(امیر سے ملاقات ) امیرسے ملاقات قسط 13 - محمد رفیق چودھری

9 /

نظام بدلنے کے لیے عوام کے ذہنوں اوردلوں کو بدلنااورایمان کی آبیاری یقیناًضروری ہے ۔

مسلمان جماعتی زندگی کے بغیر اپنے دینی فرائض کو کلیتاً یا مکمل طور پر ادا نہیں کر

سکتے اوراگر دینی فرائض ادا نہیں ہوئے توکل نجات کامعاملہ کھٹائی میں پڑـجائے گا۔

اگر باطل نظام اور برائی کو دیکھ کرہمارا خون نہیں کھولتا،ہمارے چہرے کا رنگ

تبدیل نہیں ہوتاتوہمیں اپنی دینداری کے بارے میں غور کرنا چاہیے ۔

آج اگر ہمارے سامنے مہنگائی کاطوفان اور دیوہیکل جن کھڑ ا ہے

تو یہ سود کی وجہ سے ہی ہے۔

 

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات:

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: کچھ ایسی گائیڈلائن دیجیے کہ ہمارا رمضان پچھلے تمام رمضانوں سے بہتر گزرے؟
امیرتنظیم اسلامی:نبی اکرمﷺ خود بھی رمضان سے پہلے اس کی تیار ی فرماتے تھے اور صحابہ کرامj کو بھی اس کی تیاری کاحکم دیتے تھے ۔ آپﷺ نے دعائیں بھی فرمائی ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّعْنَا رَمَضَانَ))’’اے اللہ ہمارے لیے رجب، شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے۔‘‘
ہماری زندگی میںبہت سارے ایونٹس آتے ہیں جن کی ہم پہلے سے پلاننگ کررہے ہوتے ہیں۔ بعض مرتبہ seasonsآتے ہیں جیسے بچوں کے امتحانات کاسیزن ، کاروبار کاسیزن وغیرہ۔ سیزن کی تیاری پہلے کی جاتی ہے، اس میں آرام کم ہوتاہے اور محنت زیادہ ہوتی ہے تبھی کمائی زیادہ ہوتی ہے ۔ اسی طرح رمضان ہمارے لیے سیزن ہے جس میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ،مغفرت کے اعلان ہورہے ہوتے ہیں ،نیکی کی طرف پکارا جارہا ہوتا ہے، شرسے بچنے کی ترغیب دلائی جارہی ہوتی ہے۔ اجر و ثواب بڑھ جاتاہے ،نفل فرض کے برابر،فرض 70فرضوں کے برابر ہوجاتاہے۔ یہ رمضان کے فضائل ہیں اور یہ بڑا موقع ہے۔ لہٰذا رمضان ایسے گزارناچاہیے کہ شاید یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو ، اس کے بعد شاید اتنے فضائل کا موقع نہ ملے ۔ رسول اللہ ﷺ کی معروف حدیث ہے:
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: منبر کے قریب ہوجاؤ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم منبر سے قریب ہوگئے۔ جب حضور صلی ﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پرقدم مبارک رکھا تو فرمایا: آمین۔ جب دوسرے پرقدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا: آمین۔ جب تیسرے پرقدم مبارک رکھا تو پھر فرمایا: آمین۔ جب آپ ﷺخطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اُترے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ: (یا رسول اللہ!) ہم نے آج آپ سے (منبرپرچڑھتے ہوئے) ایسی بات سُنی جو پہلے کبھی نہیں سُنی تھی۔ آپ ﷺنے ارشادفرمایا: اس وقت جبرائیل علیہ السلام میر ے سامنے آئے تھے (جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو) اُنہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کامبارک مہینہ پایا، پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا: آمین۔ پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ ﷺکا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا: آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پائے اور وہ ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوجائے۔ میں نے کہا: آمین۔ (مستدرک حاکم )
یعنی اس سے بڑی تباہی وبربادی کیاہوگی کہ ایک مسلمان کو رمضان کامہینہ مل جائے اوروہ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی بخشش نہ کراسکے ۔دوسری بات یہ ہے کہ اللہ نے دن میں روزہ دیا ہے اوررات میں قیام کی فضیلت بتائی ۔بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کواللہ تعالیٰ نے 1980ء میں متوجہ کیاکہ نماز تراویح کے ساتھ دورئہ ترجمہ قرآن کومتعارف کرایا۔ کیونکہ لوگ تراویح ادا کرتے ہیں ،قرآن سنتے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ قرآن اللہ کا کیا پیغام دے رہا ہے ؟ اللہ کے فضل سے ڈاکٹر صاحب ؒ نے لاہور سے دورہ ترجمہ قرآن مع تروایح کا سلسلہ شروع کیا جس میں 29راتوں میں ایک طرح سے تین مرتبہ قرآن حکیم کی تکمیل ہوتی ہے ۔یعنی
1۔تراویح میں حافظ قرآن سناتاہے۔
2۔مدرس ہرآیت کی تلاوت کرے گا۔
3۔مدرس ہرآیت کاترجمہ پیش کرے گا۔
اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہیں جونہ صرف دورئہ ترجمہ قرآن سے استفادہ کرتے ہیں بلکہ بہت سے لوگوں کی زندگیاں بھی بدلی ہیں ۔
صحابہ کرام ؓ کی تراویح پوری پوری رات کی بھی ہوتی تھیں۔ بہرحال اس رمضان میں لوگوںکو چاہیے کہ وہ قرآن کی تلاوت بھی کریں اورجہاںجہاں دورئہ ترجمہ قرآن کی محافل ہورہی ہیں وہاں جاکرسنیںبھی تاکہ ان کا یہ رمضان قرآن کے ساتھ گزرے۔ کیونکہ یہ نزول قرآن کامہینہ ہے۔اس میں قرآن کے ساتھ اپناتعلق مضبوط کرنے کا موقع بھی ہے۔ رمضان صرف بھوک پیاس کا نام نہیں اور نہ ہی یہ entertainment کا مہینہ ہے ۔ کافی لوگ رمضا ن میں بھوک پیاس چھوڑ دیتے ہیں اور فارغ وقت فلمیں وغیرہ دیکھتے ہیں، یہ رویہ درست نہیں ہے۔ مولاناابوالکلام آزاد نے کہاتھا کہ صرف بھوکا اور پیاسا رہناہی عبادت ہوتاتوسارے فقیراورمحتاج سب سے بڑے عبادت گزار ہوتے۔روزہ آنکھ،کان، زبان اور پورے وجود کا ہوتاہے۔ اگر ہم نے روزہ میں حلال (کھانا پینا، زوجین کاتعلق) چھوڑ دیاتو اول درجہ تویہ ہے کہ بندہ حرام کو چھوڑے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’کتنے روزے دار ایسے ہیںکہ جنہیں سوائے پیاس کے اُن کے روزہ سے کچھ نہیں ملتا، اور کتنے ہی قیام کرنے والوں کو ماسوا بے خوابی کے ان کے قیام سے کچھ حاصل نہیںہوتا۔‘‘(رواہ الدارمی)
پھرقرآن حکیم میں روزے کا مقصد بیان کیاگیاہے :
{لَـعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ(183)}(البقرہ)’’ تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔‘‘
اپنے آپ کو گناہوں اورحرام سے بچانے کا نام تقویٰ ہے ۔ روزہ حلال چھڑواکر اس کی مشق کروا رہاہے۔اگربندہ حلال چھوڑ رہاہے اورحرام کو نہیں چھوڑ رہاتوقانونی طورپر اُس کو شمار تو کیا جائے گا لیکن حقیقت کے اعتبار سے ،مقصود اورمطلوب کے اعتبار سے یہ روزہ ،روزہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف بھوک اورپیاس ہے ۔پھریہ بڑی اذیت ناک بات ہے کہ میڈیا کے اوپرموویز دیکھ کر وقت پاس کیاجارہاہے ۔ اللہ اکبرکبیرا!حالانکہ یہ نیکیوں کاسیزن ہے ۔کمائی کاموقع ہے ۔ یہ جہنم سے آزادی اورجنت الفردوس حاصل کرنے کا سیزن ہے۔ کھاناپینااورسوناتوسارا سال چلتاہے۔ رمضان میں طلوعِ فجر سے غروب آفتاب تک کھاناپینااور سونا چھوڑ نے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری روح بیدار ہواوراس کی غذا قرآن اس کو میسر کیاجائے تاکہ ہم پورے سال کے لیے تقویٰ اختیار کرنے والوںمیںشامل ہوسکیں۔یہ بہت بڑی بیوقوفی اور ناشکری ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنابڑا موقع عطا کررہاہے اوربندہ اپنے اوقات کی حفاظت نہ کررہاہو ۔ رسول اللہﷺ کی سیرت کودیکھاجائے تو رمضان میں نزول قرآن کاآغازہوا ،بدر کامیدان سجا ،مکہ فتح ہوا۔پھر رسول اللہﷺ آخری عشرے میں اعتکاف کابھی اہتمام فرمایاکرتے تھے ۔ سیرت نبوی ﷺ میں رمضان میں تحرک،جدوجہد،محنت اوربھاگ دوڑ نظر آتی ہے ۔ ہمیں سیرت نبوی ﷺ اوردور صحابہ ؓ کوسامنے رکھ کررہنمائی حاصل کرنی چاہیے ۔
سوال: قرآن کی روسے مال اور اولاد فتنہ ہیں توہم اللہ سے مال اوراولاد کے حصول کی دعائیں کیوں کرتے ہیں اور فتنوں سے بچنے کی دعا بھی کرتے ہیں کیایہ تضاد نہیں؟ (حافظ طیب صاحب)
امیرتنظیم اسلامی: ہم لفظ فتنہ کو سمجھ جائیں تومسئلہ حل ہوجائے گا۔عربی میں فتنہ امتحان اور آزمائش کی کیفیت کوکہتے ہیں۔ گوکہ فتنہ کالفظ دوسرے مفاہیم میں بھی آتاہے لیکن سوال کرنے والے بھائی کے ذہن میں سورۃالتغابن کی آیت 15ہوگی جس میں ارشا د ہوتا ہے: {اِنَّمَآ اَمْوَالُــکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌط} ’’تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے امتحان ہیں۔‘‘
اللہ نے مال دیاہے توآزمائش ہوگی ۔کہاں سے کمایا ، کہاں خرچ کیا ؟یعنی حلال کمائیں اورجائز پرخرچ کریں تو اجروثواب کاباعث ہے۔ حدیث میں آیاکہ تم مال اس لیے کمائوتاکہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاناپڑے تویہ بھی صدقہ ہے ۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: بہترین لقمہ وہ ہے جو بندہ اپنے ہاتھ سے کماتاہے اوراپنے گھروالوںکو کھلاتاہے۔ والدین کوکھلانا،بیوی بچوں کو کھلانا انسان کی ذمہ داری بھی ہے مگر اس کا بھی اس کو ثواب ملے گا ۔ لیکن اگریہی مال حرام سے کمایا تو بجائے ثواب کے عذاب ملے گا ۔ حرام میںخرچ کریں توکل کی جوابدہی مشکل ہوجائے گی ۔اب سوال یہ ہے کہ انسان کون سارویہ اختیار کرتاہے ۔اس کے سامنے دونوں راستے موجود ہیں ۔اسی طرح اولاد کامعاملہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کودعائیں سکھاتاہے ۔ ارشاد ہوتاہے :
{رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ} (الفرقان:74) ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطافرما‘‘
پھرپیغمبروں نے اللہ تعالیٰ سے اولاد مانگی ۔
{رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(100)}(الصٰفٰت)’’(آپؑ نے دعا کی:) پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما۔‘‘
ابراہیم ؑ کی دعا ہے ۔ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتاہے :
{رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃًج}(آل عمران:38) ’’ اے میرے ربّ! تُو مجھے بھی اپنی جناب سے کوئی پاکیزہ اولاد عطا فرما دے۔‘‘
حضرت زکریا ؑ کی دعاہے ۔ہمارے ہاں ایک عام ٹرینڈ ہے کہ حضرت!اولاد نرینہ کی دعا کردیں۔ کیوں؟ کیا بیٹی اللہ کی رحمت نہیں ہوا کرتی؟آپ صالح اورپاکیزہ اولاد مانگیں ۔ پھراولاد کی پرورش کریں ، اس کی حاجات جائز طریقے پرپورا کریں گے توثواب ملے گا، اولاد اچھی تربیت کرکے اسے اللہ کی بندگی کرنے والا بنائیں گے تو یہی ہمارے لیے صدقہ جاریہ ہوجائے گی۔ بڑی پیاری دعاہے :
{رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(24)} (بنی اسرائیل) ’’ اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔‘‘
ماں باپ زندہ ہیں اولاد دعا کرے تب بھی ماں باپ کو رحمت کی ضرورت ،ماں باپ کاانتقال ہوجائے تب بھی اللہ کی رحمت کی ضرورت ہے ۔بہرحال مال اور اولاد اس دنیا کے امتحانوں میں سے دو بڑے امتحان ہیں ۔ ایک بندہ حلال طریقے پر کما رہا ہے اور حرام سے بچ رہا ہے، اولاد کو اللہ کا بندہ بنانے کی کوشش کررہا ہے تو وہ اس امتحان میں کامیاب ہو جائے گا ۔ ان شاء اللہ!بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ فرماتے تھے کہ اصل نعمت ہدایت ہے ۔ اگر مال ہے ، ہدایت نہیں ہے تو پھر یہی مال انسان کو قارون ، ابوجہل ، ابو لہب بناتا ہے ، اقتدار ہے مگر ہدایت نہیں ہے تو یہ اقتدار انسان کو فرعون اور نمرود بناتا ہے ۔ اسی طرح اولاد ہے مگر ہدایت نہیں ہے تو امتحان میں ناکامی ہے ۔
سوال: کیابینک سے ملنے والاسود یااضافی رقم بغیر ثواب کی نیت کے کسی کودے دینادرست ہے؟ (محمدخورشیدصاحب ،اسلام آباد)
امیرتنظیم اسلامی:عام طورپرہم فقہی مسائل بیان نہیںکرتے ہیں نہ ہمارایہ ڈومین ہے ۔لیکن بعض سوالات مستقل ہمارے سامنے آتے ہیں توظاہری بات ہے پھر ہمیں بھی توراہنمائی کہیں سے لینی ہوگی۔ قرآن کہتاہے:
{فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ43} (النحل) ’’تو تم لوگ اہل ِذکر سے پوچھ لو ‘اگر تم خود نہیں جانتے ہو۔‘‘
چونکہ اس حوالے سے فتاویٰ نگاہوں سے گزرے ہیں اس لیے اس سوال کاجواب تلاش کرنے میں میرے لیے آسانی ہوگی ۔ پہلی بات یہ ہے کہ سیونگ اکائونٹ کھولنا ہی نہیں چاہیے بلکہ کرنٹ اکاؤنٹ کھولنا چاہیے ۔سیونگ اکاؤنٹ پر ملنے والا اضافہ منافع نہیںہوتا بلکہ وہ سود ہے جوکہ حرام ہے اورجواللہ اوررسولﷺ سے جنگ کے مترادف ہے۔
لہٰذا بہتر اور افضل تویہ ہے کہ اس سیونگ اکائونٹ میں رکھی رقم میں اضافہ کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے اور اُسے اکائونٹ میں موجود رہنے دیا جائے۔ البتہ اگر نکال ہی چکا ہے تو پھر اس سود سے جان چھڑانے کی نیت سے کسی کو دے دے ثواب کی نیت نہ رکھے اور جب تک یہ اضافہ اس کے اکاؤنٹ میں موجود رہے وہ اپنی ضرورت کے لیے نکالے نہ کیونکہ یہ غیرشرعی ٹرانزکشن کرنے اور سود لینے کی زد میں آجائے گا ۔ ہم تو کہتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ بھی غلط ہے کیونکہ حضور ﷺ نے لعنت فرمائی سود لینے والے پر،دینے والے پر،اس کولکھنے والے پراورگواہ بننے والے پراورمسلم شریف کی روایت میںہے کہ سب کے سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔آپ کی رقم جو کرنٹ اکاؤنٹ میں پڑی ہے اس سے بینک کما رہا ہے لہٰذا اس لحاظ سے کرنٹ اکاؤنٹ بھی غلط ہے لیکن مجبوری کی وجہ سے ہے اس لیے اس کی اجاز ت ہے ۔ لیکن اسے بھی غلط ہی سمجھنا چاہیے ۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ ایک وقت آئے گاکہ تم خود سود نہیںلوگے لیکن اس کے غبار سے محفوظ نہیں رہ سکوگے ۔ آج ہماری تمام اشیاء میں سود لگ کرآرہاہے ۔ اب کیاکریںکیونکہ غلطی ہورہی ہے ۔ استاد محترم ڈاکٹر اسرارا حمدؒ فرماتے تھے کہ جب غلطی ہو تواس کاکفارہ دیناپڑتا ہے اوروہ کفارہ کیاہے کہ اس سسٹم کوبراجانیں،اس سے نفرت کریں،اس کوبراکہیں اوراس کوبدلنے کے لیے دینی اجتماعیت اختیار کریںتاکہ اس نظام کو بدلنے میں اپناحصہ ڈال سکیں ۔ تاکہ جب ہمیں موت آئے تواللہ کے سامنے معذرت پیش کرسکیںکہ اے اللہ جتناہم بچ سکتے تھے ہم نے بچنے کی کوشش کی اور جہاں غلطی تھی اس کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ۔
سوال: کیاہجرت مدینہ کے بعد وہاں اسلامی ریاست قائم ہوگئی تھی ؟(طلحہ انصاری)
امیرتنظیم اسلامی:جب رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے ہیں توخود قرآن حکیم نے ایک بڑا پیارا لفظ استعمال کیاہے۔ارشاد ہوتاہے :
{اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo}(الحج)
’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکّن عطا کر دیں تو‘وہ نماز قائم کریں گے‘اور زکوٰۃ ادا کریں گے‘اور وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘ اور تمام امور کا انجام تو اللہ ہی کے قبضہ ٔقدرت میں ہے۔‘‘
ایک رائے یہ ہے کہ قرآن کے اس مقام کی آیات سفر ہجرت کے دوران نازل ہوئیں ۔ حضورﷺ مدینہ تشریف لائے تووہاں تمکن اوراختیار ملا ۔ البتہ یہ کہناکہ وہاں اس معنی میں ایک ریاست قائم ہوگئی کہ آل ان آل صرف حضورﷺ ہی ہوںاورکوئی دوسرافیصلہ کرنے کی اتھارٹی نہ رکھتا ہویہ معاملہ ابھی نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ وہاں یہودکے سردار بھی فیصلے کرتے تھے ۔ اسی طرح سود کے خاتمے کا اعلان 9ھ میں ہوا۔لہٰذا یہ کہنامناسب نہیں کہ ریاست قائم ہوگئی تھی البتہ یہ کہنابالکل درست ہوگاکہ تمکن اوراختیار ملا،کچھ احکام کی تنفیذ ہوئی مگر تکمیل دین کااعلان بھی بعد میں ہوا ور غلبہ دین کی جدوجہد فتح مکہ پرجاکر پایہ تکمیل کوپہنچی ۔ سورۃالنصر میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا(2)} (النصر)’’اور آپؐ دیکھ لیں لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے اللہ کے دین میں فوج در فوج۔‘‘
یعنی اب نظام اللہ کا ہے ۔ اب تمام فیصلے حضورﷺ کریں گے ۔ یہود کے تینوں قبیلوں (بنوقینقاع،بنوقریظہ، بنونضیر) کافیصلہ ہوچکا اوران کو مدینہ سے نکال دیاگیا۔
سوال: رسول اللہﷺ کی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کوحکم دیاکہ فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں کے ساتھ اُلٹ دو۔اس حدیث کی روسے اللہ کادین قائم کرناضروری ہے ۔ آپ لوگ اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں لیکن دیگر علماء کرام آپ کاساتھ کیوں نہیں دیتے ؟(محمدمزمل ملک ،انڈیا)
امیرتنظیم اسلامی:یہ حدیث بڑی معروف ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے دروس ’’سورۃالعصر‘‘ میں اس حدیث کاحوالہ ملتاہے ۔پھرمولانااشرف علی تھانویؒ کے خطبات جمعہ میں بھی اس حدیث کاحوالہ ملتاہے ۔یہ میں نے حوالہ اس لیے دیا کہ علماء دین بھی اس حدیث کوپیش نظر رکھتے تھے ۔ اس حدیث میں ایک مسلمان کی دینی غیرت وحمیت کو اہمیت دی گئی ہے ۔ اگر وہ دینی غیرت وحمیت ہمارے اندر نہیں پید اہورہی ،باطل کے نظام کودیکھ کراگر ہمیں اندر کچھ نہیں ہوتا ، اگر باطل یابدی کو دیکھ کرمیراخون نہیں کھولتا،میرے چہرے کا رنگ تبدیل نہیں ہوتاتومجھے اپنی دینداری کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلاف شرع) کام کو دیکھے تو اس کو مٹا دے اپنے ہاتھ سے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی (دل میں اس کو برا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ سب سے کم درجہ کا ایمان ہے۔‘‘
الحمدللہ !ہم لوگ اقامت دین کی جدوجہد کررہے ہیں لیکن اللہ کی توفیق سے اور لوگ بھی کررہے ہیں۔دیگر اجتماعیتوں، تحریکوں اور شخصیات کے بارے میں ہمارا دل وسیع ہوناچاہیے ۔علمی اختلاف ہونا ایک الگ شے ہے مگر دل میں وسعت کاہونا بھی ضروری ہے کہ کوئی دین کاکام کر رہاہے تووہ میرا بھائی ہے ۔وہ گویاہمارا ہی مشترکہ کرنے کاکام کررہاہے ۔ جہاںتک علماء کرام کاساتھ نہ دینے کا معاملہ ہے تواس کوسمجھنے کی ضرور ت ہے ۔ علماء کرام کے بقول دین کے مختلف شعبے ہیں ۔ یہ بحث ہوسکتی ہے ، اس پررائے قائم کی جاسکتی ہے کہ فی الوقت کون سے شعبہ کی urgencyزیادہ ہے ۔ خود ڈاکٹر اسرار احمدؒاپنے کتابچے ’’تنظیم اسلامی کاتاریخی پس منظر‘‘ میں فرماتے ہیںکہ دین کے احیاء کا عمل بہت وسیع اوربسیط ہے اوراس میں بہت سارے شعبہ جات اور گوشے ہیں ۔بعض مرتبہ ایک شعبہ کا کام دوسرے شعبہ سے بظاہر متضاد نظر آتاہے مگر جب دین کاوسیع تصور سامنے ہوتویہ سب ایک دوسرے کے لیے complement کا کام کررہے ہوتے ہیں ۔اس کتابچے سے میرے اندر دیگر لوگوں اور جماعتوںکے بارے میں وسعت پیدا ہوئی اورہم اپنے رفقاء کو بھی توجہ دلاتے ہیں کہ یہ وسعت قلبی ہمارے اندر ہونی چاہیے ۔ بہت سے علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ ہم مختلف میدانوں میں کام کرتے ہیں۔ افتاء کامیدان، امت کی اصلاح کا میدان، دینی وشرعی اعتبار سے امت کی راہنمائی وغیرہ کے میدان علماء نے سنبھال رکھے ہیں۔ اسی طرح قال اللہ وقال الرسولﷺ کی صورت میں دین کا علم جو چودہ صدیوں سے امت کو پہنچااس کے تحفظ ، اس کی تشریح ،اس کی نشرواشاعت کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔بعض علماء کہتے ہیں کہ ہم سیاست کے میدان میں بھی ہیں اور ہماری بعض فلاں فلاں دینی سیاسی جماعتیں بھی ہیں ۔ ہمارا اختلاف رائے اپنی جگہ کہ انتخابی سیاست سے انقلاب نہیں آسکتالیکن ان حضرات کاکہناہے کہ ہم فلاں فلاں دینی اجتماعیت سے تعلق رکھتے ہیں اورسیاسی میدان میں وہ ہمارے راہنماء اورقائد ہیں وہ ہماری بات کوآگے پہنچارہے ہوتے ہیں۔یہ علماء کے حوالے سے مؤقف سامنے آگیا۔ ہم کہیں گے کہ ہمارا دل ان کے حوالے سے وسیع ہونا چاہیے ۔ بہرحال مشترکات پرہماری ایک آواز بلند ہونی چاہیے ۔جیسے سود کاخاتمہ کی بات ہے جس نے ہماری قوم کاجو حال کر دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ سود کا خاتمہ توسب کے نزدیک متفق علیہ ہے توہم کہیں گے کہ تنظیم اسلامی ہو،جماعت اسلامی ہویا دیگر جماعتیں ہوں اس نکتے پرسب کی ایک آواز بلند ہونی چاہیے۔ پھربے حیائی کاطوفان ہے جس نے ہماری اقدار کاستیاناس کر دیا اس طوفان کے سامنے بندباندھنے کے لیے ہماری ایک آواز بلند ہونی چاہیے ۔
سوال: پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر کیا تنظیم اسلامی نفاذ اسلام کے لیے پوری طاقت سے نکل کر نظام کی تبدیلی کاارادہ رکھتی ہے ؟(علی رضا سومرو،جیکب آباد، سندھ)
امیرتنظیم اسلامی:اصولی طورپراس معنی میں بات ٹھیک ہے کہ ہمیں عوام کی ذہن سازی،عوام کے دلوں میں نور ایمان پید اکرنے ، کردار کی اصلاح،قلوب کوبدلنے وغیرہ کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس حوالے سے دعوت کا کام کرنالازم ہے کیونکہ افرادکی تبدیلی ہی کسی موثر تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ ہمارے بھائی کہہ سکتے ہیں کہ آخرکب تک؟بالکل درست بات ہے ہم چھوٹے ہیں اپنی سی محنت کررہے ہیں۔ اورہمارا اصولی طریقہ رسول انقلاب کاطریق انقلاب والاہے ۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے منہج کو سامنے رکھ کرپاکستان کے معروضی حالات میں کوشش کررہے ہیں ۔ یقیناًحالات فوری اقدام کا تقاضا رکھتے ہیں لیکن یادرکھیے گاکہ رسول اللہﷺ سے بڑھ کرکس میں غیرت وحمیت دینی ہو گی لیکن آپﷺ نے مکہ کے13 برسوں میں ایک بت بھی نہیں توڑا۔ کیوں؟ یہی صبرمحض ہے۔ اس سے گزر کرہم نے ایک انقلابی جدوجہد کوقدم بقدم آگے بڑھانے کی کوشش کرنی ہے ۔ بہرحال پاکستان کی سالمیت ہمیں مطلوب ہے ،پاکستان بچے گاتوہم یہاںغلبہ دین کی جدوجہد کرسکیں گے ۔ اس تعلق سے ہم انتخابی سیاست کا حصہ نہیں بنتے مگر جوحکمران ہوں یاذمہ داران ہوں یہاں تک کہ اپوزیشن کے لوگ ہوںان کو مشورے ضرور دیتے ہیں۔ پھرمنکرات کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔ سود کے خلاف ہم جدوجہد کرتے ہیں، ان کوکہتے ہیںکہ خدا کے بندو!اس کوختم کروتاکہ اللہ اوراس کے رسول ﷺکے خلاف جنگ کاخاتمہ ہو۔ہم پوری شریعت کے تقاضے کی بات ابھی نہیںکررہے ۔ آج اگر ہمارے سامنے مہنگائی کاطوفان اور دیوہیکل جن کھڑ ا ہے تو یہ سود کی وجہ سے ہی ہے لہٰذا اگر ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کاخاتمہ نہیں کرتے تو ہمارے حالات سدھر نہیں سکتے۔ پھر بیرونی سازشیں ہیں اور آئی ایم ایف کے پریشر کے نتیجے میں کتنی بڑی مصیبت آرہی ہے۔ عالمی ایجنسیز یہاں آرہی ہیں۔ایٹمی صلاحیت کولینے کی باتیں ہورہی ہیں ،روتھ شیلڈ کے لوگ یہاں پرآرہے ہیں تودال میںکالا نظر آرہاہے ۔ اس تناظر میں تمام سٹیک ہولڈرز کو ہم کہیں گے کہ خدا کے بندو!اپنے اختلافات کوبالائے طاق رکھواور اس ملک کوبچانے کے لیے آگے بڑھو۔ یہ آوا ز ہم بلند کرسکتے ہیں ۔ یہ نصح وخیراہی کاکام ہمارا مستقل جاری رہے گا۔عمران خان نے انصاف کا نعرہ لگایابالکل ٹھیک بات ہے۔ انہوں نے توریاست مدینہ کابھی ذکرکیاتھا،ہم نے پورے پاکستان میں تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے ریاست مدینہ کے عنوان سے سیمینارز منعقدکیے اورپی ٹی آئی کے بعض ذمہ داران کو بھی دعوت دی یہ دوسری بات ہے کہ وہ مصروفیت کی وجہ سے نہیں آسکے۔ لیکن ہم نے تواس کو اچھے انداز میں لیا۔ کیونکہ دین صر ف انصاف کی بات نہیں کرتابلکہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی تینوں شعبوں میں راہنمائی دیتاہے لیکن عمران خان کے بیانیے میں دین کایہ وسیع تصور ہمیں دکھائی نہیں دیا۔ لیکن پھر بھی جتناکسی میں خیرکاتصور ہے تعاونو علی البروالتقویٰ کے مصداق ہم تعاون کرنے کی کوشش کریں گے ۔اچھی بات کہیں سے بھی آئے گی ہم اس کی تائید کریں گے اورقابل مذمت بات اگر اپنوں کی طرف سے بھی ہوگی توعدل کاتقاضا ہے کہ اس کی مذمت کرنے کی کوشش کی جائے ۔
سوال: میراخیال ہے کہ اگر ڈاکٹر اسراراحمدؒ اس وقت زندہ ہوتے توپوری شدومد کے ساتھ عمران خان کاساتھ دیتے؟(ایمان فاطمہ صاحبہ)
امیرتنظیم اسلامی:ماضی میں ہماری جماعتوں کی حکومتوں کو عوام دیکھ چکے تھے ، اس لیے لوگوں کوایک امید تھی عمران خان کے آنے سے کوئی واقعتا ًتبدیلی آئے گی ۔ اسی طرح ڈاکٹر اسراراحمد ؒ سے محبت رکھنے والے حضرات وخواتین کی طرف سے بھی اس طرح کاتبصرہ آتا ہے ۔ اس حوالے سے دوباتوں کوالگ الگ رکھناضروری ہے ۔ ہماری دیانتداری کے ساتھ یہ طے شدہ رائے ہے اور 75 برس کی تاریخ گواہ بھی ہے کہ پاکستان میں شریعت کانفاذ انقلابی راستے سے اورتحریک کے راستے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ انتخابی سیاست کے ذریعے نظام بدلتا نہیں ہے چہرے بدل جاتے ہیں۔ نظام جب بھی بدلا ہے تووہ تحریک کے راستے ہی سے بدلا ہے ۔ ہماری رائے یہ ہے کہ تنظیم اسلامی انتخابی سیاست کاحصہ نہیں بنتی اورنہ ہی اس راستے سے وہ نظام کی تبدیلی کی کوشش کرتی ہے۔ البتہ ڈاکٹر اسرارا حمدؒ سیاست دانوں کے معاملات پرتبصرہ کرتے تھے ، دنیا اعتراف کرتی ہے ۔ہم بھی ایک درجہ میں تبصرہ کرتے ہیں، خیرکی بات کسی کی طرف سے آئے گی توہم اس کی تائید بھی کریں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے انتخابی سیاست کے راستے کو اختیارکرنا شرو ع کر دیا ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کانظام چلے اوریہ چلے گاتوہم دعوت واقامت دین کی جدوجہد کرسکیںگے ۔ اس کے لیے ڈاکٹر صاحب جنرل پرویز مشرف، نواز شریف وغیرہ تمام حکمرانوںکو مشورے دیتے تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ڈاکٹر صاحب نوازشریف کے ہوگئے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نصح وخیرخواہی کے جذبے کے ساتھ جومتعلقہ لوگ ہیں ، جوکرتا دھرتاہیں جن کے پاس کچھ اختیار موجو د ہے ان کو ہم مشورے دیتے رہیں ۔آج اگر ڈاکٹر صاحب زندہ ہوتے توعمران خان کاساتھ دینے کی بات نہ ہوتی بلکہ وہ ان کو مشورے ضرور دیتے ۔ ہم نے بھی جب عمران خان سے ملاقات کاموقع میسر آیاتو ان کو مشورے دیے تھے ۔
سوال: میں ایم بی بی ایس کے آخری سال میں ہوں۔ آپ مجھے مشور ہ دیں کہ نظام کی تبدیلی کے لیے ایسا کون سا عمل کیاجائے کہ اللہ اس عمل سے راضی ہوجائے ؟ (اسامہ لیاقت )
امیرتنظیم اسلامی:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے۔‘‘(متفق علیہ)
ہمیں ڈاکٹر اسرارا حمدؒ نے یہ بات سمجھادی کہ دین کاجامع تصور کیاہے ۔ دین پوری زندگی کے انفرادی اوراجتماعی دونوں گوشوں کے لیے راہنمائی دیتاہے ۔ اسی طرح ہمارے دینی فرائض کیاہیں اس حوالے سے بھی ہمیں سمجھا دیا کہ خود انفرادی سطح پرحتیٰ الامکان اللہ کی بندگی کرنا، پھر بندگی کی دعوت بھی دینااورپھربندگی کے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کرناہمارے فرائض میں شامل ہے۔ان فرائض کو ادا کرنااکیلے اکیلے ممکن نہیں ہے ۔ اس کے لیے جماعتی زندگی ضروری ہے ۔جماعتی زندگی اختیار کرکے میں ان فرائض کو ادا کرنے کی کوشش کرسکتا ہوں۔ ہم ان بھائی کے لیے دعاگو بھی ہیں کہ اللہ ان کے جذبے کومزید جلابخشے اوراس میں اضافہ ہو۔ ان کومیرافوری مشورہ یہ ہے کہ جماعتی زندگی اختیار کریں۔اگر تنظیم اسلامی سے اتفاق ہے توتنظیم کوجوائن کریں ۔ اگر تنظیم اسلامی سے اختلاف ہے توکسی اورجماعت میں جائیں ۔ لیکن جماعتی زندگی کے بغیر وہ اپنے دینی فرائض کو ادا نہیں کرسکتے اوراگر دینی فرائض ادا نہیں ہوئے توکل نجات کامعاملہ کھٹائی میں پڑـجائے گا۔
سوال: پاکستان کی دینی جماعتیں نظام بدلنے کی بجائے عوام کے دل بدلنے میں وقت کیوں لگارہی ہیں؟ (امۃالاحد صاحبہ)
امیرتنظیم اسلامی:میںنے خود کہاکہ عوام کے ذہنوں اوردلوں کو بدلنا،ایمان کی آبیاری یقیناًضروری ہے ۔ کیااللہ کے رسول ﷺ نے پہلے دن سے جنگ کی تھی؟ سیرت نبویﷺ میں پونے پندرہ برس کوئی قتال نہیں ہوا۔ پہلاباقاعدہ معرکہ بدر کاہے جو2ھ ماہ رمضان میں پیش آیا۔مکہ کے13 برسوں میں دلوں کو ہی بدلا جا رہا تھا، افراد کے دلوں پرمحنت کی جارہی تھی۔تربیت دی جارہی تھی ، اس کے نتیجہ میں جب ایک تربیت یافتہ منظم جماعت تیار ہوگئی تو اس نے پھر رسول اللہﷺ کی سرپرستی میں انقلابی جدوجہد شروع کی ۔ لہٰذا افراد کے دلوں پرمحنت ضروری ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ کابنیادی فریضہ تھا:
{فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰٓی اَنْ تَزَکّٰیO} (النازعات) ’’اور اسے کہو کہ کیا تُو چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے؟‘‘
لہٰذا دلوں کو بدلنے ، افراد کی تربیت اور تزکیہ کا کام کوئی معمولی کام نہیں ہے ۔ البتہ اگر ہم صرف دل بدلنے میں ہی لگے رہیں اور چنداعمال کی اصلاح پر مطمئن ہوجائیں، بقول ڈاکٹر اسرار احمدؒ شیطان معاشرے کے اندر ناچتا رہے توپھراُس حدیث مبارکہ کا یہاں پر اطلاق ہو گاکہ برائی کو دیکھ کر اگر چہرے کا رنگ بھی نہیں بدلا تو اللہ نے حکم دیا کہ اس بستی کو اُلٹ دو ۔ لہٰذادین کا ایک پورا پیکج ہے کہ افراد کاتزکیہ بھی اہم ہے اورپھرنگاہ اس طرف بھی رہے کہ نظام کوبدلنے کی جدوجہد بھی کرنی ہے جورسول اللہﷺ کامشن تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
پھراگلامرحلہ طریقہ کار کاہے ،اس کے لیے بھی نمونہ ہم رسول انقلاب ﷺ کے طریق انقلاب سےحاصل کریں گے ۔ ڈاکٹر صاحب کا اسی عنوان سے ایک کتابچہ بھی ہے اور ویڈیو خطاب بھی ہے اس سے استفادہ کیاجاسکتاہے ۔
سوال: اگر عام لوگوںمیں حق پہچاننے اوراپنانے کی صلاحیت ہوتی توکیاحضرت محمدرسول اللہﷺ جیسے امن پسنداوررحم دل انسان دعوت کی بجائے تلوار کے ذریعے اللہ کی شریعت نافذ کرتے ؟
امیرتنظیم اسلامی:دوباتیں ہیں ۔ عوام الناس کواتناہی عامی نہ سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اللہ نے انسان کی فطرت سلامت رکھی ہے اور اس میں نیکی بدی کا شعور رکھا۔ رسول اللہﷺ پراول اول ایمان لانے والوں میں غلام اورکنیزلوگوں کے طبقات بھی شامل تھے ۔ ظاہر ہے آپﷺ نے ان کو بھی دعوت دی ہے ۔ بہرحال نیکی بدی کاشعور اللہ نے ہرانسان کو دیاہے۔البتہ نظام کی تبدیلی اہم ہے اوررسول اللہ ﷺ کامشن بھی یہی تھا ۔ اصل میں وہ نظام کاجبرہے جس کی وجہ سے عام آدمی کو ہمت نہیں ہوتی کہ وہ آگے بڑھے ۔جب وہ جبرہٹتا ہے توپھر:
{وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا(۲)}(النصر)’’اور آپؐ دیکھ لیں لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے اللہ کے دین میں فوج در فوج۔‘‘
کی شان بھی دکھائی دیتی ہے ۔