(اداریہ) روتھ شیلڈ انتظامیہ کا پاکستان کی طرف رخ - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

روتھ شیلڈ انتظامیہ کا پاکستان کی طرف رخ

گزشتہ ماہ کے دوران دو اہم خبریں اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔اولاًجوہری توانائی کے عالمی نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کےڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی 15 فروری کو دو روزہ دورہ پر پاکستان پہنچے۔ رافیل ماریانو گروسی 35سال سے آئی اے ای اے کے ساتھ منسلک ہیں۔ موصوف 3 دسمبر 2019 ءکو ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر منتخب ہوئے۔ جوہری سپلائر گروپ اور این پی ٹی مذاکرات میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں ۔جوہری پھیلاؤ سے بچاؤ (Nuclear Non-Proliferation) اور Disarmament (ایٹمی دانت توڑنا) کے شعبے میں خصوصی ’’مہارت‘‘ رکھتے ہیں ۔ دورۂ پاکستان کے دوران آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل نے وزیراعظم، وزیر خارجہ، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات اور فارن سیکرٹری سے ملاقاتیں کیں،نیز پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی اورکئی عسکری و غیر عسکری ایٹمی تنصیبات کا دورہ کیا۔ ’’پسِ پردہ ‘‘ ملاقاتیں بھی کی ہوں گی۔ اگرچہ آئی اے ای اے کے نمائندگان اس سے قبل بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں لیکن پاکستان کو اس وقت در پیش خاص سیاسی و معاشی حالات کے تناظر میں اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہےاور اس نے بہت سارے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔بعدازاں اخبارات کی زینت بننے والی ایک تصویر نے ہر باشعور پاکستانی کا دل مزید دہلا کر رکھ دیا ۔ بائیس کروڑ عوام کی مملکتِ خداداد کی وزارتِ خزانہ کے میٹنگ روم میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر مملکت برائے خزانہ و ریونیو ڈاکٹر عائشہ غوث اور وزارتِ خزانہ کے اعلیٰ افسران، صہیونیت کے سرپرست یہودی خاندان روتھ شیلڈ (Rothschild) کی کمپنی Rothschild and Coکے نمائندوں ایرک لالو اور تھیبوڈ فورکیڈ سے ملاقات کر رہے ہیں۔ خبر کی تفصیلات اس تصویر سے زیادہ حیران کن ہیں۔ روتھ شیلڈ خاندان کی کمپنی کے عہدیداران نے مذاکرات کے دوران پاکستان کی معاشی مشکلات کا جائزہ لیا اور ایک طویل مدتی منصوبے (Roadmap) پر گفتگو کی، جس کے تحت پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکال کر اسے طویل مدتی ترقیاتی منصوبوں پر گامزن کیا جا سکے۔ روتھ شیلڈ کمپنی نے میٹنگ کے آغاز میں وفاقی وزیر خزانہ کو اپنی کمپنی کی تاریخ اور دنیا کے دیگر ممالک میں اس خاندان کی معاشی خدمات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ روتھ شیلڈ خاندان کون ہے اور اس خاندان کی تاریخ کیا ہے؟ آیئے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
روتھ شیلڈ خاندان سولہویں صدی کے اواخر میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں اپنے آبائی گھر کے حوالے سے مشہور ہوا۔خاندان کے سربراہ مائر امشیل روتھ شیلڈ اشکنازی یہودی تھا۔موصوف کے پانچ بیٹے تھے۔ روتھ شیلڈ خاندان نے ابتدا ہی سےعالمی معیشت، سودی بینکاری اور بین الاقوامی فنانس کو تختہ مشق بنایا۔1690ءمیں برطانیہ کو فرانس کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی بحریہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگئی۔ 1.2 ارب پاؤنڈ تعمیر نو کے
لیے درکار تھے۔برطانوی حکومت کے پاس یہ رقم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔سودی قرضہ تک نہ مل رہا تھا۔ ایسے میں اسی صہیونی خاندان نے بینک آف انگلینڈ قائم کرنے کی تجویزدی ۔ جب 1694ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک قانون کے ذریعے بینک آف انگلینڈ کا چارٹر منظور کیا تو اس حکم نامے کے ساتھ ہی اس بینک کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا کہ وہ کاغذ کے نوٹ جاری کر سکے گا۔ بینک آف انگلینڈ کا چارٹر ملتے ہی روتھ شیلڈ خاندان کے سربراہ نے اپنے بچوں کو یورپ کے تمام بڑے بڑے شہروں میں بینک قائم کرنے کے لیے روانہ کیا۔ پانچ بیٹوں نے فنانس کے حوالے سے یورپ کےپانچ بڑے شہروں لندن، پیرس، ویانا، نیپلزاور فرینکفرٹ میں سود پر قرضہ دینے کا دھنداشروع کیا۔ خاص طور پر برطانیہ، جرمنی اور سلطنت روم کی باقیات میں اہم مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے اوراہم حکومتی عہدوں پر فائزہو گئے۔ ان بھائیوں میں سے ناتھن مائر روتھ شیلڈ کو انگلینڈ کے مرکزی بینک کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک یہ خاندان بینکاری، انوسٹمنٹ اور دیگر معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے بڑا خاندان سمجھا جاتا ہے۔ پھر خاندان نے پسِ پردہ بادشاہ گری کا بیڑہ اٹھایا اور گلوبل ڈیپ سٹیٹ کے اہم ترین کردار کے طور پر ابھرا۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی بینکاری نے یورپ کی سیاسی تاریخ کو تراشا ہے۔ برطانیہ کواسی خاندان کے قرض نے ایک بڑی عالمی قوت بنا دیا اور یوں کلونیل ازم کے دور کی بنیاد رکھی گئی۔ایک واقعہ جو تاریخ میں انتہائی مشہور ہے، قارئین کی دلچسپی کے لیے بیان کئے دیتے ہیں۔ ناتھن مائر روتھ شیلڈ نے نپولین کے خلاف جنگ میں برطانوی فوج کی خوب مدد کی۔ سونے اور چاندی کے سکوں کے انبار سودی قرضہ کے طور پر دیے۔ بے تحاشا اسلحہ فراہم کیا۔ 1815 ءمیں نپولین کو واٹرلو کے میدان میں برطانوی فوج کے ہاتھوںشکستِ فاش ہوئی۔ روتھ شیلڈ خاندان کےفرانس میں موجود نمائندے نے نپولین کی شکست کی خبر لندن میں بیٹھے ناتھن مائر روتھ شیلڈ کو فوراً پہنچا دی۔ ناتھن مائر روتھ شیلڈ نے لندن میں یہ افواہ عام کردی کہ برطانوی فوج کو نپولین کے ہاتھوں شکست ہو گئی ہے۔نتیجتاًبرطانیہ کی سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔ روتھ شیلڈ خاندان نےکوڑیوں کے بھاؤ پوری برطانوی معیشت خرید لی۔اگلے روز اصل حقیقت سامنے آگئی کہ شکست نپولین کو ہوئی ہے ۔ سٹاک مارکیٹ میں قیمتیں ایک دم آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور یوں یہ خاندان راتوں رات کھربوں پاؤنڈ اور برطانوی معیشت کا مالک بن گیا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران روتھ شیلڈ خاندان کے افرادایک طرف اتحادیوں کو سودی قرضہ اور اسلحہ فراہم کرتے تودوسری طرف جرمنوں کو۔خاندان کا تیسرا نمائندہ راکرفیلر خاندان کی صورت میں امریکہ بھی موجود تھا جس نے امریکی صدرکےتذبذب کے باوجود امریکہ کو جنگ میں گھسیٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور کا بڑا سرمایہ دار،معیشت اور سیاست دونوں پر اثر رکھتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اشکنازی یہودی ہونے کے ناطے روتھ شیلڈ خاندان کی مذہب (یہودیت) اور خاص طور پرارض مقدس یعنی فلسطین سے خاص دلچسپی رہی ہے۔ وہ اپنی دولت اور طاقت کو مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بالفور ڈیکلیر یشن ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں انسانی تاریخ پر خوفناک اثرات مرتب کرنے والا بالفور ڈیکلریشن، جس کے باعث مسلمان اُمت گزشتہ 75 سال سے آگ اور خون میں نہا رہی ہے۔ اُسے 2نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے ایک خط کی صورت میں روتھ شیلڈ خاندان کے اُس وقت کےسربراہ لیونل والٹر روتھ شیلڈ کو لکھا تھا۔ اس خط میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ برطانوی حکومت اپنی تمام قوتیں اس مقصد کے حصول کے لیے لگائے گی کہ کیسے فلسطین کے علاقے میں یہودیوں کے لیے ایک وطن تخلیق کیا جائے۔ بالفور ڈیکلریشن کے تحریر ہونے سے پہلے 1904ء میں دنیا بھر کے صہیونی نمائندوں نے برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا اور ساتھ ہی یروشلم کے آس پاس کے علاقوں میں جا کر آباد ہونے کی خفیہ کوششیں شروع کر دیں۔ خلافتِ عثمانیہ میں فلسطین کے علاقے میں یہودیوں پر زمین خریدنے کی پابندی تھی۔ روتھ شیلڈ کے شاطرانہ ذہن نے ایک خفیہ ترکیب سوچی اور اس نے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے علاقے یروشلم سے تقریباًساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر 1909ء میں روتھ شیلڈ دنیا بھر سے ساٹھ یہودی سرمایہ داروں کو لے کر پہنچا اورتِل ابیب شہر کو بسایا جو آج ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کا دار الحکومت ہے۔ تِل ابیب کی سب سے قدیم سڑک کا نام روتھ شیلڈ بلیوارڈ ہے۔ اسی سڑک پر موجود ایک ہال میں 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزادی کا ڈیکلریشن پڑھا گیا اور اس پر دستخط ہوئے۔ روتھ شیلڈ کے ہمراہ آنے والے ساٹھ خاندان اسی سڑک اور صہیونیت کے بانی تھیو ڈورہرزل کے نام والی سڑک پر آباد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روتھ شیلڈ خاندان نے صہیونیت کے فروغ اور صہیونی عزائم کے راستے میں رکاوٹیں دور کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔
پاکستان کو ایک خاص منصوبے کے تحت گزشتہ چالیس سالوں میں بددیانت سول اور فوجی حکمرانوں کے ذریعے قرضے کی دلدل میں اُتار دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی دلدل ہے جس سے نکلنے کا اب کوئی راستہ کسی کو بھی سجھائی نہیں دے رہا۔ ایک سال سے آئی ایم ایف پاکستان کو ٹرخاتا چلا آ رہا ہے۔ سعودی عرب، امارات اور چین کی مدد نہیں آ رہی کیونکہ اِن ممالک کی مدد بھی آئی ایم ایف سے مشروط ہے۔ قرضوں کی قسط کی ادائیگی سر پرہے لیکن خزانہ خالی ہے۔ امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کے نام پر ایک بار پھر افغانستان سے لڑانا چاہتا ہے۔ ایسے میں یہودی صہیونی لابی کے سب سے شاطر، عیار اوربڑے سرمایہ دار روتھ شیلڈ خاندان کی پاکستان آمد کئی شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔ آج کی دنیا میں ڈیپ سٹیٹ کےسربراہ کی کمپنی کی پاکستان آمد نے بہت سارے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ کیا ہمیں گروی رکھنے کی تیاری ہے؟ کیا ہمیں ایک بار پھر پرائی جنگ میں جھونکا جا رہا ہے؟ کیا ہمیں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھنے اور ایٹمی قوت سرنڈر کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو صحیح فہم وفراست عطافرمائے اور حالات کا صحیح ادراک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!