(اداریہ) 23 مارچ: حقیقت کیا ہے؟ - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا23 مارچ: حقیقت کیا ہے؟

نوٹ: یہ تحریر 7 سال قبل لکھی گئی تھی جو قبل ازیں مارچ 2016ء میں ہفت روزہ ندائے خلافت میں شائع ہو چکی ہے۔ خصوصی اہمیت کے پیش نظر اور موجودہ حالات کے تناظر میں معمولی حک و اضافہ کے ساتھ قند مکرر کے طور پر شائع کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو صورت حال پر اس سے بہتر تبصرہ نہیں ہو سکتا کہ سنتا جا اور شرماتا جا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے چار سال یعنی1951ء تک کسی قدر خیریت گزری۔ بعد ازاں اگلے بہتر(72) سال میں آپ کو جگہ جگہ دجل و فریب کی داستانیں بکھری ہوئی ملیں گی۔ قیامِ پاکستان کے ڈیڑھ سال بعد یعنی1949ء میں آئین ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد منظور کر لی۔ وہ بھی اس صورت میں جب شبیر احمد عثمانی ؒ جیسی شخصیت نے اسمبلی میں حکمران مسلم لیگ کو دھمکی دی تھی کہ اگر تم لوگوں نے یہ قرار داد منظور نہ کی تو میں اسمبلی سے باہر جا کر پکار پکار کر لوگوں سے کہوں گا کہ مسلم لیگ نے ہم سب کو دھوکہ دیا ہے۔ شبیر احمد عثمانی ؒ اُن چند مذہبی رہنمائوں میں سے تھے جنہوں نے علماء کی اپنی برادری سے اختلاف کر کے تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کی حمایت کی تھی۔ بہرحال کھینچ تان کر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت تک معاملات ابھی زیادہ خرابی کی طرف نہیں گئے تھے۔ ہم نے اپنی صورت کو ابھی اس قدر بگاڑا نہیں تھاکہ ہماری پہچان مسئلہ بنتی۔ بہرحال کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ لیاقت علی خان کو ایک سازش کے تحت شہید ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ اُنہوں نے طے کر لیا تھا کہ قرار دادِ مقاصد کوہر صورت اور جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جائے۔ اس ظن کو اس انکشاف سے تقویت ملتی ہے کہ اُن کے قتل میں کمیونسٹ عناصر ملوث پائے گئے تھے اگرچہ اصل مجرموں تک پہنچنے کے لیے آج تک کوئی سنجیدہ کوشش اور تحقیقات وغیرہ نہیں کی گئیں۔
بہرحال ایک لیاقت علی خان کی شہادت ہی نہیں آج تک یہ بد قسمت قوم جتنے بھی سانحات سےدو چار ہوئی ہے اُن میں سے کسی ایک سانحہ کے ملزموں کا بھی تعاقب کر کے اُنہیں کٹہرے میں کھڑانہ کیا گیا اور نہ کسی کو قومی مجرم قرار دے کر عبرتناک سزا دی گئی۔
23 مارچ یوم پاکستان کے طور پر زور و شور سے منایا جاتا ہے۔ ہم چاہیں گے کہ23مارچ بطور یوم پاکستان منانے کے حوالہ سے بھی ایک تکلیف دہ اور دلخراش حقیقت قارئین کے سامنے لائی جائے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ 23مارچ اگر یوم پاکستان ہے تو14 اگست کیا ہے؟اگر ہم 23 مارچ کو یوم پاکستان اس لیے قرار دیتے ہیں کہ1940ء میں اس دن منٹو پارک لاہور میں ایک قرار داد منظور ہوئی تھی جو پاکستان کی آزادی کی بنیاد ثابت ہوئی، تو ہم بات کو اس حد تک تسلیم کر لیتے ہیں۔ یقیناً یہ قرار داد تحریک آزادی کی بنیاد بنی۔ اگرچہ یہ قرار داد لاہورکے عنوان سے پیش کی گئی تھی اور اس قرار داد میں پاکستان کا نام تک نہیں ہے اور اس میں آزاد ریاست Independant state کا نہیں بلکہ آزاد مسلم ریاستوں کا ذکر ہے یعنی State کی بجائےStatesکا لفظ لکھا ہوا ہے۔ یہ اضافی’’ S‘‘ 1946ء میں کاٹا گیا۔ اسے قرار داد پاکستان تو ہندو پریس نے طنزیہ انداز میں کہا تھا۔ لیکن اور یہ بہت بڑا لیکن ہے کہ اگر23مارچ ہی یوم پاکستان ہے اوریہ اس لیے منایا جاتا ہے کہ 1940ء میں اس دن قیام پاکستان کے لیے قرار داد منظور ہوئی تھی تو قیامِ پاکستان کے بعد1948ء سے لے کر 1955ء تک ہم یہ دن منانے کے حوالہ سے بالکل خاموش کیوں ہیں؟ حکومتی ریکارڈ کے مطابق مذکورہ 8سالوں میں نہ یہ دن منایا گیا، نہ قومی تعطیل، نہ کوئی جشن، نہ کوئی پریڈ وغیرہ آخر کیوں؟
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 23 مارچ1956ء کو اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان چودھری محمد علی نے پاکستان کو پہلا آئین دیا تھا۔ پاکستان تخت برطانیہ کی ماتحتی سے اعلانیہ طور پر الگ ہو گیا تھا اور اِس دن کو یوم جمہوریہ قرار دیا گیا تھا۔ 1957ء اور1958ء میں بھی23 مارچ کو بطور یوم جمہوریہ پاکستان منایا گیا۔ قومی تعطیل ہوئی اور تمام تقریبات منعقد ہوئیں۔ اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے ملک بھر میں مارشل لاء لگا دیا اور 1956ء کے آئین کو منسوخ کر دیا۔ گویا خاکی وردی والوں نے جمہوریت اور آئین سب کچھ اپنے بھاری بوٹوں تلے روند ڈالا۔ 1959ء میں جب23مارچ کی آمد آمد تھی تو فوجی حکمرانوں کے سامنے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ وہ یوم جمہوریہ کس طرح منائیں؟ وہ اُس آئین کے بننے کا دن کیسے اور کیوں منائیں جسے وہ کفنا اور دفنا چکے ہیں۔ دوسری طرف اِن فوجی حکمرانوں کے سامنے اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس روز عوام چھٹی منانے اور مختلف تقریبات منعقد کرنے کے عادی ہو چکے تھے۔ لہٰذا اِس کا کیاکیا جائے؟ سول بیورو کریسی جس کی ذہانت اور فطانت ہمیشہ آڑے وقت میں ہر قسم کے حکمرانوں کے کام آئی اُسی کا مشورہ ہو گا کہ فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے(حکمرانوں کی خوش قسمتی اکثر عوام کی بد قسمتی بن جاتی ہے) اسی روز یعنی 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں وہ قرار داد بھی تو منظور ہوئی تھی جسے سب مانتے ہیں کہ وہ تحریک پاکستان کی بنیاد بنی تھی۔ لہٰذا 23 مارچ کی تعطیل اور تقریبات کا تعلق1956ء کے آئین سے ختم کرکے 1940 ء کی قرار داد سے جوڑ دیا جائے اور پہلے سے بڑھ کر زور و شور سے تقریبات منعقد کی جائیں۔ عوام کا تعلق تو تعطیل اور رنگ برنگی تقریبات سے ہے۔ اُنہیں اس سے کیا فرق پڑے گا کہ23مارچ جو یوم جمہوریہ تھا، اب یوم پاکستان بن گیا ہے۔ عوام یقیناً اس غم میں دبلے نہیں ہوں گے کہ جمہوریت کی سالگرہ جمہوریت کی برسی کیوں بن گئی ہے؟ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اڑھائی سالہ نو خیز کلی کو کھلنے سے پہلے زندہ درگور کرنے پر جمہوریت کے کسی چیمپیئن کا ضمیر نہ جاگا۔ ہمارے لیے تو مغربی جمہوریت نا محرم ہے، لہٰذا ہم نے اگر غض بصر سے کام لیا تو غلط نہیں کیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے وہ سیاست دان جو دن رات جمہوریت کی رٹ لگاتے ہیں، جمہوریت کی خاطر اپنی قربانیوں کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔ وہ23مارچ کو یوم پاکستان قرار دے کر جمہوریت کے مزار پر چادر کیوں چڑھاتے ہیں ؟ عاشقانِ جمہوریت یہ مسئلہ لے کر میدان میں کیوں نہیں نکلتے کہ23مارچ 1956ء کو اس سر زمین کو پہلا آئین ملا۔ تخت برطانیہ کی بالواسطہ غلامی بھی انجام کو پہنچی تھی۔ پاکستان کا گورنر جنرل پاکستان کا صدر بن گیا تھا۔ لہٰذا ہم اس دن کو بطور یوم جمہوریہ منائیں گے۔ ہم تاریخ کو درست کریں گے اور فوجی طالع آزما کی عیاری اور چالاکی کا پردہ چاک کریں گے کہ اُس نے اپنے غیر آئینی غیر قانونی اقدام کو جوازفراہم کرنے کے لیے یوم جمہوریہ کو یوم پاکستان میں کیوںبدل ڈالا؟ لیکن یقین مانیے کہ وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ اصل الاصول یہ ہے کہ ہر شے اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ پاکستان میں صف اوّل کا کوئی لیڈر بھی ایسا نہیں ہے جو عوام کی پیداوار ہو۔ جس نے لیڈر بننے کے لیے G.H.Q کا سہارا نہ لیا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف وزیراعظم بنے۔ انہیں عوام کی حمایت بھی حاصل ہوئی، لیکن دونوں پودے فوجی گملوں میں لگائے گئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو کون جانتا تھا؟ ایوب خان سندھ سے ایوب کھوڑو کو پیچھے دھکیل کر اس نوجوان کو آگے لائے۔ وہ ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے اور اُن کی جمہوریت یہ تھی کہ اُنہوں نے تجویز کیا کہ ہرضلع کےD.C کو مسلم لیگ کا صدر اور ایس پی سٹی کو سیکرٹری جنرل بنایا جائے۔ ایسا ہی تعلق میاں نواز شریف کاجنرل ضیاء الحق سے تھا۔ فوجی حکومت کا کل پرزہ بن کر اُنہوں نے سیاسی تربیت حاصل کی۔ وہ کچھ عرصہ پہلے تک کہتے رہے کہ میں جنرل ضیاء الحق کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچا ئوں گا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو اُن کے مخالفین سلیکٹڈ قرار دیتے رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان نے تقریباً دو دہائیوں پر محیط عوامی سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں عوامی مقبولیت حاصل کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ 2018ء میں PTI کو عوام نے ووٹ دیے اور اُنہیں عوامی مینڈیٹ حاصل ہوا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فوج نے اُنہیں وزیراعظم بننے کے لیے پارلیمنٹ میں بیساکھیاں فراہم کیں۔
ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی لیڈر جمہوریت سے مخلص نہیں۔ انہیں اقتدار اور قوت چاہیے تاکہ حکمرانی کے مزے لیں اور اس کے ذریعے اپنی دولت میں اضافہ کر سکیں اُن کے نزدیک جمہوریت نظریہ نہیں ہے بلکہ حصولِ اقتدار کا زینہ ہے۔ حقیقت میں ہمیں تو اپنی اور اپنے پیٹی بھائیوں کی فکر کھائے جا رہی ہے، لہٰذامعذرت کے ساتھ ہم یہ کہنے کی جرأت کریں گے کہ اسی آئینہ میں مذہبی راہنما اور کارکن بھی اپنا عکس دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ پاکستان اسلام کی بجائے لبرل ازم کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟پاکستانی مسلمان کے مذہب سے جذباتی لگاؤ کے باوجود ہر سطح پرمذہب کے حوالہ سے یہ پسپائی کیسی ہے ؟ کہیں یہاں بھی اخلاص کا فقدان تو نہیں؟ یہاں بھی آخرت کو دنیا پر ترجیح تو نہیں دی جارہی ۔ یہ سب کچھ اقتدار کی رسہ کشی کا حصہ تو نہیں ہے؟ دین کے حوالہ سے نعروں اور اجتماعات کے انعقاد پر اکتفاکیا جا رہا ہے اور تمام تر کاوشیں اور صلاحیتیں اصلاً دنیا کمانے میں صرف ہورہی ہیں ۔خدا را اِس نکتہ کو سمجھیں کہ صورت حال معلق نہیں رہ سکتی۔ اگر ہم نفاذ اسلام کے حوالے سے آگے نہیں بڑھتے تو پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ یعنی اسلام کی طرف پیش رفت نہ ہوئی تو یقیناًسیکولرازم کی طرف بات بڑھے گی۔ اپنا محاسبہ کرنے اور نظر ثانی کرکے دنیا و آخرت کے خسارے سے بچنے کی تدبیر کرنا ہو گی ۔ یقیناً آخرت کی فلاح ہی حقیقی فلاح ہے اور آخرت کا خسارہ ہی حقیقی خسارہ ہے ۔اور اس سے بچنے کے لیے اپنا رخ درست کرنے ، پُر خلوص اور کمر توڑ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ سو باتوں کی ایک بات کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کی ضرورت ہے لیکن فتنہ کے اِس دور میں اللہ کا دین نافذ کیے بغیر اللہ کی رضا حاصل نہیں ہوسکتی۔ایک مومن صادق کے کرنے کا اصل کام یہی ہے۔ اے اللہ! اپنے نام لیوائوں کو اس کی توفیق عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین