(دعوت و تحریک) قرآن اور سُنّت کا باہمی تعلق(1) - ڈاکٹر اسرار احمد

10 /

قرآن اور سُنّت کا باہمی تعلق(1)

ڈاکٹر اسرار احمد

 

یہ مضمون بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمد  ؒ کے انجمن کے سالانہ اجلاس منعقدہ1947ء کے موقع پر صدارتی خطاب
کا خلاصہ ہے۔ خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس کو قارئین ندائے خلافت کے لیے شائع کیا جا رہا ہے ۔(ادارہ )

 

آپ حضرات اس مسلّمہ حقیقت کو جانتے اور مانتے ہیں کہ قرآن اور سُنّت رسولﷺ لازم و ملزوم ہیں اور ان کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اِس وقت مَیں سورۃ البیّنۃکی ابتدائی چار آیات کی روشنی میں گفتگو کروں گا‘ جنہیں شاید ہی کبھی اس موضوع پر پیش کیا گیا ہو۔ میرے نزدیک یہی آیات اس موضوع کے ضمن میں اہم ترین ہیں۔ ارشا د ہوا:
{ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْـکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَـکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَــیِّنَۃُ(1)} (البیّنۃ) ’’اہل ِ کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی تھی وہ (اپنی اس گمراہی سے اور کفر سے) ہرگز باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس بیّنہ نہ آ جاتی۔‘‘
یہاں ’’بیّنہ‘‘کا لفظ بہت اہم ہے اور اسی سے اس سورئہ مبارکہ کا نام ماخوذ ہے۔ ’’بیّن‘‘ عربی زبان میں ایسی شے کو کہتے ہیں جو اظہر من الشمس ہو‘اسے کسی خارجی و اضافی دلیل کی حاجت نہ ہو۔ جیسے کہا جاتا ہے ’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘ کہ سورج کے طلوع ہوجانے کے بعد وہ خود ہی اپنے وجود پر بہت بڑی دلیل ہے‘ اگر کسی منطقی استدلال سے سورج کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی تو کچھ شکوک و شبہات تو پیدا کر دیے جائیں گے‘ لیکن یقین میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا‘ اس لیے کہ سورج خود اپنے وجود پر دلیلِ قاطع ہے۔ چنانچہ وہ چیز جو بالکل روشن ہو‘ از خود واضح ہو اور اسے کسی خارجی سہارے اور استدلال کی ضرورت نہ ہو وہ ’’بیّن‘‘ ہے۔ ’’ بَیِّنَۃ‘‘ اصل میں ہے کیا‘ اسے اگلی آیت میں defineکیا گیا ہے:
{رَسُوْلٌ مِّنَ اللہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً(2) فِیْہَا کُتُبٌ قَــیِّمَۃٌ(3)}’’ایک رسول جو اللہ کی طرف سے آیا ہے ‘جو پڑھتا ہے ایسے پاکیزہ صحیفے کہ جن میں بالکل راست اور درست تحریریں (اللہ کی کتابیں) درج ہیں۔‘‘
معلوم یہ ہوا کہ دونوں چیزیں مل کر ’’بَیِّنَہ‘‘ بنتی ہیں‘ ان میں سے کسی ایک کو ’’بَیِّنَہ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔رسول اور کتاب ایک حیاتیاتی وحدت (organic whole) ہیں اور یہ دونوں مل کر بَیِّنَہ بنتی ہیں۔ حضرت محمد رسول اللہﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے۔ غور کیجیے کہ جب رسول اللہﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو قرآن کہا ںتھا! اُس وقت قرآن معجزے کے طور پر ابھی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ بَیِّنَہ ہونے کے اعتبار سے جو شے مقدّم ہے وہ رسولﷺ کی ذات اور ان کی شخصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آنحضورﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز فرمایا تو سب سے پہلے اپنی سیرت و کردار کو دلیل کے طور پر پیش کیا۔ کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر آپﷺ نے جو پہلا خطاب کیا وہ یہ تھا کہ ’’لوگو! تم نے مجھے کیسا پایا…؟‘‘گویا رسول اپنی ذات میں سب سے پہلے خود دلیل ہے۔ یعنی بَیِّنَہ ہونے میں رسو ل کی ذات مقدّم ہے کتاب پر۔کتاب کو تو بطورِ معجزہ تحدّی کے ساتھ‘ دلیل اور چیلنج کے انداز میں پہلی مرتبہ مکی دَور کے اواخر میں پیش کیا گیا۔ تین مکی سورتوں سورئہ بنی اسرائیل‘ سورئہ یونس اور سورئہ ہود میں یہ بات کہی گئی ہے کہ تم اس قرآن کا جواب نہیں لا سکتے۔ سب سے پہلے سورئہ بنی اسرائیل میں پوری کتاب کا ذکر کیا گیا :
{قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّــاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا(88)}
’’(اے نبیﷺ! ان سے) کہہ دیجیے کہ اگر تمام انسان اور جِن جمع ہو جائیں (اور پوری قوتوں اور صلاحیتوں کو جمع کر کے کوشش کریں) کہ اس قرآن جیسی کتاب پیش کریں تو وہ ہرگز ایسی کتاب نہیں لا سکیں گے‘ چاہے وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوں۔‘‘
سورئہ ہود میں دس سورتوں کا ذکر ہے :
{قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ…} (آیت :13)’’کہہ دیجیے (اگر تمہارا خیال ہے کہ یہ قرآن منزل مِن اللہ نہیں ہے) تو اس جیسی دس سورتیں ہی گھڑ کر لے آئو…‘‘
اس کے بعد سورئہ یونس میں برسبیل تنزل ایک سورۃ کا چیلنج دیا گیا کہ:
{قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(38)} ’’(اے نبیﷺ! ان سے) کہیے پس تم بھی ایک سورت بنا کر لے آئو ایسی ہی اور بلا لو جس کو بلا سکو اللہ کے سوا اگر تم سچّے ہو۔‘‘
پھر اسی چیلنج کو مدنی سورت ‘سورۃ البقرۃ میں بایں الفاظ دہرایا گیا:
{وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْــنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ ص وَادْعُوْا شُہَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (23)}
’’اور اگر تم لوگوں کو شک ہے اس کلام کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پرنازل کیا ہے (کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے) تو اس جیسی ایک سورت تم بھی (موزوں کر کے) لے آئو اور اپنے تمام مددگاروں کو بلا لو اللہ کے سوا‘ اگر تم سچّےہو۔‘‘
چنانچہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن مجید بطورِ معجزہ مکی دَور کے اواخر میںپیش ہوا ہے‘جبکہ نصف سے زائد قرآن نازل ہو چکا تھا۔ یہ بات بالکل عقلی اور منطقی ہے‘اس لیے کہ ابھی جب چند آیات ہی اُتری تھیں تواُن کو اس طور سے چیلنج کے انداز میں پیش کیا جانا غیر منطقی بات ہوتی۔ گویا بَیِّنَۃ ہونے کے اعتبار سے رسولﷺ کی ذات خود قرآن مجید پر مقدّم ہے۔
جہاں تک دین کے عملی پہلوکا تعلق ہے‘ اس ضمن میں بے شمار ایسی مثالیں مل جائیں گی کہ رسول اللہﷺ کے ذریعے کسی کام کا آغاز پہلے کر ا دیا گیا اور اس کے بعد کہیں جا کر اس کے بارے میں آیات نازل ہوئیں۔ اس ضمن میں سب سے بڑی مثال وضو کی ہے۔ وضو کا نظام مکّہ کے اندر نافذ ہو چکا تھا۔ پنج گانہ نماز کا نظام 11 نبوی میں آ چکا تھا‘ جبکہ مطلقاً نماز تو اس سے پہلے آ چکی تھی۔ کیا کوئی شخص یہ باور کر سکتا ہے کہ تب وضو کا معاملہ نہ ہوگا؟ لیکن قرآن مجید کے الفاظ میں وضوکا جو حکم نازل ہوا وہ سورۃ المائدۃ میں ہے‘ جو 7ہجری میں نازل ہوئی۔ توکیا یہ پورا عرصہ یعنی سات برس مسلمانوں نے وضو کے بغیر نمازیں پڑھیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ دین کے عملی پہلو کے اعتبار سے بھی رسولؐ مقدّم ہے قرآن پر۔