مسلمانوں پر روزہ فرض کرنے کا مقصد
حاجی محمد حنیف طیب
اسلام نے معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے مختلف ضابطے مقرر کیے ہیں اور غریبو ں اور مفلسوں کی دستگیری کے لیے امیروں کے ہاتھو ں میں زکوٰۃ وصدقات کے قلمد ان تھما دیئے مگر کسی کی جیب سے پیسہ اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک اس کے دل میں رحم کا جذبہ نہ پیدا ہواور یہ احساس اس شخص کوکس طرح ہوگاجو ہمیشہ مختلف انواع واقسام کی نعمتوں اور لذتوںمیں زندگی گزارتا ہو جو ہمیشہ عیش میں رہتا ہووہ غربت کی تلخیوں کا اندازہ نہیں کر سکتا ،جو عمر بھرپیٹ بھر کر کھا تا رہا ہووہ کسی غریب کی بھو ک اور پیا س کا احساس نہیں کرسکتااور جب تک کسی کی تکلیف کا احساس نہیں ہوگا،اس کی مدد کرنے کا جذبہ دل میں پیدا نہیں ہو گا ۔نفسیاتی طور پر آدمی کسی کی تکلیف کا اس وقت احساس کر تا ہے جب وہ خود اس پرگزر جا ئے۔
اسلام نے تمام مسلمانوں پر روز ے فرض کردیئے تاکہ اغنیاءجب روزے کی صعوبتوں سے دوچا ر ہوں تو انہیں احسا س ہوکہ ہمیں ایک دن کھانا نہ ملنے سے اتنی تکلیف ہوئی تو جو پورے سال ایسے مصائب کا سامنا کرتے ہیں ان کا کیا عالم ہوگا پھر یہ احساس اغنیاءکے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کر تاہے اور وہ غریبو ں کی مدد پر آمادہ ہوتے ہیں ،ہر چیز کا ایک مقصد ہو تا ہے جب تک کوئی شئے اپنے مقصد کے ساتھ ہواسے مفید سمجھا جا تا ہے اور جب کوئی چیز اپنے مقصد سے خالی ہو جائے تو وہ لغو اور بے کا ر ہوجاتی ہے۔
انسان کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد (اِلَّا لیعبدون ) اﷲکی عبادت کے سوا کچھ نہیں مگر دنیا میں آکر انسان اس کی دلچسپیوں میں اس طرح منہمک ہواکہ عبادت کواوڑھنا ، بچھو نابنانے کی بجائے کھانا پینا اور نفس کے تقاضوں کو پوراکرنا مقصود زندگی بنالیا اور اس کی تمام توجہات اور کوششیں پیٹ بھرنے اور نفس پروری میں صرف ہونے لگیں ،اسلام نے ایک ماہ کے روزے فرض کئے اور اس بھولے ہوئے غافل انسان کو بتایا کہ کھانا پینا ہی مقصود زندگی نہیں ہے،اور ایک ماہ میں ایک معین عرصہ تک کھانے پینے کو چھڑاکر یہ سمجھا یا کہ محض کھانا التفات کے لائق نہیں اصل چیز تو اﷲتعالیٰ کی بند گی ہے۔ روزے کا مقصد اعلیٰ یہ ہے کہ تم متقی اور پاکباز بن جائو ،یہ بھی جان لینا چاہیے کہ روزہ کا مقصد صرف کھانا ،پینا اور اور جماع سے رُک جانا ہی کا فی نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ تمام برے اخلا ق اور اعمال بد سے انسان مکمل طور پردور ہوجائے ۔ تم پیاس سے تڑپ رہے ہو ،تم بھو ک سے بے تاب ہو رہے ہو،تمہیں کوئی دیکھ بھی نہیں رہا ،ٹھنڈ اپانی اور لذیذ کھانا پاس رکھا ہے لیکن تم ہا تھ بڑھانا تو دورکی بات ہے آنکھ اُٹھا کر ادھر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ،اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ تمہارے رب کا یہ حکم ہے ! اَب جب حلال چیزیں اپنے رب کے حکم سے تم نے ترک کردی تو وہ چیزیں جن کو تمہا رے رب نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام کردیا ہے ۔ (چوری ،رشوت ،بددیانتی وغیرہ )اگر یہ مراقبہ ،پختہ ہوجائے توکیا تم ان کا ارتکاب کرسکتے ہو؟ہرگز نہیں ۔
مہینے بھر کی اس مشق کا مقصد یہی ہے کہ تم سال کے باقی گیا رہ ماہ بھی اﷲسے ڈرتے ہوئے یونہی گزاردو۔ جولوگ روزہ تورکھ لیتے ہیں لیکن جھوٹ ،غیبت اوربدنظری وغیرہ سے باز نہیں آتے ان کے متعلق حضورﷺ نے واضح الفاظ میں فرمایا!جس نے جھو ٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا اگر اس نے کھانا پینا ترک کردیا تو اﷲتعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی قدر نہیں ،گویا روزہ کا مقصد عظمیٰ انسانی سیرت کے اندر تقویٰ کا جو ہر پیداکرکے اس کے قلب وباطن کو روحانیت ونورانیت سے جلا دینا ہے ۔ روزے سے حاصل کردہ تقویٰ کوبطریق احسن بروئے کا ر لایا جائے تو انسان کی باطنی کا ئنا ت میں ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے ،جس سے اس کی زند گی کے شب وروز یکسر بد ل کر رہ جائیں ۔ روزے کا ایک عظیم مقصد ایثار ہے بحالت روزہ انسان بھو ک اور پیاس کی تکلیف سے گزرتا ہے تولامحالہ اس کے دل میں ایثار ،بے نفسی اور قربانی کا جذبہ تقویت پکڑتا ہے اور وہ عملا ً اس کیفیت سے گزر کر جس کا سامنا انسانی معاشرہ کے مفلوک الحال اور کھانے سے محروم لوگ کرتے ہیں ۔تووہ کرب وتکلیف کے احساس سے آگاہ ہوجا تاہے ،فی الحقیقت روزے کے ذریعہ اﷲتعالیٰ اپنے آسودہ حال بندوں کوان شکستہ اور بے سروسامان لوگوں کی غربت سے کماحقہ آگاہ کرنا چاہتا ہے ،جو اپنے تن وجان کارشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں ،تاکہ ان کے دل میں دکھی اور مضطرب انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پائے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجو د میں آسکے ،جس کا اساس باہمی محبت ومروت ،انسانی دوستی ،دردمندی وغمخواری کی لافانی قدروں پر ہو ۔اس احساس کابیدار ہوجانا روزے کی روح کالازمی تقاضا ہے اور اس کا فقدان اس امر کی غمازی کرتاہے کہ روزہ میں روح نام کی کوئی چیز باقی نہیں۔
روزہ کا بڑا مقصود رضائے خداوندی کا حصول ہے اﷲتعالیٰ بندے کو تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے ۔یہ مقام رضا کیا ہے ؟ جو روزہ کے توسط سے انسان کو نصیب ہوجا تا ہے اس پر غور کریں تو اس کی اہمیت کا احساس اجا گر ہو تا ہے۔ رب کا اپنے بند ے سے راضی ہو جا نا اتنی بڑی با ت ہے کہ اس کے مقابلہ میں باقی سب نعمتیںکم دکھائی دیتی ہیں ،روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر وجزاکا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑا گیا کہ اس کی رضا حد وحساب کے تعین سے ماوراءہے۔ قرآن نے اس تصور کو’’راضی مرضی‘‘ کے بلیغ الفاظ سے اُجاگر کیا ہے ۔یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات بندے کی تلاش وجستجو اور طلب کا محور تھی ،اس بندے کی حیثیت محب اور طالب کی تھی ،لیکن جب وہ خود ذات خداوندی کامحبوب ومطلوب بن گیا تو اسے خدا کے مرتضیٰ (پسندیدہ )ہونے کا مقام نصیب ہوگا ،جس کی بنا پر وہ نہ صرف خدابلکہ کائنات کا مدعا اور مقصود بن گیا ،اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی رضا قدم بہ قدم بندے کے شامل حال ہوگئی اور اسے زبان سے کچھ کہنے کی حاجت نہیں ،روح اور باطن کو ہر قسم کی آلائشوںسے پاکیزگی اورصفائی دینے کے لیے روزہ سے بہتر کوئی عمل نہیں ،یہی سبب تھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو اس عبا دت سے اتنا شغف تھا کہ آپ ﷺ اکثر روزے سے رہتے اور صیام وصال یعنی پہ درپے بغیر افطار کئے روزے رکھتے۔ روایات میں ہے کہ آپ ﷺکی اتباع میں بعض صحابہ کرام ؓ نے بھی صیام وصال رکھنے شروع کئے تو کمزوری سے ان کے چہرے پیلے پڑنے لگے اور ان کی حالت یہ ہوگئی کہ چلتے چلتے گرپڑتے ،حضور اکرم ﷺ کو معاملہ کی خبر ہوئی تو آپ نے ان سے ایسا کرنے کا سبب دریافت فرمایا ۔صحابہ کرامj نے عرض کیا کہ ہم آپ کی اتبا ع میں ایسا کرتے ہیں ۔’’آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کون میری مثل ہے ؟میرا حال تو یہ ہے کہ مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘(بخاری) اس ساری بحث سے یہ بات بخوبی واضح ہو گئی کہ تزکیہ روح اور تصفیہ باطنی کا مو ٔثر ترین ذریعہ روزہ ہی ہے ،جس سے محبوب حقیقی کا قرب و وصال نصیب ہوتا ہے اور بندہ ان کیفیات ولذات سے آشنا ہوتا ہے ،جن کے مقابلہ میں دنیا ومافیھا کی کوئی شے اس کے ہم پلہ نہیں ۔ اسلام کی ہر عبا دت اپنے اندر کریمانہ شان رکھتی ہے ۔گناہگاروں کی بخشش کا سامان اور نیکوکاروں کی ترقی درجات کاسبب بنتی ہے ۔
کریم (سخی)کی دوقسمیں ہیں ایک وہ جس کے پاس محتاج کو چل کر جانا پڑتا ہے ،جیسے پیاسے کے لیے کنو اں ،انسان پیاساہوکنواں اس کی پیاس بجھا دے گا ،مگر آکر نہیں پیاسے کو خود اس کے پاس جا نا ہوگا ۔دوسراکریم وہ ہے کہ محتاج کو اس کے پاس جانا نہیں پڑتا اور وہ خود محتاج کے گھر آکر خیرات دے جا تا ہے جیسے پیاسے کے لیے بادل ،پیاسے کو اس کے پاس جانا نہیں پڑتا ۔بادل خود ابر رحمت بن کر اس کے گھر آکر برس جاتا ہے ۔اسلام کی ہر عبا دت کریم ہے مگر انسان کواس کے مقام تک جانا پڑتا ہے وہ آکر کرم نہیں کرتی ،نمازی کومسجد تک جانا پڑتا ہے ،حاجی کو بیت اﷲشریف تک اور زکوٰۃ دینے والے کو فقیر تک پہنچنا ہوتاہے ۔مگر روزہ ایسا کریم ہے کہ کسی کو اس تک جانا نہیں پڑتا وہ خود رحمت کی برسات بن کر ہر گھر میں بر س جا تا ہے ۔ گناہگاروں پربخشش کی بارشیں کرجا تا ہے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024