حِلم اور بردباری
شعبہ تعلیم و تربیت، تنظیم اسلامی پاکستان
حِلم کے معنیٰ ہیں: نفس و طبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ و غضب کے موقع پر بھڑک نہ اُٹھے۔ اردو میں اس کےمعنیٰ’’بردباری‘‘استعمال ہوتے ہیں۔ سورۃ اَلصّٰٓفّٰت آیت نمبر 101 میں حضرت اسمٰعیل ؑ کے بار ے میں بیان ہوا ہے:
’’ اور ہم نے انہیں ( ابراہیم ؑ کو ) بشارت دی ایک بُردبار بیٹے کی۔‘‘
اور سورۃ ہود آیت75میں ابراہیم ؑ کے بارے میں آیا ہے:
’’ بے شک ابرہیم ؑبڑے تحمل والے ، نرم دل اور ( اللہ کی طرف ) رجو ع کرنے والے تھے۔‘‘
حِلم کی جمع’’اَحلام‘‘ ہے۔ سورۃ طور آیت نمبر 32 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ کیا اُن کی عقلیں انھیں یہی بتاتی ہیں یا وہ سرکش لوگ ہیں ۔‘‘
یعنی احلام سے عقلیں مراد ہیں: اصل میں حِلم کے معنیٰ’’متانت‘‘ اور’’ بُردباری‘‘کے ہیں مگر چونکہ متانت اور بُردباری بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لیے بسا اوقات حِلم کا لفظ بول کر عقل بھی مراد لیتے ہیں۔ سورۃ النور آیت 59 میں ارشاد گرامی ہے:
’’ اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں۔‘‘
اس آیت میں’’حُلُمَ‘‘سے مراد سنِّ بلوغت کے ہیں۔ سنّ ِبلوغت کو‘‘ حُلُمَ’’ اس لیے کہتے ہیں کہ اس عمر میں عام طور پر عقل و تمیز آجاتی ہے۔
’’حِلم‘‘ ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔ اور جسے یہ صفت حاصل ہوگئی اس نے گویا فیضانِ نبوت سے حصہ پالیا۔ ایک حلیم انسان کا فیصلہ انجام کے اعتبار سے زیادہ درست ہوتا ہے۔ چونکہ وہ معاملہ کے عواقب و نتائج، اس میں درپیش مشکلات اور اس کے نفاذ کے ممکنہ طریقوں پر پہلے غور و فکر کرتا ہے۔ اس کے بعد فیصلہ کرتا ہے۔ انسان جب غصہ کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ حقائق کو نظر انداز کردیتا ہے۔ حقائق سرے سے اسے دکھائی نہیں دیتے۔ وہ حقائق کو پرکھے بغیر اندھا دھند فیصلے کرلیتا ہے۔ اس پر بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ غضب کی کیفیت میں اس سے حماقتیں سرزدہوتی ہیں ،اس کی عقل پر پردہ پڑجاتا ہے نہ اس کا فیصلہ درست ہوتا ہے اور نہ نتائج کے اعتبار سے دیر پا ہوتا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ بسااوقات میاں بیوی میں جھگڑا ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر خوب بولتے ہیں یہاں تک کہ شوہر غصے کی حالت میں تین مرتبہ طلاق کے الفاظ کہہ دیتا ہے، غصہ ٹھنڈاہونے پر دونوں پچھتا تے ہیں اور علماسے فتویٰ مانگتے پھرتے ہیں۔ حلیم الطبع شخص کا فیصلہ اس لیے ندامت کا باعث نہیں ہوتا چونکہ وہ ہمیشہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ خوب سوچ سمجھ کرپُرسکون حالت میں فیصلہ کرتا ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 44 میں اللہ تعالیٰ کی شان بیان ہوئی ہے:
’’بے شک وہ (اللہ تعالیٰ) بہت بردبار، بہت معاف کرنے والا ہے۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات صفت’’ حلم‘‘سے متّصف ہے۔ اس لیے وہ انتقام لینے اور سزادینے میں جلدی نہیں فرماتا۔
سورۃ فاطر آیت نمبر 45 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اگر اللہ لوگوں کے کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے ان پر (فوری) گرفت فرماتا تو روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا، لیکن وہ ایک مقرر وقت تک انہیں ڈھیل دیتا ہے۔ پس جب ان کا مقررہ وقت آجائے گا تو اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ لے گا۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ سزا دینے میں عجلت نہیں فرماتا۔ اگر وہ سزا دینےمیں جلدی کرتا تو چند مستثنیات کےسوا روئے زمین پر کوئی انسان باقی نہ رہتا ۔ کیونکہ جب بھی کوئی گناہ کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک کردیتا اور گناہ سے تو کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہے۔ اگر اللہ کی گرفت جلدی ہوتی تو زمین بنی نوع انسانی سے خالی ہوجاتی اور دنیا کا نظام تباہ و برباد ہوجاتا۔ مگر اللہ تعالیٰ تو بہت بردبار ہے، بخشنے والا ہے۔
حلم اور بُردباری کی برکت سے اللہ تعالیٰ دو بندوں کے درمیان دشمنی اور عداوت کو محبت میں تبدیل فرمادیتا ہے۔ جب ایک شخص جاہلانہ برتاؤ کرتا ہے اور دوسرا اس کے مقابلے میں حِلم کا مظاہرہ کرتا ہے تو پہلاشخص ایک بار جہل سے کام لے گا۔ دوسری بار بھی ایسا ہی کرے گا مگر تیسری بار ضرور سوچے گا۔ اپنےطرزِ عمل پر غور کر کے اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنے پر مجبور ہوگا۔ اور اس کے دل میں عداوت کی جگہ دوستی اور محبت و شفقت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ یہی بات سورۃ حم السجدہ آیات نمبر 34 تا 35 میں اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتےہیں:
’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں برائی کو بہترین حکمت سے ٹالو، اس کانتیجہ نکلے گا کہ جس شخص کے ساتھ تمہاری دشمنی ہے ، وہ تمہارا بہترین دوست بن جائے گا۔ اور یہ فراست انہی کو ملتی ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہوتے ہیں اور یہ حکمت انہیں عطا ہوتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں۔‘‘
پس حلم والے اعلیٰ نصیب کے مالک ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائےاچھائی سے دینے کی توفیق عطا کی ہے۔ حلیم شخص اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں میں سے ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اشّج بن عبد القیس ؓ سے فرمایا:’’ تم میں دو صفات ایسی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہےحلم اور عقل ۔‘‘ ( مسلم)
حلم نرم مزاجی کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نرمی کو پسند فرماتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے‘‘ ( بخاری)
نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا:اے عائشہ ؓ ! بے شک اللہ تعالیٰ مہربان ہے اور مہربانی اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر ثواب دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔ اور نہ اس کے سو اکسی اور عبادت پر دیتا ہے۔‘‘(مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی بندہ نے کسی چیز کا گھونٹ ایسا نہیں پیا جو اللہ کے نزدیک غصہ کے اس گھونٹ سے افضل ہو جسے کوئی بندہ اللہ کی رضا کی خاطر پی جائے۔ (مسند احمد)
جن خوش خصال اور پاکیزہ صفت بندوں کے لیے جنت آراستہ کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ آل عمران 134 میں ان کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے:
’’اور وہ اپنے غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کی خطائوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔‘‘
سہیل بن معاذ ؓ اپنے والد حضرت معاذ ؓ سے روایات کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص غصہ کو پی جائے در آنحا لیکہ اس میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ وہ اپنے غصہ کے تقاضے کو نافذ اور پورا کر سکتا ہے ( لیکن اس کے باوجود محض اللہ کے لیے اپنے غصہ کو پی جاتاہے اور جس پر اس کو غصہ ہے، اس کو کوئی سزا نہیں دیتا ) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ساری مخلوق کے سامنےاس کو بلائیں گے اور اس کو اختیار دیں گے کہ حورانِ جنت میں سے جس حور کو چاہے اپنے لیے منتخب کرلے ۔‘‘ (جامع ترمذی۔ سنن ابی داؤد)
آج کل تُرکی بہ تُرکی جواب دینے کو ایک اچھی صفت کے طور پر سمجھا جاتا ہے ایسے شخص کو’’ حاضر جواب‘‘ کہتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہمارے معاشرے میں برداشت ، بردباری اور تحمل کے رویے کم ہوتے جارہے ہیں۔ فی زمانہ ہمارا سیاسی ماحول اسی لیے کشیدہ ہے کہ سیاسی قائدین نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کو قیادت کا جوہرِ کمال سمجھ لیا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کے میڈیا مینیجرز ہیں اور ایک میڈیا ٹیم‘‘ ہے جو ہر مخالف کی پگڑی اچھالنے کو اصل سیاست سمجھتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی بدکاریوں ، کرپشن کے معاملات اور دوسرے پوشیدہ جرائم کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اور بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
ذرا غور کریں نبی اکرم ﷺ کی ذات میں کس قدر حلم تھا۔ آپ ﷺ نے ابو جہل ، ابو لہب سمیت قریش کے سرداروں کی زیادتی کے مقابلے میں کیسی بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کیا ۔ مدینہ منورہ میں عبد اللہ بن اُبی ٔ سمیت منافقوں اور یہود کی ہرزہ سرائی کا کتنی بردباری کے ساتھ مقابلہ کیا۔
دورِ حاضر میں’’ سوشل میڈیا‘‘ کا ایک نیا عنصربھی شامل ہوگیا ہے۔ آپ کسی بھی سیاسی جماعت کےلیڈر کو یا کسی جماعت کے قائدین کو کوئی مخلصانہ مشورہ ہی دے کر دیکھ لیں۔ آپ پر سوشل میڈیا’’ میں دشنام طرازی اور گالم گلوچ کی بوچھاڑ شروع ہوجائے گی۔ بلکہ سچ پوچھیں تو اس میدان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی طرف سے بھی آپ کو’’ مرصّع و مرقّع‘‘ گالیاں سننے کو ملیں گی۔ اور بلا مبالغہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے بھی زیادہ لعن طعن سننے کو ملے گا۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا آپ ﷺ کے جسم مبارک پر نجران کی بنی ہوئی موٹے حاشیے کی ایک یمنی چادر تھی۔ اتنے میں ایک دیہاتی آیا اور اس نےرسول اللہ ﷺ کی چادر کو پکڑ کر اتنے زور سے کھینچا کہ میں نے دیکھا: رسول اللہﷺ کے شانے پر اس کے زور کے کھینچنے کی وجہ سے نشان پڑگیا تھا۔ پھر اس نے کہا: محمد (ﷺ!) اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے مجھے اس مال میں سے دینے کا حکم صادر کیجئے۔ رسول اللہ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہو کر مسکرادیے اور آپ ﷺ نے اس کو دینے کا حکم فرمادیا ۔( بخاری)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری قوم اور ہمارے مذہبی و سیاسی لیڈروں کو بردباری اور تحمل کے رویے اختیار کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024