حیا اورایمان
(قرآن وحدیث کی روشنی میں )
مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ، لاہور میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخs کے03مارچ2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اورتلاوت آیات کے بعد!
تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے جہاں دعوت، تدریس اور تربیت کے امور کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہیں معاشرے میں اصلاح کے حوالے سےاور منکرات کے خاتمے کے حوالے سے بھی ہم اپنی ذمہ داری کو اداکرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں نبی اکرم ﷺکے مشن کا حصہ ہیں۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ }(الاعراف:157)’’وہ انہیں نیکی کا حکم دیں گے ‘تمام برائیوں سے روکیں گے۔‘‘
نبی اکر م ﷺ کی یہ ذمہ داری تھی اور ختم نبوت کے بعد اللہ کی زمین پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کو غالب اور قائم کرنے کی جدوجہد کرنا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا اس اُمت کی ذمہ داری ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ}(آل عمران:110) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘تم حکم کرتے ہو نیکی کا‘اور تم روکتے ہو بدی سے۔‘‘
اس امت کو اس لیے کھڑا کیا گیا کہ یہ رسول اکرم ﷺ کی ختم نبوت کے بعد ان کے مشن کو آگے بڑھائے ۔ اگر امت کی اکثریت سو رہی ہو ،غفلت کا شکار ہو تو پھر امت میں جن کو احساس ہو وہ آگے بڑھیں، اجتماعیت اختیار کریں اور اس فریضے کو انجام دینے میں اپنے تن من دھن لگانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوتاہے :
{وَلْـتَـکُنْ مِّنکُمْ اُمَّـۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط}(آل عمران:104)’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے‘ نیکی کا حکم دیتی رہے اور بدی سے روکتی رہے۔‘‘
خیر کا لفظ یہاں بھلائی کے مفہوم میں ہے اورسب سے بڑی بھلائی خود قرآن حکیم ہے ۔چنانچہ سورۃالنحل میں ذکر آتاہے :
{مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ ط قَالُوْا خَیْرًاط} (النحل:30)’’ کیا نازل کیا ہے تمہارے رب نے ؟ وہ کہتے ہیںبھلائی۔ ‘‘
اس سےایک مراد قرآن کی طرف دعوت دینا اور نیکی کا حکم دینا بھی ہے ۔ آگے فرمایا :
{اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(157)} (الاعراف)’’وہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے۔‘‘
بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ معاشرے میں کچھ لوگ اگر خیر، نیکی ، بھلائی کا کام کررہے ہیں ، قرآن کی طرف ، دین کی طرف بلا رہے ہیں اور بدی سے روک رہے ہیں تو اچھا ہے ، وہ کرتے رہیں لیکن خودپر اس کام کو لازم نہیں سمجھا جاتا ۔ جبکہ قرآن میں اللہ فرما رہا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو نیکی کی دعوت دینے اور بدی سے روکنے کا کام کریں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ آخرت میں نجات اور کامیابی صرف انہی لوگوں کو ملے گی جو امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کریں گے ۔ ہاں البتہ اپنے علم اور اپنی اپنی صلاحیت اور دائرہ کارکے اعتبار سےہر کوئی مکلف ہے ۔
چنانچہ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہم چاہتے ہیں ذاتی سطح پر ، اپنے گھر کی سطح پر ، اپنے دائرہ کار میںرفقائے تنظیم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کریں۔ اس کے بعد ہم اجتماعی اور عوامی سطح پر بھی ہر تین مہینے کے بعد آگاہی منکرات مہم کا اہتمام کرتے ہیں ، کبھی سود کے خلاف ، کبھی بے حیائی ، فحاشی اور بے دینی کے خلاف، کبھی ترک نماز و زکوٰۃ کے خلاف، اسی طرح عورتوں کو وراثت میں حق دینے کے حوالے سے بھی ، نکاح کو آسان کرنے کے حوالے سے بھی ، کبھی جادو ٹونہ جیسی مہلک اور شرکیہ وباء کے خلاف ہم آگاہی مہم چلاتے ہیں ۔ اسی تسلسل میں26فروری سے7مارچ تک تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ایمان اور حیامہم چلائی جارہی ہے ۔ اس کا مقصد اس حوالے سے اپنی دینی ذمہ داریوں کی یاددہانی کرانا ہے ۔
اس ضمن میں سب سے پہلے حیا کی ضرورت اور اہمیت کو اُجاگر کرنا مقصود ہے ۔ حیا ایک فطری جذبہ ہے جو اللہ نے ہماری فطرت میں رکھا کہ وہ ہمیں خیر کی طر ف مائل کرتا ہے، ترغیب دلاتا ہے، تشویق دلاتا ہے اور شر سے نفرت اور اجتناب کی طرف ہمیں راغب کرتا ہے۔ اس جذبے کا نام حیا ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کئی ایک مقامات پر تزکیہ کی ضرورت پرزور دیا ہے ۔ جیسے سورۃ الشمس میںفرمایا:
{فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا(8) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا (10)}’’پس اُس کے اندر نیکی اور بدی کا علم الہام کر دیا۔یقیناً کامیاب ہو گیا جس نے اس (نفس) کو پاک کر لیا۔‘‘
گناہ اورشر سے اجتناب اور خیر اور نیکی میں آگےسے آگے بڑھنا ، یہ دونوں صلاحیتیں اللہ نے انسان میں رکھی ہیں ۔ چنانچہ شر اور برائی سے اپنے آپ کو روکنا، خیر میں آگےبڑھنا، نیکی میں آگے بڑھنا تزکیہ کا بنیادی حاصل ہے ۔ یہی حیاکا مفہوم ہے ۔ عام طور پر جب حیا کے تعلق سے کلام ہوتا ہے تواس کی ضد کے پہلووؤں (بےحیائی، فحاشی وغیرہ) پر زیادہ کلام ہوتاہے۔ ٹھیک ہے ہونا بھی چاہیے لیکن حیا کی ضرورت و اہمیت کو اُجاگر کرنا بھی ضروری ہے ۔ حیا بڑا وسیع مفہوم کا حامل ایک جذبہ ہے جو اللہ نے فطرت میںرکھا ہے۔سادہ سی مثال ہے کہ جب کوئی بیٹا یا بیٹی سینہ تان کر ماں باپ کے سامنے چلا کر بات کرے تو کہا جاتاہے کہ بڑی ہی بے شرم و بے حیا ہے۔ حالانکہ یہاں کوئی بے پردگی یا فحاشی والا معاملہ نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ والدین کے ادب و احترام کا لحاظ رکھنا بھی حیا میں شامل ہے ۔ اسی طرح بڑوں کا ادب کرنا، بڑوں کا لحاظ رکھنا ، بڑوں کی جائز بات ماننا ،ان کے ادب و احترام کا لحاظ رکھنا بھی حیا میں شامل ہے ۔ حدیث مبارکہ میںذکر ہے ، اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیںکہ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اس بات کا حقدار ہے کہ اس کے سامنے حیا کی جائے۔ جس طرح ماں باپ نے پال پوس کراولاد کو جوان کیا ، اگر اولاداُن کے سامنے سینہ تان کر بات کرے تو اسے بے شرمی اور بے حیائی کہا جائے گا ، اسی طرح اللہ ہمارا خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے، محافظ ہے، کروڑہاں کروڑ نعمتیں دینے والاہے ۔ وہ خود کہتا ہے :
{وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَاط} (النحل:18)’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو اُن کا احاطہ نہیں کر سکو گے۔‘‘
{فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ0}(الرحمٰن) ’’تو تم دونوں (گروہ) اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کروگے؟‘‘
لہٰذا سب سے بڑی بے شرمی ، بے حیائی، ناہنجاری اور نافرمانی یہ ہے کہ بندہ خالق کی نعمتوں کا اعتراف نہ کرے، بندہ خالق کی اطاعت نہ کرے ،بندہ خالق کی نافرمانی کرے ۔ بندہ ڈاکٹرز کے کہنے پر حلال کو چھوڑ دیتا ہے کیونکہ جان عزیزہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں باربار حرام کو چھوڑنے کا حکم دے رہا ہے ، کیا ہم سود ، حرام ، ذخیرہ اندوزی ، رشو ت ، کرپشن چھوڑنے کو تیار ہیں ۔ یہ سب سے بڑی بے حیائی ہے ۔
حقیقت میں حیا کا تقاضا پوری زندگی پر محیط ہے ۔
’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘(الملک:2)
حیاہی وہ فطری جذبہ ہے جو بُرے کاموں سے روکتا ہے۔ لہٰذا اگر حیا ہوگی تو انسان زندگی کے اس امتحان میں کامیاب ہو جائے گا اور جو حیا کو چھوڑ دے گا تو پھر وہ ہر برائی میں پڑ کر اپنی دنیا اور آخرت خراب کرد ے گا ۔ لہٰذا حیا انسان کی دائمی کامیابی کے لیے بنیادی ضرورت ہے ۔
اس وسیع تر تصور کے بعداب آئیے حیا کی ضد کی طرف جسے ہم بے حیائی کہتے ہیں ۔ بے حیائی ، عریانی ، فحاشی ، بے پردگی اور زنا کی طرف لے جانے والے تمام راستوں اور کاموں کی مذمت کرنا بھی ہماری دینی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔قرآن مجید میں جا بجا اس حوالے سے حکم ہے ۔ سورۃالنور میں فرمایا :
’’بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ِایمان میں بے حیائی کا چرچا ہو ‘اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (آیت :19)
سورۃ النور مدنی سورت ہے جس میںبہت اہم معاشرتی ہدایات عطا کی گئی ہیں ۔ اسی میں پردے کے حوالے سے بھی تعلیمات عطا کی گئیں ۔یہ آیات واقعہ افک کے تناظر میں نازل ہوئی ہیں ۔ اندازہ کیجئے کہ صرف بہتان کے طورپربےحیائی کی بات چند لوگوں کی زبان پر آئی تو اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اُٹھا کیونکہ ایسی باتوں سے معاشرے میں حیا کے اُٹھ جانے کا خدشہ ہوتاہے ۔ آج ہمارے معاشرے میں بالفعل جو کچھ ہو رہا ہے ، میڈیا جو کچھ دکھا رہا ہے ، اس پر اللہ کا غضب کتنا بھڑک رہا ہوگا ۔ باہر نکلتے ہی بل بورڈ ز پر عورتوں کی نیم برہنہ یا بے پردہ تصویریں نظر آتی ہیں ۔ استغفراللہ! پھر اس سے آگے بڑھ کر فلمیں ، ڈرامے ، ناچ گانے یہ تو پرانی باتیں ہو گئیں۔ سوشل میڈیا پر کیا کچھ پھیل رہا ہے ۔ پھر تعلیمی اداروں میں کیا گل کھلائے جارہے ہیں ، کس طرح فحش کوئز کیے جارہے ہیں ۔ اسی کانتیجہ پھرریپ اور قتل و غارت گری کی صورت میں بڑھ رہا ہے ۔ رسول اللہﷺ کے فرمان کی روشنی میں نامحرم کو برے جذبات کے ساتھ دیکھنا اور لذت حاصل کرنا آنکھ کا زنا ہے،نامحرم کی باتیں لذت کے لیے سننا کانوں کا زنا ہے ، نامحرم کے بارے میں دل میں بُرا خیال لانا اور لذت حاصل کرنا دل کا زنا ہے ، نامحرم کے بارے میں زبان سے ایسی گفتگو کرنا جس سے لذت حاصل ہو ، یہ زبان کا زنا ہے ۔ کیا کچھ نہیں ہورہا آج ؟ آج خاندانوں میں شادی بیاہ کے موقع پر نمازوں کے اہتمام کرنے والے ،پردوں کا اہتمام کرنے والے بھی سمجھتے ہیںکہ اس موقع پر آزادی ہے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون! ڈانس ہو رہے ہوتے ہیں ، ویڈیوز بن رہی ہوتی ہیں ، ساری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے ۔ بے حیائی میں کہاں پہنچ گئے ہم ؟ پھر مخلوط تعلیم ، مخلوط محافل ، مخلوط ڈانس ۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے سر میں کوئی کیل ٹھونک دے برداشت کر لینا مگر تم نامحرم کو چھوو یا وہ تمہیں چھوئے ا سے ہرگز گوارا نہ کرنا۔ لیکن آج کتنی عام سی بات ہوگئی ۔ قرآن کہتا ہے :
{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی}(بنی اسرائیل:32) ’’اور زنا کے قریب بھی مت جائو‘‘
یہ ساری بے پردگی ، بے حیائی اور فحاشی بالآخر انسان کو زنا کی طرف ہی لاتی ہے ۔ اس لیے دین نے ان سب راستوں پر بھی پابندی لگائی ہے ۔ مگرآج کیسے کیسے عنوانات سے اس گندگی کو قبول کر لیا ہے ۔ کہیں لبرل ازم ، کہیں سیکولرازم کے نام سے ان ساری چیزوں کو پروموٹ کیا جارہاہے حالانکہ کلمہ بھی پڑھا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ سیاست کا نظام تو گیا، معیشت بھی ڈاواں ڈول ہے ، جوا، سٹہ ، سود سب کچھ چل رہا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ سینہ تان کر جاری ہے ۔ کچھ معاشرتی اقدار بچی تھیں لیکن اب حیا بھی معاشرے سے اُٹھ رہی ہے ، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:’’حیا اور ایمان ساتھی ہیں ، اگر ایک گیا تو دوسرا بھی گیا ۔‘‘( ترمذی شریف )
اس کے بعد پھر کیا ہوگا ؟ رسول اللہ نے فرمایا : ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو ۔‘‘ (بخاری )
آخرت میں نجات اور کامیابی کے لیے ایمان شرط ہے لیکن جب حیا نہیں رہے گی تو ایمان بھی نہیں رہے گا ، گویا دنیا بھی برباد اور آخرت بھی برباد ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔سورۃ النور میں آگے فرمایا :
’’اور اگر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت تم لوگوں پر نہ ہوتی‘ اور یہ کہ یقینا ًاللہ بہت مہربان‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘(آیت :20)
تمہارے گناہوں کو فوراً نہیں پکڑتا تمہیں مہلت دیتا ہے اصلاح عمل کے لیے۔ اگلی آیت میں فرمایا:
’’اے اہل ِایمان! شیطان کے نقش ِقدم کی پیروی نہ کرو۔ اور جو کوئی شیطان کے ِنقش قدم کی پیروی کرے گا تو شیطان تو اُسے بے حیائی اور ُبرائی ہی کا حکم دے گا۔‘‘(آیت :21)
دنیا میں صرف دو ہی جماعتیں ہیں اور دو ہی دعوتیں بھی ہیں ۔ ایک شیطان کی دعوت ہے اور ایک رحمان کی دعوت ہے ۔ شیطان برائی اور بے حیائی کی دعوت دیتاہے ۔ بے پردگی ، فحاشی ، نکاح سے انکار ، زنا کی ترغیب ، مخلوط محافل ، آزادانہ اختلاط ، عورت کو اشتہار بنانا ،یہ سب ابلیس اور لشکر ابلیس کی دعوت ہے ۔حضورﷺ نے فرمایا: دو نامحرم تنہائی میں ہوں گے تو تیسرا شیطان ساتھ ہو گا۔ حیا کا حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے ۔ سورۃ النور میں آگے فرمایا :
’’اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی پاک نہ ہو سکتالیکن اللہ جس کو چاہتا ہے پاک کرتا ہے۔‘‘(آیت :21)
ہم اگر پاکیزہ ماحول میں بیٹھ کر خطبہ جمعہ سن رہے ہیں یا قرآن پڑھ رہے ہیں تو یہ اللہ کے فضل سے ہے ۔ اگر کوئی بے حیائی کے کاموں سے بچ رہا ہے تو اللہ کے فضل سے بچ رہا ہے ۔ اگر کہیں کسی بھائی میں، بہن میں ہمیں کمزوری نظر آئے تو کوئی فتویٰ دینےکی پوزیشن اختیار نہ کریں ۔ پہلے ہم اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے مجھے بچایاہے اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ میرے کتنے عیب ہیں جن کو اللہ نے پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔آگے فرمایا: اور اللہ سب کچھ سننے والا‘ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘(آیت :21)
اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: ’’بےحیائی جس شے میں بھی ہوتی ہے اسے عیب دار بنا دیتی ہے اور حیا جس شے بھی ہوتی اسے خوبصورت بنا دیتی۔‘‘( ترمذی شریف)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب کسی قوم میں اعلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا ہے یا پھر ایسی مہلک بیماریوں میں مبتلا کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا ہوتا۔‘‘(ابن ماجہ)
آج ہم یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا حصہ ہے اور اہل ِایمان جنت میں ہوں گے اور بے حیائی ظلم ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے۔‘‘( ترمذی شریف)
رسول اللہﷺ نےلعنت فرمائی ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر بھی جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں۔ آج یہ فیشن کے نام پر عام ہو رہا ہے ۔ دین میں مردوں کے لیے حکم تھا کہ وہ ٹخنے کھلے رکھیں جبکہ عورتوں کو ستر اور پردے کا حکم دیا مگر آج عورتوں کی آدھی آدھی پنڈیاں کھلی ہوئی ہیں ، لباس سکڑ رہا ہے ۔ الا ماشاء اللہ ۔ حالانکہ عورت اصلاً پوشیدہ رکھی جانی والی شے کو کہتے ہیں ۔ ہر قیمتی شے پوشیدہ رکھی جاتی ہے ، عورت کو بھی اللہ نے قیمتی شے بنایا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس مرد کو دیوس قرار دیاجس کے گھر کی عورتیں بے پردہ گھومتی ہیں اور دیوس کا کم سے کم ترجمہ ہے بے حیا اور جس کی غیرت ختم ہو گئی ہو ۔
بحیثیت اُمتی ہمارا فرض ہے کہ ہم بے حیائی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کریں ۔سب سے پہلے اپنی ذات میں حیا کو لازم پکڑیں ، اس کے بعد اپنے گھر میں پردے ، حجاب اور حیا کے احکامات پر عمل درآمد ہو ، تعلیم و تربیت ایسی ہو کہ زندگیوں کو دین کے مطابق ڈھالنے میں آسانی ہو ۔ پھر اسی چیز کو ہم معاشرے میں عام کرنے کی کوشش کریں ۔ گھر میں بالفعل حکم ہو جبکہ معاشرے میں دعوت و تبلیغ ہو گی، ترغیب و تشویق ہو گی۔ حکمرانوں کے پاس بہرحال اختیارہے کہ بے حیائی کا خاتمہ کریں اور شریعت کے احکام پر عمل درآمد کروائیں ۔ لیکن وہاں کیا ہورہا ہے ؟ ٹرانسجینڈر قانون پاس کرکے ہم جنس پرستی کو تحفظ دیا جارہاہے ۔ اللہ کی ان نافرمانیوں کی وجہ سے ہی ہم آج تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں ۔ اللہ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔اللہ کے رسول ﷺ فرما رہے ہیںحیا نہیں تو ایمان نہیں ۔ اس تعلق سے ہم ذہن سازی بھی کریں ۔بات کو بھی آگے بڑھائیں۔ بات چلتی ہے تو آگے چل کر اس کے اثرات بھی ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ 14 فروری کو پہلے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا تھا ۔ اس کے خلاف دینی طبقات نے بھی آواز اٹھائی ، عوام نے بھی اس بے حیائی کے کام کے خلاف اپنا ردعمل دیا ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ رفتہ رفتہ ویلنٹائن ڈے کا رواج ختم ہو گیا۔ منکرات کے خلاف مہم کا یہی سلسلہ ہم لے کر چل رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس میں ہم سب کو حصہ ڈالنے کی بھی توفیق دے کیونکہ اس کے بغیر اُخروی نجات ممکن نہیں اور حیا کے بغیر بھی اُخروی نجات ممکن نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے ان تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2024