(منبرو محراب) مومن مردوں اور عورتوں کی دس صفات - ابو ابراہیم

8 /

مومن مردوں اور عورتوں کی دس صفات(سورۃ الاحزاب کی آیت 35کی روشنی میں )

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی کراچی میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے10مارچ2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

مرتب: ابو ابراہیم

 

خطبہ مسنونہ اورتلاوت آیات کے بعد!
آج ہم ان شاء اللہ سورۃ الاحزاب کی آیت 35 کا مطالعہ کریں گے ۔ اس آیت میں اللہ تعالی نےمومن مردوں اور عورتوں کی دس صفات کا ذکر کیا ہے ۔ قرآن مجید میں جب عام خطاب ہوتاہے تو وہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہوتاہے لیکن کچھ مقامات پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے علیحدہ طور پر بھی کلام کیا ہے ۔ زیر مطالعہ آیت کا پس منظر یہ ہے کہ بعض صحابیات کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کے سامنے بات آئی کہ قرآن میں مردوں کا ذکر تو بہت آیا لیکن عورتوں کا نہیں آتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آیت سمیت بعض دیگر آیات نازل ہوئیں ۔ زیر مطالعہ آیت میں فرمایا :
{اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ } (آیت :35) ’’یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں‘‘
مسلم وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو رب کے سامنے جھکا دے، سرنڈر کر دے اور زندگی کے ہر شعبہ میں رب کی فرمانبرداری اختیار کرے ۔ سورۃ البقرہ میں فرمایا :
{ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً ص}(البقرۃ:208) ’’اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
زندگی کا کوئی ایک گوشہ بھی ایسا نہ ہو جس میں رب کی نافرمانی ہو رہی ہو ، اپنی مرضی ہو رہی ہو ۔ بلکہ رب کے سامنے مکمل سرنڈر کا نام اسلام ہے ۔ یہاں تک کہ سورہ آل عمران میں فرمایا:
{وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(102)} ’’اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔‘‘
رب کی فرمانبرداری آخری لمحے تک قائم رہے اور انسان کا خاتمہ اس حالت میں ہو کہ وہ رب کا فرمانبردار ہو ۔ زیر مطالعہ آیت میں آگے فرمایا :
{وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ} (آیت :35) ’’اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں‘‘
گو کہ ایک مسلم ہی مومن بن سکتا ہے اور جو مومن ہے وہ مسلم بھی ہو گا ۔ اسلام اور ایمان، مسلم اور مومن ایک دوسرے کے ہم معنی کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں مگر کہیں کہیں فرق بھی کیا گیاجیسے سورۃ الحجرات میں فرمایا :
{قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَاوَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط}(الحجرات:14)
’’(اے نبیﷺ ان سے ) کہہ دیجیے : تم ہر گز ایمان نہیں لائے ہو‘ بلکہ تم یوں کہو کہ ہم مسلمان (اطاعت گزار) ہو گئے ہیں‘اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘
سادہ انداز سے ہم جانتے ہیں کہ ایمان کے دوطرح کے ہیں۔ ایک اقرار باللسان ہے اوردوسرا تصدیق بالقلب ہے ۔ زبانی اقرار کے ساتھ مسلمان بے نمازی بھی نظر آتے ہیں، سود خوری بھی کرتے نظر آتے ہیں اور بھی برے کام کرتے ہوئےنظر آتے ہیں ۔ لیکن دل میں اگر ایمان ہو تو پھر اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں: کوئی شخص حالت ایمان میں چوری نہیں کرتا ،زنا نہیں کرتا، شراب نہیں پیتا ۔ ایمان واقعتاً دل میں ہوگا تو عمل بھی سیدھا ہوتا چلا جائے گا۔ آگے فرمایا:
{وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ } ’’اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں‘‘
بالکل برابر کی بات ہے، مسلمان مرد نے بھی اللہ کی فرمانبرداری اختیار کرنی ہے ، مسلمان عورت نے بھی اللہ تعالی کی فرمانبرداری اختیار کرنی ہے۔ یہ میدان دونوں کےلیے کھلا ہے ۔ جو ایمان کے تقاضوں پر عمل کرے گا ، اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے جتنی محنت اور کوشش کرے گا وہ اتنا ہی کامیاب ہوگا ۔ عین ممکن ہے کہیں کوئی عورت بہت سارے مردوں سے زیادہ نیک اور پارسا اور اللہ کی فرمانبرداری کرنے والی ہو اور آخرت میں وہ بلند درجات کو حاصل کر لے اوراسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی مرد آگے نکل جائے ۔یہاں مرد اور عورت کو برابراختیار اللہ نے دے رکھا ہے ۔ چوتھی بات فرمائی :
{وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ} ’’اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں‘‘
اب یہ اخلاقی میدان بھی برابری کی سطح پر دونوں کے لیے کھلا ہے ۔ سچ بولنا، جھوٹ سے بچنا، وعدے کو پورا کرنا، امانت کی پاسداری کرنا، غیبت ، چغلی خوری سے بچنا وغیرہ، یہ سب تقاضے مردوں سے بھی ہیں اور عورتوں سے بھی ہیں۔ ہر ایک کوشش کرے کہ اس میدان میں وہ رویہ اختیار کرے جو اللہ تعالیٰ کومطلوب ہے۔ یہ اتنی بڑی صفت ہے کہ روز قیامت کے بارے میں فرمایا :
{قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُہُمْ ط}(المائدہ:119)’’اللہ فرمائے گایہ آج کا دن وہ ہے جس دن سچوں کو ان کی سچائی فائدہ پہنچائے گی۔‘‘
رسالت مآبﷺ کو آغاز وحی سے پہلے مشرکین مکہ بھی الصادق والامین کا خطاب دیتے تھے ۔ ہم ان الصادق اور الامین کے امتی اور نام لیوا ہیں اور آج ہمارےرویوں میں، ہماری گفتگو میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہوتاہے ، ہم سب کو پتا ہے۔ ہم اپنے کاروبار، ملازمت ، گھر بار ، اداروں میں کس قدر جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں ۔ جھوٹ بول کر اپنی پروڈکٹس بیچنا ایک آرٹ بن چکا ہے ۔ آج ہمارا میڈیا جھوٹ ، دجل اور فریب کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے ۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کے طور پر پھیلانا ، شیطانی ایجنڈے کو اس طرح پیش کرنا کہ عوام کو وہی حق لگے ، یہ سب دجالی تہذیب کا لازمی حصہ بن چکا ہے ۔ حالانکہ کامیاب مرد اور عورت کی صفت قرآن یہ بیان فرماتاہے کہ وہ سچ بولتے ہیں ۔ پانچویں بات بیان فرمائی :
{وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ } ’’اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں‘ ‘۔
دونوں کے لیے صبر کا تقاضا ہے۔ آگے رمضان المبارک آیا چاہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔‘‘
روزہ صرف کھانے پینے سے رک جانے کانام نہیں بلکہ جھوٹ، غیبت ،بری باتوں ، فلم ، ڈرامے ، ناچ گانے سمیت ہر برائی سے اپنے آپ کو بچانا روزے کا اصل مقصود ہے ۔ اسی طرح فضولیات میں وقت ضائع کرنے سے بچنا بھی صبر ہے ۔ روزے میں جہاں حلال سے رُکنا صبر ہے وہاں پوری زندگی میں حرام سے اور ہر قسم کے گناہ سے بچنا بھی صبر ہے۔ اسی تربیت کے لیے ہمیں رمضان کے روزوں سے گزارا جاتاہے ۔ روزے کا مقصد بیان ہوا :
{ لَـعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ(183)}(البقرہ)’’ تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔‘‘
صبرکے بہت سے پہلو ہیں، ہمارا خیال ہے بس پیر میں کانٹا چب گیا تو صبر کر لو، اس پر بھی ثواب ہے کوئی شک نہیں ۔مگر صبر اللہ کی اطاعت میں آنے والی مشقت کو جھیلنے کا نام بھی ہے،فجر کے لیے اٹھنا ، امیر کی اطاعت میں صبر کرنا ، حرام کمائی کے ذریعے راتوں رات کروڑ پتی بننے کے مواقع ہوں لیکن اس کے باوجود صبر کی زندگی گزارنا، دنیا کی چمک دھمک سے انسان کا دل کھنچتا ہے مگر اس کے باوجود حلال کمائی پر ہی اکتفا کرنا، اللہ کی راہ میں مصائب اور اذیتیں اُٹھانا یہ سب صبر میں شامل ہے۔ زندگی کی آزمائش میں کامیابی کے لیے ، اُخروی نجات کے لیے سورۃ العصر کی چار شرائط میں سے دو یہ بھی ہیں :
{وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3)}’’اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا ، اپنے عزیز واقارب ، پڑوسیوں اور مسلمانوں کے جائز حقو ق کے لیے کھڑا ہونا ، ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ، معاشرے میں ہر قسم کی برائی کے خلاف کھڑا ہونا ، ناموس رسالت کے لیے اور سب سے بڑھ کر اللہ کے حقوق کے لیے کھڑا ہونا یہ ایک مسلمان کا لازمی فریضہ ہے ۔ سورۃ العصر کے مطابق اس کے بغیر تو نجات ممکن ہی نہیں ۔ لیکن جب آپ ان سب حقوق کے لیے کھڑے ہوں گے تو باطل کی طرف سے جواب بھی آئے ، جوابی حملے بھی ہوں گے ، آپ کو جان و مال کی قربانیاں بھی پیش کرنا ہوں گی ، لہٰذا اب آپ نے صبر کرنا ہے اور اللہ کی راہ میں چاہے مرد ہو یا عورت ان چار شرائط کو پورا کرے گا تو آخرت میںنجات ملے گی۔ مردو عورت کے لیے تا حیات صبروالی زندگی گزارنا پڑے گی ۔ جیسا کہ فرمایا:
{اُولٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا} ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے صبر کی جزا میں بالاخانے ملیں گے۔‘‘ (الفرقان:75)
آگے مومنین و مومنات کی چھٹی صفت یہ بتائی گئی :
{وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ}’’اور خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں‘‘
خشوع عبادت کی روح کا ایک پہلو ہے۔ انسان میں عاجزی و انکساری کا پیدا ہو جانا اس سے مُراد ہے ۔ خشوع پوری زندگی میں مطلوب ہے۔جس طرح ہم نماز میں اپنے رب کے سامنے رکوع میں جھکتے ہیں ، سجدے میں بھی جھکتے ہیں لیکن کیا ہمارا دل بھی رب کے آگے جھکتا ہے یا نہیں ؟ خشوع یہ ہے کہ آپ کا دل بھی رب کے سامنے جھکا ہوا ہو دماغ بھی سرنڈر کر چکا ہو ،آپ عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے سامنے سوالی بن کر کھڑے ہوں ۔ اسی طرح پوری زندگی میں خشوع مطلوب ہے کہ ہماری اولین ترجیح یہ ہوکہ ہمارا رب ہم سے راضی ہوجائے اور روز قیامت اعلان کردے :
{یٰٓــاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ(27)ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً(28) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ(29) وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(30)}(الفجر)’’اے نفسِ مطمئنّہ!‘ اب لوٹ جائو اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تم اس سے راضی‘ وہ تم سے راضی۔ توداخل ہو جائو میرے (نیک) بندوں میں۔اور داخل ہو جائو میری جنّت میں!‘‘
اللہ اکبر آگے فرمایا:
{ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ}’’اورصدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں‘‘
وہ مالی صدقہ جو صاحب نصاب پر فرض کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ ہے۔ اس کے علاوہ ایک صدقہ فطر ہے جو واجب کے درجے میں ہے ۔ قرآن مجید میں خیرات کاذکر بھی آیا :
{فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط}(البقرہ: 148) ’’تو (مسلمانو!) تم نیکیوں میں سبقت کرو۔‘‘
ایک مالی صدقہ ہے، یہ مردبھی کریں،خواتین بھی کریں ۔ اس حوالے سے مردوں کو بھی تعلیم دی گئی اور عورتوں کو بھی الگ سے تعلیم دی گئی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔" عموم کے اعتبار سے تمام نیکیاں بھی صدقہ ہیں ۔ راستے سے تکلیف دہ شے کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے، مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرانا ،اچھی طرح اس کو welcome کرنا بھی صدقہ ہے، کسی کو خیر کی کوئی بات سکھا دینا بھی صدقہ ہے ۔ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہر آدمی کے بدن میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں۔ سو جس نے اللہ اکبر کہا، الحمدللہ کہا، لا الٰہ الا اللہ کہا، سبحان اللہ کہا، استغفراللہ کہا، پتھر لوگوں کی راہ سے ہٹا دیا یا کوئی کانٹا یا ہڈی راہ سے ہٹا دی یا اچھی بات سکھائی یا اس کا حکم دیا، یا بری بات سے روکا تو یہ تین سو ساٹھ جوڑوں کی گنتی کے برابر ہے (یعنی شکر ادا کرنے کے برابر ہے) اور اس دن وہ اس حال میں چل رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان کو جہنم سے آزاد کروا چکا ہوتا ہے۔ ‘‘یہ عموم کے اعتبار سے صدقات ہیں ۔ البتہ مالی صدقہ بھی مطلوب ہے ۔جو صاحب نصاب نہیں ہیں ، زکوٰۃ جن پر واجب نہیں ہے ان کے لیے بھی حضور کا بڑا پیارا فرمان ہے ۔ حدیث مبارک میں آتا ہے کہ اللہ کی راہ میں کھجور کا ایک حصہ دے کر بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرسکتے ہوتو کر ڈالو ۔ مطلب کتنا دے رہے ہویہ ا ہم نہیں ،کس قدر اخلاص اور للہیت کے ساتھ دے رہے ہو،مشکل حالات میں دے رہے ہو اس کی قدر ہے۔اس میں شک نہیں کہ زیادہ دینے والے کی بھی قدرہے جو اخلاص کے ساتھ لائے۔ غزوئہ تبوک کے موقع پر سیدنا عثمانؓ اتنا مال لائے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا عثمان! آج کے بعد تو کچھ بھی کر لے تو سب تجھے معاف ہے۔زیادہ کی بھی قدر ہے مگر سارے ڈھیر کے ٹاپ پر حضورﷺ نےوہ مٹھی بھر کھجوریں رکھیں جو ایک صحابی ساری رات کسی یہودی کے باغ میں مزدوری کرکے لائے ، گھر میں فاقہ تھا ، آدھی گھر میں دے دیں اور آدھی لاکر چپکے سے رکھنے لگے، حضورﷺنے بلایا اور اس کی مٹھی بھر کھجوریں مال کے ڈھیر پر رکھ دیں ۔یعنی اخلاص کی بھی قدر ہے ۔ رمضان آرہا ہے ، حضورﷺ نے فرمایا: جو کہ کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرائے چاہے ایک کھجور ، دودھ یا پانی کے چند گھونٹ ہی پلا دے تو اللہ اسے بھی اتنا ہی ثواب دے گا جتنے روزے دار کو دے گا ۔ آگے فرمایا:
{وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ} ’’اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں‘‘
ایک تو رمضان کے روزے ہیں ، اس کے بعد مخصوص نفلی روزے ہیں ، اس کے علاوہ بھی نفلی روزے رکھے جا سکتے ہیں ۔ کوشش کرنی چاہیے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ یہ میدان مردوںکے لیے بھی کھلا ہوا ہے عورتوں کے لیے بھی کھلا ہے (سوائے مخصوص ایام کے ) ۔ آگے فرمایا:
{وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ} ’’اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں‘‘
شرم گاہوں کی حفاظت کا اہم ذریعہ نکاح کا پاکیزہ بندھن ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا: نوجوانو! تم میں سےجو استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرے ۔یہ نگاہ کو نیچا رکھتا ہےاور شرم گاہوں کی حفاظت کرتاہے ۔ اس نکاح کے ذریعے خاندان وجود میں آتا ہے ،اس کے ذریعے پاکیزہ رشتے وجود میںآتے ہیںجو حفاظت کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ باپ ، بھائی ، شوہر ، اولاد ،چچا ، ماموں ، دادا اور اسی طرح دیگر رشتے حفاظت کا بھی ذریعہ بنتے ہیں۔ آج مغربی تہذیب عورت کو ان تمام رشتوں سےآزاد کرنا چاہتی ہے تو پھر اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ۔ پھر اب یورپ کے بڑے دماغ سوچ رہے ہیں عورت کو واپس اس کے اصل مقام یعنی گھر میں کیسے لایا جائے ۔ جبکہ قرآن میں اللہ نے پہلے ہی حکم دے دیا تھا :
{وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ}(الاحزاب:33) ’’گھروں میں قرار پکڑو ۔‘‘
ضرورت کے مطابق باہر جائے تو پردہ ، حجاب کا اہتمام کر کے جائے ۔ اسلام زنا کی طرف لے جانے والے تمام راستوں پر بھی پابندی لگاتا ہے ۔ ہم وحی کی اس تعلیم کو مان لیں تو یورپ کی طرح ٹھوکریں کھانے سے بچ جائیں گے۔ آگے فرمایا:
{وَالذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ}’’اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں‘‘
یہ میدان بھی مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں طور پر کھلا ہے جو جتنا اللہ کا ذکر کرے وہ اس کے اختیار میں ہے البتہ بعض اہل علم کے مطابق اس میں عورت کے لیے کچھ خصوصی رعایت بھی ہے۔اللہ کے رسولﷺ کی حدیث ہے :”عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہاجائے گاکہ جنّت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔“(مسند امام احمد)
ان دس صفات کے حامل مردوں اور عورتوں کے بارے میں آخر میں فرمایا : 
{اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا(35)} ’’اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کی تعلیمات پر یقین اور عمل کی توفیق دے اور ان دس صفات کا حامل بنا دے ۔ آمین یا رب العالمین!
ززز