(اداریہ) اسلام مکمل ضابطہ ٔ حیات کیسے؟ - ایوب بیگ مرزا

10 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزااسلام مکمل ضابطہ ٔ حیات کیسے؟

سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز کی آئینی مدت میں لازماً انتخابات کرائے جائیں، پاکستان میں آئینی بحران کو تو وقتی طور پر ٹال دیا ہے اگرچہ حکومت وقت نے چند گھنٹوں کے لیے اس فیصلے کو توڑنے مروڑنے کی کوشش کی اور مختلف تاویلات کرنا شروع کر دیں۔ لیکن وہ آئینی اور قانونی ماہرین کی عظیم اکثریت کے سامنے بے بس ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فریقین سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو دل سے تسلیم کرکے ان دونوں صوبوں میں انتخابات میں بھرپور حصہ لیں تاکہ جمہوری پروسیس آگے بڑھے۔ اگرچہ اس طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ حکومت معاشی بدحالی کی آڑ میں ملک میں ایمرجنسی لگا رہی ہے، جس سے وہ کہہ سکے گی کہ اُس کے پاس انتخابات کروانے کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ ملکی سلامتی پر خود کش حملہ ہوگا۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو۔
آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ تنظیم اسلامی کے بانی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ جمہوریت کو پاکستان کی ماں اور اسلام کو پاکستان کا باپ کیوں کہتے تھے؟ حقیقت یہ ہے ہم بڑے جذباتی انداز میں کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اگرچہ یہ بالکل درست ہے لیکن یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ پاکستان بنانے کے لیے لائحہ عمل یا طریقہ کار کیا اختیار کیا گیا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بنانے کے لیے ووٹ کا استعمال ہوا۔ یاد رہے 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی نے پاکستان کا قیام ممکن بنایا۔ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ جب پاکستان قائم ہوگیا تو اس کا قائم رہ جانا اور اس کا مضبوط و مستحکم ہونا ایک ناقابل تقسیم وحدت بن کر سامنے آئی یعنی جمہوریت اور اسلام پاکستان کے حوالے سے ایک organic whole کی صورت میں ہے، جس کے لیے ماں اور باپ دونوں کا رول بڑا اہم ہے۔ البتہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ باپ کی حیثیت قوام کی ہوگی۔ یا ماں کے رول کو باپ کے رول میں ضم ہو جانا ہوگا گویا جس طرح اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کی کفالت اور حفاظت کرے۔ اسی طرح اس کا ایک انتہائی اہم فرض ہے کہ وہ اپنے عوام کو حق رائے دہی دے اور ایک مقررہ وقت کے بعد عوام کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اجتماعی خلافت جو اُنہیں ریاست کے شہری ہونے کی حیثیت سے حاصل ہوئی ہے وہ اُس خلافت کو بروئے کار لانے کے لیے کس کو اپنا نمائندہ طے کرتے رہیں۔ تاکہ اقتدار کی رسہ کشی قتل و غارت گری کی صورت اختیار نہ کرسکے۔ تب ہی ہم یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ کو اُس کا حق ادا کرتا ہے۔ لہٰذا فرد کو انصاف کے ساتھ اُس کے معاشی ہی نہیں سیاسی حقوق بھی حاصل ہوں۔
اس تمہید کے بعد آئیے پاکستان کے موجودہ آئینی، سیاسی اور معاشی بحران کی طرف۔ جہاں تک آئینی بحران کا تعلق ہے اگر ہماری نیتوں میں خلوص ہے تو سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے آئینی بحران تو مکمل طور پر ختم ہو جانا چاہیے لیکن اگر سیاست دان خصوصاً حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے گریز کرتی ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے انتخابات کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہے تو ملک کی سلامتی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا، سیاست بازاروں میں آکر خون خرابے کا باعث بن سکتی ہے۔ پہلے اس نکتہ پر بات کر لیتے ہیں کہ گزشتہ سال جمہوری راستے سے ہٹ کر ہم نے اپنا کیا نقصان کیا؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ پچھلی حکومت کو جمہوری طریقے سے گھر بھیجا گیا، یعنی اُن کے خلاف ایوان نے تحریک عدم اعتماد منظور کی۔ یقیناً پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کرنا جمہوری طرز عمل ہے۔ لیکن اُس عمل میں دو بہت بڑی غلطیاں ہوئیں ایک یہ کہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے حکومتی جماعت کے قریباً 20,25 افراد کو سندھ ہاؤس میں اپوزیشن نے بند کر دیا۔ جو ایک انتہائی غیر جمہوری فعل ہے۔ ظاہر ہے کوئی لین دین ہوا ہوگا لیکن اگر لین دین نہیں بھی ہوا ہو تو بھی ہمارے آئین کے مطابق اٹھارویں ترمیم میں یہ بات طے کر دی گئی تھی کہ کسی جماعت کا اسمبلی رکن اپنے قائد کی مرضی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا۔ پھر یہ کہ اگر تحریک عدم اعتماد آئین کی شقات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اُن پر عمل کرتے ہوئے منظور کی گئی تھی تو تمام پارلیمانی جمہوری ممالک میں یہ روایت ہے کہ فوراً نئے انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ لیکن گیارہ ماہ گزرنے کے باوجود قومی اسمبلی کے انتخابات دور تک نظر نہیں آتے جس سے ناقابلِ یقین نقصان ہوا اور ملک آج بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پس رہے ہیں۔ اگر گزشتہ اور موجودہ سال کا معاشی تقابل قارئین کے سامنے آجائے تو اُنہیں معاشی تباہی کا صحیح اندازہ ہوسکے گا۔ چاول کی دیگ سے چند دانے چیک کر لیتے ہیں مثلاً ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ اپریل میں 17،18 ارب ڈالر تھے جو اب چار ارب ڈالر سے بھی کم ہیں۔ اُس وقت ڈالر 178 روپےکا تھا، آج 300 کے لگ بھگ ہے۔ مہنگائی کی شرح اُس وقت 13% کے قریب تھی جو آج 35% کے قریب ہے۔ گویا گزشتہ ایک سال میں اقتصادی تباہی مچ گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف اندرون ملک سے نہیں ہوا تھا بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہا اور مفلوج کرنے کے لیے ایک کھیل کھیلا گیا۔ پاکستان جو امریکہ کے چُنگل سے نکل کر چین اور روس کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن راتوں رات ہماری خارجہ پالیسی کی قلابازی لگوا دی گئی۔ اسی لیے اس کو حکومت کی تبدیلی نہیں کہا جاتا بلکہ رجیم چینج کہا جاتا ہے۔ بہرحال ہم امریکہ سے دور ہوتے ہوتے یکدم دوبارہ اُس کی گود بلکہ اُس کے پاؤں میں جاگرے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ایٹمی قوت امریکہ، مغرب اور اُس کے حواریوں کو کسی طرح گوارا نہیں۔ لہٰذا ایک پلان کے ذریعے پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے کمزور سے کمزور تر بلکہ کمزور ترین کرنے کا منصوبہ تیار ہے کہ پاکستان میں بھوک اور افلاس پیدا کرکے صورتِ حال اتنی بگاڑ دو کہ وقت کے حکمران یہ سمجھ سکیں کہ اب ہمارے پاس زندہ رہنے کا صرف یہ آپشن ہے کہ ہم اپنے ایٹمی ہتھیار سرنڈر کر دیں اور اس راستے میں حائل ہونے والی اندرونی قوتوں کو ظلم اور جبر سے کچل دیا جائے۔ یہ جو IAEA والے پاکستان کے چکر لگا رہے ہیں اور وزیراعظم کی سطح کے لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں یہ بلاجواز نہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ معلوم ہوتا ہے کہ Rothschild فیملی کی انتظامیہ یہ کام اپنے ہاتھ لے چکی ہے۔ اس انتظامیہ کے انتہائی اہم نمائندے ایرک لالو پاکستان کا چکر لگا چکے ہیں اور وزیراعظم سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہی وہ فیملی ہے جس نے بالفورڈ ڈیکلریشن کے ذریعے فلسطین کو فلسطینیوں کے لیے جہنم بنا دیا ہوا ہے۔ اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ایٹمی تنصیبات فوج کی دسترس میں ہیں اور فوج سمجھتی ہے کہ دشمن خاص طور پر بھارت کو جنگ سے دور رکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ ہم اُسے اپنے ایٹمی دانت دکھاتے رہیں۔ جنگ روکنے کا یہی بہترین طریقہ ہے وگرنہ بھارت ہمارے گلے جنگ ڈال دے گا۔ امریکہ بھی ہماری ایٹمی تنصیبات کے حوالے سے ایک عرصہ سے گھات لگائے ہوئے ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ کسی وقت یہ طاقت اسرائیل کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ اندرون ملک جو سیاسی انتشار پیدا کیا گیا ہے اُس کا مقصد بھی یہی ہے کہ پاکستان کو ہر لحاظ سے اتنا کمزور کر دو کہ ان تنصیبات سے وہ خود جان چھڑانے کی کوشش کرے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت ایک ایسی حکومت ملک میں قائم ہو جسے عوام کا اعتماد حاصل ہو اور اُسے یہ بھی یقین ہو کہ اُس کے پاس پاکستان میں اپنے منشور کی تکمیل کے لیے پانچ سال تو لازماً ہیں تاکہ وہ شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرکے پاکستان کے دشمنوں کے دانٹ کھٹے کرے۔
درحقیقت ہمارے مسائل کا اصل اور واحد حل یہ ہے کہ ہم اسلام کے عادلانہ نظام کو پاکستان میں قائم کریں اور عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کو خوش اسلوبی سے ادا کریں یعنی جس طرح روٹی، کپڑا، تعلیم، صحت اور مکان عوام کا حق ہے جسے ریاست کو ادا کرنا ہے۔ اسی طرح اُسے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی پوری آزادی حاصل ہو کیونکہ یہ بھی اسلامی ریاست کے شہری کا بنیادی حق ہے۔ گویا پاکستان کے قائم رہنے اور مضبوط و مستحکم ہونے کے لیے ماں اور باپ دونوں کو ایک اکائی بن کر کام کرنا ہوگا۔ تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ اسلام واقعتاً مکمل نظامِ حیات ہے۔