(اداریہ) …اور بینچ ٹوٹ گیا - ایوب بیگ مرزا

9 /

…اور بینچ ٹوٹ گیا


پاکستان کی کشتی اس وقت ایک بھنور میں پھنسی ہوئی ہے اور اُس کے ملاح اپنے چپو اس کشتی کو ساحل پر لانے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر حملے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ گھمسان کا رن پڑا ہے ایک طرف ایک شخص کھڑا ہے اور ٹلنے کا نام نہیں لے رہا اور دوسری طرف نہ صرف پاکستان میں موجود تمام زمینی قوتیں مکمل اتحاد کے ساتھ اُس شخص کے خلاف صف آرا ہیں بلکہ اُنہیں بیرونی قوتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ریاستی قوتوں میں سے اُسے عدلیہ کا ایک چھوٹا اور مختصر حصہ تحفظ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ آئین اُس کی پشت پر ہے لیکن مخالفین نہ صرف آئین کو موت کے گھاٹ اُتارنے پر تُلے ہوئے ہیں بلکہ ریاستی قوت سے قانون کا غلط استعمال اندھا دھند کر رہے ہیں۔ آئین اور قانون کو مختلف حربوں سے پامال کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کی بجائے تاویلات پیش کی جا رہی ہیں اور عذرات تراشے جا رہے ہیں۔ کبھی عوامی جلسوں میںججز کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی عدالتی فیصلے کی الیکشن کمیشن کے ذریعے نفی کروا دی جاتی ہے۔ کبھی کسی بینچ پر ہتھوڑا برسایاجاتا ہے اور بینچ ٹوٹ جاتا ہے۔ بیرونی دشمن قوتیں بھی برسر پیکار ہیں۔ خاص طور پر امریکہ جنگ کی اس بھٹی میں خشک لکڑیاں ڈال رہا ہے اور دونوں فریقوں کو ہلاشیری دے کر جنگ کے شعلے بھڑکا رہا ہے۔ جس سے قانون کی بالا دستی اور انسانی حقوق اس آگ میں جل کر خاکستر ہو رہے ہیں۔ داستان کچھ یوں ہے کہ ایک سال پہلے وقت کی حکومت ایک عالمی قوت کی مدد سے گرا دی گئی۔ ظاہر اً اس کے لیے قانونی اور آئینی راستہ اختیار کیا گیا لیکن اس میں کرپٹ ذرائع اختیار کیے گئے اور خاکی قوت نے برہنہ اور کھلم کھلا ساتھ دیا، جس سے بیچاری جمہوریت پر کاری ضرب لگی۔ بہرحال یہ تو ایک سال پرانی داستان ہے اور کئی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی شخص کے اقتدار سے نکالے جانے پر مٹھائیاں تقسیم نہ ہوئیں بلکہ عوام کی عظیم اکثریت نے اُسے سر آنکھوں پر بٹھا لیا۔ پھر ہوا یوں کہ بھاری بوٹوں کی مدد سے آنے والی حکومت جس طرح زندگی کے ہر شعبہ میں ناکام ہوئی، ماضی میں پاکستان میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مہنگائی آسمانوں پر پہنچی ہوئی ہے اور آدم خور بن چکی ہے۔ انسانی حقوق اس بُری طرح تلف ہو رہے ہیں کہ شایدکسی فوجی حکومت کے دور میں بھی ایسا نہ ہوا ہو۔ حکومت خود اپنے ہی ایک ادارے عدلیہ کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی حالت تشویش ناک ہے۔ چادراور چار دیواری کے تقدس کو پاؤں تلے روند کر لوگوں کو ان کے گھروں سے غائب کیا جا رہا ہے۔ سیاسی مخالفین پر زندگی اجیرن کر دی گئی ہے گویا ریاست اس وقت سوتیلی ماں کی شکل میں بدترین رول ادا کر رہی ہے۔ لیکن ان تمام منفی حربوں نے اُس اکیلے شخص کو مزید مضبوط اور توانا کر دیا ہے۔ آئین اور قانون کی خلاف ورزی کا یہ
عالم ہے کہ صوبہ پنجاب اورخیبر پختونخوا میں اُس شخص کی جماعت حکمران تھی، اُس کے خلاف مہم بازی شروع ہوگئی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو قانون کے انتہائی غلط استعمال سے نکال باہر کیا گیا جسے عدالت نے بحال کر دیا۔ دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں جب کوئی کرائسیز پیدا ہوتا ہے تو انتخابات کروا کر نیا مینڈیٹ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ فریش مینڈیٹ فریش خون کی طرح کام کرتا ہے اور زندگی کی گاڑی رواں دواں ہو جاتی ہے، لیکن ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواکے وزراء اعلیٰ نے اپنی اپنی اسمبلی تحلیل کر دی، یہ ان کا آئینی حق تھا۔ تحلیل شدہ اسمبلی کے 90 روز کی مدت میں انتخابات کروانا آئین پاکستان کا واضح مطالبہ ہے۔ معاملہ عدالت میں گیا تو عدالت نے فیصلہ کیا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن صدر کے مشورہ سے دے اور KPK کا گورنر وہاں انتخابات کی تاریخ دے ۔ اب مختلف عذر ہائے لنگ تراشے گئے۔ مثلاً سکیورٹی خدشات ہیں اور الیکشن کروانے کے لیے رقم نہیں جبکہ غیر جانبدار ذرائع یہ خبر دے رہے ہیں کہ 1990ء سے لے کر آج تک جتنے انتخابات ہوئے ہیں، اُن کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جتنے سکیورٹی خدشات آج ہیں گزشتہ تین دہائیوں میں اس سے کہیں زیادہ تھے۔ رہ گئی بات پیسوں کی تو کسی نے خوب کہا ہے کہ جتنے پیسے الیکشن روکنے کے لیے لگائے گئے ہیں اتنے پیسوں سے الیکشن ہو جانے تھے۔
اصل تشویش ناک بات یہ ہے کہ حکومت اور حکومت کی پشت پر موجود قوتوں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ ایک آدمی کو اوّل تو کسی صورت برسر اقتدار آنے نہیں دینا اور اگر وہ عوامی قوت سے ان تمام قوتوں کو شکست دے کر مسند اقتدار پر براجمان ہو جاتا ہے تو اسے کسی صورت دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کرنے دینی۔ تاکہ ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے باوجود اُس کے ہاتھ پاؤں بندھ جائیں اور وہ بُری طرح ناکام ہو جائے اور اس فرسودہ نظام کو زمین بوس کرنے میں وہ کامیاب نہ ہو سکے کچھ قوتیں جو اس نظام سے مستفید ہو رہی ہیں وہ اس نظام کے لیے نہ صرف ڈٹ کر کھڑی ہیں بلکہ مرنے مارنے پر تلی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف یہ شخص بھی خطاؤں سے پاک اور دودھ کا دھلا تو نہیں البتہ یہ بات اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ اس وقت وہ آئین میں دیئے گئے عوام کے حق رائے دہی کا علمبرداربن چکا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ چنانچہ حکومت اُس کی غلط کاریوں کے خلاف بھرپور قانونی کارروائیاں تو کرے، لیکن اس آڑ میں عوام کو حق رائے دہی سے محروم نہ کرے۔
اس حقیقت کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اس صورتِ حال میں سب گتھم گتھا ہیں اور ایک شخص کو اقتدار میں آنے سے روکتے روکتے جمہوریت کا بستر گول ہوگیا اور آئین لپیٹ دیا گیا تو ایسا نیا آئین بنانا جو اسلامی بھی ہو اور تمام صوبائی اکائیاں اُس پر رضا مند بھی ہو جائیں ممکن نظر نہیں آتا۔ ہمیں دونوں طرف انا کا مسئلہ نظر آتا ہے۔ عمران خان یہ ضد چھوڑ دیں کہ یہ چور ہیں۔ لہٰذا میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا اور دوسرا یہ کہ صرف انتخابات کی تاریخ کی بات ہوگی۔ ہماری رائے میں عمران خان مذاکرات کے لیے سب کے ساتھ بیٹھے اگر کوئی چور ہے تو برسر اقتدار آکر اُس سے حساب لے اور قرار واقعی سزا دے۔ دوسرا یہ کہ انتخابات کی تاریخ شرط اوّل ہوگی لیکن دوسرے نکات پر بھی بات کرے۔ اُس کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کہہ دے کہ اگر انتخابات کی تاریخ طے نہ ہوئی تو باقی معاملات پر بھی عملدرآمد نہیں ہوگا۔
دوسری طرف پی ڈی ایم حکومت یہ بات سمجھے کہ سیاست دان اگر انتخابات سے فرار اختیار کرے تو اُس کی سیاست دفن ہو جاتی ہے۔ حکومت کو آنے والے انتخابات کو آخری انتخابات نہیں سمجھنا چاہیے اُنہیں میدان میں موجود رہنا چاہیے کوئی شخص یا کوئی جماعت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاپولر نہیں ہوتی۔آج عوام ایک لیڈر کے ساتھ ہیں تو کل دوسرے کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ بہتری کی کوشش ترک کر دینا کسی دانش مند انسان کا کام نہیں۔ قومی مفاد کو ترجیح دینا چاہیے۔ لمحہ کی غلطی صدیوں پر بات ڈال دیتی ہے اور یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اندر کی لڑائی باہر کی دشمن قوتوں کو مداخلت کا موقع فراہم کرتی ہیں اور پاکستان تو طاغوتی قوتوں کو خاص طور پر کھٹکتا ہے۔
تین ایسی خصوصی وجوہات جن کی بنا پر دشمن حالات سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی ٹھان لے گا۔ اولاً یہ کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے۔ ثانیاً اس لیے کہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے۔ ثالثاً اس لیے کہ پاکستان کے پاس منظم پیشہ ور مضبوط فوج ہے۔
یاد رہے ہماری ایٹمی قوت پوری امت مسلمہ کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہے۔ اسے اگر خدانخواستہ نقصان پہنچ گیا تو یہ پاکستان کی ہی نہیں ملت اسلامیہ کی تباہی کا باعث بنے گا۔ لہٰذا اہل پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرکے اور جمہوری روایات کا پابند ہو کر پاکستان کے مسائل عارضی اور ہنگامی طور پر حل کریں اور جس کلمہ لا ا لٰہ الا اللہ کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اُس میں محمد رسول ﷺ کا اضافہ کرکے اسے مستحکم بنیادوں پر مضبوط کرے تاکہ اللہ کی مدد سے یہ ملک ایک ناقابل تسخیر اسلامی ریاست بن جائے۔