(اداریہ) آئین پاکستان : انّا للہ و انا الیہ راجعون - ایوب بیگ مرزا

6 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاآئین پاکستان : انّا للہ و انا الیہ راجعون

الیکشن کمیشن نےاس عذر کی بنا پر کہ حکومتی محکموں اوراداروں نے انتخابات کے حوالے سے تعاون کرنے سے معذوری کا اظہار کردیاہےپنجاب میںانتخابات منسوخ کردیےہیں۔جن دو صوبائی اسمبلیوں کو وزراءاعلیٰ نے تحلیل کیا تھا اور وہاں نگران وزراء اعلیٰ کا تقرر بھی ہوگیا تھا۔90دن میں وہاں انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے۔جب نگران حکومتوں نےانتخابات کے حوالے سے لیت ولعل سے کام لیا تو سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اورواضح حکم جاری کردیا گیا کہ انتخابات کے حوالے سے آئینی تقاضے کو پورا کیا جائے۔البتہ جتناوقت بحث مباحثےاور عدالتی کارروائی کی وجہ سے ضائع ہوگیا ہے آرٹیکل 254کااسے کور دیا جائے۔سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کردیا کہ کیونکہ پنجاب اسمبلی 48 گھنٹے گزرنے کے بعد خود بخودتحلیل ہوئی تھی لہٰذااس کے انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن صدر کے مشورے سے دے اور KPKکی اسمبلی گورنر کے دستخطوں سے تحلیل ہوئی تھی اس کی تاریخ وہاں کا گورنرالیکشن کمیشن کے مشورہ سے دے ۔ صدر اور الیکشن کمیشن نے مشورہ سے 30 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کردیا البتہ KPKکے گورنر پہلے ٹال مٹول کرتے رہے بالآخر 28 مئی کی تاریخ دی لیکن کچھ دنوں بعد اس سے بھی مکر گئے۔ بہرحال ان حیلوں کا سہارا لے کر الیکشن کمیشن مقررہ وقت پر انتخابات کرانے سے انکاری ہوگیا۔ گویا آئین پاکستان سے بھی انخراف کیا گیااور عدالت عظمیٰ  جس کے فیصلے کو آخری اور حتمی حیثیت حاصل ہوتی ہے، اُس کوبھی سرعام رد کردیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے جو عذرات پیش کیے اُن میں دو بڑے عذر ہیں ایک یہ کہ معیشت کی صورتِ حال خراب ہے اور دوسرا سکیورٹی کی صورتِ حال بڑی تشویش ناک ہے۔ جہاںتک معیشت کا تعلق ہے پاکستان کے ایک سال کے کُل اخراجات کا 0.15 فیصد انتخابات پر خرچ ہوتا ہے گویا معیشت پر اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہوگا جبکہ لگژری گاڑیوں کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کرنے کے ساتھ حکومتی عہدہ داروں کے اللے تللے جاری ہیں۔ بیرونی ملکوں کے بڑے بڑے قافلوں کے ساتھ شاہانہ دورے ہورہے ہیں۔ صرف وزیر خارجہ کے دوروں پر کئی ارب خرچ ہوچکے ہیں جبکہ ان دوروں کا ملک کو رَتی بھر فائدہ نہیں ہوا ہے۔ IMF مسلسل دھتکار رہا ہے اور کوئی ہماری بات بھی سننے کو تیار نہیں۔ جہاں تک سیکورٹی خدشات کا تعلق ہے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ 2008ء، 2013ء اور 2018ء کے انتخابات کے موقع پر سکیورٹی صورتِ حال آج سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ گویا یہ سب عذراتِ لنگ ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ چند ماہ بعد سب اچھا ہو جائے گا۔ پاکستان کی معیشت بڑی مضبوط ہوجائے گی اور سکیورٹی کی صورتِ حال شان دار ہوگی۔ یہ آئیڈیل صورت حال تو شاید کئی سال تک نہ بن سکے۔ تو کیا الیکشن ایک طویل مدت کے لیے ملتوی کر دیئے جائیں۔ درحقیقت PDM سمجھتی ہے کہ اس وقت انتخابات کا انعقاد اُس کی سیاسی موت کا باعث بن جائے گا۔
ترکی میں تاریخ کا بدترین زلزلہ آیا، لیکن طیب اردگان بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ انتخابات 14 مئی کو بروقت ہوں گے۔ تاریخ سے بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ مختلف اقوام جنگوں میں ملوث ہوئیں۔ اُن پر مختلف آفات آئیں، لیکن اُنہوں نے بروقت انتخابات کا انعقاد کرکے اپنے ملک کی سلامتی کو یقینی بنایا۔ یہ صورت حال اتنی سادہ نہیں جتنی بعض لوگ سمجھ رہے ہیں ۔آئین شکنی اور عدالت عظمیٰ کی حکم عدولی اگر نظیر بن جاتی ہے تو پاکستان بنانا ریپبلک بن جائے گا۔کل کوئی بھی حکومت یا بڑی قوت آئین کی کسی بھی شق کو اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیتی ہے اور نظیر کے طور پر پنجا ب کے انتخابات کی منسوخی کا حوالہ دیتی ہے تو کسی کے پاس کیا جواز یا دلیل ہوگی کہ اُس نافرمان قوت سے کہا جائے کہ وہ آئین اور عدالت کا احترام کرے اور من مانی نہ کرے۔ عین ممکن ہے کہ آج آئین شکنی اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو رد کرنے کا عمل جن محدود لوگوں کے ذاتی اور سیاسی مفادات کو فائدہ پہنچا رہا ہے اور وہ اُس پر بھرپور خوشیوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ آنے والے کل میں اس طرح کی آئین شکنی اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا رد اُن کے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے تباہ کن ہو گا تب وہ جتنی بھی چیخ و پکار کریں گے وہ خود اُن پر ہی واپس آئے گی۔ اگر چہ پاکستان کے آئین میں چند سقم موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ منافقت کا پلندا بن جاتا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر سیاست، معیشت و معاشرت کے حوالے سے اصولی اسلامی تعلیمات اس میں موجود نہیں۔ آئین ریاست اور اُس کے شہریوں کے مابین مقدس عہد کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر اس عہد کو پامال کیا جائے گا تو نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے۔ لہٰذا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون سی آئین شکنی اور عدالتی فیصلہ کا رد کسی کے مفاد میں ہے اور کس کے مفاد میں نہیں ہےبلکہ معاملہ اُس سے بڑھ کر ہے۔
خوشگوار حیرت اس بات پر ہے کہ اس حوالے سےا سلام اور جدید ریاست کے تقاضوں میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہے۔ اسلام بھی نظم و ضبط کا قائل ہے اور قاضی کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے کا کہتا ہے چاہے وہ وقت کے حکمران کے خلاف ہی کیوں نہ صادر ہوا ہو۔ صرف خلفائے راشدین ہی میں سے نہیں تاریخ گواہ ہے کہ بعد کے خلفاء میں سے بھی اکثریت نے قاضی کے فیصلے کے سامنے سرنڈر کیا۔ آج کی جدید ریاست نے اپنے نظم و ضبط کو آئین کا نام دیا ہے اور جج کوئی بھی فیصلہ دے وہ مدعی یا مدعا علیہ کو پسند ہو یا نہ ہو اُس کے آگے سرتسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آئین پاکستان کو توڑ مروڑ دینا اتنی سادہ اور عام سی بات نہیں ہے۔ یہ مسلمانانِ پاکستان پر اور پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے حوالے سے بہت ہی بُری طرح اور خطرناک انداز میں اثرانداز ہوگی۔
آئیے فرض کریں کہ پاکستان میں کوئی اللہ کا نیک بندہ حکمران بن جاتا ہے وہ تمام ریاستی اداروں کو بھی اسلام کی راہ پر ڈال دیتا ہے اور آئین سے بھی غیر اسلامی شقات نکال کر اور اُسے خالصتاً اسلامی بنا دیتا ہے اور ملک میں صحیح اسلامی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ لیکن عین ممکن ہے کل کلاں یعنی مستقبل میں کوئی ظالم حکمران آجاتا ہے اور اُس کی راہ میں آئین کی کچھ اسلامی شقات حائل ہوتی ہیں تو وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی شق کو ماننے سے انکار کر دے اور کسی قاضی کے فیصلے کو نہ مانے تو اُس کے پاس 2023ء کی نظیر پیش کرنے کا جواز ہوگا۔ وہ کہہ سکے گا کہ اگر یہ سب کچھ 2023ء میں جائز تھا تو آج کیوں نہیں۔ یہ آئین کی ایسی خلاف ورزی ہے جسے خود حکومت کے اپنے اٹارنی جنرل برداشت نہیں کر سکے اور مستعفی ہوگئے ہیں۔ گویا حکومت کی آئین اور عدالتِ عظمیٰ کے خلاف بغاوت جہاں پاکستان کی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک، تشویش ناک، ضرر رساں، مہلک اور تباہ کن ہے وہاں اسلام کے لیے بھی قطعی طور پر اچھا شگون نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر ان غلط کاریوں سے خدانخواستہ پاکستان کی سلامتی پر حرف آتا ہے تو اسلام کہاں نافذ کریں گے۔ یاد رہے ڈاکٹر اسرار احمدؒ مرحوم یہ فرما چکے ہیں کہ جب تک اسلامی نظام نافذ نہیں ہوتا ہمیں جمہوری طرز حکومت کی مکمل حمایت کرنا ہوگی اور بقول آپ ؒ کے انتخابات کی ضرورت جمہوری نظام میں ویسی ہے جیسی انسان کی زندگی کے لیے ہوا اور پانی ضروری ہے۔ لہٰذا سوچنے کا مقام ہے کہ PDM یا سیاست دان اپنے ذاتی مفادات کے لیے اور محدود تعداد میں اُن کے حمایتی محض اپنی انا کی جھوٹی تسلی کے لیے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں تو گویا وہ اپنی ذات کو ملک قوم اور دین کے مفادات پر ترجیح دے کر ملک و قوم کو بربادی کے راستے پر ڈال رہے ہیں۔ اُن سے استدعا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی پکار سنیں اور وقتی سوچ اور اپنی انا سے بلند ہو کر ملک اور قوم اور اپنے دین کے لیے سوچیں۔
آخر میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ صرف ملکی سطح پر نہیں ہو رہا یہ گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ ایک بات بالکل عیاں ہوگئی ہے کہ امریکہ اس حوالے سے ڈبل گیم کر رہا ہے، ایک طرف زلمے خلیل زاد عمران سے ہمدردی کا اظہار کر رہا ہے اور دوسری طرف پینٹاگون حکومت اور مقتدر حلقوں کو عمران کے خلاف اکسا رہے ہیں وگرنہ کسی مقامی قوت کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ عوام کی عظیم اکثریت کو یوں رد کر دے۔ امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ دونوں کو تگڑا کیا جائے، دونوں کو لڑایا جائے اور پاکستان میں انار کی پیدا کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے جائیں۔ ہم کسی طرح Routhchild انتظامیہ کے پاکستان کے دورے کو بلامقصد نہیں سمجھتے، آنے والا وقت بہت سے رازوں سے پردہ اُٹھائے گا۔