(زمانہ گواہ ہے) پاکستانی سیاست میں تصادم کاذمہ داری کون؟ - محمد رفیق چودھری

6 /

موجودہ خراب ملکی صورتحال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے

کہ جلد از جلد انتخابات کروا دیے جائیں اور جس پارٹی کو عوامی

مینڈیٹ حاصل ہو اقتدار اس کے حوالے کر دیا جائے :ایوب بیگ مرزا

ملک پہلے ہی دیوالیہ پن کا شکار ہے ، اگر حکومت نے عمران خان

کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی تو اس سے سیاسی عدم استحکام

بڑھے گا جس کے انتہائی مہلک اثرات پاکستان پر پڑیں گے : قیوم نظامی

پاکستانی سیاست میں تصادم کاذمہ داری کون؟ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میںمعروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے عدالتی وارنٹ جاری ہوئے اس کے باوجود ایسا نظر آتاہے کہ وہ گرفتاری دینے پرتیار نہیں ہیں ۔ کیاخان صاحب کایہ اقدام ریاست کی رٹ کوچیلنج کرنا نہیں ہے ؟
قیوم نظامی:اس حوالے سے میں ایک واقعہ ذکرکروں گاجوسابق آرمی چیف جنرل گل حسن نے اپنی یادداشتوں میںدرج کیاہے ۔ جنرل گل حسن قائد اعظم کے ADCرہے تھے اورذوالفقار علی بھٹو جب وزیرخارجہ تھے توان کے سٹاف افسر بھی تھے ۔وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے گورنرجنرل قائد اعظم کراچی میں ملیر کی جانب سفر کررہے تھے توراستے میں ریلوے کا پھاٹک بند تھااورابھی گاڑی آنے میں تین چار منٹ باقی تھے ۔ جنرل گل حسن کہتے ہیں کہ میں نے فوری جاکرپھاٹک کھلوا دیاتاکہ قائد اعظم کی گاڑی گزر سکے ۔ لیکن جب میں واپس آیاتوقائد اعظم ناراض ہوئے۔ انہو ںنے کہاکہ گل!یہ تم نے کیا کیا، میں پاکستان کالیڈر ہوں، گورنرجنرل ہوں،میں اگر قانون کی پابندی نہیں کروں گاتوپھرمیری قوم آئین وقانون پرعمل درآمد کیسے کرے گی؟چنانچہ انہوں نے وہ پھاٹک بند کرایا اور انتظار کیااورجب گاڑی گزری گئی توپھروہ آگے گئے۔ دوسرا واقعہ ذوالفقار علی بھٹو کاہے ۔وہ بھی عظیم لیڈر تھے اورانہوں نے بڑے کارہائے نمایاں بھی انجام دیے ۔ گل حسن لکھتے ہیں کہ وہ ایک دن ان کے ساتھ گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ جب گاڑی ایک چوک پر پہنچی توسامنے اشارہ بند تھا،ڈرائیور نے گاڑی کھڑی کردی۔بھٹو صاحب نے ڈرائیور کوکہاکہ آگے چلو کوئی میری گاڑی کو روک نہیں سکتا۔ بھٹو صاحب بھی عوامی لیڈر تھے لیکن مائنڈ سیٹ چونکہ فیوڈل ہے اس لیے وہ سامنے آگیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے میں پچھلے 75برسوں میں آئین اورقانون کی حکمرانی قائم نہیںکی۔ آئین وقانون صرف عام آدمی پرنافذ ہوتا رہا ہے لیکن بڑے لوگوں نے کوئی ایسی مثال قائم نہیںکی جیسے قائداعظم نے پیش کی تھی ۔ آپ نے جو سوال کیایہ بھی ہمارا سماجی،آئینی وقانونی بحران ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان بوجوہ عدالتوں میں حاضری سے کچھ گریز کرتے ہیں اوراپنے مقدمات کو طول دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وقت گزرجائے اورمیںعدالت میں پیش نہ ہوں۔ ان کے اوپرعدالت میں توشہ خانہ کاکیس چل رہا ہے۔ اس عدالت کے جج نے جب دیکھاکہ بار بار نوٹس بھیجنے کے باوجود عمران خان عدالت میںحاضر نہیں ہورہے توانہوں نے ایک ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیا۔ چنانچہ پنجاب اوراسلام آباد کی پولیس نے اس وارنٹ کی تعمیل کی کوشش کی ۔ اس کے بعد پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے راستہ دیاکہ آپ انہیں گرفتار نہ کریں یہ عدالت میںپیش ہوجائیں گے ۔لہٰذا وارنٹ گرفتاری منسوخ ہوگئے ۔ عمران خان عوامی لیڈر ہیں بلکہ عالمی سطح کے لیڈر ہیںان کوایک اچھی مثال قائم کرنی چاہیے تھی اوراسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں جوموقع دیاتھااس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ پیشی پرحاضر ہوجاتے لیکن نہیںہوئے ۔چنانچہ جج نے دوبارہ ایک وارنٹ گرفتاری جاری کردیا۔ اصل میں اسلام آباد کی پولیس راناثناء اللہ کے کنٹرول میں ہے جن کے بیانات اشتعال انگیز اورانتقامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ا ن کو یہ نہیں پتاکہ آپ ایٹمی ملک کے وزیرداخلہ ہیں۔ آپ کو اپنے لہجے پر کنٹرول ہونا چاہیے اور کوئی ایسی بات نہیںکرنی چاہیے جس سے لوگوں میںاشتعال پیدا ہوتا ہو۔ دوسری طرف مریم نواز نے بھی کچھ ایسے بیانات جاری کیے جس سے معاملہ بگڑا۔ پھرآئی جی پولیس پنجاب نے بھی یہ نہیں دیکھاکہ وہ ایک وارنٹ گرفتاری پرکیسے ری ایکٹ کررہے ہیں۔انہوں نے بھی غیرمعمولی فورس لگادی جس سے مزید اشتعال پھیلا۔ دوسری بات جس سے پی ٹی آئی کے کارکنوںکی صفوں میں تشویش پیدا ہوئی یہ تھی کہ پیشی 18کوتھی جبکہ پولیس 14 کوزمان پارک پہنچ گئی ۔دوسری طرف عمران خان اور پی ٹی آئی والوںنے بھی کوئی متوازن پالیسی کاثبوت نہیں دیا۔ جب پولیس اورکارکن آمنے سامنے تھے توانہوں نے ایسے بیانات جاری کردیے جن سے کارکنوں میں مزید اشتعال پیدا ہوا۔یہ ایک افسوس ناک واقعہ جس کی اجتماعی ذمہ داری ہم سب کو قبول کرنا پڑے گی۔
ایوب بیگ مرزا:میں سمجھتاہوںکہ نظامی صاحب نے بہت عمدہ طریقے سے بات کو واضح کیا ہے ۔ سب سے اہم بات انہوںنے یہ کہی کہ جب 18تاریخ کوپیش کرناتھاتوپھر14کو پولیس کیا لینے گئی تھی ۔ اس سے بدنیتی ظاہر ہوتی ہے ۔ پھرملک کے نامور وکیل اعتزاز احسن کہہ رہے ہیں کہ جس الزام میں وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے وہ اتنی معمولی نوعیت کا ہے کہ ایسے کیسز میں پولیس جاتی ہے اور واپس آکر کہہ دیتی ہے کہ ملزم نہیں ملا یا اس تک پہنچنے نہیں دیا گیا۔ یہ وہ کام ہے جو عدالتوںمیں روز ہوتا ہے۔ اس کا بڑا اچھا طریقہ تھاکہ اس کو اشتہاری قرار دیتے۔ جیسے نواز شریف اس وقت اشتہاری ہیں ، وقت کے وزیراعظم نے پچاس روپے کے سٹیمپ پیپر پران کی ضمانت دی ہوئی ہے اوروہ نہیں آرہے ۔اسی طرح عمران خان کو بھی اشتہاری قراردے دیتے توبات ختم ہوجاتی۔ حکومتی وزیر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس زہر کھانے کے پیسے نہیں ہیں لیکن دوسری طرف ایک غیر ضروری آپریشن پر ملک کے کروڑوں روپے خرچ کروا دیے ۔ اعتزاز احسن نے اس آپریشن کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ان کے گھر میں بھی آنسوگیس کے شیل پھینکے ۔ حکومت نے بہت ہی غلط رویہ اختیا رکیا۔یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ عمران خان کوخود کو قانون کے حوالے کر دینا چاہیے تھا لیکن گزشتہ ایک سال کے حکومتی طرز عمل سے واضح طور پر محسوس ہورہا ہے کہ وہ قانون کی عملداری کی بجائے انتقامی کارروائیوں پر فوکس کیے ہوئے ہے ۔ اس سے قبل عمران خان پرقاتلانہ حملہ ہوا۔راناثناء اللہ کا بیان تھا کہ ہم ان کا پاکستان سے صفایا کر دیں گے۔ جب ملک کاوزیرداخلہ یہ کہہ رہاہو تو پھر قانون کی عملداری پر کون شک نہیں کرے گا ۔ پھرشورٹی بانڈایک عام بندہ بھی پولیس کودے دے توپولیس اعتبار کرلیتی ہے جس کی کوئی دوآدمی گواہی دے دیں ۔ لیکن ایک ملک کی بڑی جماعت کالیڈر شورٹی بانڈ دے رہاہے اور بدنیتی کی انتہایہ ہے کہ ایس پی شورٹی بانڈ وصول نہیں کررہاکہ میں وصول نہیں کرتا۔ حالانکہ اس کے پاس وصول نہ کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے ۔
سوال: آپ کی نظر میں حکومت بھی انارکی پھیلانا چاہتی تھی ؟
ایوب بیگ مرزا:سیدھی سی بات ہے کہ اس وقت الیکشن کامسئلہ ہے حکومت چاہتی ہے کہ کوئی ایسا مسئلہ بن جائے کہ انارکی پھیلے اور الیکشن ملتوی ہوجائیں ۔
سوال:فرض کریں خان صاحب گرفتاری دے دیتے تو اس کے بعد دوامکانات تھے ،یا وہ صحیح سلامت واپس آجاتے یا پھر قتل ہو جاتے ، اس سے جوانارکی پیدا ہوتی کیاملک اس کا متحمل ہے ؟
قیوم نظامی:میں اپنے پچاس سالہ سیاسی تجربے کی بنیاد پرخبردار کرناچاہتا ہوںکہ موجودہ حکومت کوذرا ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ، اگر خدانخواستہ حکومت نے کوئی سازش کرکے کسی طریقے عمران خان کو ختم کرنے کی کوشش کی توپاکستان کے لیے اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ،پھریہ خود بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے ۔ وہ اشتعال ملک کے لیے او ر ہرشخص کے لیے نقصان دہ ہوگا ۔ اس قسم کی سازش ملک افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ہم توپہلے ہی بہت دیوالیہ پن کاشکار ہیں ۔ اگر خدانخواستہ حکومت نے الیکشن ملتوی کرانے کے لیے کوئی ایسی حرکت کی تو مزید بحران پیدا ہو جائے گا ۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ میں چلاجائے اورکہے کہ میں نے سب سے ملاقاتیںکی ہیں اوروہ یہ کہہ رہے ہیں۔ پھر سپریم کورٹ فیصلہ کرے۔ میرا تجربہ یہ کہتاہے کہ بالآخر پھر عمران خان بات مان لیںگے اورجولائی اگست میں ایک ہی الیکشن ہونے چاہئیں کیونکہ یہ ملک دو الیکشنوں کامتحمل نہیںہوسکتا۔ ہم مقروض ہیں ۔ لوگوں کو روٹی کھانے کو میسر نہیں ہے ،آپ سال میں دودفعہ الیکشن کرانا چاہتے ہیں تو اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ تمام سیاستدان صرف اپنی سیاست کا سوچ رہے ہیں ریاست کا نہیں سوچ رہے ۔
ایوب بیگ مرزا:اصل مسئلہ آئین کاہے ۔اس وقت آپ اگرکسی چیز کو عذر بناکر الیکشن نہیں کرواتے توکل کلاں بڑے بڑے عذر سامنے آئیں گے اورپھرحوالے دیے جائیں گے کہ دیکھیں فلاںوقت پرالیکشن نہیں ہوئے۔ میں سمجھتاہوں کہ ہرقیمت پراس وقت الیکشن ہونے چاہئیں ۔ آئین کا آرٹیکل 254کہتا ہے کہ اس طرح کے مسئلے میں انوالو ہوکرتھوڑی دیر کا اغماض ہو تو اس کو تسلیم کیا جا سکتاہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیںہوتاکہ آپ باقاعدہ اعلان کردیں کہ اب الیکشن جولائی میں ہی ہوں گے البتہ جودن گزرگئے ہیں اس پرکوئی ایکشن نہیں لیاجائے گا۔
سوال: اس وقت الیکشن کرانے میں کون کون سی چیزیں رکاوٹ ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا: اس وقت الیکشن میں صرف حکمران اتحاد کی یہ سوچ رکاوٹ ہے کہ اگر اس وقت الیکشن ہو گئے تو ہم بری طرح ہار جائیں گے ۔ اس کے علاوہ کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔
سوال: زلمے خلیل زاد نے کہاہے کہ الیکشن جون میں ہوجائیںکیاامریکہ بھی یہی چاہتاہے ؟
ایوب بیگ مرزا:میں بتاچکاہے کہ امریکہ کااندازہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ پاکستان کوزخمی کرتا رہتاہے لیکن جب دیکھتاہے کہ قریب المرگ ہے توامریکہ ہی اس کو دوبارہ کھڑا کرتا ہے ۔ امریکہ نے دیکھ لیا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے اس کی وجہ سے پاکستان بہت کمزور ہو چکا ہے لہٰذا اب وہی اس کو اُٹھانے کے لیے آرہاہے اوریہ اس کاپچاس سالہ رویہ ہے کہ پاکستان کوخاص لیول سے اوپر بھی نہیں آنے دینااورمرنے بھی نہیں دینا۔
قیوم نظامی:جنرل ایوب خان سے زیادہ امریکہ کو کوئی نہیں جانتاکیونکہ پاک امریکہ تعلقات کا بانی ایوب خان ہی تھا ۔ اس نے اپنی ڈائریوں میں لکھاہے کہ برطانیہ اورامریکہ دونوں نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے پائوں پر کھڑاہوجائے۔وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان زندہ رہے لیکن بیساکھیوں کے ساتھ زندہ رہے ۔
سوال: کیاہمارے اصحاب اقتدار اورریاستی اداروں کویہ بات سمجھ نہیں آتی ؟
ایوب بیگ مرزا:انہیں سب سمجھ ہے لیکن ذاتی مفاد، عہدے ، اقتدار اور کرسی کی لالچ انہیں اندھا کر دیتی ہے ۔
سوال:سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجودکہا جارہاہے کہ ہم سکیورٹی نہیں دے سکتے، کیایہ بھی الیکشن میں تاخیر کے لیے حربے ہیں ؟
قیوم نظامی:زلمے خلیل زاد کے بیان کوپورا پڑھیں تواس کے پہلے حصہ میں یہ کہاگیاہے کہ عمران خان کو اگر خطرہ ہے تواس کے ساتھ انصاف ہوناچاہیے۔ بیان کے دوسرے حصہ میں وہ کہتا ہے کہ جون میں ایک ساتھ ہی الیکشن کرادیں ۔ زلمے خلیل زاد امریکہ کا نمائندہ ہے وہ امریکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی بیان دیتا ہے ۔ میں نے پاک امریکہ تعلقات کے اوپر کافی تحقیق کی ہے اوراس حوالے سے ایک کتاب بھی بعنوان ’’ آزادی سے غلامی تک‘‘تک لکھی ہے جو مارکیٹ میں موجود ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے پہلے آزادی حاصل کی تھی لیکن اب ہم امریکہ کے غلام ہیں اوریہ ہماری تاریخ ہے جونظر آتی ہے ۔میں سمجھتاہوں کہ اگرعمران خان کے تعلقات امریکہ سے کشیدہ نہ ہوتے توان کی حکومت ختم نہیں ہوسکتی تھی ۔ یہ امریکہ کی آشیرباد سے ہی ختم ہوئی ،اس میں توکوئی دورائے نہیں ہیں لیکن جلد عمران خان کو احساس ہو گیا کہ میں نے دوبارہ اقتدار میں آنا ہے تو امریکہ کو راضی کرنا پڑے گا لہٰذا اس نے امریکہ میں ایک لابنگ فرم ہائر کی تھی۔ تاریخی لحاظ سے ایسا تجربہ بے نظر بھٹو نے بھی کیا تھا ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کوپھانسی دی گئی تواس کے بعد بے نظیر اقتدار میںنہیں آسکتی تھی ۔لیکن اس نے امریکہ میں لابنگ کی اور ایک وقت آیا کہ بےنظیر وزیراعظم بن گئی۔بعد میں جنرل حمید گل نے خود مجھے بتایاکہ CIAکے لوگ کہتے ہیں کہ اس خاتون نے ہمیں دھوکہ دیا ہے ، جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے ۔بے نظیر نے چونکہ نیشنلسٹ اور پیٹریاٹ تھی اس لیے پاکستان کے مفاد پر قائم رہی، پھر اس کے دور میں میزائل ٹیکنالوجی نے ترقی کی۔ بہرحال اس علاقے میں امریکہ کے مفادات ہیں وہ اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔ چنانچہ وہ اس کے اوپرکبھی خفیہ اور کبھی ظاہری کنٹرو ل قائم رکھتے ہیں ۔پاکستان میں ہزاروں کی تعداد دمیں امریکہ کے سہولت کار موجود ہیں ۔ اس لیے اس کا بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اگر امریکہ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ جون جولائی میں اکٹھے الیکشن ہوں گے توپھر آپ دیکھ لیں کہ اکٹھے ہی ہوں گے اورعمران بھی مانے گا۔
سوال:جب عمران خان نے سلامتی کونسل میںاپنے خطاب میں اسلاموفوبیا کاذکر کیاتھا اورپھرہولوکاسٹ کا حوالہ دیا تھا اورحضورﷺ کی عظمت کی بات کی تھی توآپ نے کہا تھا کہ اس کے خلاف عالمی ایف آئی آردرج ہو گئی ہے ۔ اس کاکیامطلب تھا؟
ایوب بیگ مرزا:یہودی اور اسرائیل کہیں بھی اپنے مفاد کے خلاف کسی ملک کو جانے نہیں دیتے۔ ان کوایک بات سمجھ آگئی ہے کہ اگر یہ ہمارے خلاف بول رہاہے تویہ امریکہ کے مفاد کے مطابق کام نہیں کرے گا۔ ایک بات نوٹ کرلیں کہ جتنے ہم امریکہ کے غلام تھے اورہیں اس سے زیادہ امریکہ اسرائیل کاغلام ہے ۔لہٰذا یہود کے خلاف بیان دینا امریکہ کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا ۔ پھر اس نے اس کا نتیجہ دیکھا۔
سوال:کیا یہی معاملہ بھٹو کے ساتھ بھی ہوا تھا؟
قیوم نظامی:بالکل! میں گورنرہائوس میں موجود تھا۔ ہنری کسنجر آیاتھا اس نے کہا تھاکہ اگر آپ نے اپنی ایٹمی صلاحیت واپس نہ لی توہم آپ کو عبرت ناک مثال بنادیں گے۔ لیکن بھٹو نے کہا تھاکہ میں اپنے ملک کے ساتھ کھڑا ہوں۔
سوال: ابھی حال ہی میں چین نے ایران اور سعودی عرب کو قریب کرنے کی کوشش کی ہے اوربظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ محمدبن سلمان بھی امریکہ سے ناراض ہیں اورچین کے قریب ہورہے ہیں۔ آپ کے خیال میں عالمی سیاست میں یہ چال کیسی ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:اگرآپ بڑی طاقتوں کی تاریخ پرغور کریں تویہ ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف اقدام کرتی نظر آتی ہیں ۔ پہلے امریکہ نے چین کے بڑے قریبی اتحادی، دوست اور ہمسائے پاکستان کو کھینچ کر اپنی بغل میں دبا لیا ۔ پھر چین نے اس تھپڑ کا جواب اس طرح دیا کہ سعودی عرب جو امریکہ کا دیرینہ دوست اور اتحاد ی تھا اور آہستہ آہستہ امریکہ سے دور کھسک رہا تھا اس کو اپنے اعتماد میں لے کر ایران سے صلح کروا دی ہے ۔ یعنی جس سعودی عرب اور ایران کو امریکہ ہمیشہ لڑاتا رہاہے ان دونوں کو قریب کردیا۔یہ سلسلہ بین الاقوامی سیاست میں چلتا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ پاکستان امریکہ اورچین دونوں کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ پاکستان کا محل وقوع ایسا ہے کہ نہ چین پاکستان کو نظر انداز کرسکتاہے اورنہ امریکہ۔ ملائیشیا، انڈونیشیا وغیرہ جدھر چاہیں جائیں امریکہ فکر نہیںکرے گالیکن پاکستان پر نظر رکھنا امریکہ کی مجبوری ہے کیونکہ اگر پاکستان چین کے ساتھ مل جاتاہے تو یہ امریکہ کے لیے ناقابل قبول ہوگا ۔
قیوم نظامی:میں نے حال ہی میں ’’چین کے سوسال‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جو شائع ہو رہی ہے ۔اس دوران مجھے چین کی ساری تاریخ پڑھنے کا موقع ملا ۔ میرے نزدیک چین کی خارجہ پالیسی کامرکزی نکتہ یہ ہے کہ اگر پوری دنیا نے ترقی کرنی ہے تووہ مشترکہ طور پر ہی ترقی کر سکتی ہے ۔ یہ نہیںہوسکتا کہ چین نمبرون طاقت بن جائے اور باقی ملک نیچے بیٹھ جائیں۔ یہ تجربہ امریکہ نے کرکے دیکھ لیاوہ کامیاب نہیں ہوا،یہ بالادستی اوراجارہ داری امریکہ کرتا ہے چین نہیں کرتا۔ امریکہ توجنگیں شروع کراتا ہے تاکہ اس کااسلحہ بکے ۔ چین اپنی مصنوعات تیار کرتا ہے اوراس کا بیلٹ اینڈ روڈ تاریخ ساز منصوبہ ہے ۔ یہ اس وقت سعودی عرب اورایران میں بھی انوسٹمنٹ کررہاہے ۔ان دونوںکو قریب کردینا اس کی خارجہ پالیسی کی زبردست کامیابی ہے اور پاکستان پراس کے بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ پاکستان کو سعودیہ ایران کشیدگی کی وجہ سے ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا ہے۔ لیکن اب چونکہ بالخصوص مشرق وسطیٰ پر اور بالعموم دنیا پرچین کااثرورسوخ بڑھ رہاہے اور مستقبل قریب میں نمبر ون طاقت بننے جارہا ہے اس لیے وہ اپنے اثررسوخ کے دائرہ کو بڑھاتے ہوئے وہاں امن اور دوستی قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے ، اس کی یہی خواہش پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بھی ہوگی ۔
سوال: کیاامریکہ سعودیہ ایران تعلقات کی بحالی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلے گا؟
قیوم نظامی:اس کو برداشت کرناپڑے گاکیونکہ وہ عروج سے زوال کی طرف جارہاہے اورچین ابھررہاہے ۔ اس لیے آنے والی صدی کاپورا پروگرام انہوںنے طے کیا ہواہے۔ آنے والی صدی چین کی صدی ہے ،امریکہ کو اب کٹ ٹوسائز ہوناپڑے گا۔
سوال:کیا چین کی کوششوں کے نتیجہ میں ایران اورسعودی عرب کی پراکسی وار ختم ہو پائے گی نیز امریکہ اس کوشش میں کیا خرابی ڈال سکتا ہے ؟ـ
ایوب بیگ مرزا:میں سمجھتاہوںکہ امریکہ ایران اورسعودی عرب دونوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے گایعنی ان کی حکومتوںکے خلاف کوشش کرے گا۔ ٹرمپ نے محمدبن سلمان کوکہاتھاکہ آپ کی حکومت توہمارے لیے پندرہ دن کی مار ہے ۔ لیکن میں سمجھتاہوںکہ اتناآسان اب نہیں رہا۔ یقیناًامریکہ اس کوکسی قیمت پرٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیںکرے گا۔ ایران میں پردہ کے مسئلہ اٹھوایاگیاہے اورسعودی عرب میں توکئی چیزیں ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ وہ کامیاب ہوتا ہے یانہیں لیکن یہ ممکن نہیںہے کہ وہ خاموش بیٹھے گا ۔
سوال: موجودہ عالمی صورتحال اور بالخصوص پاکستان کے اندرونی حالات کے تناظر میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے ، رہنمائی فرمائیں ۔
قیوم نظامی:ہمارا ملک چونکہ کافی سنگین اور تشویش ناک صورت حال سے گزر رہاہے ۔ خاص طور پر معاشی طورپرہم دیوالیہ ہوچکے ہیں ۔ اس کاتقاضا یہ ہے کہ ہم اتفاق رائے پید اکریں ، ملک کے اندر سیاسی استحکام سے معاشی استحکام آئے گا۔ تمام سیاسی لیڈر خدا کا خوف کریں، ملک کو انتقام کی سیاست کی نذر نہ کریں اور ملکی مفاد میں اکٹھے ہوجائیں۔ایک میز پربیٹھ کرایسا حل تلاش کریں جس سے آئندہ کے لیے بہتری کی صورت پیدا ہو سکے۔عالمی معاملات میں پاکستان اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب یہاں معاشی اورسیاسی استحکام آئے گا۔
ایوب بیگ مرزا:اس وقت جوصورت حال ہے اس کے مطابق پاکستان زندہ رہ لے تو یہ بہت بڑی بات ہے ۔ اوراس کاایک ہی حل ہے کہ سارے ملک میں عام انتخابات کروادیے جائیںاورعوام کافریش مینڈیٹ آ جائے تو پھر میں سمجھتاہوںکہ اس آ گ پرپانی پڑجائے گا اور یہ کسی حدتک سرد ہوگی۔