دشمن ہمیشہ شیعہ سنی تفریق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے ،
سعودیہ ایران تعلقات کی بحالی سے دشمن کو منہ کی کھانی پڑی ہے :علامہ محمد حسین اکبر
ہمیں امت کے مفاد کو صحیح معنوں میں ترجیح دینی چاہیے وگر نہ ذاتی سطح پرسوچتے رہے
تویہ تفریق بڑھتی چلی جائے گی : ایوب بیگ مرزا
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک اُمت کے طور پر متحد رہنے کی بجائے تفرقہ کا شکار ہوگئے ۔
کہیں عرب نیشنل ازم ، کہیں ترک نیشنل ازم اور کہیں ایرانی نیشنل ازم کے نام پر اُمت نے خود کو
تقسیم کرلیا اور اللہ کی رسی کو ہم نے چھوڑ دیا: رضاء الحق
سعودیہ ایران تعلقات میں بحالی : ممکنہ اثرات؟ کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:چین کی مصالحتی کوششوں سے سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات بحال ہوگئے اور اس میں مزید بہتری یہ ہوئی کہ سعودی فرمانروا نے ایرانی صدر کو آفیشل دورے کی دعوت دی ہے جو انہوں نے قبول بھی کرلی ہے۔ اس خوشگوار واقعہ کی تفصیلات کیاہیں؟
رضاء الحق:سعودی عرب اور ایران کے مشیران برائے قومی سلامتی نے بیجنگ میںچینی وزیرخارجہ کی موجودگی میںباضابطہ اعلان کیاہے کہ سعودی عرب اور ایران اپنے سفارتی تعلقات بحال کررہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ مسلمان دنیا میں کمزور ہیں، دبے ہوئے ہیں اور آپس میں متحد نہیں ہیں‘عالم اسلام کے دو بڑے ممالک جو اُمت مسلمہ کے دو بڑے گروہوں کی نمائندگی کر رہے ہیںاُن کا مل بیٹھنا اُمت کے لیے خوش آئند ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مصالحتی کوشش بہت پہلے سے چل رہی تھی۔ اس کے پس منظر کودیکھاجائے تو1929ء میں پہلی مرتبہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان دوستی اور تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک معاہدہ ہواتھا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک یہ تعلقات اونچ نیچ کاشکار رہے ہیں۔ حالانکہ 1969ء میں شاہ فیصل مرحوم نے ایران کا دور ہ بھی کیاتھالیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے ۔ خاص طور پر جب ایران میں انقلاب آیاتو اس کے بعد دونوں ممالک کے اختلاف میں مذہبی عنصر بھی شامل ہوگیا کیونکہ ایران میں کٹر مذہبی شیعہ حکومت آچکی تھی جبکہ سعودی عرب میں بھی ایک خاص مسلک کی نمائندگی کرنے والی حکومت تھی ۔ اس کی وجہ سے آپس کی مخاصمت میں خاصا اضافہ ہوا۔نائن الیون کے بعد خاص طور پر 2009-10ء میں یمن،لیبیااورشام میں بڑی طاقتوں نے ان دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف پراکسیز کے طورپربھی استعمال کیا۔ اس پراکسی جنگ کی وجہ سے امت مسلمہ کابھی بہت نقصان ہوا۔حالیہ معاہدہ صرف سفارتی تعلقات کی بحالی تک محدود نہیں ہے بلکہ اب بات اس سے آگے بڑھے گی ۔ 2001ء میں سعودی عرب اور ایران کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون کا معاہدہ ہوا تھاجس میں تجارت، معیشت اورنیشنل سکیورٹی معاملات پرایک دوسرے سے تعاون کی بات کی گئی تھی ، یہ پراسس بھی اب دوبارہ شروع ہو جائے گا جوکہ خوش آئند بات ہے۔اصل میں چین دنیا میں اس وقت اپنامقام بنانے کی کوشش کر رہاہے ، اس کے لیے بہت اہم ہوگیا ہے کہ وہ ان ممالک کو اپنے ساتھ ملائے جوامریکہ اورمغرب کے خلاف اس کی مدد کرسکیں۔ چین نے کئی سو بلین ڈالر کے معاہدے سعودی عرب اورایران کے ساتھ کیے ہیں جس کی وجہ سے وہ اب چینی منصوبوں کا حصہ ہیں ۔ چین سعودی عرب اورترکی کے درمیان بھی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کررہاہے۔اسی طرح حالیہ دنوں میں چینی صدر نے ماسکوکا دور ہ کیا جو امریکہ کو بہت زیادہ چبھاہے۔ اس پر امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ جان کربی نے بیان دیاکہ چین بین الاقوامی معاملات میں جوقدم بقدم آگے بڑھ رہاہے یہ نہ سمجھا جائے کہ امریکہ اس معاملے میں خاموش رہے گا۔ہم ایسے ممالک پرکام کررہے ہیں اور ہمیں اس حوالے سے کامیابی بھی ہوئی ہے کہ جوممالک امریکہ سے ہٹ کرچین کے کیمپ میں چلے گئے تھے اُن کو ہم واپس لارہے ہیں ۔
سوال:چین کی سفارتی کوششوں سے سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحال آپ کی نظر میںکتنی بڑی پیش رفت ہے ؟
علامہ محمدحسین اکبر:میں سمجھتاہوںکہ خالق کائنات نے امت مصطفیٰﷺ کو امت واحدہ قرار دیا ہے۔ دشمن نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطرسعودی عرب اور ایران کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرکے بہت دوریاں پیدا کردی تھیں۔ پاکستان نے بھی ان دونوں کے درمیان مصالحت کرانے کوششیںکی تھیں۔ میں سمجھتاہوںکہ یہ کریڈٹ پاکستان کوبھی جاتا ہے کہ آج پاکستان کے دیرینہ دوست چین نے یہ قدم اٹھایاہے کہ دونوں ممالک کو نہ صرف ایک ٹیبل پربٹھایاہے بلکہ ان کے سفارت خانے بھی کھل گئے ہیں۔یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اور دشمن کے لیے بہت بڑا پیغام ہے کہ ہم کچھ بھی ہوں لیکن محمد رسول اللہﷺ کے امتی ہونے کے حوالے سے ہمارے درمیان کوئی تفریق پیدا نہیںکرسکتا۔ وقتی طور پر بدگمانیاں اپنی جگہ پرہیں، شیطان چاہتاہے کہ مومن آپس میں لڑتے رہیں لیکن رحمان کوئی نہ کوئی وسیلہ پیدا کر دیتا ہے کہ ہم پھر جُڑ جاتے ہیں ۔میری نظر میں چین کی یہ مصالحتی کوششیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ہم اس کے شکر گزار ہیں ۔یہ ہم سب کے لیے خوشی کی بات ہے ۔ میں دونوں ممالک کے عمائدین کومبارک باد پیش کرتا ہوںکہ انہوں نے اس سلسلے میں فراخ دلی کامظاہرہ کیا۔ الحمدللہ! آج ہم خوش ہیں کہ دشمن ناکام ہواہے اورہم اس مشن میں کامیاب ہوئے ہیں اورامت واحدہ پرچم توحید کے نیچے اکٹھی ہوچکی ہے ۔
سوال: کیا سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی سے خطے میں فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا؟
علامہ محمدحسین اکبر:یقیناً یہ پہلاقدم ہے اوریہ قدم آگے بڑھتے رہیں گے اوراس کے مثبت نتائج پورے خطے کے لیے برآمد ہوں گے۔ دشمن نے ہمیشہ شیعہ سنی تفریق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے لیکن حالیہ مصالحتی کوششوں سے فرقہ واریت کے ناسور کو ختم کرنے میں بھی بہت بڑی مدد ملے گی ۔ اس اقدام سے فرقہ واریت کے حوالے سے بدگمانیاں دور کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی طورپراپنے مفادات کی خاطرجو کوششیں کی جاتی تھیںا ن کو بھی یہاں ٹھہرائو ملے گااوروہ سلسلہ ختم ہوگا۔ پھر جب آناجاناشروع ہوجائے گا،جب انسان قریب سے حقائق کودیکھتاہے توبہت سے شکوک وشبہات دور ہو جاتے ہیں۔ہمارے بہت سے اہل سنت دوست کہا کرتے تھے کہ ایران میں کوئی سنی مسجد نہیںہے لیکن جب یہاں سے وفود گئے اورانہوں نے دیکھاکہ وہاں پر سینکڑوں مساجد موجود ہیں تواس سے بدگمانیاں ختم ہوئیں کہ معاملہ ایسا نہیں ہے جو بتایاگیا تھا۔ میں سمجھتاہوںکہ تعلقات کی بحالی سے نہ صرف فرقہ واریت ختم ہوگی بلکہ دوسرے ممالک یعنی شام ، لبنان اوریمن میں بھی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ ان جنگوں کے پیچھے امریکہ اوراستعماری طاقتوںکاہاتھ تھالیکن اب ان کو مایوسی ہوگی ۔ جیسے خالق کائنات نے قرآن کریم میں فرمایاکہ کافر مایوس ہوگئے ہیں، ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں،خداسے ڈرنا چاہیے۔ پھرآیت اللہ خامنہ ای کافتویٰ ہے کہ اہل سنت بھائیوں کے مقدسات کی توہین نہ کی جائے بلکہ ان کا احترام کیاجائے۔ اسی طرح آیت اللہ سیستانی کا فتویٰ کہ اہل سنت ہمارے نفس نہیں بلکہ ہماری جان ہیں ہمیں اس طرح استقبال کرناچاہیے ۔ بہرحال ہمارے مراجع اورفقہاء کے بیانات نے بھی فضا کو بہت ٹھنڈا کیا ہے اوراس کے بہت مثبت نتائج ہمارے سامنے آئے ہیں۔
سوال:کیاسعودی عرب اورایران کااشتراک خطے میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم میں رکاوٹ بن سکتا ہے ؟
علامہ محمدحسین اکبر:میں سمجھتا ہوںکہ سعودی عرب نے امریکہ کے پریشر میں آکراسرائیل سے تعلقات بنانے کی کوشش کی تھی لیکن رسول اللہﷺ کا فرمان اور قرآن کی نص صریح موجود ہے کہ یہودی و نصاریٰ کبھی بھی آپ سے مطمئن نہیں ہوں گے یہاں تک کہ آپ ان کے دین و آئین کو تسلیم کرلیں۔میں سمجھتاہوں کہ ان پرجتنااعتماد کرلو ہپ کبھی بھی ہمارے مفادات کے لیے کمپرومائز نہیں کریں گے ۔ہمارے دوست ممالک نے کوشش کرکے دیکھ بھی لیالیکن نتیجہ انہیں نظر نہیں آیا۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ جن بستیوں کو ممنوع قرار دیاگیا تھاوہ کھول دی گئی ہیں اوروہاں پریہودیوں کوآباد کیاجارہا ہے۔ بہرحال سعودی عرب کو اس چیز کاعلم ہوچکا ہے اور ایران توپہلے سے ہی اس کے خلاف تھااورفلسطینیوں کی حمایت میں تھا۔ میں سمجھتاہوں کہ اس اشتراک سے زیادہ نہیں توکچھ نہ کچھ مسلمانان فلسطین کوفائدہ پہنچے گااور اسرائیل اور امریکہ یقیناًمایوس ہورہے ہیں ۔ بہرحال ان دونوں ممالک کے ملنے سے اسرائیل کے ناپاک عزائم بھی خاک میں ملیں گے اورفلسطینی بھی ان کے ظلم وجور سے محفوظ رہیں گے ۔
سوال:ماضی میں پاکستان کے وزرائے اعظم کی سطح تک ایران اورسعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کی کوششیں ہوتی رہی ہیں ۔ آپ کے خیال میں پاکستان اس مصالحتی مشن میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکا؟
ایوب بیگ مرزا:ماضی میں نواز شریف اورعمران خان نے بطوروزیراعظم اس حوالے سے کوششیں کی تھیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی پوزیشن کمزور تھی۔ میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ اگر کسی محلے کے دو گھرانوں میں کشیدگی پیدا ہوجائے توکیامحلے کاایسا فرد جو غریب بھی ہو،معاشی لحاظ سے کمزوربھی ہواوراس کی کوئی اچھی شہرت بھی نہ ہووہ ان کی صلح کراسکتاہے ؟کوشش اپنی جگہ پر ہے لیکن اثرانداز ہونے کے لیے کچھ طاقت بھی چاہیے ۔ اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اُس وقت سعودی عرب امریکہ کی بڑے زوردار گرفت میں تھا۔ سعودی عرب کے لیے سوچنابھی بہت مشکل تھاکہ وہ کسی ایسے ملک سے تعلقات بڑھائے جس کے امریکہ سے تعلقات اچھے نہیں ہیں ۔ امریکہ کاسعودی عرب پربڑا گہرا دبائو اورقبضہ تھالیکن آہستہ آہستہ سعودی عرب بھی امریکہ کے اس چنگل سے نکل رہاہے اوراب توتیل کے معاملے میں بھی اس نے امریکہ کامطالبہ نہیں مانا۔ یعنی اس نے بھی سمجھاہے کہ زیادہ بہتر ہے کہ خطے کے ممالک سے تعلقات بہتر بنائے جائیں ۔ پھر چین جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہے اُس نے ایران کوتقریباً 400 ارب ڈالر کا پیکج دیا ہے ۔ وہ سعودی عرب کے ساتھ بھی تعاون کر رہا ہے ۔ اس وجہ سے مصالحت کرانا اس کے لیے آسان بھی تھا اور خود اس کے اپنے فائدے میں بھی تھا ۔ پھر یہ کہ ایران اور سعودی عرب دونوں کافی حد تک سمجھ گئے تھے کہ ہمارے لڑنے سے دشمن خوش ہورہے ہیں اور دشمنوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ پھر یہ کہ چین صرف اقتصادی قوت نہیں بلکہ عسکری قوت بھی ہے جو ایران اور سعودی عرب دونوں کو عسکری سطح پر سپورٹ کر سکتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں تھا تو وہ کسی کو کیا دے سکتا تھا ۔
سوال:سعودی عرب اور ایران میں تعلقات کی بحالی کے بعد ان ممالک کو کون سے داخلی و خارجی خطرات پیش ہوں گے؟
رضاء الحق: پہلے میں خارجی خطرات کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ دونوں کوخارجی سطح پر ایک جیسے ہی خطرات پیش آئیں گے کیونکہ ان تعلقات کوبحال کروانے میں چین کا کلیدی کردار ہے ۔پھرساتھ پاکستان ،قطر،عمان وغیرہ نے بھی اپنااپنا کردار ادا کیا۔دوسری طرف روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے عالمی منظر نامہ ایسا بن چکا ہے کہ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ روس کی یوکرائن کے خلاف جنگ درحقیقت امریکہ اوریورپ کے خلاف ہے ۔ چین بھی روس کا اتحادی ہے لہٰذا سعودی عرب اور ایران کا بھی اس اتحاد میں شامل ہونا کبھی بھی امریکہ ، یورپ اور اسرائیل کو برداشت نہیں ہوگا ۔لہٰذا سعودی عرب اورایران کو اس حوالے سے محتاط رہنا ہوگاکیونکہ خارجی سطح پر ان کے لیے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ اگر امریکہ اور یورپ کی طرف سے کوئی حملہ نہ بھی ہو تو اسرائیل کی طرف سے خطرہ بہرحال موجود ہے۔اس کے لیے وہ داخلی سطح پر انتشار پیدا کرکے ان ممالک کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ چائنہ روس اتحاد میں شامل نہ ہو سکیں ۔ اکثر کمزور ممالک میں ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ ان ممالک کے اندر طاقت کے مراکز کو اُبھارکر اورکبھی عوام کو سڑکوں پر لاکر حکومتوں کو گرا دیتاہے اور پھر اپنی مرضی کی حکومتیں لاکر مرضی کے فیصلے کرواتا ہے ۔ سعودی عرب اورایران دونوں کویہ دیکھنا ہوگاکہ دونوں ممالک میں مذہبی نوعیت کی حکومتیںموجود ہیں ۔سعودی عرب میں حرمین شریفین ہیں اورعلماء کاکردار بہت زیادہ ہے۔دونوں ممالک کے مذہبی انتہاپسند گروپ اپنی مخاصمت کوبرقرار رکھنے کی کوشش کرسکتے ہیں اوریہ دونوں کے لیے داخلی سطح پر بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ پھریمن اور شام میں دونوں کی پراکسی جنگ بھی چلتی رہی ہے،وہاں جن پراکسیز کو وہ اپنے اپنے طورپرسپورٹ کرتے رہے ہیں وہ بھی موجود ہیں۔ بہرحال یہ ایک لمباپراسس ہے ،دونوں نیک نیتی سے اس کوآگے بڑھائیں گے توکامیابی ہوگی ۔ ان شاء اللہ!
سوال:چندروز پہلے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے IMF کی کئی شرائط پوری کردی ہیں لیکن قرضہ نہیں مل رہا اور ابIMF غیرروایتی شرائط عائد کر رہا ہے۔ پھر انہوں نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی بات کی اورکہاکہ ہمیں کوئی ڈکٹیٹ نہیں کرسکتااورپاکستان کا ایٹمی پروگرام بڑا محفوظ ہے۔ لیکن دوسری طرف IMFکے نمائندے سے پوچھاگیا کہ کیا IMFایسی شرائط عائد کر رہاہے تواس نے کہاکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اس متضاد صورت حال کی حقیقت کیا ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بات کرنا وزیر دفاع کا کام ہے ۔ لیکن اگر یہ بات وزیر خزانہ کررہا ہے اور وہ بھی سینٹ جیسے فورم پر تو اس کاواضح مطلب ہے کہ دال میں کچھ تو کالا ہے ۔ دیکھئے! ہربندے کا ایک ٹریک ریکارڈ ہوتاہے ۔ ہمارے وزیرخزانہ کا معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ انہوںنے آج سے 25سال پہلے IMF کوباقاعدہ ایک جعلسازی پر مبنی رپورٹ پیش کی تھی جس کی وجہ سے پاکستان پر جرمانہ ہوا تھا ۔ اس وقت پاکستان کو عالمی سطح پر بڑی بدنامی اور رسوائی کا سامنا ہوا تھا۔ پھران کا یہ معاملہ بھی ہے کہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف ایک حلفیہ بیان دے دیا،پھراس بیان سے مکر گئے ۔ جب آئے تھے تو کہا تھا کہ میں IMF کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کروں گا اور ڈالر کو 200سے کم کی سطح پر واپس لاؤں گا ۔ لیکن ڈالر بے قابو ہو گیا ہے۔لہٰذا ان کی ساکھ اچھی نہیں ہے ۔ جہاں تک ایٹمی پروگرام اور غیر روایتی شرائط کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کا تعلق IMFسے زیادہ روتھ شیلڈ انتظامیہ کے دورے سے ہوسکتا ہے ۔ پس منظر میں کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوگی کیونکہ بلاوجہ روتھ شیلڈ انتظامیہ دورہ کرنے والی نہیں ہے ۔ ا س پربھی ہمیں اپنی تشویش کااظہار کرنا چاہیے کہ روتھ شیلڈ انتظامیہ کا دورہ پاکستان کس مقصد کے لیے تھا ؟
سوال: مسلمان ممالک کی مصالحت غیرمسلم ملک چین کرتا ہے ۔ اسی طرح پاکستان نے ہمیشہ امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ثالث بن کر ہمارے اورانڈیا کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پرمصالحت کرائے۔ غیرمسلم ہمارے معاملات حل کرتے ہیں لیکن ہم خود آپس میں مل کرکوئی معاملہ حل نہیںکرتے کیایہ ایک المیہ نہیں ہے ؟
رضاء الحق:اس سے بڑا المیہ کسی مسلمان ملک اور مسلمان امت کے لیے ہونہیں سکتا کہ آپ کے اپنے تنازعات او ر معاملات سب کے سب غیرمل کر طے کرا رہے ہوں۔ اگر گزشتہ ایک صدی کی تاریخ کاجائزہ لیا جائے تو خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلم ممالک آپس میں لڑتے ہی نظر آئے ہیں۔ پہلے عراق ایران جنگ ہوئی اور پھر شام،لیبیا،یمن مسلمان آپس میں ہی لڑتے رہے۔ اسی طرح شمالی افریقہ میں مسلمان آپس میں لڑتے رہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم وحی کی ہدایت سے دور ہو گئے ۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص}(آل عمران:103) ’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘
اسی طرح دوسرے مقام پرفرمایا:{اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط} (الشوریٰ:13) ’’کہ قائم کرو دین کو۔اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک اُمت کے طور پر متحد رہنے کی بجائے تفرقہ کا شکار ہوگئے ۔ یہ تفرقہ مسلکی بھی تھا اور علاقائی بھی ۔ کہیں عرب نیشنل ازم ، کہیں ترک نیشنل ازم اور کہیں ایرانی نیشنل ازم کے نام پر اُمت نے خود کو تقسیم کرلیااور اللہ کی رسی کو ہم نے چھوڑ دیا۔دین خاص طور پر اُس کے اجتماعی گوشے ہمارے ذہن سے ویسے ہی محو ہو گئے سیاست بھی ایک عبادت ہے لیکن سیاست ہم نے ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لیے کرنی شروع کردی۔ان تمام چیزوں کو دیکھیں تو ہمارے پاس لیڈرشپ ، ویژن اور مثبت فکر کا فقدان تھا جس کی وجہ مسلم ممالک کی معیشت مضبوط ہو سکی اور نہ ہی اُمت متحد ہو سکی ۔ جہاں تیل نکلا وہ امیرملک بنے ورنہ خود معیشت کومضبوط نہیں کیا۔ اسی طرح معاشرت بھی کمزور ہوتی چلی گئی اورسیاسی لحاظ سے بھی بین الاقوامی سطح پر ہم مغلوب ہوتے گئے ۔ ان معاملات کا جائزہ لینے کے بعد درست کریں گے اور ایک بار پھر متحد ہوکر اُبھریں گے توپھر ہمارے لیے ممکن ہوگاکہ ہم خود اپنے مسائل حل کرسکیں ۔
سوال: اس وقت دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہو چکی ہے ، ایک امریکی بلاک ہے اور دوسرا چین کا ۔ یہ دونوں آپس میں اب تھوڑے متحارب بھی ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں مسلم ممالک کوکیالائحہ عمل اختیار کر نا چاہیے ؟
ایوب بیگ مرزا:میرا خیال ہے کہ اس وقت مسلمان اُمت کی سوچ اور نظریہ الگ ہے جبکہ مسلم حکمرانوں کا نظریہ الگ ہے ۔ مسلم حکمران صرف اس چیز پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمیں اقتدار ملناچاہیے ،چاہے اپنے قومی مفادات کوقربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔دوسری طرف مسلمان عوام کے جذبات ، خواہشات ہیں کہ امت مسلمہ ایک ہوجائے ،واقعتا ًامت مسلمہ بن جائے ۔ میں سمجھتا ہوںکہ اگر امت مسلمہ میں جمہوریت(حقیقی) بطور طرز حکومت آجائے تواس سے بہت فرق پڑجائے گا۔ اس میں عوام کی خواہشات reflectہوںگی۔لیکن یہ وجوہات میں سے ایک وجہ ہوگی ۔ جب آپ کوعوام کی مرضی دیکھنی پڑے گی اورتمام مسلمان ممالک کے عوام کی مرضی یہ ہے کہ مسلمان ایک امت کی صورت اختیار کرجائیں اوراپنے مسائل حل کرلیںتو بڑی اچھی پیش رفت ہوگی ۔ پھر اصل بات یہ ہے کہ اسلام جب ہمیں ایک ہونے کادرس دیتا ہے اور ہم اس سبق دینے والے اپنے مذہب کی طرف رخ نہیں کریں گے توپھرامت مسلمہ کیسے بنیں گے؟ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ امت مسلمہ ایک جسم کی مانندہے جس کے ایک حصے میں تکلیف ہوتودوسرااس کااثر قبول کرتاہے ۔ تب یہ صورت حال پیدا ہوگی جب ہم واقعتاً، حقیقتاً عملی طورپرمسلمان ہوں گے ۔ ہمیں امت کے مفاد اورمسلمانوں کے مفاد کو صحیح معنوں میں ترجیح دینی چاہیے وگرنہ اگر ذاتی سطح پرسوچتے رہے تویہ تفریق بڑھتی چلی جائے گی۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024