کام چوری
مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت
کام چوری ہمارے معاشرے میں ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اگر معاشرے میں زیادہ لوگ اِس مرض میں مبتلا ہوجائیں تو مرض کا احساس اور صحت کی خواہش باقی نہیں رہتی۔ ہمارے معاشرے کا انتہائی کثیر حصہ اس بیماری میں مبتلا ہے اور اس کے ضرر کا احساس بھی تفریباً مٹ چکا ہے۔ بلکہ اب تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ جو شخص اپنے حصہ کا کام ذمہ داری، دیانتداری اورمستعدی سے انجام دیتا ہے، اسے لوگ پاگل اور بے وقوف کہہ دیتے ہیں۔
کام چوری کی پوری تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ ان کا موں میں جان بوجھ کر اور بلا عذر کوتاہی اور سستی کرنا جو ہمارے ذمہ ہیں۔ ان میں سے بعض کام ایسے ہیں جن کا ہمیں معاوضہ ملتا ہے مثلاً ملازمت اور بعض کا م ایسے ہیں جن کی ہم نے اپنی مرضی سے ذمہ داری لی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نکاح کر کے ہم اپنے اور اہل و عیال کے نان نفقہ، ان کی بہترین تعلیم و تربیت کی ذمہ داری لے لیتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاکر اس بات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں کہ ہم اس کی بندگی کریں گے۔
ان میں سے کوئی بھی ذمہ داری ادا نہ کر کے ہم گناہگار ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر میں ملازمت کے دوران اپنا کام وقت پر سر انجام نہ دوں ، موبائل پر کھیلتا رہوں ، چائے پینے اور گپ شپ میں وقت گزاردوں تو میری آمدنی پوری طرح جائز نہیں ہوگی۔ دوسرےالفاظ میں، میں حرام کمارہا ہوں گا۔ اپنے اہل و عیال کے لیے رزقِ حلال کمانے کی جدوجہد نہیں کرتا یا ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں دیتا تو میں اپنے عہد کی خلاف ورزی کا گناہ مول لیتا ہوں۔
بعض لوگ محض طبعاً کاہلی اور کسی جسمانی معذوری کی وجہ سےاپنا کام سر انجام دینے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہمارے مخاطب نہیں ہیں، ہمارے اصل مخاطَب وہ لوگ ہیں جو کام کرنے کی تمام تر صلاحیت رکھنے کے باوجود ایک تو کام نہیں کرتے اور دوسرے اس کام کی انجام دہی کا پورا پھل سمیٹنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
کام چورآدمی عموماً رزقِ حلال کی خواہش نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ مسلمانوں کے اجتماعی نظام کا کارآمد حصہ بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ کام چور آدمی کا اثر مزید بیماریوںکا بھی شکار ہوتا ہے۔ مثلاًسستی، کاہلی، بغیر محنت کے مال کمانا اور مال کی محبت۔ جب ہر انسانی صلاحیت مال کمانے میں صرف ہورہی ہو، وہاں کام چوری آہستہ آہستہ آسان اور مختصر راستے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جس پر چل کر آدمی کسی مشقت میں پڑے بغیر اپنا مقصد حاصل کرلیتا ہے، اس بات کی فکر کیے بغیر کہ وہ راستہ حلال ہے یا حرام ۔
ہماری کام چوری دنیا سے بے رغبتی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اسے آسانی اور چالاکی کے ساتھ حاصل کرنے کی ایک سوچی سمجھی تدبیر ہے۔
ہمارے معاشرے میں کام چورافراد اکثر اوقات آپ کو دوستوں سے ادھارمانگتے نظر آئیں گے، یہ لوگ عموماً ادھار واپس نہیں کرتے ۔ جب لوگوں کا ان پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے تو پھر یہ لوگ منت سماجت اور خوشامد کر کے مدد مانگتے ہیں۔
ان لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دین اور دنیا میں ترقی کرنے کے لیے مشقت ضروری ہے۔ اگر ہم دنیا میں آرام و آسائش کی زندگی چاہتے ہیں اور آخرت میں بھی کامیابی چاہتے ہیں تو اس کے لیے محنت تو لازماً کرنی ہی پڑے گی۔
سورۃ النجم آیت 39 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَاَنْ لَّــیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (39)} ’’اور یہ کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی کچھ جس کی اُس نے سعی کی ہوگی۔‘‘
سورۃ الانْشِقَاق آیت 6 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ(6)}’’اے انسان! تو مشقت پر مشقت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف‘ پھر تو اس سے ملنے والا ہے۔‘‘
سورۃ الاحقاف آیت 19 میں ارشاد ربّانی ہے:
’’ اور ہر ایک کے لیے درجے (اور مقامات) ہوں گے ان کے اعمال کے اعتبار سے ’اور تاکہ وہ پورا پورا دے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔‘‘
سورۃ بنی اسرائیل آیت 19 میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایاہے:
’’ اور جو کوئی آخرت کا طلب گار ہو‘ اور اس کے لیے اس کے شایانِ شان کوشش کرے اور وہ مؤمن بھی ہو‘‘ ’تو یہی لوگ ہوں گے جن کی کوشش کی قدر افزائی کی جائے گی۔
یعنی آخرت میں کامیابی کے لیے محنت تو لازماً کرنی ہی پڑے گی۔ ابدی کامیابی کے لیےتو ’’ اٰمَنُوْا‘‘ کے ساتھ’’عَمِلُوۡا الصَّالِحَاتِ ‘‘کی شرط قرآن مجید بار بار بیان کرتا ہے۔کسی نے کیاخوب کہا ہے ۔ ع
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہؤااور فارسی کی کہاوت ہے:
(کسب کمال کن کہ عزیزِ جہاں شوی) یعنی ’’ایسی کمال کی محنت کرو تم دنیا والوں کے لیے عزیز بن جاؤ۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس i سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’یقیناً قیامت کے دن سب سے زیادہ پشیمان وہ شخص ہو گا جس نے اللہ کے حکم کی تعمیل کیے بغیر مال کمایا، پھر ایک دوسرا شخص اس کے مال کا وارث بنا اور وہ اسے اللہ کی اطاعت میں خرچ کرتا ہے اور اس کے ذریعے سے جنت میں داخل ہوتا ہے، جبکہ پہلا شخص اس کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوگا۔ ‘‘(مسند احمد)
کام چوری کے علاج کا حقیقتاً ایک ہی طریقہ ہے۔ اگر اس کو اختیار کرلیا جائے تو قوی امید ہے کہ کام چوری سے مکمل نجات مل سکتی ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ حلال آمدنی پر اکتفاء اور حرام کمائی سے اجتناب کے تصور کو دل میں راسخ کرلیا جائے اور کسی بھی قیمت پراس تصور کی خلاف ورزی نہ کیا جائے۔مثلاً ان وعیدوں کو ہر وقت سامنے رکھا جائے جو حرام کمائی کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہیں جیسے حرام کھانے ولا دوزخ کا ایندھن بنتا ہے۔ اس کی دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ نماز، صدقہ، حج غرض کوئی بھی نیک عمل قبول نہیں ہوتا۔
اگر آدمی یہ طے کرلے کہ اسے ، حرام تو دور کی بات ہے، مشتبہ رزق سے بھی بچنا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کام چوری کی لعنت میں گرفتار ہوسکے۔
کام چوری دراصل سستی اور محنت سے جی چرانے کا نتیجہ ہے۔اس کے علاج کے لیے درج ذیل تدابیر کارگر ثابت ہوسکتی ہیں۔
1۔ نیک اور چُست لوگوں کے صحبت اختیار کریں۔
سورۃ التوبہ آیت119 میں اللہ تعالیٰ نے سستی دور کرنے کے لیے نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی تلقین کی ہے:
’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کی معیت اختیار کرو۔‘‘
2۔ تہجد کی نماز کی عادت ڈالیں اور صبح فجر سے پہلے اٹھ کر تہجد ادا کرنے کی کوشش جاری رکھیں خواہ صرف 2 رکعت ہی ہوں اور مختصر ہوں۔ اور اس کے بعد حلال رزق کے لیے درج ذیل مسنون دعا ضرور پڑھیں۔
(( اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ))
’’ اے اللہ مجھے کفایت دے اپنا حلال رزق دے کر حرام رزق سے بچا اور مجھے اپنے فضل کے ساتھ اپنے سوا دوسروں سے بے نیاز کردے۔ (خزینۂ رحمت ، ص48)
3۔ طرز زندگی میں سادگی بلکہ مشقت اختیار کرنا۔
4۔ گھر میں اپنے تمام کام خود کرنے کی کوشش کریں ااور اپنے کپڑے کسی دوسرے سے استری کرانے کے بجائے خود استری کریں۔ اپنے جوتے خود پالش کریں۔ صبح اٹھ کر اپنا بستر خود تہہ کردیں۔ اسی طرح کبھی کبھار گھر کے کاموں میں گھر والوں کی بھی مدد کریں۔ گھر میں چھوٹے موٹےمرمت کے کام خود کرلیں۔
5۔ دوستوں اور محلے داروں کے کاموں میں ان کی مدد کردیں۔
6۔ مسجد میںبا جماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز ادا کرنے کی کوشش کریں بالخصوص فجر کی نماز۔
7۔ حضور اکرمﷺ سے مروی سستی دور کرنے کے لیے درج ذیل دعا کا زیادہ سے زیاد ہ وِرد کرنا بھی ان شاء اللہ بہت مؤثر ہوگا:
((اللّهُـمَّ إِنِّي أَعْوذُ بِكَ مِنَ الهَـمِّ وَ الْحُـزْنِ، والعًجْـزِ والكَسَلِ والبُخْـلِ والجُـبْنِ، وضَلْـعِ الـدَّيْنِ وغَلَبَـةِ الرِّجال))
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں رزقِ حلال کمانے اور حرام کمائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلًا))
’’اے ﷲ! بے شک میں تجھ سے نفع دینے والے علم کا سوال کرتا ہوں اور پاکیزہ رزق کا اور ایسے عمل کا جو قبول کرلیا جائے۔‘‘آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024