(منبرو محراب) رمضان المبارک کی تیاری - ابو ابراہیم

6 /

رمضان المبارک کی تیاری

(سورۃ البقرہ کی آیت 185روشنی میں)

 

مسجد جامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخs کے17مارچ 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے اوراسی کے تعلق سے کچھ باتوں کی تذکیر آج مقصود ہے تاکہ ہم اس ماہ مبارک کے لیے پہلے سے ذہنی ، قلبی اور عملی طور پر تیار کریں ۔ احادیث کی کتابوں میں نبی اکرمﷺ کی دعا ملتی ہے کہ جب آپ ﷺرجب کاچاند دیکھتے تو آپﷺ دعاکرتے :
((اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّعْنَا رَمَضَانَ))’’اے اللہ ہمارے لیے رجب، شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے۔‘‘
اللہ کے نبی اکرم ﷺکامعروف خطبہ ہے جو آپﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ کوصحابہ کرامj کے سامنے پیش کیا تھا جس کامقصد یہ تھاکہ ماہ رمضان کی فضیلت، اس کے اعمال اوران کی برکات ہمارے سامنے رہیں اور اس ماہ مبارک سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ} (البقرہ:185)’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
رمضان کالفظ بھی بڑا اہم ہے۔ اس کاایک ترجمہ ہے جلا دینے والا ۔ اس حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ جب پہلی بار رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو اس وقت جھلسا دینے والی گرمی تھی ۔اس وجہ سے اس ماہ کا نام رمضان پڑ گیا ۔ دوسرا مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ مہینہ بندے کے گناہوں کو جلا دیتا ہے ، مٹا دیتا ہے ، ختم کر دیتا ہے ، لوگوں کی مغفرت کا، جنت میں داخلے کا ذریعہ بنتا ہے ۔ جہنم سے آزادی کاذریعہ بنتاہے ۔جیسا کہ احادیث مبارکہ میں اس کے فضائل اوربرکات ملتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جب رمضان کامہینہ شروع ہوتاہے تواس کی پہلی رات سے اللہ جنت کے سارے دروازے کھول دیتاہے ، کوئی بند نہیں ہوتا اورجہنم کے سارے دروازے بند ہوجاتے ہیںکوئی کھلانہیں ہوتا۔‘‘
رمضان افضل کیوں ہے ؟سارے مہینہ تواللہ کے ہیں۔اس کی فضیلت قرآن کریم خود بتارہاہے:
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ} ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
سورۃالقدر میں فرمایا:
{اِنَّــآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃِ الْقَدْرِ(1)} ’’ہم نے اس قرآن کو شب ِ قدر میں نازل کیا۔‘‘
لیلۃ القدر کو ہم نے ماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنا ہے ۔اس رات لوح محفوظ سے قرآن مجید آسمان دنیا پر نازل ہوا ۔ پھرساڑھے 22برس کے عرصہ میں تھوڑ اتھوڑ اکرکے نبی اکرمﷺ کے قلب مبارک پرنازل ہوا۔اس لیے رمضان کا یہ مہینہ افضل ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا ۔ رمضان کو رمضان بنانے والی چیز قرآن ہے ۔ اسی شکرانے کے طور پر روزے رکھوائے جارہے ہیں ، رمضان کی راتوں میں نماز تراویح میں قرآن پڑھا جاتاہے تاکہ قرآن سے تعلق قائم ہو ، قدر کی رات کی فضیلت بھی اس وجہ سے کہ اس میں قرآن حکیم نازل ہوا۔گویا رمضان میں فوکل پوائنٹ قرآن حکیم ہے کہ اسی طرف توجہ رہے ، اس کی تلاوت کی جائے ، اس کو سمجھا جائے اور پھر اس پر عمل کی کوشش کی جائے ۔ پھر اس ماہ میں بدر کا میدان بھی سجا ۔ مقصد کیا تھا :
{وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلہِ ج} (الانفال:39) ’’اور دین کل کا کل اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘
تاکہ قرآن کا نفاذ بھی ہو ۔اسی طرح فتح مکہ کا مرحلہ بھی رمضان میں سر ہوا ۔ رمضان میں قرآن نازل ہو ا اور رمضان ہی حضور ﷺ کے لیے متحرک ترین ماہ تھا ۔ یہ ہماراتصور ہے کہ رمضان آرام کامہینہ ہے ،کھانے پینے کا مہینہ ہے ۔ سحری اورافطاری کی ڈیلز آرہی ہیں ۔ اللہ کے بندو! پورا سال توکھاتے پیتے رہتے ہواس ماہ مبارک میں کھانا پینا ہلکاکروتاکہ تم اپنی روح کی طرف توجہ کامعاملہ کر سکو۔ اس روح کی بیداری ، ترقی، اس کی مضبوطی کے نتیجے میں اللہ سے تعلق کاپیدا ہوجانا،تقویٰ کا پیدا ہونا رمضان کی محنتوں کا مقصد ہے ۔ آگے فرمایا:
{ہُدًی لِّلنَّاسِ } ’’ جولوگوں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘(البقرہ:185)
یہ سارے انسانوں کے لیے ہدایت ہے ۔اول اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے ، ہاں !طلب وتڑپ ہوگی تواللہ اس قرآن تک بھی پہنچائے گااوراپنی ذات سے بھی جوڑ دے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَیَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ(13)} (الشوریٰ)’’اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔‘‘
قرآن کاپہلاتعارف یہ ہے کہ یہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے ،یہ برکت کابھی ذریعہ ہے ،یہ ثواب کابھی ذریعہ ہے لیکن یہ صرف ثواب کی کتاب نہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت کی بھی کتاب ہے مگر ہدایت کن لوگوں کو ملے گی :
{ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(2)}(البقرہ)’’ ہدایت ہے پرہیزگار لوگوں کے لیے۔‘‘
حقیقی ہدایت ان لوگوں کو ملے گی جن کے دل میں رب کا ڈر ہوگااورروزے کا حاصل کیاہے ۔ارشاد ہوا:
{لَـعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ(183)}(البقرہ)’’ تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔‘‘
دن کے روزے کا حاصل تقویٰ ہے اور رات کے قیام کا مقصد تعلق مع القرآن ہے ۔ یعنی ہدایت کے حصول کے لیے محنت اور مشقت کرنا پڑے گی ، دن کو روزہ رکھو ، اپنی روح کو بیدار کرو ، روح جب بیدار ہوگی تو اس کی غذا قرآن ہے ۔ تقویٰ ہوگاقرآن سے ہدایت ملے گی ۔ یہ دوطرفہ پروگرام ہے جو ہمیں ماہ رمضان میں تربیت،تزکیہ نفس اوراللہ کاقرب حاصل کرنے کے لیے دیاگیاہے۔ اس دوآتشا پروگرام پرعمل کرنے سے رمضان کی برکتوں کو بعدمیں بھی انسان محسوس کرے گا۔یہ الگ بات ہے کہ چاند رات کوہی مسجدیں خالی ہوجائیں ، چاند دیکھتے ہی جشن شروع ہو جائے اوراعلان ہوجائے کہ شیطان بھی آزاد ہم بھی آزاد۔اس یاددہانی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان لمحات کے لیے تیار کریں کہ وہ ہم نے کس طرح گزارنے ہیں ، اگر تواپنے اندر تبدیلی آرہی ہے تواللہ کا شکرادا کریں اگر نہیں توپھرہم چیک کریں کہ ہم عادتاًیہ چیزیں کررہے ہیں یاعبادتاً کررہے ہیں ؟ بہرحال اس پورے ماہ مبارک میں محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ شوق اور جذبہ عطا کرے ۔ارشاد ہوا:
{ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج} ’’لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کی روشن دلیلوں کے ساتھ۔‘‘ (البقرہ:185)
کبھی اللہ بدرکویوم الفرقان قرار دیتاہے ۔ یعنی حق وباطل کافرق واضح کردینے والادن اورکبھی اللہ قرآن کو الفرقان قرار دیتاہے یعنی حق وباطل میں تمیز کردینے والاکلام۔یہ وہ معیار اورکسوٹی ہے جس پرحق و باطل کی پرکھ ہو سکتی ہے ۔
اب فرمایا:
{فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ط}’’تو جو کوئی بھی تم میں سے اس مہینے کو پائے (یا جو شخص بھی اس مہینے میں مقیم ہو) اس پر لازم ہے کہ روزہ رکھے۔‘‘ (البقرہ:185)
روزہ فرض ہے ۔ یہ اس دین کی خوبصورتی ہے کہ روزہ اور حج جیسی عبادات کو اللہ تعالیٰ کبھی سردی میں لا رہا ہے اور کبھی گرمی میں لا رہا ہے ۔ لیکن ہم حکم کے پابند ہیں ہر حال میں فرائض کو ادا کرنا ہے ۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔اس کی برکات اورثواب ہمارے سامنے ہے ۔ اللہ فرماتاہے :
((الصوم لی وانااجزی بہ))’’بے شک روزہ میرے لیے ہے اورمیں اس کابدلہ عطا کروںگا۔‘‘(بخاری) کس قدر ؟سات سوگنا سے بھی زائد۔ اسی طرح دوسری حدیث میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
((الصوم لی وانااُجزیٰ بہ))’’بے شک روزہ میرے لیے ہے او رمیں ہی اس کا بدلہ ہوں۔‘‘
ایک انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوگی کہ اللہ اُسے مل جائے ، اللہ اس سے راضی ہو جائے ۔ جو روزے کا حق ادا کرے گا اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ بدلے میں اُس کو اللہ مل جائے گا ۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ کیااللہ ہماری ترجیح اول ہے ؟ آج ہم کس کس سے ملناچاہتے ہیں؟کس کس کے ساتھ سلفی لے کر دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں ؟ اوراللہ جو ہمارا خالق ہے ،رازق ہے ،اورکروڑ ہاکروڑ نعمتیں عطا کرنے والاہے اس اللہ کو پالینے کی خواہش ہمارے اندر ہے ؟
اگر نہیں ہے تو پھر ہمیں اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے، توبہ کرنی چاہیے اور رمضان کے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ، اس میں اپنی روح کو بیدار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ،رمضان کی راتوں میں تعلق مع القرآن پیدا کرنا چاہیے ۔ اللہ کو پانا آسان نہیں ہے مگر اللہ موقع دے رہا ہے ۔ ا س ذوق وشوق کے ساتھ کچھ لوگ 16گھنٹے کا روزہ بھی رکھیں گے ، انگلینڈ کے اندرمسلمان بچے 18 گھنٹے کاروزہ رکھتے ہیں ۔ سکول بھی جاتے ہیں ،کالج بھی جاتے ہیں اورانگریز ان کو دیکھ کرپریشان ہوجاتاہے کہ یہ کون سی مخلوق ہے ۔انہیں کیاپتاہے کہ اللہ کوواقعتا ًماننے والوں کاطرزعمل کیاہوجاتاہے ۔ زبان سے نہیں دل سے ماننے والوں کا طرز عمل کیا ہوتاہے ؟ تیر لگ رہے ہیں تو منہ پر الفاظ ہوتے ہیں رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا ۔ میری جان اس کے لیے قبول ہورہی ہے جومیرا خالق ہے ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان لمحات کا انتظار کرتے ہیں جب فرمایا جائے گا :{فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْcوَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(30)}(الفجر) ’’توداخل ہو جائو میرے (نیک) بندوں میں۔اور داخل ہو جائو میری جنّت میں!‘‘
خداکی قسم !یہ روزہ اس خوش قسمتی کو حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ اور آسان موقع ہے ۔ دوسری طرف جس نے یہ موقع کھو دیا اس سے بڑا بدقسمت کوئی نہیں ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’جان بوجھ کرجس نے ایک روزہ ترک کیا اب وہ ساری زندگی بھی روزہ رکھتا رہے تواس کا ازالہ ممکن نہیں ہے ۔‘‘ آگے فرمایا:
{وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط} ’’اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ تعداد پوری کر لے دوسرے دنوں میں۔‘‘
اگر انسان کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ روزہ رکھنے سے مرض بڑھنے یا انسان کی ہلاکت کا اندیشہ ہو تو بندہ روزہ چھوڑ سکتا ہے اور بعد میں قضا کر سکتا ہے ۔ اسی طرح سفر میں ہو تو بعد قضا کر لے ۔ اسی طرح خواتین کے اپنے مخصوص معاملات ہیں اور ان میں خواتین کو روزہ نہ رکھنے کی چھوٹ دی گئی ہے ۔ آگے فرمایا:
{یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَز} ’’اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ سختی نہیں چاہتا۔‘‘
پورے سال کے روزے فرض نہیںکیے صرف ایک مہینہ کے فرض کیے ہیں ۔24گھنٹے کا فرض نہیں کیاصبح صادق سے غروب آفتاب تک فرض کیا ، بیماری اورسفر میں گنجائش دے دی اوراگر کوئی بھولے سے کچھ کھاپی لے توروزہ نہیں ٹوٹے گا۔ یقیناًدین آسان ہے لیکن یہ آسانی وہ آسانی ہے جواللہ اوراس کے رسولﷺ نے عطا فرمائی ۔ آگے فرمایا:
{وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ} ’’ تاکہ تم تعداد پوری کرو‘‘
اس مقام پرعدت کاترجمہ گنتی ہے جس سے مُراد یہ ہے کہ سفریا بیماری کی وجہ سے جو روزے رہ گئے تھے یاخواتین کے مخصوص معاملات کی وجہ سے وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کر لیں ۔ آگے فرمایا:
{وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰکُمْ} ’’اور تاکہ تم بڑائی کرو اللہ کی اس پر جو ہدایت اُس نے تمہیں بخشی ہے‘ ‘
اس میں کوئی شک نہیں روزے میں مشقت ہے لیکن یہ مشقت اس لیے کرائی جارہی ہے تاکہ ہم اللہ کی بڑائی بیان کریں ۔ یہ بھی یادرہے کہ آج تکبیر بس اذان اور اقامت میں رہ گئی ہیں۔ وہ تکبیر کہ جومارکیٹ ، عدالت، پارلیمنٹ میں بھی ہو ہم تواس کو ترس رہے ہیں ۔ بقول اقبال ؎
یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہب مردان خداگاہ ہو خدا مست
یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات
سبحا ن اللہ ،الحمدللہ پڑھنے کا بھی یقیناً ثواب ہے لیکن کیاصرف تسبیح والااللہ اکبر،اذان والااللہ اکبر،اقامت والااللہ اکبرکافی ہے ؟ نمازوں میں تکبیرات یاعیدپرجاتے ہوئے تکبیر پڑھنے سے اللہ کی بڑائی بیان کرنے کے تقاضے پورے ہو جائیں گے ۔ اصل تقاضا یہ ہے کہ اللہ کومارکیٹ میں ،عدالت میں ،پارلیمنٹ میںبھی بڑا ماناجائے ۔ یہ اس روزے کی مشقت کانتیجہ نکلناچاہیے ۔ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ کارمضان متحرک ہے ۔ رمضان میں غزوہ بدر ہوا ، رمضان میں ہی مکہ فتح ہوا ۔ اس تحرک کاحاصل کیاتھا :
{لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
دین کو غالب کرنے کے لیے رہنمائی اور ہدایت قرآن کی صورت میں نازل ہوئی ۔ آگے فرمایا:
{وَلَـعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ (185)}’’اور تاکہ تم شکر کر سکو۔‘‘
یہ روزے اس قرآن جیسی عظیم نعمت پراللہ سبحانہ وتعالیٰ کاشکرانہ ادا کرنے کے لیے رکھوائے جارہے ہیں ۔ اس عظیم نعمت سے ہدایت لیناچاہتے ہوتوتقویٰ پیدا کرواور روزے کاحاصل تقویٰ ہے ۔ اللہ نے قرآن کی صورت میں جو ہدایت عطا فرمائی اس پرشکرانہ ادا کرنے کے لیے ایک مہینے میں ایک ہی وقت میں تمام مسلمانوں کوحکم دیاجارہاہے کہ تم روزے رکھو۔یہ اس قدر بڑی نعمت ہے۔
قیام اللیل کی فضیلت
رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے میںرمضان میں دن کے روزے کو فرض قرار دیا اوررات کے قیام کوتطوع قرار دیا۔ جس کوہم عام طورپرنماز تروایح کہتے ہیں۔ البتہ ثواب کے اعتبار سے دونوں کوحضورﷺ نے ساتھ ساتھ بیان فرمایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے، اور جس نے رمضان(کی راتوں) میں قیام کیا(قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کے بھی تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘(بخاری شریف)
یعنی آپﷺ نے دونوں کا اجر برابر قرار دیا ۔ اس کی اپنی حکمت ہے ۔دوسری حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’روزہ اور قرآن دونوں(قیامت کے روز) بندے کی سفارش کریں گے۔ (یعنی اُس بندے کی جو دن میں روزے رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر اُس کا پاک کلام قرآن مجید پڑھے گا یا سنے گا)روزہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! مَیں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش کو پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا: مَیں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، پروردگار! آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ چنانچہ(روزہ اور قرآن) دونوں کی سفارش (اُس بندہ کے حق میں) قبول کی جائےگی۔‘‘(اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا۔)(رواہ احمد)
رات کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم قرآن کے ساتھ وقت گزاریں ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ قرآن ہمارے حق میں سفارش کرے تو پھر ہمیں اس کو پڑھنا ، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا پڑے گا ۔ بڑی کمی یہ ہے کہ ہم نے تلاوت سن لی مگرہم میں سے اکثریت کومعلوم نہیں ہے کہ کیا پڑھا گیا۔ ہم ماں کے پیٹ سے انگریزی پڑھ کرنہیں آتے لیکن ہم نے انگریزی پڑھی ہے، سیکھی ہے ۔لیکن کیاہم نے اللہ کا کلام پڑھا،سیکھا؟ کیااللہ نہیں پوچھے گاکہ تم نے میراکلام کتنا پڑھاتھااورکتناسیکھاتھا؟کم سے کم ترجمہ توپڑھتے یااس کوسنتے توسہی۔ صحابہ کرام ؓ کی تروایح دیکھیں ان کا پوری پوری رات کاقیام ہوتا تھا۔ رسول اللہﷺ کا پورے سال میں رات کا قیام کم ازکم ایک تہائی رات ہوتا تھا اور رمضان کے آخری عشرہ میں پوری پوری رات ہوتا تھا۔ لیکن آج ہماری راتیں اکثر قرآن کے ساتھ بسرنہیں ہوپاتیں۔ جومناسب انداز میں تراویح میں قرآن سنتاہے اس کواجرملے گا۔ ان شاء اللہ!لیکن کمی دوپہلوئوں میں ہے کہ ایک رات کااکثر حصہ قرآن کے ساتھ بسر نہیں ہورہااور دوسراقرآن سمجھ نہیں آرہا ۔ ان دوپہلوئوں کے اعتبار سے استاد محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒنے 1980ء کی دہائی میں لاہور سے ہی دورئہ ترجمہ قرآن کاسلسلہ شروع کیاجواللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا مقبول ہوا۔ اس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ تراویح کی چار رکعت سے پہلے ترجمہ اور تشریح سنی اوراس کے بعد قرآن کوسنا تواس کا اثر ضمیر پربھی ہوگا ان شاء اللہ !اسی ترتیب سے بیس رکعت تراویح ادا کی جائے۔ اس انداز میں رمضان میں ہم پورے قرآن کی تلاوت ، ترجمہ اور تشریح سن سکتے ہیں اور ساتھ نماز تراویح بھی ادا ہو جاتی ہے۔ پھر سینکڑوں آیات کی تشریح الگ بیان ہوگی۔ یہ پورا پیکج ہے ۔ اورخدا کی قسم !ہم نے لوگوں کی زندگیاں بدلتے ہوئے دیکھی ہیں اوریہ اس قرآن حکیم کی برکت ہے ۔ اس موقع سے ہمیں فائدہ اُٹھانا چاہیے ۔ پورا سال توایک قرآن کی تلاوت نہیںہوپاتی اوریہاں ایک ہی مہینہ کے اندر یہ تکمیل ہوتی ہے ۔ اللہ کا شکرہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے کو بڑا قبول فرمایااور اب پاکستان کے بڑے شہروںمیں بہت سے مقامات پریہ سلسلہ چل رہاہے ۔اسی سے استفادہ کرتے ہوئے دوسرے لوگوں نے بھی کہیں مختصر اور کہیں تفصیلی خلاصہ کااہتمام کیا ہواہے ۔اللہ قبول فرمائے ۔تنظیم اسلامی کے تحت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں کئی مقامات پر دورہ ترجمہ قرآن کرایا جائے گا۔ تفصیلات ہماری ویب سائٹ www.tanzeem.orgپردیکھ لیجیے گا۔کچھ ایسے علاقے جہاںیہ دورئہ ترجمہ قرآن کابیان ممکن نہیں تو وہاں ڈاکٹر اسراراحمدؒکے بیان سنے جا سکتے ہیں۔ الحمدللہ!یہ سارا کچھ ہماری ویب سائٹ پربھی دستیاب ہو جائے گا۔اس کے علاوہ وہ حضرات جو تعلیمی اداروں میں ہیں وہ اگر پندرہ بیس منٹ سیشن کرنا چاہتے ہیں تو ان کو بھی آڈیو وڈیو مواد مل جائے گا ۔ تنظیم کے رفقاء سے میں گزارش کروں گاکہ اپنے گھرکے افراد کو اس کام میں لگائیں۔یہ مہینہ ہمارے لیے بہترین تربیت کا ہے۔ ہمارے ہاں گھریلواسرہ ہوتاہے ۔ یہ بہترین موقع ہے کہ ہم رمضان شریف میں اس کا اہتمام کرسکیں ۔بحیثیت مسلمان ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ٹارگٹس کو سیٹ کریں ۔اگر سال بھرکے نمازی نہیں ہیں توبہترین موقع ہے کہ پنج وقتہ نماز شروع کریں ۔ تیس دن بھرپور محنت ہوجائے توپھراس کے اثرات بعد میں بھی آسکتے ہیں ۔ اگر کسی کوسگریٹ نوشی کی عادت ہے توبہت اچھاموقع ہے کہ اس سے جان چھڑا لیں ۔اسی طرح اپنے رمضان کی حفاظت کرنی ہے ۔ یہ نہیں کہ سمارٹ فون پر، سوشل میڈیا پرلگے ہوئے ہیں ۔ پچھلے سال توسیاسی گرمی کے چکر میں لوگوں نے اپنے ایمان، اخلاق، روزے، تراویح، نمازوں اوربنیادی انسانی اخلاقیات تک کو خطرے میں ڈال دیا۔ا للہ حفاظت فرمائے۔ یقیناًملکی حالات پرہمیں تشویش ہونی چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین کے حوالے سے ہم کوئی تشویش ناک صورت کو پہنچ جائیں۔اخلاق،کردار ،زبان کی حفاظت کرنا سیکھیں ، روزے میں حلال چھوڑ دیں گے توحرام کوتوچھوڑنے والے بنیں ورنہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔اسی طرح تعلق مع القرآن کے حوالے سے ٹارگٹس سیٹ کریں کہ قرآن کی کچھ سورتیں یاد کرلیں ۔ اگر تہجد کامعاملہ نہیں ہے توسحری سے کچھ قبل دوچار رکعت ادا کرلوں ، اللہ بھی سمائے دنیاپرنزول فرماتاہے ۔موقع سے فائدہ اُٹھائے اور اللہ سے مانگیں۔ ہررات میں اللہ مغفرت فرماتاہے ۔پھربچوں کے لیے ٹارگٹ سیٹ کریں ۔ کچھ حفظ قرآن اورسورتوں کاترجمہ ان کو یاد کرانے کا معاملہ ہوجائے۔ کچھ احادیث کے ترجمے یاد کرالیں۔ یہ موقع ہے جو اللہ ہمیں عطا کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بھی نماز ادا کرو تو ایسے ادا کروگویاتمہاری زندگی کی آخری نماز ہے تو رمضان کی تیاری ایسے کریں کہ شاید یہ رمضان ہمارا آخری رمضان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسی نہج پر اخلاص کے ساتھ رمضان کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔آمین !