰ ایک چلتا پھرتا ، سننے اور دیکھنے والا ، عقل و شعور رکھنے والا انسان بناتاہے ۔ کیایہ خودبخود ہورہاہے؟ اللہ اکبرکبیرا۔ کائنات تو بہت بڑی شے ہے ، یہ انسان کا وجود خود ایک کائنات ہے ، اس کا ایک ایک عضو، ایک ایک پارٹ آف باڈی، اللہ کی تخلیق کاشاہکار ہے اور جتنا میڈیکل سائنس آگے بڑھتی ہے اتنا ایک ایک برانچ کے اندر ریسرچ کرنے والا بھی دھنگ رہ جاتاہے ۔ اپنے وجود پر انسان غور کرے اور پھر اپنے آپ سے سوال کرے کہ کون یہ سب نظام انسان کے وجود میں پیدا کرنے والا ہے ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں غوروفکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے نتیجے میں آخرت کا یقین عطا فرمائے ۔ آمین !