(اداریہ) ایک نافرمان بیٹا - ایوب بیگ مرزا

10 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

ایک نافرمان بیٹا

 

بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے Genesis of Pakistan کی حقیقت بتاتے ہوئے یہ تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ اسلام پاکستان کا باپ ہے اور جمہوریت پاکستان کی ماں ہے۔ ہیتِ پاکستان کی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ مختصر ترین الفاظ میں بات کچھ یوں ہے کہ اگر مسلم لیگ 1946ء کے انتخابات میں مسلم نشستوں پر سویپ نہ کرتی اور تحریک پاکستان میں اگر اسلام کا نعرہ مسلمانانِ ہند میں جنون کی کیفیت پیدا نہ کر دیتا تو انگریز کی جابرانہ قوت اور کانگرس کی زیرقیادت ہندوؤں کی منظم اکثریت کبھی پاکستان کو معرضِ وجود میں نہ آنے دیتی۔ اگرچہ ان دونوں حقیقتوں نے تحریک پاکستان میں جان پیدا کی لیکن اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا قائم ہو جانا یہ مشیت ایزدی تھی، ایک معجزہ تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی عرض کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان جو ایک ناکام ریاست ثابت ہو چکا ہے یا ثابت ہونے جا رہا ہے اس کے باوجود ہم پورے ذہنی اور قلبی یقین اور وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ برصغیر کی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم اور پاکستان کا قیام ایک صحیح اور درست فیصلہ تھا۔ اُس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ چونکہ بھارت کی انتہا پسند جماعتیں اور حکومت مسلمانوں کی نسل کشی کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور بھارت کے کونے کونے میں مسلمانوں سے بدترین غیرانسانی سلوک ہو رہا ہے بلکہ اُس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہی وہ خطہ ہے جہاں سے حضور ﷺ کو ٹھنڈی ہوا آئی تھی اور آنے والے وقت میں یہاں سے سیاہ جھنڈوں والی فوج کا نفاذِ اسلام کے لیے جہاد کے لیے نکلنے کا ذکر بھی حدیث مبارک میں آیا ہے۔ یقیناً افغانستان کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کا یوں قیام اور معجزاتی طور پر ایٹمی قوت بن جانا اس حوالے سے بہت بامعنی نظر آتا ہے۔
ہم نے بات کا آغاز ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے قول سے کیا تھا کہ اسلام پاکستان کا باپ اور جمہوریت اُس کی ماں ہے۔ فرزندِ اسلام ہونے کی حیثیت سے پاکستان کا آغاز کوئی ایسا برا نہیں تھا، ڈیڑھ سال میں قراردادِ مقاصد منظور ہو گئی اور 1951ء میں 31علماء نے بائیں نکات کی صورت میں اس بے ہودہ بات کا دندان شکن جواب بھی دے دیا کہ کس کا اسلام نافذ ہوگا۔ 1951ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا اور وہیں سے اسلام کے اس بیٹے کو ریورس گیئر لگ گیا اور گاڑی اپنے ہدف کی مخالف سمت چل پڑی۔ اس کے بعد جمہوری بچے سات سال تک باہم گتھم گتھا رہے۔ 1958ء میں پاکستان کی ماں جمہوریت کو پہلی کاری ضرب لگائی گئی۔ آئین کو بھاری بوٹوں تلے کچل دیا گیا اور سیاست کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ جمہوریت کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کرنے والوں نے اسلام سے بھی دو دو ہاتھ کرنے شروع کر دیئے۔ 1962ء میں ایسے عائلی قوانین نافذ کر دیئے کہ ہر مسلک اور ہر مکتب فکر نے انہیں غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دیا۔ لیکن پھر بھی یہ عائلی قوانین آج 61 سال بعد بھی دندنا رہے ہیں اور وہ ملک جس نے اپنا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا ہوا ہے اور جہاں 98 فیصد مسلمان آباد ہیں، اُن سب کا منہ چڑا رہے ہیں۔
اس ملک کے معمار اور بانی قائداعظم نے قوم کے انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ سپوتوں کو یہ ٹاسک دیا تھا کہ وہ مغرب کے نظامِ معیشت کو جو بدترین استحصالی نظام ہے اور جس سے انسان انسان کا خون چوس لیتا ہے اُسے اسلامی نظامِ معیشت سے تبدیل کریں تاکہ مسلمانانِ پاکستان معاشی عدل کے ثمرات سے بارآور ہو سکیں اور ہرحقدار کو اُس کا حق ملے۔ 1992ء سے 2022ء تک دو مرتبہ عدالتوں نے یہ فیصلہ دیا کہ بنک وغیرہ کا سود وہی شے ہے جسے قرآن ربا کہتا ہے اور حرامِ مطلق قرار دیتا ہے لہٰذا حکومت، تمام ریاستی ادارے اور عام شہری اس سے مکمل طور پر الگ تھلگ رہیں اور کسی بھی سطح کے لین دین پر ہرگز اس کا سایہ نہ پڑنے دیں۔ لیکن ان فیصلوں کو کولڈ سٹور میں رکھ دیا گیا تاکہ ٹھنڈے رہیں اور کوئی دینی حرارت یا غیرت پیدا نہ ہونے پائے۔ دونوں مرتبہ شریف فیملی برسرِ اقتدار تھی اور اس مرتبہ تو قومی اسمبلی میں سب سے بڑی اسلامی جماعت جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں حکومت کا حصہ ہے، لیکن وہ بھی زبانی جمع خرچ کرنے سے زیادہ کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ سیاسی معاملات میں اور اقتدار کی بقاء کے حوالے سے یہ اسلامی جماعت حکومت کے ہاتھ ہی نہیں پاؤں بھی مضبوط کر رہی ہے۔ لیکن سود کے حوالے سے اشارۃً بھی یہ کہنے کو تیار نہیں کہ اللہ اور رسول ﷺ سے جنگ بند کرو بلکہ یہ حکومت مسلسل سود کی شرح میں اضافہ کرکے اس جنگ کو ایندھن مہیا کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کرتے ہوئے اور لوگوں کے حقِ رائے دہی پر ڈاکہ ڈال کر اسلام کے فراہم کردہ حقوق کو بُری طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کچھ لوگ حق رائے دہی کو عوام کا صرف دنیوی حق سمجھتے ہیں ایسا ہرگز نہیں یہ مسلمانوں کا دینی حق بھی ہے اور انتہائی اہم حق ہے۔ گویا اسلام کا یہ بیٹا پاکستان اسلام ہی کے خلاف پوری طرح بغاوت کا جھنڈا بلند کیے ہوئے ہے۔یہ تو مشتے از خروارے ہے کیا کچھ اس ملک میں دینِ اسلام کے خلاف نہیں ہوا۔
جہاں تک پاکستان کی ماں جمہوریت کا تعلق ہے اُس کے سر سے بھی ہم پون صدی سے چادر کھینچ رہے ہیں۔ ان 75 برسوں میں بہت کچھ ہوا جو ہوا بُرا ہی ہوا لیکن یہ بُرائی اور بدصورتی بھی اب اپنے معراج پر پہنچ رہی ہے پچھلی داستانوں کا ذکر کیا کرنا گزشتہ سال رجیم چینج جیسے بھی ہوا بہرحال ہوگیا۔ اُس زخم کو روز روز کریدنے کی کیا ضرورت ہے۔ اب یہ جو پنجاب اور KPK کی اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں، اس پرعجب تماشا لگا ہوا ہے۔ سیاسی معاملہ طے ہونے کے لیے عدالت جا رہا ہے، ایک بینچ بن رہا ہے، دوسرا ٹوٹ رہا ہے پھر تیسرا بن رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عدالتی کارروائی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ ان صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے اسمبلیاں تحلیل کیں تھیں۔ آئین اُنہیں اس کا حق دیتا ہے بلکہ صرف اُنہیں ہی دیتا ہے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کرے۔ لہٰذا آئین کے مطابق الیکن کمیشن 90روز میں الیکشن کروا دیتا، نئی اسمبلیاں وجود میں آجاتیں، کسی تیسرے کی آئین اور قانون کے مطابق قطعی طور پر کوئی مداخلت نہیں بنتی تھی۔ یہ عدالت کو بیچ میں لانا ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ بہرحال ظاہرہے جب الیکشن کمیشن نے انتخاب کرانے اور اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے سے انکار کیا تو دوسرا فریق عدالت پہنچ گیا۔ اگر آئینی ذمہ داری پوری کی جاتی تو عدالت جانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب جبکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے واضح اور دو ٹوک فیصلہ دے دیا ہے کہ فلاں تاریخ کو انتخابات کروائے جائیں تو اب سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے انتہائی گھٹیا قسم کے دلائل دیئے جا رہے ہیں۔ دنیا کا اصول یہ ہے کہ ماتحت عدالت کا فیصلہ کسی کو منظور نہ ہو تو وہ اعلیٰ عدالت سے رجوع کرتا ہے لیکن جب اعلیٰ ترین عدالت کوئی فیصلہ دے دے تو وہ کسی کو پسند ہو یا ناپسند ہو اُس کو مانے بغیر چارہ نہیں۔ اگر آج اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا گیا تو کل کلاں ہر ادارہ ہی نہیں ہر شخص بھی یہ کہے گا کہ فلاں فلاں نے سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانا تھا میں کیوں مانوں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ PDM اور خاص طور پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ یہ وطیرہ اختیار کرکے اپنے آگے گڑھا کھود رہی ہے۔ اولاً اس لیے کہ اُس نے کیوں فرض کر لیا ہے کہ پنجاب جیسے صوبے میں اگر اس وقت انتخابات ہوئے تو اُسے لازماً شکست ہوگی۔ اور پھر فرض کر لیں کہ اس مرتبہ شکست ہوبھی جائے تو کیا یہ ہمیشہ ہمیشہ کی شکست ہوگی۔ ہماری رائے میں اُسے فوری اقتدار کے لیے نہیں بلکہ اپنی بقا کی جنگ لڑنا چاہیے۔ آج نہیں تو کل کامیابی ہو جائے گی۔
بہرحال اصل بات کی طرف واپس آتے ہوئے کہ پاکستان اپنی ماں جمہوریت سے بھی بُرا سلوک کر رہا ہے۔ سیاست دانوں کا اپنے جھگڑوں کو خود نمٹانے کی بجائے عدالتوں کا رُخ کرنا خود ظاہر کرتا ہے کہ یہاں جمہوریت انتہائی کمزور ہے۔ امریکہ میں ایک مرتبہ انتخابی جھگڑا عدالت تک پہنچا تھا جب الگور نے بش کی کامیابی کو چیلنج کیا تھا لیکن جلد ہی الگور جو مقدمہ میں مدعی تھا وہ یہ کہہ کر دعویٰ سے دستبردار ہوگیا کہ اس سے میرے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تو عدالتوں سے بھی آگے جانے کا مسئلہ ہے۔ آج 7اپریل کو جب ہم یہ تحریر کر رہے ہیں تو اس وقت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ دو صوبوں میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کی جائے یا بغاوت کا اعلان کیا جائے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ گویا حکومت سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کے لیے عسکری قیادت کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس سے پہلے وہ قومی اسمبلی سے یہ قرار داد منظور کروا چکی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ رد کیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں ہم نئی نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ کسی پارلیمنٹ نے یہ قرارداد منظور کی ہو کہ وہ اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کو رد کرتی ہے۔ کیا ہم دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ ہم جنگل میں رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمارا آئین، قانون، قواعد و ضوابط اور ڈسپلن سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ہم صرف لاٹھی چلانا چاہتے ہیں۔یہ خلاف دنیا بھی ہے اور خلاف اسلام بھی ہے۔ دنیا کا کوئی معاشرہ انارکی کے حق میں نہیں ہوتا۔ بنانا ری پبلک بننا دنیا میں انتہائی ذلت و رسوائی کا معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ شرمندگی اور شرمساری کا معاملہ ہے۔ بے لنگر جہاز کا مقدر ڈوبنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بہرحال اگرچہ زمینی حقائق کے مطابق امید کا دامن ہم سے چھوٹا جاتا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ کوئی خصوصی مدد آئے گی۔ ان شاء اللہ! ہم پھر اسلام کے دامن کو تھامیں گے۔ اور یہ خطہ اسلام کا قلعہ بنے گا۔ ان شاء اللہ!
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے!!