قرآن اور سُنّت کا باہمی تعلق(2)
ڈاکٹر اسرار احمدیہ مضمون بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمد ؒ کے انجمن کے سالانہ اجلاس منعقدہ1974ء کے موقع پر صدارتی خطاب
کا خلاصہ ہے۔ خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس کو قارئین ندائے خلافت کے لیے شائع کیا جا رہا ہے ۔(ادارہ )
وحی کے مختلف ذرائع
اس حقیقت کو ایک اور بات سے بھی سمجھ لیجیے‘ اس لیے کہ اس دَور میں بعض چیزیں جدید عقلیت پسندی (rationalism)کے زیر اثر ذہنوں سے اوجھل ہو گئی ہیں۔ آج شاید یہ سمجھا جا تا ہے کہ وحی کی بس ایک ہی شکل ہے جسے وحی ٔنبوت کہتے ہیں‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مختلف ذرائع (channels) بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً حیوانات میں جو جبلی ہدایت (animal instinct)ہے اسے بھی وحی قرار دیا گیا ہے۔ ازروئے الفاظِ قرآنی :{وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ…}(النحل:68) ’’اورتیرے ربّ نے وحی کی شہد کی مکھی کی طرف‘‘۔ یہاںحیوانات کی جبلی ہدایت کے لیے وحی کا لفظ استعمال ہو رہا ہے ۔پھر بہت سے غیر نبی افراد کے لیے بھی یہ الفاظ آئے ہیں کہ اُن پر وحی کی گئی۔حضرت مریم (سلامٌ علیہا) کے بارے میں ہمارا اجماع ہے کہ وہ نبی نہیں تھیں‘ لیکن ان پر وحی ہوئی۔ ان کے بارے میں تو پھر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا بہت اونچا مقام ہے‘ خود قرآن کی رو سے ’’صِدِّیْقَۃ‘‘ ہیں‘ لیکن حضرت موسیٰdکی والدہ کے لیے بھی وحی کا لفظ آیا ہے:{وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی…}(القصص:7) ’’اور ہم نے وحی کی موسیٰ ؑکی ماں کی طرف…‘‘ چنانچہ وحیٔ نبوت کا معاملہ تو بڑی چوٹی کی چیز ہے‘ اس سے کمتر درجے کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن پر لفظاً (literally) وحی کا اطلاق ہو جاتا ہے۔ وحی ٔ نبوت کے سوا تمام channels آج بھی کھلے ہیں‘ جیسے الہام ہو سکتا ہے‘ کشف ہے جو اولیاء اللہ کو ہوتا ہے‘ القاء ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دیتا ہے‘ اسی طرح سے رؤیاء صالحہ (سچے خواب) ہیں‘ جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’بشارتوں کے سوا نبوت کی کوئی چیز باقی نہیں رہی‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: بشارتوں سے کیا مراد ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’سچا خواب۔‘‘(صحیح البخاری)
صحیح مسلم میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں:
’’یقیناً مبشراتِ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں بچا سوائے سچّے خواب کے جو مسلمان دیکھتا ہے یا اُس کے لیے دیکھا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
رسول اللہﷺ نے مزید فرمایا: ’’سچّےخواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔‘‘(صحیح البخاری)
کہیں آپؐ نے اس (سچّے خواب ) کونبوت کا ساٹھواں حصہ بتایا ہے‘ جیسے مسلم کی ایک روایت میں الفاظ آئے ہیں:
’’سچّے خواب نبوت کے ساٹھ حصوں میں سے ایک ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
تویہ سب چیزیں اب بھی جاری ہیں اور نبیﷺ کے ساتھ بھی یہ تمام کی تمام چیزیں موجود تھیں۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کا خواب بھی وحی ہے‘ نبی کا القاء بھی وحی ہے‘ نبی کا الہام بھی وحی ہے‘ نبی کو جو کچھ اللہ تعالیٰ دکھادیتا ہے وہ بھی وحی ہے‘ اور نبی کو اللہ تعالیٰ جو بصیرت عطا فرماتا ہے وہ بھی وحی ہے۔ اس لیے کہ نبی جو آسمانی ہدایت وصول (receive) کرتا ہے اس کا کوئی ایک چینل نہیں ہے‘ بلکہ اس کےمتعدد چینلز ہیں۔
حضرت ابراہیم dکے حالات و واقعات کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ ایک خواب تھا جو انہوں نے بیٹے کو ذبح کرنے کے ضمن میں دیکھا تھا۔ قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم d کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں:
{یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ} ’’اے بیٹے! میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ تجھ کو ذبح کرتا ہوں۔‘‘ (الصّٰفّٰت:102)
یہ کتنا سنگین معاملہ ہے کہ قتل ِناحق بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ (اکبر الکبائر) ہے۔ اگر نبی کو اپنے خواب کے بارے میں ذرا سا بھی اشتباہ ہوتا تو کیا اتنی بڑی جرأت کی جاسکتی تھی جب تک کہ وحی باللفظ (verbal revelation) کی صورت میں واضح ہدایات نہ آ جاتیں؟اگر ذرا سا بھی اس میں کسی اشتباہ کا معاملہ ہوتا تو اس حکم پر عمل کرنا بہت غلط بات ہو جاتی۔
اسی طرح رسول اللہﷺ کو جو خواب دکھایا گیا کہ عمرہ کر رہے ہیں تو آپؐ عمرہ کرنے کے لیے چل پڑے۔ آپؐ نے اس سلسلے میں سفر کیا اور پھر صلح حدیبیہ ہوئی ۔ یہ ساری چیزیں بھی ایک خواب کی بنیاد پر ہیں۔ تو یہ تمام ذرائع ہیں جن سے نبی کو راہنمائی ملتی ہے۔ ان میں سے خاص وہ جو وحی باللفظ ہے وہ قرآن میں محفوظ (recorded)ہے۔ باقی مختلف طریقوں سے جو رہنمائی اور علم آپؐ کو ملتا رہا ان سب کے بارے میں ایک نہایت جامع حدیث ہے ۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جان لو‘ مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس جیسی ہی ایک چیز اور بھی‘‘(سنن ابی دائود) جو اس کے ہم وزن اور اس کے برابر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو جو خاص بصیرت عطا فرمائی‘ آپؐ ‘کو جو مشاہدات کرائے‘ آپؐ پر جو کچھ القاء فرمایا‘ جو الہام فرمایا‘ آپؐ کو خواب کے ذریعے جو ہدایات ملتی رہیں اور آپؐ کو جو بھی کشف ہوتا رہا‘یہ تمام چیزیں نبیﷺ کے لیے بھی قطعی ہیں جن میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور یہ بھی درحقیقت وحی کا حصہ ہیں۔ البتہ یہ وحی متلو نہیں ہے‘ یہ وحی باللفظ نہیں ہے۔
ہمارے ہاں وحی کے لیے دو اصطلاحیں مستعمل ہیں: وحی ٔ‘ متلو اور وحی ٔغیر متلو۔ وحی ٔ متلو وہ ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے ‘یعنی قرآن۔ وحی ٔ غیر متلو وہ ہے جس کی تلاوت نہیں ہوتی۔ دوسرے الفاظ میں انہیں وحیٔ جلی اور وحی ٔ‘خفی کہتے ہیں۔وحیٔ جلی جو بالکل واضح ہے وہ قرآن ہے‘ اور دوسری وحیٔ خفی ہے‘ اس کو ہم قرآن کے درجے میں نہیں رکھتے۔البتہ وحی ہونے کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں‘ جیسا کہ شرکِ جلی اور شرکِ خفی کے بارے میں مَیں عرض کیا کرتا ہوں کہ شرک ہونے کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک واضح ہے‘سامنے دکھائی دینے والا شرک ہے کہ ایک شخص بُت کو سجدہ کررہا ہے جبکہ ایک ذرا اندر چھپا ہوا‘ ریاکاری والا شرک ہے کہ ایک انسان کسی کو خوش کرنے کے لیے نیک کام کر رہا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی وہ شرک کر چکا‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا وہ شرک کر چکا‘ اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا وہ شرک کرچکا۔‘‘(مسنداحمد) تو شرکِ خفی اور شرکِ جلی میں شرک ہونے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں‘ دونوں شرک ہیں۔ البتہ ایک ظاہر و باہر شرک ہے اور ایک چھپا ہوا شرک ہے۔ اسی طرح وحی ٔ‘خفی اور وحی ٔ‘جلی کا معاملہ ہے۔(جاری ہے)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024