(الہدیٰ) قرابت داروں کو دعوت کا حکم - ادارہ

10 /

الہدیٰ

قرابت داروں کو دعوت کا حکم

آیت 214{وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ(214)} ’’اور(اے نبیﷺ!) خبردار کیجیے اپنے قریبی رشتہ داروں کو۔‘‘
اس آیت کے بارے میں تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ تقریباً۳نبویؐ میں نازل ہوئی تھی۔ چنانچہ اس تاریخی ثبوت سے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے کہ سورۃ الشعراء بالکل ابتدائی زمانے کی سورت ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہﷺ نے حضرت علی ؓ کو ایک دعوت کا اہتمام کرنے کے لیے فرمایا۔ حضرت علی ؓ آپﷺ ہی کے زیر کفالت تھے اور آپؐ کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ چنانچہ آپﷺ نے تمام بنوہاشم کو کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد آپؐ انہیں دعوت دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو انہوں نے شور و غل مچانا شروع کر دیا اور آپؐ کی بات سنے بغیر چلے گئے۔ کچھ روز کے بعد آپﷺ نے دوبارہ انہیں مدعو فرمایا۔ اس دفعہ کھانے کے بعد چارو نا چا روہ بیٹھے رہے اور آپؐ نے ان کے سامنے ایک دعوتی خطبہ دیا۔ یہ خطبہ مختصر ہے مگر آپﷺ کے عظیم خطبات میں سے ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں احادیث کی کتب میں یہ خطبہ (اپنے علم کی حد تک مجھے وثوق ہے)موجود نہیں ہے‘ البتہ اہل ِتشیع کی مشہور کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ میں یہ خطبہ شامل ہے۔ ’’نہج البلاغہ‘‘ بنیادی طور پر حضرت علی ؓ کے خطبات اور خطوط پر مشتمل ہے ‘لیکن اس کا ایک حصّہ حضورﷺ کے خطبات کے لیے مختص کیا گیاہے۔ اگرچہ ’’نہج البلاغہ‘‘ میں خطبہ کے متن کے ساتھ کسی قسم کی صراحت موجود نہیں کہ یہ خطبہ کس موقع پر ارشاد فرمایا گیا مگر خطبے کے متن اور اسلوب کی بنا پر مجھے یقین ہے کہ یہ وہی خطبہ ہے جو آپﷺ نے بنو ہاشم کی مذکورہ ضیافت کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا۔ میرے کتابچے ’’دعوت اِلی اللہ‘‘ اور اس کتابچے کے انگلش ترجمے "Calling People unto Allah"میں اس خطبے کا پورا متن موجود ہے۔ بہر حال ’’دعوتِ حق ‘‘کے حوالے سے یہ بہت اہم خطبہ ہے ۔

درس حدیث 

ماہ ِ رمضان میں چار چیزوں کی کثرتحضرت سلمان فارسی ؓ آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں: ’’رمضان المبارک میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو،دو باتیں تو ایسی ہیں کہ تم ان کے ذریعے اپنے رَب کو راضی کرسکو گے، اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتے، پہلی دو باتیں جن کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکو گے،وہ ہیں: ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کی گواہی دینا اور اِستغفار کرنا، اور وہ دو چیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہو سکتے، وہ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو۔‘‘ (صحیح ابنِ خزیمہ)