(خصوصی رپورٹ) میٹ دی پریس - ابو ابراہیم

10 /

تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام پورے پاکستان میں26 فروری سے

7مارچ2023ء تک حیا اور ایمان مہم چلائی جائے گی ۔

ختم نبوت کے بعد اب امت ِ مسلمہ کے ذمے ہے کہ وہ نیکی کا

حکم دے اور برائی سے روکے ۔

مغربی تہذیب کے منفی اثرات اور نتائج ہمارے معاشرے

میں بھی سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں 

ہماری یونیورسٹیز میں آج جو کچھ پڑھایا اور سکھایا جارہا ہے

یہ مغربی تہذیب کا ہی شاخسانہ ہے ۔

امریکہ ، IMFسب کے آگے جھک کر دیکھ لیا ، اب ایک بار

سچے دل سے اپنے رب کے سامنے بھی جھک جائیں۔

 

کراچی پریس کلب میں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ کا27فروری2023ء کو ’’میٹ دی پریس‘‘ پروگرام سے خطاب

مرتب: ابو ابراہیم

 

سب سے پہلے میں پریس کلب کی انتظامیہ بالخصوص صدر کراچی پریس کلب محترم سعید سربازی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر ہمیں گفتگو کا موقع دیا ۔ محترم سعید صاحب نے کچھ اہم پہلوؤں پر توجہ دلائی ہے جن کے حوالے سےکچھ گزارشات پیش کریں گے لیکن اس میٹ دی پریس کا اصل مقصد یہ ہے کہ تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام پورے پاکستان میں26 فروری سے 7مارچ تک جو حیا اور ایمان مہم چلائی جائے گی آپ کے توسط سے اس حوالے سے پوری قوم سے اپیل کی جائے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے امتی ہیں اورختم نبوت کے بعد دین کو عام کرنے کی ذمہ داری اب اس امت کے کاندھوں پر ہے۔ چاہے وہ مسجد کا امام ہو، خطیب ہو، چاہے وہ ایک سکول کا استاد ہو،چاہے پروفیسرہو ،چاہے وہ پریس کلب کی ہماری انتظامیہ ہو، چاہے وہ ہمارے صحافی بھائی ہوں، چاہے وہ ہمارے رائٹرز، اینکر پرسنز ہوں ،آپ ﷺ کے اُمتی ہونے کی حیثیت سے اب ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے اور اسی کی یاد دہانی کے لیے تنظیم اسلامی اس مہم کا آغاز کر رہی ہے، جس کو ہم نے ’’حیا اور ایمان‘‘ مہم کا عنوان دیا ہے۔ قرآن حکیم میں سورہ آل عمران کی آیت110 میںفرمایاگیا:
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘ تم حکم کرتے ہو نیکی کا‘اور تم روکتے ہو بدی سے۔‘‘
اس امت کو ایک بڑے مشن کے لیےکھڑا کیا گیا۔ پہلے یہ ذمہ داری رسول اللہﷺ پرتھی ۔قرآن فرماتاہے :
{یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ} (الاعراف:157)’’وہ انہیں نیکی کا حکم دیں گے ‘تمام برائیوں سے روکیں گے ۔‘‘
آپ ﷺ معروف کا، نیکی کا ،بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے، بدی سے روکتے ہیں۔ ختم نبوت کے بعد اب امت کے ذمے ہے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے ۔ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں اور پریشان بھی ہیں ۔ میڈیا کے افراد ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔آئے روز ایسی خبریں آرہی ہیں، چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد انہیں بے دردی سے قتل کیا جاتاہے اور ان ننھے پھولوں کی لاشوں کو کچروں میں پھینک دیا جاتاہے ۔ تعلیمی اداروں کی حالت آپ کے، ہمارے سامنے ہے۔مخلوط نظام تعلیم ، کالجز یونیورسٹیز میں لڑکوں اور لڑکیوں کے آزادانہ اختلاط کے نتائج اس وقت پورا معاشرہ بھگت رہا ہے ۔ مادر پدر آزادی کے نعروں کے نتیجے میں آپ اور ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اسلام آباد کی ایک مشہور نجی یونیورسٹی میں بہن بھائی کے مقدس رشتے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ان مقدس رشتوں کے درمیان بدکاری پر تبصرہ مانگا جارہا ہے۔ اسی طرح لاہور کی ایک بڑی نجی یونیورسٹی میں ایسا شرمناک پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ۔ خواتین کے مخصوص ایام کے حوالے سے اور ناپاکی کے ان ایام کے گندے خون کو کپڑوں پر جمع کرکے دیواروں پر لگا کر پینٹنگ کے نام پر ایونٹ منعقد کرنا۔ اناللہ واناالیہ راجعون! یہ شیطانی تہذیب ، دجالی تہذیب اور بے خدا تہذیب کا راستہ ہے ، یہ سوشل انجینئرنگ کےنام پر مرد اور عورت کا آزاد اختلاط اور اس کے نتیجے میں باطل کی کوشش ہے کہ بات آگے سے آگے بڑھتی چلی جائے ، یہاں تک کہ پاکستان میں ٹرانسجینڈر ایکٹ پاس ہوگیا ۔ حالانکہ ہم جانتے بھی ہیں کہ اس کے نتیجہ میں ہم جنس پرستی عام ہوگی ۔
اس کا نتیجہ کیا ہے ؟ اللہ کے رسولﷺ کی حدیث ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ حیا اور ایمان دونوں ساتھی ہیں، اگر ایک چلاجائے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔(جامع ترمذی) اور دوسری حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب تم میں حیا نہ رہےتم جو چاہو سو کرو۔(صحیح بخاری) یعنی اس کے بعد اخلاق ، کردار اور تہذیب کی جو تباہی آئےگی وہ کم نہ ہوگی ، بلکہ بڑھتی چلی جائے گی ۔ مغرب کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ محرم نامحرم کی تمیزبھی ختم ہوگئی ۔ عالم اسلام کے بڑے عالم شیخ احمد دیدات نے جمی سواگارٹ (عیسائی ) کے ساتھ ڈائیلاگ میں فرمایا تھا : ’’ تم ایسے لوگ ہو جو کچرا اور گندگی دیکھتے ہو ، کچرا اورگندگی سنتے ہو،کچرا اور گندگی بولتے ہو،کچرااور گندگی تمہارے ذہنوں میں اتنی بھر چکی ہے کہ تم نے اسے بائبل میں بھی منتقل کردیا ہے ، تمہارے لٹریچر سے پتا چلتا ہے کہ تم نے بائبل میں محرم کے ساتھ بدکاری کے دس کیسز ڈال دیے ہیں اور اس کے بعد بھی تم کہتے ہو کہ یہ اللہ کی کتاب ہے ، حالانکہ ہم مسلمان نہیں کہتے ۔ ہم اس انجیل کومانتے ہیں جواصلاً عیسیٰ ؑ پرنازل ہوئی ۔ پھر احمد دیدات نے جمی سوا گارٹ کوکہاکہ کیاتم اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھ بائبل کا وہ حصے پڑھ سکتے ہو؟‘‘
یعنی جب حیا نہ رہے تو پھر معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ معاشرہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے ، خودکشیاں عام ہو جاتی ہیں ۔ اب تو مغرب کے سیانوں کو بھی سمجھ آنے لگی ہے ۔ گزشتوں دنوں روس کے صدر نے اپنی قوم سے ایک اہم خطاب میں کہا :’’مغربی تہذیب نے ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں کو خراب کیا ، اس نے ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کیا ، ہمارے نکاح کے بندھن کو توڑنے کی کوشش کی ۔ اس سے قبل سوویت یونین کے آخری صدر گورباچوف نے بھی یہی دہائی دی تھی ۔ اس نے کہا تھا:’’ جس عورت کو مغربی تہذیب نے گھر سے نکال کر سڑک پر لا کر کھڑا کر دیا ہے اس کو اب واپس اس کے اصل مقام یعنی گھر تک کیسے لے کر جائیں ، اس کے لیے ہمیں تحریک چلانی چاہیے ۔ ‘‘
اسی طرح اسٹیٹ آف دی یونین ایڈریس میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے وہ الفاظ ہمارے استاد ڈاکٹر اسرار احمدؒ بھی اکثرکوٹ کیا کرتے تھے۔ اس نے امریکی قوم کو خبردار کیا تھا کہ’’ عنقریب ہماری عظیم اکثریت ان بچوں پر مشتمل ہوگی جو نکاح کے بندھن کے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد بش کی وہ سٹیٹمنٹ بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس نے اپنی قوم کو دہائی دیتے ہوئے کہا تھا : ’’خدا کے واسطے شادیاں کرو، گھروںکو بسائواور گھروں کو مضبوط کرو۔‘‘
اسی طرح 2015ء میںصدر اوبامانے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کہا تھا کہ : ’’خدا کے واسطے گھر مضبوط کرو، ایک مضبوط گھر ایک مضبوط معاشرے کی ضرورت ہے اور ایک مضبوط معاشرہ مضبوط امریکہ کی ضرورت ہے۔‘‘
یہ مغرب کے لیڈروں کی اپنی قوموں سے اپیل ہے ۔ اگر ہم سمجھنا چاہیں تو سمجھ سکتے ہیں مگر اس کے برعکس آج پوری اُمت مسلمہ اسی دجالی اور شیطانی تہذیب کے فتنے میں مبتلا ہو چکی ہے ۔ اس گندگی کے اثرات مسلم معاشروں میں بھی موجود ہیں۔ کس قدر ہماری حیا کے جنازے نکلے ہوئے ہیں اور یہ بے پردگی ، فحاشی ، عریانی کافروغ اور نکاح جیسے پاکیزہ بندھن سے انکار کی باتیں دھڑلے کے ساتھ کرنا سب اسی شیطانی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے ہے ۔ کس طرح 8مارچ کو شرم و حیا کے جنازے نکالے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک بوڑھے شخص کو لا کھڑا کیا گیا جس نے معاذ اللہ نکاح جیسے پاکیزہ بندھن کا انکار کیا۔ یہ ہماری تہذیب کو، ہماری اقدار کو ، اسلامی تہذیب وتمدن کو چیلنج کیا جارہا ہے ۔ لہٰذا یہاں ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس شیطنت کے سیلاب کے آگے بندباندھنے کے لیے ہم کھڑے ہو جائیں ۔ آپ کے اس فورم سے پوری قوم تک ان شاءاللہ یہ میسج پہنچے گا۔ آپ کا یہ تعاون اصل میں آپ کی اور ہماری ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ ہم اپنے طور پر الیکٹرانک میڈیا پر، سوشل میڈیا پر، پرنٹ میڈیا میں جو بھی میسج پہنچا سکتے ہیں اس کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح جو بھی معاشرے میں بااثر افراد ہوتے ہیں، چاہے وہ تعلیمی اداروں کے سربراہان ہوں، ہماری سینٹ ، نیشنل اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ہوں،ہمارے آفیشلز ہوں، ججز ہوں ان سب تک بھی اپنا یہ مدعا مختلف ذرائع سے پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، خطبات جمعہ میں اور دیگر ذرائع سے تاکہ معاشرے میں حیا کے پروان چڑھانے اور بے حیائی کاراستہ روکنے کے حوالے سے ہم اپنی دینی ذمہ داریاں پوری کر سکیں ۔ ہمارا کوئی پولیٹکل موٹیو نہیں ، نہ کوئی کمرشل موٹیو ہے ۔ اصل میں یہ میری آپ سب کی دینی ذمہ داری ہے ، اس کو ادا کرنا ہم سب پر فرض ہے ۔ اسی فریضہ کی ادائیگی کی کوشش میں تنظیم اسلامی پاکستان نے ’’حیااور ایمان‘‘ مہم کا آغاز کیا ہے ۔
اگر ہم اس دینی فریضہ کو ادا نہیں کرتے تو سابق قوموں کا احوال ہمارے سامنے ہے جو قرآن مجید بار بار بیان کرتاہے ۔ اس میں قوم لوط کا بھی ذکر ہے جوبے حیائی اور گندگی کی ایک انتہا پر پہنچی اوراللہ نے اس قوم کو نشان عبرت بنایا۔اللہ نے اس قوم کو مختلف عذاب دیے ۔ اس کو اندھا بھی کیا ، اس بستی کو اُٹھا کر پٹخ دیا ، اس پر پتھر برسائے اور پھر اس کو بحرمردار میں غرق بھی کر دیا ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کسی قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے تو قتل وغارت گری بڑھ جاتی ہے اور اس قوم میں ایسی ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں کہ جس کا ذکر ہم پچھلی قوموں میں بھی نہیں پڑھتے۔(ابن ماجہ)
دنیا میں کچھ فزیکل لاز ہیں، دنیا میں زلزلے آتے ہیں ، طوفان آتے ہیں، سیلاب آتے ہیں، یہ فزیکل لاز بھی ہیں۔ مگر کچھ میٹا فزیکل لاز بھی ہوتے ہیں۔ قوموں کے اخلاق اور کردارکے بگاڑ کے نتیجے میںبھی ان پر عذاب آتے ہیں ، شعیب ؑ کی قوم پر ناپ تول میں کمی کی وجہ سے زلزلہ آیا ۔لوط ؑ کی قوم ہم جنس پرستی، بےحیائی کی گندگی کے عمل کی وجہ سے عذاب کا شکار ہوئی ، اسی طرح فرعون اور اس کی قوم پر عذاب ان کے بگاڑ کی وجہ سے آیا ۔ اللہ کی کتاب بتاتی ہے، پیغمبر وںؑکی تعلیم بتاتی ہے کہ قوموں کے اخلاق اور کردار کے بگاڑ کے نتیجے میں بھی تباہی ان پر مسلط کی جاتی ہے۔
ہم محمد مصطفی ﷺ کے امتی ہیں ۔ آپﷺ کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ وہ ایک پردہ کرنے والی کنواری لڑکی سےبھی زیادہ حیا کرنے والے تھے۔ حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ نے فرمایا تھا:میرا جنازہ بھی اٹھانا تو رات کی تاریکی میں اٹھانا۔ آج امت کی بیٹیوں کو بی بی فاطمۃ الزہرا ؑ کی چادر یاد دلانے کی ضرورت ہے۔البتہ جب حیا کی بات ہو تو حیا کا تقاضا صرف عورت سے نہیں مرد سے بھی ہے۔ نگاہ کی حفاظت کے لیےقرآن (سورہ نور:30) پہلے مرد کو تعلیم دیتا ہے اور پھر عورت کو تعلیم دیتاہے ۔ لباس باوقار ہو، جسم کو چھپانے والا ہو، یہ ہدایت مرد کے لیے بھی ہے اور عورت کے لیے بھی۔اسی طریقے پر نکاح کا پاکیزہ بندھن مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے ۔ اسی طرح محرم اور نامحرم کا فرق رکھا گیا ، سترو حجاب کے احکامات عطا کیے گئے ۔ عورت کو گھر کی ملکہ بنایا گیا ۔ اسلام کیا خوبصورت دین ہے جو عورت کو کتنی پروٹیکشنز دیتا ہے، بیٹی ہے تواس کی حفاظت ، کفالت باپ کی ذمہ داری ہے ، بیوی ہے تو شوہر کی ذمہ داری ہے ، بہن ہے تو بھائی کی ذمہ داری ہے ، ماں ہے تو بیٹوں کی ذمہ داری ہے ۔ دادا ، چچا ، نانا، ماموں سب رشتے عورت کا خیال رکھنے کے لیے ہیں ۔ کوئی ایک مرحلہ ایسا نہیں آتا کہ عورت پر معاش کی ذمہ داری ڈالی گئی ہو گی۔ اس لیے کہ عورت کا اصل کام گھر کو سنبھالنا ہے اور اولاد کی اچھی تربیت کرنا ہے ۔ نپولین کو تو سب کوٹ کرتے ہیں اُس نے کہا:’’ تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دینے کو تیار ہوں۔‘‘ ہم تو دین کی بات کرتے ہیں اور ہمارا دین سکھاتا ہے کہ عورت کی اصل ذمہ داری گھر کی ہے ۔ علامہ عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا حضرت! ایسی کیا بات ہے کہ اللہ نے کبھی کسی عورت کو نبی نہیں بنایا؟ توانہوںنے بڑا پیارا جواب دیا کہ بیٹا! مرد رسولؑ بنتے تھے، عورت رسولؑ جنتی تھی۔ سوائے آدم ؑ کے تمام انبیاء کرام ؓ ماں کی گود میں پیدا کیے گئے۔
عورت کو گھر کی ذمہ داری دی گئی تاکہ وہ اپنی اولاد کو وقت دے کر بہترین نسل تیار کر سکے ۔ مگر آج مغربی تہذیب کی وجہ سے اتنا بڑا رول چھن گیا ۔ CNNپر ایک یورپی عورت کا انٹرویو نشر ہوا جو فحش انڈسٹری میں کسی طرح زندگی گزار چکی تھی ۔ اس سے پوچھا گیا : کیا یہی رول تم اپنی بیٹی کے لیے پسند کرو گی ؟ کہا: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، میں بھگت چکی ہوں۔پوچھا گیا پھراپنی بیٹی کے لیے کیاپسند کرو گی؟ کہا : میری بیٹی ڈاکٹر بن جائے ، کوئی باعزت کام کرے تاکہ اس کو شوہر کی پروٹیکشن مل جائے ۔ گویا مغرب کی عورت بھی اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے ۔
ہم تو خالق کائنات کے ماننے والے ہیں۔ہمیں مخلوق کے تجزیوں کی زیادہ ضرورت نہیں، اس خالق کاکلام قرآن پاک ہمارے پاس موجود ہے اور اس خالق کے آخری پیغمبرﷺ کی تعلیمات ہمارے پاس موجود ہیں ۔ ان تعلیمات کی روشنی میں ہم نے اپنی زندگیوں ، اپنے گھر بار ، اپنے معاشرے قائم کرنا ہیں ۔ یہ ہماری ذمہ داری تھی مگر آج سوشل انجینئرنگ کے ذریعے ذہنوں کو خراب کیا جارہا ہے ، ہماری نسلوں کو تباہ کیا جارہاہے ۔ ہمیں اس شیطانی یلغار کا جواب وحی کی تعلیم کی روشنی میں دینا ہے ۔ اس کے لیے تنظیم اسلامی اس مہم کو لے کر چل رہی ہے۔ یہی ہماری مہم کے اغراض و مقاصد ہیں جو آپ کے سامنے رکھ دیےہیں ۔
گزارشات
محترم سعید سربازی کی طرف سے کچھ باتوں کی توجہ دلائی گئی ہے اب اس حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنا مقصود ہے ۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس ملک میں قرارداد مقاصد پاس ہوگئی جس میں لکھا ہوا ہے اس ملک میں حاکمیت اعلیٰ  صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی ۔ مجھے ان دینی یا سیاسی جماعتوں سے اختلاف ہے جو کہتی ہیں کہ عوام کی حکمرانی ہونی چاہیے ۔ حالانکہ ہم نے کلمہ پڑھ کر ہینڈز اپ کر دیا ہے کہ نہیں حکمرانی صرف اللہ کی ہوگی ۔ اللہ تین دفعہ قرآن میں فرماتاہے : 
{اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط}(یوسف:40) ’’اختیارِ مطلق تو صرف اللہ ہی کاہے۔‘‘
ہم خلیفہ ہیں ، اللہ کے نمائندے ہیں ، ہم نے آئین میں  طے کر دیا کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی اور قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی۔ اب یہاں سوال پیدا ہوگا کہ کس کا قرآن و سنت ؟ شیعہ کا یا سنی کا ؟ اگر سنی کا تو بریلوی ، دیوبندی ، اہلحدیث میں سے کس کا ؟ اس کا جواب1951ء میں ہی31علماء کے 22نکات کی صورت میں دے دیا گیا ۔ ان علماء میں تمام مکاتب فکر کے چوٹی کے بڑے علماء شامل تھے اور انہوں نے 22نکات میں طے کر دیا کہ ان اصولوں کے مطابق ہم سب کا نفاذ اسلام پر اتفاق ہے ۔
میں آپ کو ایک اور خوش خبری سنا دوں کہ2018ء میں پاکستان کے تمام بڑے مکاتب فکر (دیوبندی، بریلوی،اہل حدیث ،جماعت اسلامی، شیعہ) کے بورڈز نے اتحاد تنظیمات مدارس کے تحت ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں ہر مکتب فکر سے ایک عالم کو لیاگیا، مجھے بھی دی علم فاؤنڈیشن کی نمائندگی کے لیے اس کمیٹی میں شامل کیا گیا ۔ کل سات رکنی کمیٹی نے الحمد للہ تین سال کی محنت سے قرآن کا وہ سلیبس تیار کیا جس پر تمام مکاتب فکر متفق ہیں ۔ 28 جنوری 2020ءکو اس نصاب کو منظور کر لیا گیا ۔ اب یہ نصاب پنجاب اور KPK کے سکولوں اور تعلیمی اداروں میں پڑھایا جا رہا ہے۔
اگلی بات تھی ہمارے کردار کامسئلہ۔ بالکل صحیح بات ہے۔ ہمارے دعوے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں مگر ہماری مارکیٹ کیا کہتی ہے۔ ہمارے دعوےہیں ہم محمدرسول اللہﷺ کو مانتے ہیں مگر ہمارے کردار کیا گواہی دیتے ہیں۔ ہمارے شادی بیاہ کے مواقع پر کیا ہوتا ہے؎
وضع میں تم ہونصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
علامہ اقبال نے سچ کہا تھا۔ ہمارا کردار ہمارے قول اور دعوے کی گواہی نہیں دیتا ۔ بالکل صحیح بات ہے ۔ اس طرف ہم نے توجہ دلانی ہےمگر اس کا طریقہ کیا ہونا چاہیے ۔ تنقید برائے تنقید تو سبھی کر رہے ہیں ۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ سبھی لوگ غلط ہیں ،اچھے لوگ بھی ہر شعبے ، طبقے اور جماعت میں ہوتے ہیں ۔
تنظیم اسلامی پاکستان میں اسلامی نظام کو قائم و نافذ کرنے کی مستقل جدوجہد کر رہی ہے۔ ہمارے پیش نظر تحریک کا راستہ ہے، انقلابی جدوجہد کا راستہ ہے، منکرات کے خاتمے کے لیےجدوجہد کرنا اور شریعت کے نفاذ کے مطالبے کولے کر کھڑےہونا ہمارے پیش نظر ہے۔ دین کے لیے پُرامن ، منظم جدوجہد ہمار امقصد ہے ۔ ہم سب مسلمان ہیں، ایک اللہ اور رسول ﷺ کو ماننے والے ہیں ، اس بنیاد پر ہمیں مل کر اللہ کےدین کو نافذ کرنے کی کوشش کرنی ہے ، اسی دین کی دعوت کو آگے بڑھانا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے ، اگر ہم نے اسی بنیاد پر اپنی عمارت کھڑی کرنے کی کوشش نہیں کی تو یہ کبھی مستحکم نہیں ہوگی۔ ہم سب کی زبانیں مختلف تھیں ، کلچر،ڈریس کوڈ ، جغرافیائی خطے ، سب کچھ مختلف تھا ، ہمیں جوڑا تھا تو صرف اسلام نے مگر جب اسلام کو چھوڑ کر زبانوں کے پیچھے پڑ گئے تو 1971ء میں ہم نے مشرقی پاکستان کھو دیا ۔ اگر اسلام کو چھوڑ دیا تو مزید ٹکڑے ہو سکتے ہیں ۔اسلام کے ساتھ مخلص ہوں گے یہ ملک مستحکم ہوگا ۔ جان کیری نے کہا تھا فوج پاکستان کی بائنڈنگ فورس ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کی بائنڈنگ فورس کلمہ ہے ، اسلام ہے ، ایمان ہے اور تنظیم اسلامی کی اس مہم میں ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرما دیا حیا بچے گی توایمان ہوگا ، اگر حیا نہیں تو حضورﷺ نے فرمایا کہ جو چاہو سو کرو ۔پھر جو کرو گے وہ کم ہوگا ، جو تباہی آئے گی وہ نہ کم ہوگی، پھر وڈیروں کی نجی جیلوں میں انسانیت کے ساتھ ظلم بھی ہوگا ، کرپشن ، لوٹ مار ، قتل و غارت گری سب کچھ ہوگا ، مافیا ، اشرافیہ کے لیے سارے شہر کو بند کر دیا جائے گا اور کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا ۔ آنے والوں نسلیں  مزید تباہی ، اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو جائیں گی ۔ اب حال کیا ہے ؟
وہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتا ہے
ہزارسجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ہماری فوج ہو، حکمران ہوں، ہمارے سیاست دان ہوں یا عوام ہو ایک دفعہ سنجیدگی کے ساتھ اللہ کے سامنے جھک جائیں ۔ واشنگٹن کے آگے تو ہم بہت جھک گئے ، چائنہ اور روس کو بھی دیکھ لیا ، اسلام کا سوفٹ امیج پیش کرکے بھی دیکھ لیا ، میراتھن ریس بھی کروالی باطل کو راضی کرنے کے لیے ، مگر ہمارے حالات نہیں سدھرے ، اب ایک بار اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کردیکھ لو ۔ ان شاء اللہ ہمارے معاملات سدھر جائیں گے ۔