ماہ رمضان میں مجاہدانہ تربیت اورقرب الٰہی
مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے31مارچ 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
آج کی نشست میں چار باتیں ہم سب کی یاددہانی کے لیے بیان کرنا مقصود ہیں ۔
1۔ روزہ کی حکمت ، اس کا پس منظر ، اس کے مقاصد کیا ہیں،یہ ہم قرآن کی روشنی میں سمجھیں گے ۔
2۔ روزے کا بڑا حاصل روح کی بیداری و ترقی ہے جس کاحاصل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاقرب ہے اوراس قرب کا حاصل یہ ہے کہ اللہ بندے کے قریب ہوجائے اور بندہ اللہ کے قریب ہوجائے اوراسی قربت میں مقصود ہے کہ بندہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کرے۔
3۔ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق ماہ رمضان میں نبی اکرم ﷺکاخاص معمول تھاکہ آپﷺ جبرائیل امین کے ساتھ قر آن حکیم کادور کرتے اورحیات طیبہ کے آخری سال آپ ﷺ نے دومرتبہ دور کیا۔ اس تعلق سے قرآن حکیم کی طرف توجہ کامعاملہ کتنا ضروری ہے اس پر بھی کلام ہوگا ۔
4۔ اسی حدیث میں اگلی بات یہ آتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ویسے تولوگوں میں سب سے بڑھ کرسخی تھے مگر جب رمضان کا مہینہ ہوتا اورجبرائیل ؑ کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کی ملاقات ہوتی اوررسو ل اللہﷺ ان کے ساتھ قرآن حکیم کادور فرماتے توآپﷺ کی سخاوت والی کیفیت میں بہت زیادہ تیزی آجاتی،جیسے کہ تیزرفتار آندھی ہو۔اس بات کو بھی ہم سمجھیں گے ان شاء اللہ ۔
1۔قرآن حکیم میں روزوں کابیان
قرآن حکیم میں سورۃ البقرۃ کے 23ویں رکوع میں روزہ کے مسائل بیان ہوئے ہیں ۔ارشا د ہوتاہے :
’’اے ایمان والو! تم پر بھی روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسے کہ فرض کیا گیا تھا تم سے پہلوں پر تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔‘‘(البقرہ :183)
عرب زمانہ جاہلیت میں لوٹ مار اور جنگ کے لیے تیز رفتار گھوڑے استعمال کرتے تھے اور ان گھوڑوں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی تھی ، انہیں کئی کئی دن تک بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا تھا اور تیررفتار آندھیوں کی طرف منہ کرکے کھڑا رکھا جاتا تھا تاکہ ان کے اندر قوت برداشت پیدا ہو اور مشکل وقت میں وہ ساتھ دے سکیں ۔ اس سارے عمل کو عرب ’’صوم الفرس‘‘ کہتے تھے یعنی گھوڑے کا روزہ ۔ وہیں سے صوم کا لفظ اہل ایمان کے روزہ کے لیے بھی استعمال ہواکہ تمہیںبھی روزے رکھوائے جارہے ہیں تاکہ تمہارا بھی سٹیمنااور strengthبڑھے ، تمہاری بھی قوت برداشت بڑھے تاکہ جب تمہیں استقامت کا مظاہرہ کرنا پڑے تو تم اس کے لیے تیار ہو ، تم میدان میں کھڑے رہو اور ڈٹ جاؤ ۔ اس اُمت کی یہ سب تیاری اور تربیت کس لیے کی گئی ، فرمایا:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط}’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے‘تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ ‘تم پر گواہ ہو۔‘‘ (البقرۃ:143)
اس امت نے اسلام ( اللہ کے نظام) کو قائم کرکے گواہی دینی تھی ۔ پہلے اس کام کے لیے بنی اسرائیل کو کھڑا کیا گیا تھا ۔ لیکن وہ اس میدان میں کھڑے نہ رہ سکے اور باطل اور شر کے سامنے ڈھیر ہوگئے تو پھر اس اُمت کو کھڑا کیا گیاکہ تم نے لوگوں پراللہ کے دین کی گواہی پیش کرنی ہے ۔ گواہی قول سے بھی دینی ہے ،عمل سے بھی دینی ہے ، اوردین کوقائم کرنے کی جدوجہد کرکے بھی دینی ہے۔ اس کے لیے پہلے خود نبی اکرم ﷺ نے اپنے قول سے بھی ، عمل سے بھی اور اللہ کا نظام قائم کرکے گواہی دی ۔ ختم نبوت کے بعد یہی مشن اس اُمت کے کندھوںپر آگیا ۔ لہٰذا اس انقلابی مشن کے لیے ضروری تھا کہ اہل ایمان کی ذہنی ، جسمانی اور روحانی تربیت کا اہتمام ہو کیونکہ اس راہ میں صبر کے بڑے مراحل ہیں ۔ لہٰذا جس طرح فرمایا گیا :
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط} (البقرہ:153)’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو۔‘‘
اسی طرح رمضان کے روزے اہل ایمان پر فرض کیے گئے تاکہ ان کے ذریعے صبر، حوصلہ ، برداشت کی قوت مسلمانوں میں پیدا ہو اور وہ اقامت دین کی جدوجہد میں استقامت کا مظاہرہ کرسکیں۔ اس نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کے لیے بدرکا معرکہ بھی رمضان میں سجاتھا، فتح مکہ کا معاملہ بھی رمضان میں ہوا تھااور قرآن بھی رمضان میںنازل ہوا تھا۔اس لحاظ سے قرآن ، رمضان ، اقامت دین کی جدوجہد اور سیرت محمد مصطفیٰﷺ کا خاص تعلق ہے جس میں سبق یہ ہے کہ یہ اُمت اپنے مقصد قیام کی تکمیل کے لیے سیرت مصطفیٰﷺ سے رہنمائی حاصل کرے ، قرآن کے ذریعے اپنی روحانی قوت بڑھائے اور روزہ کے ذریعے اپنے اندر صبر ، تقویٰ ، برداشت کی قوت پیدا کرے اور پھر انسانیت پر اللہ کے دین کی گواہی پیش کرے ۔ اس کام کے لیے ا س امت کوکھڑا کیاگیا۔
صبرپوری زندگی کا طرزعمل ہے۔ رمضان کے بارے میں بھی اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
’’یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔‘‘
رمضان کامہینہ صبر،برداشت ،جھیلنے کامہینہ ہے ۔ افطار سے ایک گھنٹہ پہلے مشقتیں زیادہ ہوجاتی ہیں، ٹریفک میں بھی ،گھر میں بھی ،کچن میں بھی ، یہ مشقتیںصبر سے جھیلنی ہیں تاکہ راہ خدا میں جب مشقتیں آئیں تو انہیں بھی جھیلنے کے قابل ہو سکیں ۔ اسی سورۃ البقرہ میں آگے چل کر فرمایا :{وَقٰـتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ط} ’’اور لڑو ان سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے۔‘‘ (آیت :193)
یہ آج ہماری غلط فہمی ہے کہ رمضان کے بعد چاند رات کو فارغ ہوجاتے ہیں ۔ یہ آج ہماراتصور ہے کہ جمعہ کی دورکعت پرمطمئن ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد خود کو فارغ سمجھتے ہیں ۔ یہ آج ہماراتصور ہے کہ نماز، روزہ، حج، عمرہ وغیرہ پر بھی چلے گئے لیکن سوداور جوا بھی نہ چھوڑا۔ بے پردگی، فلمیںڈرامے اورناچ گانے نہ چھوٹیں۔ یہ آج ہماراتصور ہے کہ اسلام چندعبادات کامجموعہ ہے۔ حالانکہ اسلام تومکمل ضابطہ حیات ہے اوروہ غلبہ چاہتاہے۔ اس غلبہ کے لیے، اس دین کے قیام کے لیے قتال کرنے کا حکم بھی اللہ نے دیا ہے اور قتال بغیر تیاری اور تربیت کے نہیں ہوتا ۔ اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے ۔ سن 2ھ ہجری میں روزوں کی فرضیت کا حکم نازل ہوا اوراسی سال 17 رمضان کو جنگ بدر ہوئی ۔ یہ ایک طرح سے حزب اللہ کے لیے تربیت اور تیاری کا معاملہ تھا کہ مشقت سے گزرنے کے بعد استقامت کا مظاہرہ کرنا سیکھ لیا جائے ۔ اس پوری بحث کوسامنے رکھ کرہمیں پورےدلجمعی کے ساتھ روزوں کااہتمام کرنا چاہیے ۔
روزہ اوردعاکاباہمی تعلق
روزے کا بڑا حاصل روح کی بیداری و ترقی ہے جس کاحاصل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاقرب ہے اوراس قرب کا حاصل یہ ہے کہ اللہ بندے کے قریب ہوجائے اور بندہ اللہ کے قریب ہوجائے ۔ اللہ تو ویسے ہی بندے کے قریب ہے ۔سورۃا لبقرۃ کی آیت186 میں فرمایاگیا:
{وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا}’’اور (اے نبی ﷺ !) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (ان کو بتا دیجیے کہ) میں قریب ہوں۔میں تو ہر پکار نے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے۔‘‘
اللہ کتناقریب ہے ؟سورۃ ق ٓ میں آتاہے :{وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (16)}’’اور ہم تو اُس سے اُس کی رَگِ جاںسے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘یعنی ہم جتنااپنے آپ سے قریب ہیں اس سے زیادہ ہمارا رب ہم سے قریب ہے۔البتہ اللہ اپنی شان کے مطابق قریب ہے جس کو ہم سمجھ نہیں سکتے۔ کیونکہ قرآن میں ارشاد ہوتاہے :
{لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ئٌ ج}(الشوریٰ:11) ’’اُس کی مثال کی سی بھی کوئی شے نہیں۔‘‘
اس کیفیت کوہم بالفعل سمجھ نہیں سکتے ۔لیکن اللہ نے بتا دیا کہ :’’میں تو ہر پکار نے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے‘‘ اب اس قربت کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے ، اس کا کثرت کے ساتھ ذکر کیا جائے ۔ قرآن میں ارشاد ہے : {وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(45)} (الانفال)’’اور اللہ کا ذکر کرتے رہوکثرت کے ساتھ تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘
نمازبھی ذکر ہے مگر معین اوقات اورشرائط کے ساتھ ہے ، قرآن الذکرہے لیکن اس کے لیے بھی آداب اور شرائط کا معاملہ ہے لیکن دعا اور اذکار کا اہتمام آپ ہر وقت کر سکتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا :
{وَلَذِکْرُ اللہِ اَکْبَرُط} (العنکبوت:45)’’اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘
اللہ کاذکرسب سے بڑی شے ہے۔یعنی نماز اورتلاوت قرآن کے علاوہ بھی ذکرہے ۔ بعداز نماز جمعہ کے لیے فرمایا:
’’پھر جب نماز پوری ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جائو اوراللہ کا فضل تلاش کرواور اللہ کو یاد کرو کثرت سے تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘(الجمعہ:10)
اسی طرح نمازوں کے بعد اذکار کے حوالے سے سورئہ ق کے آخر میں آتاہے :{وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ(40)}’’اور سجدوں (نمازوں) کے بعد بھی۔‘‘
رسول اللہﷺ نے ہمیں اذکار سکھائے ہیں جن میں آیت الکرسی ،معوذتین اورتسبیح فاطمہkبھی شامل ہیں، اس کے علاوہ بھی مسنون اذکار ہیں ۔بہرحال ذکرمستقل مطلوب ہے ۔لیکن ہمارے سمارٹ فون پرکتنے گھنٹے لگتے ہیں ؟ اور اللہ کے ذکر میں ہمارا کتنا وقت لگتاہے ۔ اگر کسی کو عربی نہیں آتی تو اللہ کو توساری زبانیں آتی ہیں۔آپ جس زبان میں اللہ سے بات کرناچاہتے ہیں کرسکتے ہیں۔ اللہ چاہتاہے کہ بندہ اس سے بات کرے ، دعا کرے ۔فرمایا :
{اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا} ’’میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے‘‘ (البقرہ:186)
ان الفاظ میں کس قدر گارنٹی ہے اوریہ اللہ کاکلام ہے ۔ اللہ دومرتبہ فرماتاہے :{وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیْثًا(87)} ’’اور اللہ سے بڑھ کر اپنی بات میں سچا کون ہو گا؟‘‘ {وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِیْلًا (122)}(النساء) ’’ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنی بات میں سچا ہو سکتا ہے؟‘‘
کیاہمیںاللہ پر اتنا یقین ہے ؟حکایت ہے کہ بارش نہیں ہورہی تھی توعیسائیوں کے پادری نے دعا کے لیے سب کو بلایا ۔ ایک لڑکاچھتری لے کرآگیا ۔ اس سے لوگوں نے پوچھاکہ بارش ہونہیں رہی اورتم چھتری لے کرآگئے ہو ؟ اس نے کہاتم اللہ سے بارش مانگ رہے ہو اورتمہیں یقین نہیں ہے کہ اللہ بارش برسائے گالیکن مجھے یقین ہے، اسی لیے میں چھتری لے کرآیا ہوں۔ آج ہم بھی اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں لیکن کیا ہمارا اللہ پر یقین ہے ؟ وہ توکہتاہے :{اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا}
دعا کی قبولیت کے حوالے سے تفصیل ہے ۔بندہ دعا کرے ، اللہ کی حکمت ہے ، ہمارے لیے بہتر سمجھے گا تو دے دے گا نہیں تو نہیں دے گا ۔ اللہ سب کچھ جانتاہے۔ ہمیں کچھ نہیں پتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (216)}(البقرہ) ’’اور اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے۔‘‘
کبھی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی لیکن اس کے بدلے میں اللہ کوئی مصیبت ٹال دیتا ہے ۔ تیسری شکل یہ ہے کہ ممکن ہے نہ کچھ دے اور نہ کسی مصیبت کو ٹالے لیکن آخرت کے لیے اس دعا کو خزانہ بنا دے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن بندے کو ڈھیروں اجرعطا ہوگاتوبندہ کہے گا یا اللہ !یہ کیاہے ؟اللہ فرمائے گا تیری جن دعاؤں کی قبولیت دنیا میں نہیں ہوئی یہ ان کا اجر ہے ۔
دعا کاروزہ سے کیاتعلق ہے ؟
آج ا س قدر مادیت کے غلاف ہم پرچڑھ چکے ہیں کہ روح بیچاری کہیں سسک کردب چکی ہے ۔ روزے کا ایک حاصل روح کی بیداری ہے۔ روح میں اللہ کے ساتھ تعلق کی تڑپ ہے ۔ روزے کی حالت میں یہ کیفیت بندے کو میسر آتی ہے توبندے کواللہ کاقرب ملتاہے کیونکہ اللہ نے خود فرمایا : (الصوم لی وانااُجزیٰ بہ )’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزاہوں ‘‘روزے کا سب سے بڑا حاصل یہ ہے کہ بندے کو اللہ کی قربت نصیب ہوتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دعاقبول ہوں توآگے اللہ تعالیٰ شرط بتارہاہے :
{فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ} ’’پس انہیں چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں‘‘
سورۃالبقرۃ میں ہی فرمایا:{فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ} (آیت:152) ’’پس تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘
اگرہم چاہتے ہیں کہ اللہ ہماری دعائیں قبول کرے تو ہمیں اللہ کا فرمانبردار بندہ بننا ہوگا یعنی تقویٰ کی راہ پر گامزن ہونا ہوگا ۔ روزے کا حاصل تقویٰ ہے کہ لیکن اگر ہم نمازیں بھی ضائع کر رہے ہیں ، جوا ، سٹہ ، بے پردگی ، کرپشن ، چوری ، ڈاکہ ، سب برائیاں جاری ہیں ،اب توکچھ لوگ جان بوجھ کر روزے بھی چھوڑ رہے ہیں، ان سب برائیوں کے بعد بھی ہم چاہیں کہ اللہ دعائیں قبول کرے تو یہ مشکل ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کے لیے ہمیں اللہ کا فرمانبردار بندہ بننا ہوگا ۔ آگے فرمایا:
{لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ (186)} ’’تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں۔‘‘
اللہ کے قرب کا حاصل یہ ہے کہ بندہ دعا کرے تو اللہ اسے قبول فرمائے گا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی فرمانبرداری کی روش کی طرف آئے اورنافرمانی سے اپنے آپ کوبچائے ۔
رسول اللہ ﷺ کی سخاوت وتلاوت قرآن
نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث مبارک میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ راوی ہیں ، فرماتے ہیں :
’’نبی کریمﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺکی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل ؑ آپ ﷺ سے رمضان میں ملتے، جبرائیل ؑ نبی کریم ﷺسے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریمﷺ جبرائیل d سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل ؑ آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث مبارک سے دوباتیں معلوم ہوئیں :
1۔ماہ رمضان میں قرآن کاپڑھناپڑھانا ‘یہ حضور ﷺ اور جبرائیل ؑ کابھی معمول تھا۔ اسی کی توجہ ہم دلاتے ہیں کہ رمضان کی راتیں قرآن کے ساتھ بسرکریں ۔اس حوالے سے تنظیم اسلامی نے پورے رمضان میں سے 30گھنٹے سے لے کر 108گھنٹے کے مختلف پیکجز ترتیب دیے ہیںجن میں قرآن ترجمہ و تشریح کے ساتھ پڑھا جاتاہے۔ ہماری ویب سائٹس پر ان تمام پروگرامز کے لنکس مل جائیں گے۔ اللہ ہمیں ترجمہ قرآن سننے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین!
2۔سخاوت کامعاملہ !یعنی راہ خدا میں خرچ کرناتو اللہ کے رسول ﷺ کے معمول میں شامل تھا لیکن ماہ رمضان میں آپ ﷺ کی سخاوت میں تیز رفتار آندھی کی سی تیزی آ جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔اس روزے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں پتاچلے کہ بھوک اور پیاس انسان کوستاتی ہے ۔ عام طورپرہمارے پیٹ بھرے ہوتے ہیں توہمیںمفلسوں کی تکلیف کا اندازہ نہیں ہوپاتا کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہوتے ہیں ، روزے میں اس کا احساس ہوتاہے ۔ اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں خرچ کریں ۔ زکوٰۃ فرض ہے۔ اہل علم سے مسائل معلوم کرکے ٹھیک ٹھیک زکوٰۃادا کرنی چاہیے لیکن زکوٰۃ کافی نہیں ہے یہ توکم ازکم تقاضا ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرتے تھے کہ کبھی اتنا مال جمع ہوا ہی نہیں کہ زکوٰۃ دینے کی نوبت آئی ہو ۔آج کرونا وباء کے بعد سے ملک میں معاشی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ کتنے ہی زکوٰۃ دینے والے ،اب زکوٰۃ لینے والے ہوگئے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پررحم فرمائے ۔اس اعتبار سے ہم میں سے ہرایک کوشش کرے کہ اللہ نے ہمیں جو دیاہے اس میں سے مخلوق خدا پرخرچ کرنے کی کوشش کرے ۔ لیکن یاد رہے کہ حلال کمائی سے خرچ کریں گے تو اس کا اجر ملے گا ۔ حرام مال اللہ کے ہاں قبول نہیں۔ اپنے قریبی لوگوں میں دیکھیں ان کو پہلے دیں۔ خاص طورپر رشتہ داروں کودینے کادہرا اجر ہے ۔ ایک صلہ رحمی کاثواب اور ایک اس کی مدد کرنے کا ثواب ۔ہم اپنے ملازمین کو دیکھیں ، ہماری فیکٹریز میں جولوگ کا م کرتے ہیں ان کو جو ہم تنخواہ دیتے ہیں ہمیں پتاہے ۔ گارڈز کوپندرہ ہزاردے رہے ہوتے ہیں اور اس کے اگر بچے بھی ہوں تووہ کیسے گزارا کرے گا۔ حالانکہ پندرہ ہزار توہمارے ایک ایک بچے کی پاکٹ منی ہے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ میں دوسروں پر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025