مغرب خودتو معاشرتی طور پرپوری طرح سے تباہ ہو چکا ہے ،
اب وہ چاہتا ہے کہ ہمیں بھی تباہ کر دیا جائے : خورشید انجم
مغرب اور اس کے ایجنٹ بے حیائی کو فروغ دے کر مسلمانوں کو
بے حس ، بے حمیت اور غیرت سے خالی کرنے کے ایجنڈے پر
عمل پیرا ہیں : آصف حمید
یہ قومی المیہ ہے کہ ہمارے کالجزاوریونیورسٹیز میں
LGBTQ+ and Transgenderismپرباقاعدہ لکچرز
ہورہے ہیں : رضاء الحق
تنظیم اسلامی کی حیااورایمان مہم کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میںمعروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: قرآن وحدیث کی روشنی میں حیا کی تعریف کیا ہے ؟
خورشیدانجم:لغوی اعتبار سے حیا وقار،متانت اورسنجیدگی کوکہتے ہیں۔اصطلاحی مفہوم میں حیا وہ خوبی اوروصف ہے جوانسان کوکسی منکر،کسی قبیح یا کسی برے کا م سے روکتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کواشرف المخلوقات پید اکیاہے اوراس کے اندر کچھ خوبیاں رکھی ہیں انہی میں سے ایک حیا ہے ۔ حدیث میں آیاہے کہ ایک شخص بہت شرم والاتھاتواس کے بھائی نے اس سے کہاکہ اتنی شرم نہ کیاکروتورسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:اس کوچھوڑ دو کیونکہ یہ شرم ایک اچھی صفت ہے، یہ خیرہی لاتی ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: حیا خیر ہی خیرلاتی ہے۔آپﷺ نے فرمایا:جس چیزمیں حیا ہو گی وہ اسے خوبصورت بنادے گی ۔اور جہاں بے حیائی ہوگی وہ اسے بدصورت بنادے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حیایہ ہے کہ سراوراس کے اندر والی جگہ کی حفاظت کی جائے اوراسی طرح پیٹ اورا س کے اندر کی حفاظت کی جائے اورموت کاتذکرہ بکثرت کیاجائے یعنی موت کو یاد رکھاجائے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:ایمان کی 60سے زیادہ شاخیں ہیں اورحیابھی ایمان کی ایک شاخ ہے ۔ قرآن مجید نے بھی حیا کے وصف کو بڑے اچھے انداز میںبیان کیا ہے : ’’اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی کہنے لگی کہ میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں ۔‘‘ (القصص:25)
یہ ایک وصف ہے جو انسان کے اندر ہوناچاہیے ۔ ہمارے ہاں یہ صرف عورتوں کاوصف سمجھاجاتاہے ۔حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جہاں نگاہ نیچی رکھنے کا ذکر کیاگیاوہاں پہلے مردوں کومخاطب کیاگیاپھرعورتوں کا ذکر کیاگیا۔تواس حوالے سے یہ مردوعورت دونوں کی بنیادی خوبی ہے اور دونوں سے ہی حیا کا تقاضا ہے ۔
آصف حمید:حیاا صل میں کسی برے یاقبیح عمل سے جھجک کانام ہے اورجب حیا نہ رہے تو وہ بے حیائی ہے ۔ حیا اگر کردارمیں سے ختم ہو جائے تویہ چیز فحاشی کی طرف لے جاتی ہے اوراگر وہ کاروبار میں ختم ہوجائے تویہ چیز انسان کو بے ایمانی کی طرف لے جاتی ہے ۔ اسی طرح حیا اگر آمدنی کے حوالے سے ختم ہوجائے توپھرانسان رشوت، بھتے وغیرہ میں ملوث ہوجاتاہے ۔ حدیث یہ ہے کہ اگر توحیا نہیں کرتاتوپھرجوچاہے کر۔ گویااگر تمہارے اندر جھجک ختم ہوگئی توپھرتم کچھ بھی کر سکتے ہو۔ ہم بنیادی طور پرجس حیا کی بات کررہے ہیں وہ فحاشی تک پہنچ چکی ہے اورآگے وہ زنا کے پاس کھڑی ہوئی ہے ۔پاکستان میں زندگی کے ہرمعاملے میں حیا ختم ہوچکی ہے جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔تنظیم اسلامی کی حیامہم اسی حوالے سے شروع کی گئی ہے ۔
سوال:ماضی قریب سے ایل جی بی ٹی پلس کاایجنڈہ پوری دنیا میں چل رہاہے، اسے پاکستان میں بڑے زور و شور سے متعارف کروانے کی کوشش کی گئی۔ پھر یہاں ٹرانسجینڈر قانون کومتعارف کرایاگیا،اس کے ذیل میں جنسی بے راہ روی اورہم جنس پرستی کے حوالے سے جو باتیں ہو رہی ہیں اس ضمن میں تنظیم اسلامی کاکیاموقف ہے ؟
رضاء الحق:LGBTQ+کی تاریخ کو دیکھیں تو1979ء میں سیڈا کنونشن آیا تھا جس کا عنوان تھا: "Convention for elimination of all kinds of discrimination against women."افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا پاکستان بھی signatoryہے ۔ اس میں عورتوں اور مردوں کوبالکل برابر قرار دیا گیا تھا اور پھر خواتین کے حقوق کے نام پرعالمی سطح پر چار کانفرنسز میکسیکو، نیروبی،کوپن ہیگن اوربیجنگ میں منعقد کی گئیں ۔ درمیان میں قاہرہ کانفرنس ہوئی اور پھر بیجنگ پلس فائیوکانفرنس ہوئی جوکہ اقوام متحدہ کے تحت کی گئی ۔ یہ سارا ایجنڈہ جب آگے بڑھناشروع ہواتو اس کی آڑ میں بے راہ روی اورفحاشی کو پھیلانے کی نت نئے انداز میں کوشش کی گئی، اسی کے مختلف شیڈز آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دیے اوروہ شیڈز زیادہ واضح ہوکرسامنے آئے جب 2006ء کے آخر میں انڈونیشیا کے شہریوگیاکارٹا میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں کچھ اصول جنسی رجحان اور جینڈر شناخت کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی دو جنسہ کو سامنے رکھ کرترتیب دیے گئے اور پھر ٹرانسجینڈر ہی وہ T ہے جس کے تحت پاکستان میں باقاعدہ ایک قانون سامنے آ گیا اوروہ قومی اسمبلی ،سینٹ سمیت صدرمملکت کے دستخط کے ساتھ قانون کا حصہ بن گیا۔ایک ہے قانون بن جاناپھراس کے اوپرعمل داری شروع ہوگئی ۔چنانچہ نام نہاد ٹرانسجینڈروں کے لیے ملکی ادارے سرگرم ہوگئے ۔ نادراکے آفس سے لے کر پولیس کے محکمہ میں ان کے لیے آسامیاں نکال دی گئیں ۔ حتیٰ کہ کچھ ماہ پہلے سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں ٹرانسجینڈر زکے لیے علیحدہ سیٹس رکھ دی گئیں ۔ پھر جوائے لینڈ جیسی فلمیں سامنے آئیںجن کومیڈیا میں پروموٹ کیا جا رہاہے۔ پچھلی اورموجودہ حکومت کے وزراء نے اس کو پروموٹ کیا ۔ پھر8مارچ کوعورت مارچ کے نام سے ایک پورا دن منایاجاتاہے اورتقاریب ہوتی ہیں ۔اس میں شروع میں انہوں نے عورتوں کے حقوق کانام لیناشروع کیا، پھر اسلامی شعائرپرحملے شروع کردیے اوربالآخر اب یہ بات LGBTQ+ اورٹرانسجینڈر کے حقوق تک پہنچی ہے ۔
تنظیم اسلامی مختلف وقتوں میں ان خرافات کے خلاف آگاہی منکرات مہم چلاتی ہے۔ اب وفاقی شرعی عدالت میںٹرانسجینڈر قانون کے خلاف جو پٹیشن موجود ہے تنظیم اسلامی بھی بطور پیٹیشنر اس میں شامل ہوچکی ہے۔ ابھی28فروری کواسلام آباد میں اس کی سماعت تھی۔ ہمارے کچھ دینی رجحان رکھنے والے لوگ جواسمبلیوں میں بھی موجود ہیں،انہوں نے تجویز دی ہے کہ اس قانون کو تبدیل کرکے(انٹر سیکس طبقہ) جو واقعی حفاظت کے مستحق ہیں ان کے لیے نیا قانون بنایا جائے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ٹرانسجینڈر قانون کے ذریعے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے۔
سوال:آج کل پاکستان کے معاشی حالات اتنے برے ہیں، جتنے تاریخ میں پہلے کبھی نہیں تھے لیکن حکومت پنجاب 5تا16مارچ جشن بہاراں منارہی ہے جس میں پاکستان کے علاوہ ازبکستان، تاجکستان کے کھلاڑی اور فنکار پرفارم کریں گے۔ان تمام چیزوں کے لیے رقم کہاں سے آتی ہے ؟
آصف حمید:قرآن مجید کی ایک اصطلاح ’’اللغو‘‘ ہے۔ وہ عمل یاوہ تفریح جو انسان کواللہ سے دور کردے وہ لغو ہے ۔ اہل ایمان کے بارے میں کہا گیا:
{وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(3)} (المومنون) ’’اورجو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں۔‘‘
اس وقت دنیامیں برائی کوپھیلانے کے لیے ایک گلوبل ایجنڈا چل رہاہے جس کی بڑی جہتیں ہیں۔ سب سے بڑا ہتھکنڈا معاشی ہے کہ انسان پر معاش اتنی تنگ کر دی جائے کہ اس کو اس کے علاوہ کوئی چیز سوجھے ہی نہ۔ یعنی اسلام، دین، اخلاقیات وغیرہ کی طرف ان کی توجہ ہی نہ جائے۔ اگر کوئی تھوڑا وقت مل بھی جائے تو اس میں سمارٹ فون پر وہ ایسی چیزیں دکھا رہے ہیں جن سے انسان کاذہن برائی ہی کی طرف مائل ہوتا جاتاہے ۔پاکستان کے مسلمانوں کے پاس واحد ایک چیز بچ گئی تھی وہ ان کا خاندانی نظام تھا۔ مغرب کو خوف لاحق تھاکہ کہیں اس سے اسلام کی روایات دوبارہ زندہ نہ ہوجائیں ۔ اس خاندانی نظام کوتوڑنے کے لیے مغرب پے در پے حملے کر رہا ہے اوراس کے لیے وہ ملین نہیں بلکہ بلین ڈالرز خرچ کرتے ہیں۔ مغرب والوں کو پتاہے کہ اگر ہم مسلمانوں کے اندر سے حیا نکال دیںتوان کو ہم قابو کرلیںگے ۔اسی کے مظاہر ہیں کہ جب پاکستان میں اسلام پر حملے کرنے ہوں تو مغربی این جی اوز پوری طاقت کے ساتھ سڑکوں پرہوتی ہیں۔ ان تمام این جی اوز کی فنڈنگ عالمی سطح پر ہوتی ہے اوران کے پیچھے شیطانی اور دجالی ایجنڈے ہیں۔وہ پیسے دے کر دین بے زار سیکولر ذہن رکھنے والے لوگوں کو ایجنٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔یہ ایک خوفناک ایجنڈا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے میڈیا پر کتنا خرچ کیا ہے اور اسی دور میں پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی بھر مار شروع ہوئی جو امریکہ کابیانیہ کھلم کھلایہاںبیان کرتے رہے اور افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کو جائز اور درست قرار دیتے رہے ۔ بعض چینلز کو انڈین فنڈنگ بھی ہوتی رہی ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ میڈیا نے ہماری معاشرتی جڑوں کو بھی کھوکھلا کیا ۔ اس وقت ترکی اور شام میں زلزلے سے تباہی آئی ہوئی ہے ، مسلمان سخت تکلیف میں ہیں اوردوسری طرف پاکستان میںPSLہورہا ہے اور اس PSLکی سپانسرز وہ کمپنیاں ہیں جو جوے وغیرہ کراتی ہیں اس کے ساتھ بے حیائی بھی پھیلائی جارہی ہے۔ پھر پاکستانی چینلز پرجوڈرامے دکھائے جاتے ہیں انہوںنے رحمی رشتوں تک کے تقدس کو پامال کردیاہے۔جب سے یہ LGBT+ کا معاملہ آیا ہے تو امریکہ نے تقریباًدوسوملین ڈالرزاس فتنے کو پروموٹ کرنے کے لیے مختص کر دیے ہیں۔ اب اس پر اشتہار اور ڈرامے بننا شروع ہوگئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے ایمان فراموش لوگ موجو دہیں جن کو ڈالرز نظر آتے ہیں تو آگے بڑھ کرسرگرم ہوجاتے ہیں ۔جب ہمارے اپنے معاشرے کے لوگ یہ کا م کریں گے تواس سے زیادہ motivation ملتی ہے۔اسی طرح ناچ گانے کو پہلے قابل نفرت سمجھاجاتا تھااورایسے کاموں میں ملوث افراد کو بُرا جانا جاتا تھا لیکن آج اُن کو ہیروز بنایا جاتا ہے ، یہ ایسے ہی نہیں ہوا بلکہ اربوں ڈالرزاس پرخرچہ ہواہے ۔ سونیاگاندھی نے 20سال پہلے کہا تھاکہ ہم نے پاکستان کو ثقافتی لحاظ سے فتح کر لیاہے ۔ آج ہر بندے کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے جہاں دجالی تہذیب کو پروموٹ کیا جارہا ہے ۔ یہ مسلمانوں کو بے حس ، بے حمیت اور غیرت سے خالی کرنے کا ایجنڈا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاںکوئی بھی غیراسلامی قانون بن جائے توعوام پراس کا اثر نہیںہوتا۔ ہمیں پتا نہیں لگ رہا ہے کہ یہ بے حیائی اورفحاشی ہمارے گھروں کے اندر تک پہنچ گئی ہے ۔
سوال: اقوام متحدہ کے سوشل انجینئرنگ پروگرام اور مغربی تقلید کے ٹرینڈ نے پاکستان میں پردے اورحجاب کو قدامت پسندی کی علامت بنادیاہے ۔ کیایہ ٹرینڈ ہماری معاشرتی اقدار کو پامال کرنے کا سبب بنے گا؟
خورشیدانجم:تاریخی طورپردیکھیں توایک زمانے میں مغرب جہالت میں ڈوبا ہوا تھا جسے وہاں ’’ ڈارک ایجز‘‘ کا نام دیا جاتاہے۔ پھر مغرب کے طلبہ جب قرطبہ، بغداداور اندلس کی یونیورسٹیوں میں پڑھ کر آئے تو اس کے نتیجہ میں مغرب میں اصلاحی اور احیائی تحریکیں چلیں ۔ یہ بنیادی طورپرنبی اکرمﷺ کی تعلیمات کا نور تھا جو یورپ پہنچا اور وہاں کے لوگوں نے پوپ اور ظالمانہ بادشاہتوں سے آزادی حاصل کی۔لیکن ابلیس اوراس کے کارندوں نے اسی آزادی کو مادرپدر آزادی میںبدل دیااوراس کے بعد مغرب اسی شیطانی ایجنڈے کو لے کر چل رہا ہے ۔ چنانچہ مغرب خودتو معاشرتی طور پرپوری طرح سے تباہ ہو چکا ہے ۔مغربی تہذیب بالکل ننگی ہو چکی ہے ۔ امریکی صدر کلنٹن نے کہاتھا کہ ہماری آئندہ نسلیں نکاح کے بندھن کے بغیر پیدا ہونے والے افراد پر مشتمل ہوں گی۔ اوبامانے کہاتھاکہ عورت کوواپس گھر میں لے کر آئو۔ سوویت یونین کے آخری صدر گوربا چوف نے کہا تھا کہ ہمیںایک تحریک چلانی چاہیے کہ عورت کوواپس اپنے مقام یعنی گھرتک لایاجا سکے ۔ یعنی مغرب کا بیدار مغز بھی اب تسلیم کر چکا ہے کہ مغربی تہذیب نے انہیں تباہ کر دیا ہے ۔ اب پس پردہ قوتیں اسی شیطانی تہذیب کو مشرق پر مسلط کر رہی ہیں ۔ اسی مقصد کے تحت قاہرہ کانفرنس، بیجنگ کانفرنس اورپھربیجنگ پلس فائیو کانفرنس ہوئی ۔ان کا ایجنڈا روشن خیالی اور مادر پدر آزادی تھا ۔ یعنی جہاں مغرب پہنچ چکا ہے وہاں ہمیں بھی پہنچا رہے ہیں۔ ان کانفرنسز میں یہ طے ہوا تھا کہ جسم فروشی کو برا نہیں کہا جائے گا ۔ پھریہ کہ عورت کوبھی طلاق کاحق حاصل ہوناچاہیے اوربیوی گھرکے کام کرکے اپنے شوہرسے اجرت طلب کر سکتی ہے، حمل کے دوران وہ جو تکالیف جھیلتی ہے اس پروہ اجرت طلب کرسکتی ہے ۔ یہ سب کچھ اقوام متحدہ کے تحت ہو رہاہے اور پاکستان نے اس پر دستخط کیے ہیں۔ اقوام متحدہ اس کے لیے فنڈز دیتاہے اور ہماری حکومت ان کے ایجنڈے کوآگے بڑھانے کے لیے بالکل تیار بیٹھی ہے۔ اسی کانتیجہ ہے کہ مشرف دورمیں خواتین کے لیے اسمبلی میں33فیصد سیٹیں مختص کی گئیں۔حالانکہ یہ چیز خود امریکہ میں بھی نہیں ہے ۔اصل میں سیاسی طور پر مغرب نے ہمیں مکمل طورپر فتح کر لیا ہے۔چاہے وہ پارلیمانی جمہوری نظام ہو،چاہے وہ صدارتی نظام ہو۔
ہم نے خود شاہی کوپہنایاہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا خودشناس و خود نگریعنی اس وقت دنیا میںغیراللہ کی حاکمیت ہی چل رہی ہے۔ اسی طرح معاشی طورپر ہم مغربی سودی نظام میں پوری طرح جکڑے ہوئے ہیں اوراس جکڑن میں مزید اضافہ ہورہاہے۔البتہ ہمارا معاشرتی وسماجی نظام کسی درجے میں محفوظ تھا لیکن اب ایسے قوانین کے ذریعے وہ ہمارے گھروںمیںپہنچ چکے ہیں ۔اسلام کی کچھ اقدار ابھی باقی ہیںلہٰذا ان کی کوشش ہے کہ یہ بھی بالکل ختم ہوجائیں۔
سوال: روشن خیالی اور حقوق نسواں کے نام سے ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی مغربی ایجنڈے کے اثرات پہنچ چکے ہیں ۔اس کا تدارک کیسے ممکن ہے ؟
رضاء الحق:یہ بڑی بدقسمتی والی بات ہے کہ ہمارے کالجزاوریونیورسٹیز میں منشیات کاعام ہوناایک طرح سے پرانی بات ہوچکی ہے۔اب وہاں LGBTQ+ and Transgenderismپرباقاعدہ لکچرز ہورہے ہیں ۔ معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں رحمی رشتوں(بھائی اوربہن) کے درمیان جنسی تعلق کے متعلق کوئزمیں پوچھا گیا اور یہ بھی کہاگیاکہ آپ اپنے تجربے کی بنیاد پراس پرکمنٹ کریں ۔ بہرحال بعد میں خبر آئی کہ یونیورسٹی نے اس پروفیسر کو نکال دیا ۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ اسلامی نظام تعلیم میں بگاڑ والا جو کام لارڈمیکالے سے شروع ہواتھااس میں اب تک کتنا اضافہ ہو چکا ہے۔ حتیٰ کہ incestکوبھی عام کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ مغرب میں بھی incestغیرقانونی ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان کی بائبل(تحریف شدہ) میں incest کے واقعات تک موجودہیں۔ اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مغربی معاشرہ کس قدر گندگی میں پڑ چکا ہے کہ بائبل میں بھی ایسی چیزیں ڈال دی ہیں اور پھر پادری ان چیزوں کو آگے پھیلاتے ہیں ۔ دوسری طرف شیطنت کی بنیاد پرجوتہذیب کھڑی کی گئی اس کے اندر توباقاعدہ اس کی اجازت بھی دی گئی ۔اب یہ ایجنڈا ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی پہنچ چکا ہے ۔ پاکستان میں مشہور یونیورسٹی لمزمیں بہار 2023ء کا کیلنڈرآف ایونٹس جاری کیا گیا ہے جوکہ سیدہ وحید جینڈر initiativeکے نام سے ہے۔ یہ تقریباً ڈیڑھ ماہ کے ایونٹس ہیں جس میں آدھارمضان بھی شامل ہے۔اس میں داغداراجالاکے نام سے ٹرانسجینڈر پرایک فلم دکھائی جائے گی۔ پھرعورتوںکے مخصوص ایام کے حوالے سے ’’پیریڈ آرٹ‘‘ کے نام سے آرٹ گیلری کا انعقاد کیا جائے گا اوراس کے اوپرانعامات بھی دیے جائیں گے ۔ پھرLGBTQکے Queer companions کے نام سے ایک کتاب لانچ کی جائے گی۔اس ایجنڈے کو مغربی این جی اوز اور پاکستانی ایلیٹ کلاس مل کر آگے بڑھا رہے ہیں ۔ جہاں تک اس ایجنڈے کو روکنے کا تعلق ہے تو سب سے پہلے ہمیں عوامی سطح پر اخلاقی تعلیم وتربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ گھرکے اندر والدین کابھی انتہائی اہم رول ہے ۔لیکن خاص طور پرجب تک آپ نظام تعلیم سے شروع کرتے ہوئے سارے نظام میں تبدیلی نہیں کریں گے تو یہ چیزیں آگے بڑھتی رہیں گی ۔ ہمیں بھی ان چیزوں کا راستہ روکنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
آصف حمید:ـانہوں نے مسلمان اُمت کو مکمل طور پر مسخر کرنے کے لیے اس خاندانی نظام کو توڑا ہے اور اس کے نظام تعلیم کو متاثر کیا ہے تاکہ مسلمانوں میں اپنے تشخص کے بارے میں شکوک پیدا ہوجائیں اور کہا جائے کہ کیسے مسلمان ہیں ۔ ابھی آپ دیکھ لیں کہ اتنا الحاد پھیل گیا ہے کہ بچوں کو دین سے متنفر کیا جا رہا ہے ۔ یہ سب چیزیں اس معاشرے کو بدترین بنانے کے لیے ہورہی ہیں ۔پردہ تو دور کی بات یونیورسٹیز میں رہا سہا لباس بھی کم سے کم تر ہورہا ہے اور معاشرہ اتنا گل سڑ چکا ہے کہ والدین بھی اس کو برائی محسوس نہیں کرتے ۔ یونیورسٹیز اور تعلیمی ادارے اپنے اشتہارات میں سیلبس نہیں دکھاتے بلکہ لڑکے لڑکیوں کو اکٹھے بیٹھے ہوئے دکھاتے ہیں ۔ وہ کیا پیغام دے رہے ہیں ؟ نظام تعلیم ٹھیک ہوتا ہے تو قوم کے دوبارہ اُٹھنے کا امکان ہوتا ہے ۔ ان تعلیمی اداروں میں مغربی تہذیب کی اتنی تشہیر ہورہی ہے کہ بچے اس سے متاثر ہوئے بغیررہ ہی نہیں سکتے ۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ والدین گھروں میں اپنے بچوں کی تربیت کریں، ان کوقرآن سے جوڑیں، دین سے جوڑیں ۔ان کوبتائیں کہ جوتم دیکھ رہے ہویہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ والدین کو شعور دے کہ وہ اپنے بچوں کے اندر شعور اجاگر کرسکیں ۔
سوال: تنظیم اسلامی ملک گیر سطح پرحیااورایمان مہم چلارہی ہے ۔ اس مہم کی تفصیلات کیاہے ؟
خورشیدانجم:تنظیم اسلامی منکرات کے خلاف اورکرنٹ ایشوز کے حوالے سے مختلف مہمات چلاتی رہتی ہے ۔حالیہ مہم کاآغاز امیرتنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ کی کراچی میں میٹ دی پریس پروگرام سے ہواہے جہاں صحافیوں کے سامنے امیر محترم نے اس مہم کے اغراض و مقاصد بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔اس کی ویڈیو یوٹیوب پرموجود ہے۔ اور ندائے خلافت کے گزشتہ شمارے میں اس کا خلاصہ بھی شائع ہوچکا ہے ۔اس کے علاوہ آگاہی منکرات کے لیے جوبھی ممکنہ ذرائع ہوسکتے ہیں ان کو ہم استعمال میں لاتے ہیں۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ ان حوالوں سے آگاہی ہی نہیں ہے ۔اس کے لیے ہم کوشش کرتے ہیں ۔ ہمارے جو رفقاء اجتماعات جمعہ میں مساجدکے اندر خطاب کرتے ہیں اس میں اس ایشو کوایڈریس کیاجاتاہے ۔کیونکہ جمعہ میں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں۔پھر اس موضوع پر خصوصی پروگرام کسی ہال یامسجد کے اندر منعقد کیاجاتاہے۔ عوام الناس کوآگاہ کرنے کے لیے ہینڈبلز اور بروشر تقسیم کیے جاتے ہیں اورپھر واکس اور ریلیاں ہوتی ہیں، رکشوں اور چوکوں پرفلیکس لگائے جاتے ہیں ۔ پھراسی حوالے سے اخبار میں اشتہار دیاجاتاہے ۔ قومی وصوبائی اور سینٹ کے ممبران، ججز، بیوروکریٹس، سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز کے سربراہان اورمعاشرے کے بااثرافراد کو خطوط لکھے جاتے ہیں اوران کو توجہ دلائی جاتی ہے۔ علماء بے حیائی کے اس عفریت سے واقف ہیں، ان کوبھی خطوط لکھے جاتے ہیں تاکہ وہ بھی اپنی مساجد میںخطبات جمعہ اوردروس میں لوگوں کوآگاہ کریں۔ پھرمیڈیا کے ذریعے خاص طور پرالیکٹرانک میڈیا اورسوشل میڈیا کے ذریعے بھی ہم اپنی بات پہنچاتے ہیں۔ زمانہ گواہ ہے پروگرام اورتنظیم کی ویب سائٹس سے اس حوالے سے آگاہی دی جاتی ہے۔اسی طرح اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیے ہیں وہ معاشرہ رواج کے تحت نہیں دے رہا اس ایشو کو بھی اس مہم کے ذریعے ہم واضح کرتے ہیں۔ مثلاًلڑکا پیدا ہوتوبڑی خوشیاں منائی جاتی ہیں لیکن اگر لڑکی پیدا ہو تو صورتحال مختلف ہو جاتی ہے ۔یہ ہمارا جاہلانہ تصور بن چکا ہے۔ حالانکہ اسلام میں لڑکی کورحمت کہا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بشارت دی ہے ایسے شخص کو جو ایک یادویاتین یازیادہ لڑکیوں کی کفالت کرتاہے وہ قیامت کے دن حضور ﷺ کے ساتھ ہوگا۔اسی طرح شادی کے موقع پرنکاح لڑکی کی مرضی کے بغیر کر دیا جاتا ہے جس سے معاشرتی فساد پھیلتا ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کو وراثت میں حقوق نہیں دیے جاتے۔ جاگیرداروں میں لڑکیوں کی قرآن کے ساتھ شادی کی جاتی ہے تاکہ جائیداد محفوظ رہے ۔ اسی طرح ونی، کاروکاری جیسی دوسری رسومات ہیں جن کے خاتمے کے لیے ہم کوشش کرتے ہیں ۔
سوال: پاکستان میں بے حیائی کے خاتمے اورشرم وحیا کے فروغ میں والدین، اساتذہ، علماء کرام، میڈیا اور حکومت کیارول اداکرسکتے ہیں ؟
آصف حمید:کچھ عرصہ پہلے پوری دنیامیں کوروناوائرس کی وباء پھیلی اور کئی لوگ دنیا سے چلے گئے ۔ اس وباء کو خطرہ قراردیتے ہوئے حفاظتی اقدامات کیے گئے، اسی طرح اگر کسی بھی برائی کے حوالے سے میڈیا پر تشہیر ہو جائے کہ یہ برائی ہے اور اس کے بہت زیادہ نقصانات ہیں تو اس کے معاشرے پر کافی اچھے اثرات ہو سکتے ہیں ۔ یہ بے حیائی اورفحاشی کی وبا معاشرے کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے اس کو روکنا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ کورونا تو صرف جان لیتا تھا لیکن بے حیائی کی یہ وبا ایمان بھی چھین لیتی ہے جس سے انسان کی دنیوی اوراُخروی دونوں زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں ۔ یہ بے حیائی، فحاشی،عریانی اورکرپشن توایک متفق علیہ منکر ہیں لیکن دینی جماعتیںان کے خلاف اکٹھی نہیں ہورہی ہیں۔ حالانکہ ان کے خلاف وہ مل کرمہم چلاسکتی ہیں ۔ دوسری طرف شر کی طاقتیں مل کرکوششیں کرتی ہیں لیکن اپنے مدمقابل کو تقسیم کر دیتی ہیں تاکہ متحد ہو کر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ آجائیں ۔ بے حیائی اورفحاشی توموبائل کی صورت میں ہمارے گھروں میں داخل ہوچکی ہے البتہ LGBTQ+ دروازوں پردستک دے رہی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ کے مرد مرد نہ رہیں ،غیرت توختم ہوگئی اب ان میں مردانگی بھی ختم کردو۔یہ سارا کاسارا ابلیسی شیطانی ،دجالی ایجنڈا ہے ۔میں سمجھتاہوں کہ والدین اگر اس حوالے سے فکرمند ہوجائیں تووہ بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں اورانہیں کرنا بھی چاہیے۔ پھرہم جوتنظیم کے پلیٹ فارم پرحیا اور ایمان کی مہم چلار ہے ہیں اس میں بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ اورامیرتنظیم اسلامی کے بڑے قیمتی بیانات آ رہے ہیں ۔ احادیث ہیں ،ہمارے سلوگنز ہیں لوگوں کو چاہیے کہ ان کو پھیلانے میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ کچھ ان کی طرف سے حق ادا ہو۔ اس وبا کے مہلک پن کو معاشرے کاہرفرد محسوس کرے اوراس کے خاتمے کے لیے اپناکردار ادا کرے ۔ اس معاملے میں حکومتی عہدیدار اللہ کے ہاں سے سب سے بڑھ کر جوابدہ ہیں ۔قرآ ن میں ارشاد ہے :
’’بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ِایمان میں بے حیائی کا چرچا ہو ‘اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘(النور:19)
اس آگاہی کے لیے ہرشخص اپناحصہ ڈالے تاکہ کل اللہ کے ہاں معذرت پیش کرسکے کہ یااللہ جتناتم نے مجھے اختیار دیاتھااس کے مطابق میں نے کوشش کی تھی ۔
سوال:تنظیم اسلامی کے نزدیک پاکستان میں اسلامی انقلاب لانے کے لیے کس قدر کام کی ضرورت ہے ؟
خورشیدانجم:یہاں انقلاب ایک تحریک کے ذریعے آسکتاہے اورتحریک کچھ لوگوں سے مل کرہی بنے گی جواس نظریے کے ساتھ مخلص ہوں،جن کی نظر دنیاپرنہیں آخرت پرہو۔ جیساکہ رسول اللہﷺ نے عبداللہ بن عمرؓ سے فرمایاتھا:
((كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ))(صحیح بخاری) ’’دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو جیسے تم مسافر ہو یا عارضی طور پر کسی راستہ پر چلنے والے ہو۔‘‘
یعنی فکری لحاظ سے ان کے اندر یہ تبدیلی پیدا ہوچکی ہوکہ ہم توآخرت کے مسافر ہیں،اس کے لیے تیار ی کرنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دائرہ اختیار میںشریعت کونافذ کرنے کی کوشش کریں۔جیسے تنظیم کی دعوت ہے کہ جولوگ آئیں ان کواکٹھاکیاجائے ان کی ایک تنظیم بنائی جائے جو بیعت کی بنیاد پرہواوررسول اللہﷺ کے اسوہ کی روشنی میں جدوجہد کی جائے ۔ پھران کی تربیت کی جائے ۔ بقول شاعر ؎
تو خاک میں مل اور آگ میں جل، جب خشت بنے تب کام چلے
اِن خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ، تعمیر نہ کریعنی ان کی انقلابی تربیت کی جائے اوراللہ تعالیٰ تومتقین ہی کو قبول فرماتاہے ۔ ایسے متقین جب کسی منظم ، پُرامن ، انقلابی تحریک کولے کر نکلیں گے توپھراللہ تعالیٰ کامیابی بھی دے گا۔ ان شاء اللہ!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024