(ماہِ صیام) دو روزے - مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

9 /

دو روزے

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؓ

میرے بھائیو!
سب سے پہلے تو آپ کو رمضان المبارک کی سعادت ملنے اور رمضان المبارک میں روزے رکھنے اور اس کام کے لیے توفیق ِالٰہی پر مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ معمولی نعمت نہیں ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑے وعدے فرمائے ہیں اور اللہ کے رسولﷺ نے بڑی بشارتیں سنائی ہیں۔آپؐ نے فرمایا :
’’ جس نے رمضان کے روزے رکھے‘ اللہ کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے اور اس کے اجر و ثواب کی لالچ میں‘ تو اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہو گئے۔‘‘(متفق علیہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کو رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور شب قدر کی دولت و نعمت بھی عطا فرمائے‘ ہماری اور آپ کی عاجزانہ دعائوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔
اب مَیں آپ کے سامنے بظاہر ایک نئی بات کہنے والا ہوں‘ لیکن وہ نئی بات نہیں ہے‘ وہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی تعلیم سے ماخوذ ہے‘ اور قرآن مجید پر مبنی ہے‘ لیکن بہت سے بھائیوں کے لیے نئی ہو گی‘ اور نئی چیز کی ذرا قدر ہوتی ہے اور اس سے آدمی کا ذہن ذرا تروتازہ‘ بیدار اور متوجّہ ہو جاتا ہے ۔ وہ نئی بات یہ ہے :
’’روزے دو طرح کے ہیں: ایک چھوٹا روزہ ‘ایک بڑا روزہ۔‘‘
چھوٹے روزے کی تحقیر مقصود نہیں‘ صرف زمانی اور وقتی لحاظ سے کہہ رہا ہوں۔ چھوٹا روزہ کتنا ہی بڑا ہو‘ 13گھنٹہ14 گھنٹہ کا روزہ ہو گا‘ بعض ملکوں میں جہاں دن اس زمانہ میں بڑا ہوتا ہے اس سے کچھ زیادہ۔ یہ وہ روزہ ہے جو بلوغ پر مسلمان پر فرض ہو جاتا ہے‘ وہ صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور غروبِ آفتاب تک قائم رہتا ہے۔ اس روزہ کا ایک قانونی ضابطہ اور اس کے کچھ شرعی احکام ہیں جو آپ کو معلوم ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس روزہ میں آدمی کھا پی نہیں سکتا اور ان تعلقات و معاملات کا لطف نہیں حاصل کر سکتا جن کی اور دنوں میں اجازت ہے۔ یہ روزہ چاہے 29 دن کا ہو یا30 دن کا‘ اس میں محدود پابندیاں ہیں۔ رمضان کے اس روزے سے لوگ واقف اور اس کے قوانین و احکام پر عامل ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ غور کریں کہ اس روزے کے علاوہ اور کون سا روزہ ہے جو اپنے وقت اور رقبہ میں اس سے بڑا ہے! گرمی کے روزے اور بڑے ہوتے ہیں اور اس روزے کے علاوہ اور کون سا بڑا روزہ ہو گا؟ کیا شش عید کا روزہ بتانے والا ہوں‘ یا پندرہویں شعبان کا؟ کون سا روزہ بتانے والا ہوں؟
بڑا روزہ ہے اسلام کا روزہ! اسلام خود ایک روزہ ہےاور سب روزے اور عیدین بھی‘ بلکہ روزہ‘ نماز یہاں تک کہ جنّت بھی‘ جو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا‘ وہ سب اس کے طفیل ہی ہے۔ اصل بڑا روزہ اسلام کا روزہ ہے۔ وہ کب ختم ہوتا ہے‘ کب شروع ہوتا ہے‘ یہ بھی سن لیجیے!
جو خوش قسمت انسان مسلمان گھر میں پیدا ہوا‘ اور وہ شروع سے کلمہ گو ہے‘ اس پر بلوغ کے بعد ہی یہ طویل مسلسل روزہ فرض ہو جاتا ہے۔اور جو اسلام لائے‘ کلمہ پڑھے‘ یہ روزہ اس پر اسلام قبول کرنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے۔
اور یہ روزہ کب ختم ہو گا‘ یہ بھی سن لیجیے۔ رمضان کا روزہ اور نفلی روزہ تو غروبِ آفتاب پر ختم ہو جاتا ہے‘ مگر اسلام کا یہ روزہ تو آفتابِ عمر کے غروب ہونے پر ختم ہو گا۔
رمضان کے روزہ و نفلی روزہ کا افطار کیا ہے! آپ عمدہ سے عمدہ مشروب اور لذیذ سے لذیذ غذا سے افطار کر سکتے ہیں۔ زیادہ مشروبات اور ماکولات کا نام سن کر آپ کے مُنہ میں پانی آجائے گا اور شوق پیدا ہو جائے گا‘ اس لیے میں ان کا نام نہیں لیتا۔ وہ روزہ زمزم سے کھلتا ہے‘ وہ روزہ ٹھنڈے پانی سے کھلتا ہے‘ یا دوسرے مشروبات سے یا کھجور وغیرہ سے کھلتا ہے ۔اور زندگی کا یہ طویل و مسلسل روزہ کس سے کھلے گا؟ حضرت محمد رسول اللہ‘ محبوبِ ربّ العالمین‘ شفیع المذنبین‘ سید المرسلینﷺ کے دست ِمبارک سے جامِ طہور‘ جامِ کوثر سے کھلے گا۔ اگر وہ روزہ پکا ہے اور آپ نے اس روزے کی شرائط پوری کر دی ہیں اور محض اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل سے ہم دنیا سے کلمہ پڑھتے ہوئے گئے‘ ہماری روح اس حال میں نکلی کہ ہماری زبان پر کلمہ تھا اور ہم ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کہہ رہے تھے‘ ہمارے دل میں نورِ ایمان تھا‘ ہمارے دماغ میں اللہ سے ملاقات اور حضورﷺ کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کا شوق تھا‘ تو وہ روزہ اس وقت ختم ہوتا ہے۔
اس کا افطار کیا ہے؟ اس کی ضیافت کیا ہے؟ وہ ہے جس ضیافت پر آدمی اپنی جان دے دے----- اور اللہ کے بندوں نے جان دی ہے۔ سینکڑوں اور ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے اس شوق میں جان دی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کا دیدار نصیب ہو‘ اللہ کے رسولﷺ کے سامنے ہم جب ہوں تو وہ ہم سے خوش ہوں‘ راضی ہوں۔ جہاد کے واقعات‘ غزوات اور جنگوں کے واقعات پڑھیے۔ لوگوں نے خوشی خوشی جانیں دیں‘ بلکہ ایسا شوق تھا کہ ایک بچہ اُحد کی جنگ کے موقع پر آیا۔ اُس نے کہا : یا رسول اللہ! مجھے بھی جہاد کرنے کی اجازت دیجیے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ابھی تم چھوٹے ہو۔ اس نے کہا : مَیں چھوٹا نہیں‘ مَیں لڑ سکتا ہوں۔ اس نے بڑی خوشامد کی‘ کسی نے سفارش بھی کی تو آپؐ نے اجازت دے دی۔ دوسرے صاحبزادے آئے جو ذرا چھوٹے تھے‘ کہنے لگے: آپؐ نے انہیں اجازت دی تھی‘ مجھے بھی اجازت دے دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا : تم ابھی بچے ہو۔ اُس نے عرض کیا: آپؐ ہماری کشتی کرا کر دیکھ لیجیے۔ اگر مَیں اس کو پچھاڑ دوں تو مجھ کو اجازت دے دیجیے۔ یہ بچوں کا شوق تھا‘ کشتی ہوئی‘ اس نے واقعی پچھاڑ دیا اور آپ ﷺ نے ان کو بھی اجازت دے دی اور وہ شہید بھی ہوئے۔ ابوجہل کو دیکھ کر دونوں بھائیوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف  ؓ سے کہا کہ ہمیں ابوجہل کو دکھائیے‘ ہم نے سنا ہے کہ اس نے رسول اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے‘ مَیں یہ شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ابوجہل کے بارے بتانے پر دونوں لپک پڑے اور اس کا کام تمام کر دیا۔
اس چھوٹے روزہ کا حکم اور اس کی پابندیاں سب کو معلوم ہیں۔ سب روزہ دار کھانے پینے سے اور ان تمام چیزوں سے بچتے ہیں جو ممنوع ہیں‘ لیکن اس بڑے روزہ کا خیال بہت کم لوگوں کو ہے ‘حالانکہ یہ روزہ ہم لوگوں کو اس بڑے روزہ کے طفیل ہی ملا ہے‘ اس بڑے روزہ کی برکت سے ملا ہے۔ یوں سمجھیے کہ اس بڑے روزہ کے انعام میں ملا ہے‘ اور عید بھی اسی روزے کے طفیل میں ملی ہے۔ اگر اسلام نہ ہوتا تو نہ نماز ہوتی‘ نہ روزہ ہوتا ۔اور دیکھ لیجیے جہاں اسلام نہیں وہاں نہ نماز ہے ‘نہ روزہ ہے‘ نہ کلمہ ہے‘ نہ اللہ پر یقین ہے‘ نہ اس کے واحد ہونے کا یقین ہے‘ نہ حشر کا‘ نہ روز ِقیامت کا‘ نہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا‘ یہ سب دولت ایمان ہم کو اسلام کے طفیل ملی ہے۔ ہم گِن بھی نہیں سکتے کہ کیا کیا دولتیں ہم کو اسلام کے طفیل ملی ہیں۔ اسلام کے طفیل میں آدمیت ملی ہے‘ انسانیت ملی ہے‘ عزّت ملی ہے‘ طاقت ملی ہے‘ روحانیت ملی ہے‘ اور مرنے کے بعد قیامت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت ملے گی۔
روزہ (رمضان کے روزہ یا نفلی) میں پانی پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ کھانا کھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ یہ روزہ ٹوٹ جائے تو ساٹھ روزے رکھنے چاہئیں‘ تب ان کی قضا ہو گی‘ لیکن وہ روزہ جو اسلام کا روزہ ہے اس کا بہت کم لوگوں کو خیال ہے۔ ہم بتاتے ہیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں منع ہیں۔ اس میں کھانے پینے کی محدود چیزیں جو حرام ہیں‘ منع ہیں۔ اس میں شرک منع ہے۔ سب سے بدتر چیز جو اللہ کو ناپسند ہے‘ وہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں صاف فرماتا ہے :
’’ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائے گا‘ باقی جس کو چاہے گا معاف فرما دے گا۔‘‘(النساء:48)
شرک کیا ہے‘ آپ سن لیجیے۔ اس کو سب برا سمجھتے ہیں‘ آپ بھی برا سمجھتے ہوں گے۔ عقیدہ یہ ہے کہ کارخانۂ عالم اللہ کا بنایا ہوا ہے اور وہی چلا رہا ہے:{اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط} (الاعراف:54)اُسی کا کام ہے پیدا کرنا‘ اُسی کاکام ہے چلانا۔ اُسی کو مانتے ہیں کہ خالق ِ ارض و سماوات اور کائنات چلانے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے‘ لیکن بہت سے بھائی ایسے ہیں جن کے دل میں اور کبھی اُن کے دماغ میں یہ بات پورے طور سے جذب نہیں ہوتی ہے کہ کائنات کا چلانے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ ایسا سمجھتے ہیں کہ کارخانۂ عالَم تو اللہ نے بنایا‘ ’’کُنْ فَیَکُوْنُ‘‘ کہہ دیا ‘بس بن گئی‘ لیکن چلانے میں دوسری ہستیاں شریک ہیں‘ جیسے کوئی بادشاہ اپنی مرضی سے کوئی کام کسی کے سپرد کر دے‘ کسی کے ذمہ کر دے‘ بھائی تم خیرات بانٹا کرو‘ تم دیکھو کھانے پینے کا خیال رکھنا‘ غلہ پہنچا دو‘ کچھ پہنچا دو جس کی ضرورت ہو‘ کوئی بیمار ہو اس کو شفا دے دو‘ کسی کے اولاد نہیں ہے اس کو اولاد عطا کرو‘ کوئی کسی مصیبت میں گرفتار ہے‘ اس کی خلاصی کر دو‘ کسی کا مقدّمہ جتا دو وغیرہ وغیرہ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کے ذمہ کچھ کارخانے کر دیے ہیں تو اس میں اللہ کی شان کے خلاف کوئی بات نہ ہو گی‘ ان کی قبولیت اور بزرگی کی وجہ سے اور اپنے ارادہ سے سپرد کیا ہے اور جب چاہے گا لے لے گا۔
لیکن ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا ہی کام ہے پیدا کرنا‘ اور میرا ہی کام ہے چلانا اور حکم دینا{اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط}------یہ دنیا تاج محل نہیں ہے کہ شاہجہاں بنا کر چلے گئے‘ اب اس کے بعد کوئی چاہے دیوار پر کچھ لکھ دے‘ دھبہ لگا دے‘ کھونچا لگا دے ‘ کوئی حصّہ توڑ دے۔ وہ کچھ نہیں کر سکتے‘ ان کے بس میں کچھ نہیں‘ اور شاہجہاں کیا خواہ بڑے سے بڑا بادشاہ اور حکمراں ہو۔
لیکن وہ کارخانہ یعنی کارخانۂ عالم پورے طور سے اُسی کے قبضہ اور اختیار میں ہے‘ وہی خالق ِکائنات ہے‘ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور وجود بخشنے والا ہے‘ اور وہی حکمراں‘ سیاہ سفید کرنے والا‘ جلانے مارنے والا‘ روزی اور اولاد دینے والا ہے۔{اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ(82)}(یٰسٓ)
اولاد دینا‘ روزی دینا‘ قسمت اچھی بری کرنا‘ ہرانا جتانا ‘ کسی کو عزت دینا‘ کسی کی آئی ہوئی بلا کوٹال دینا‘ یہ سب اللہ کے قبضہ میں ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ اس دنیا کا ایک پتہ اور ایک ذرّہ بھی اس کے حکم کے بغیر ہل نہیں سکتا‘ پوری باگ ڈور ‘عنانِ حکومت اور کنجی اس کے ہاتھ میں ہے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ توحید کامل ہونی چاہیے۔ اولاد وہی دے سکتا ہے‘ روزی وہی دے سکتا ہے‘ عزّت وہی دے سکتا ہے‘ جلانا مارنا اُسی کا کام ہے‘ یہ نہ کسی ولی کے قبضہ میں ہے‘ نہ کسی قطب کے قبضہ میں ہے‘ نہ کسی غوث کے قبضہ میں ہے‘ نہ کسی ابدال کے قبضہ میں ہے۔ ایک بات یہاں سے لے کر جائیے۔ پہلے عقیدہ ٔ توحید کو جانچئے کہ آپ اللہ ہی کو مُسبّب الاسباب سمجھتے ہیں اور خالق و رازق سمجھتے ہیں؟
ایک بات تو یہ‘ اور اس کے بعد دوسری بات قیامت کا یقین و آخرت کا یقین ہے‘ اور اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ کو آخری پیغمبر ماننا‘ خاتم النبیین‘ سیدالمرسلین‘ شفیع المذنبین‘ محبوب ربّ العالمین ماننا‘ اور یہ ماننا کہ شریعت انہی کی چل رہی ہے اور قیامت تک چلے گی‘ اور آخرت میں کام آئے گی۔ قیامت تک اور کسی کی شریعت نہیں چلے گی۔ اگر کوئی آپﷺ کے بعد نئی شریعت لے کر آئے تو وہ کذاب اور دجال ہے‘ ملحد ہے‘ دین کا باغی ہے اور واجب القتل ہے۔ شریعت ‘شریعت ِمحمدیؐ ہے اور وہی قیامت تک چلے گی اور ہر جگہ چلے گی۔ اس پر جو چلے گا وہی فلاح یاب ہو گا اور سرخرو ہو گا۔
آپﷺ حبیب خدا ہیں‘ جو آپؐ سے محبت کرے خدا اُس سے محبت کرتا ہے۔ اور آپﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی مؤمن نہیں جب تک کہ مَیں اُسے اپنے باپ سے‘ بیٹے سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔‘‘
یہ مرتبہ اور کسی بزرگ‘ ولی کیا چیز‘ کسی نبی اور رسول کو بھی نہیں ملا۔ یہ مرتبہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے لیے رکھا تھا۔ ایک تو یہ کہ آپ ؐپر ایمان بھی ہو‘ عقیدہ بھی ہو‘ محبّت بھی ہو اور شفاعت کا شوق بھی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ میں شریعت پر چلنے کا اہتمام بھی ہو۔ آپ پوچھیں‘ آپ کے اندر جذبہ اور جستجو اس بات کی ہو کہ مسئلہ بتایئے! لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں یہ بات پورے طور پر نہیں ہے۔ شادی بیاہ کس طریقہ پر ہو‘ حضورﷺ اور صحابہ j کا کیا طریقہ کار تھا‘ خوشی کا اظہار اور غم کا اظہار بھی شریعت و سُنّت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ماتم کرنا‘ گانا بجانا‘ یہ تزک و احتشام‘ دھوم دھام اور شادیوں میں وہ سب کام کرنا‘ چاہے سود لے کر اور زمینیں بیچ کر‘ رشوت لے کر ہو‘ بس جس سے نام ہو‘ ہماری حیثیت عرفی بلند ہو‘ لوگوں میں اونچے سمجھے جائیں۔ اور یہ جہیز کا مطالبہ اور نہ دینے پر نازیبا سلوک‘ کہ گردن شرک سے جھک جائے‘ کیسی بُری بات ہے۔ یہ سب شریعت کے خلاف ہے‘ اللہ کو ناپسند ہے۔ ان سب باتوں میں ہم شریعت کے پابند ہیں۔ صرف نماز و روزہ میں ہی پابند نہیں ہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں پابند ہیں۔ ہر چیز میں ہمارے لیے نمونہ اُ سوئہ رسولﷺ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ} (آلِ عمران : 31)
’’(اے پیغمبرﷺ!لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو‘اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا۔ ‘‘
تو ایک بات یہ ہے کہ شریعت اسلامی پر عمل ہو اور شریعت کو آپ سمجھیں کہ وہ پوری زندگی میں نافذ ہے‘ پوری زندگی پر اس کا سایہ ہے‘ پوری زندگی اس کے ماتحت ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ بس نماز و روزہ شریعت کے مطابق ہوں‘ اس کے لیے مسئلہ پوچھیں ‘اور نکاح و طلاق‘ تجارت اور کاروبار میں آزاد ہیں۔ لاٹری بھی چل رہی ہے‘ جوا بھی چل رہا ہے‘ ٹیلی ویژن بھی دن رات چل رہا ہے (جو لہو الحدیث کی بہترین تشریح ہے)‘اسراف اور فضول خرچی بھی چل رہی ہے‘ نمود و نمائش بھی جاری ہے‘ ہمسایہ قوم (یعنی ہندو)کی نقالی بھی چل رہی ہے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ اس کے بعد روزہ میں جیسے غیبت منع ہے ایسے ہی اس روزہ میں بھی غیبت منع ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا‘ فحش بکنا‘ رشوت لینا اور رشوت دینا‘ سود خوری‘ اسراف اور فضول خرچی ممنوع ہے۔ تو آپ یہ سمجھ کر جائیں روزہ کے بعد ہم آزاد ہیں‘ ہرگز نہیں! ہم آزاد نہیں ہیں‘ وہ روزہ برابر چلتا رہے گا‘ وہ روزہ اب بھی ہے۔ بلکہ وہ اس روزہ پر بھی سایہ فگن ہے‘ اور یہ روزہ اس روزہ کا جزو ہے جو آپ رکھ رہے ہیں۔ وہ روزہ چلتا رہے گا‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ یہی سب سے بڑی چیز اور تمنّا کرنے کی ہے‘ بلکہ جس کے لیے جان کی بازی بھی لگا دینا چاہئے۔ ہماری آزادی‘ غریبی‘ مفلسی‘ دوستی‘ دشمنی‘ کامیابی اور ناکامی‘ یہ سب گزر جائے گی‘ بس خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اولیاء اللہ کو اس کی بڑی فکر تھی۔ ان کے حالات پڑھئے‘ جن کا نام لینے سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔ ان کو یہ فکر ہوتی تھی‘ بلکہ دوسروں سے دعا کراتے تھے ‘کہ خاتمہ بخیر ہو۔ سب کے دل کو یہ لگی ہوئی تھی‘ اور اللہ تعالیٰ نے خاتمہ بخیر فرمایا‘ ان کا ذکر خیر باقی رکھا۔
رمضان ختم ہونے کے بعد آپ یہ نہ سمجھیں کہ چھٹی ہو گئی‘ اب ہم آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔ ہرگز ایسا نہیں‘ آپ آزاد بالکل نہیں ہیں۔ آپ کے گلے میں اسلام کا طوق پڑا ہوا ہے۔ آپ کی تختی‘ آپ کے شناختی کارڈ پر لکھا ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس روزہ کا حساب ہو گا اور اُس روزہ کا بھی حساب و کتاب ہو گا۔ ہم نے آپ کے سامنے آیت پڑھی:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط} (المائدہ:3)
’’مَیں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا....‘‘چاہے کوئی تبدیلی لانا چاہے‘ سلطنت کہے‘ بادشاہ کہے کہ ایسا کرو اور ویسا کرو‘ بڑے سے بڑا مسلمان اور علم کا دعویٰ کرنے والا کہے‘ کچھ ہونے کو نہیں۔ جو چیز حرام ہے قیامت تک حرام رہے گی۔ دنیا میں کسی کو یہ اجازت نہیں اور نہ اس کی مجال ہے کہ اس میں ترمیم کرے۔ شریعت میں اب کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی‘ وہ چیزیں جو حرام ہیں حرام ہی رہیں گی۔
یہاں سے آپ ارادہ کر کے جائیے کہ اگر کسی کی جائیداد آپ کے قبضہ میں ہے اور آپ کی نہیں ہے تو اس روزہ کا تقاضا ہے کہ آپ اس جائیداد کو چھوڑ دیں‘ اللہ تعالیٰ اس پر بڑا خوش ہوگا‘ آپ اللہ کے خوف سے ایسا کریں اور کہیں کہ لو اپنی جائیداد‘ اپنا ترکہ‘ یہ تمہیں مبارک ہو‘ اب ہم نے توبہ کی ہے۔ جھوٹ بولنا‘ جھوٹی گواہی دینا‘ دل آزاری کرنا‘ گالی بکنا‘ ناجائز‘ حرام ذرائع آمدنی‘ رشوت وغیرہ جن سے پیسے ملتے ہیں‘ حرام ہی ہیں اور قیامت تک ناجائز ہی رہیں گے۔ اسی طرح سود ہے کہ بعض لوگ اس دَورِ پُرفتن میں اس کے جواز کی شکلیں نکال رہے ہیں‘ کس قدر افسوس ناک بات ہے۔ جس چیز کو شریعت و دین نے حرام قرار دیا ہے‘ قیامت تک حرام ہی رہے گی۔
کوشش یہ کیجیے کہ آپ کا روزہ صحیح طریقہ پر افطار ہو‘ شاہ غلام علی ‘ مجددی‘ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نقشبندیہ مجددیہ سلسلہ کے کبار مشائخ میں تھے۔ نواب میر خان نے جو اُن کے مرید تھے‘ ارادہ کیا جب انہوں نے سنا کہ حضرت کے یہاں پانچ پانچ سو آدمی رہتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں اور آپ ہی کو ان کی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں‘ کوئی آمدنی نہیں‘ کوئی جائیداد نہیں ‘تو انہوں نے ایک بڑی رقم پیش کرنا چاہی اور کہا کہ حضرت اس کو قبول فرما لیں۔ فرمایا کہ فقیر نے روزہ رکھا تھا اور جب آفتاب ڈوبنے لگے تو کوئی روزہ نہیں توڑتا۔ اب میرا آفتابِ عمر ڈوبنے کے قریب ہے۔ اب کوئی جتنا کہے کہ یہ چیزیں لے لو‘ یہ دوا کھا لو‘ مَیں روزہ نہیں کھولوں گا‘ کہ تمام دن روزہ رکھا اور اب جب افطار کا وقت قریب ہے تو توڑ دوں!
ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اسلام کا روزہ ہے‘ ساری عمر کا روزہ ہے‘کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔ جو چیزیں حرام ہیں‘ حرام ہیں‘ غلط ہیں‘ غلط ہیں‘ عقیدہ خالص ہونا چاہیے۔ سمجھ لیجیے‘ نہ کوئی قسمت بری بھلی بنا سکتا ہے‘ نہ کوئی آئی ہوئی بلا کو ٹال سکتا ہے‘ نہ اولاد دے سکتا ہے‘ نہ نوکری دلا سکتا ہے‘ کہ آپ کسی اور سے مانگیں‘ جو کچھ مانگنا ہو اسی سے مانگیں جو سمیع و مجیب ہے۔ وہ فرماتا ہے :
{وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ(186)})البقرۃ)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے رسولﷺ سے کہ بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو کہہ دیجیے کہ میں قریب ہوں‘ دعا کرنے والی کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ دعا کرے۔
آپ یہاں سے بڑے روزے کا خیال لے کر جائیے ‘خوش ہوئیے‘ اللہ کا شکر ادا کیجیے۔ یہ روزہ تو ختم ہو رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اور رمضان نصیب کرے۔ مگر زندگی کا کوئی اعتبار نہیں‘ صحت کا اعتبار نہیں‘ ہاں وہ مسلسل و طویل روزہ رہے گا‘ وہ روزہ مبارک ہو‘ اس روزہ کا خیال رکھیے‘ وہ روزہ نہ توڑئیے گا‘ وہ روزہ اگر ٹوٹا تو سب کچھ ٹوٹ گیا‘ سب کچھ بگڑ گیا۔
بس یہی دو روزے ہیں‘ ایک روزہ ہے قریب المیعاد‘ وہ ہے رمضان کا روزہ اور دن بھر کا روزہ ہے۔ ایک روزہ وہ ہے جو زندگی کے ساتھ رہے گا‘ اور مسلمان کے لیے جب سے وہ بالغ ہوا‘ اس دن تک جب تک سانس اور جان میں جان ہے۔ اور وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اس کا بھی جب تک بدن میں اس کے جان اور روح ہے‘ اس وقت تک باقی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو توفیق دے کہ ہم اس روزے کو برقرار رکھیں‘ اس روزے کی حفاظت کریں اور قدر کریں‘ اور اس روزے پر جئیں اور مریں۔
رَبِّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ وَاَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِیْنَ وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
[یہ تقریر 23 رمضان المبارک1415ھ کو بعد نماز جمعہ مسجد شاہ علم اللہ تکیہ رائے بریلی میں کی گئی۔ مقرر علیہ الرحمۃ نے خود اس پر نظرثانی کی ۔]