(زمانہ گواہ ہے) الیکشن کمیشن:سپریم کورٹ اورانتخابات - وسیم احمد

9 /

پاکستان کے مفاد میں سب سے بہتر یہ تھا کہ دوسری اسمبلیاں بھی توڑ دی جاتیں

اور ایک ساتھ جلد الیکشن ہو جاتے تاکہ بحران ختم ہو جاتا:ایوب بیگ مرزا

عدلیہ کے فیصلے پر ناشائستہ جملے بازی اور ذاتی حملے ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے

ہاں اخلاقی تربیت کا فقدان ہے : رضاء الحق مرکز اور صوبوں میں ایک ساتھ الیکشن

ہی ملکی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے : سلمان غنی

الیکشن کمیشن:سپریم کورٹ اورانتخابات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال:الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کاجو فیصلہ آیا ہے ‘ کیا اس سے ملک میں سیاسی بحران ختم ہوجائے گاا ورکیاحکومت اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل فائل کررہی ہے یانہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب میں پہلے عرض کردیتاہوں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرنا متاثر فریق کا حق ہے ۔ حکومت 30دن کے اندر اندر اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتی ہے لیکن اس کا حکومت کو فائدہ ہونا مشکل ہے کیونکہ ایک تو نظر ثانی کی اپیل کی سماعت وہی جج کرتے ہیں جنہوں نے اس کیس میں فیصلہ دیا ہوتاہے ، دوسرا کوئی جج اس کو نہیں سن سکتا ۔ دوسری بات یہ کہ نظرثانی کی اپیل کے قابل سماعت ہونے کے لیے کوئی مرکزی یا بڑا نکتہ ہونا چاہیے ،چھوٹی موٹی باتوں پر اپیل قبول نہیں ہوتی اور فیصلہ تبدیل ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
جہاں تک ملک میں سیاسی بحران کے خاتمے کا معاملہ ہے تواس کا انحصار اس پرہے کہ اگر توانتخابات سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہو جاتے ہیں تو یہ بحران کم ہو جائے گا۔ تھوڑی بہت دھاندلی ، سکیورٹی کے مسائل تو ہر الیکشن میں پیدا ہوتے ہیں البتہ سیاسی کشیدگی ختم ہوجائے گی کیونکہ اگرن لیگ کی مرضی کے خلاف الیکشن ہو بھی جاتے ہیں تو ن لیگ بڑا عوامی احتجاج نہیں کرے گی کیونکہ ن لیگ شروع سے ہی کوئی احتجاجی جماعت نہیں ہے ۔ آپ نے دیکھاکہ نواز شریف کو نااہل کیاگیاتوکوئی قابل ِ ذکر عوامی احتجاج نہ ہوسکا۔لیکن اگر الیکشن نہ ہوئے تو پھر سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی اور حالات خراب ہوں گے ۔ ظاہری طورپرالیکشن نہ ہونے کے امکانات بہت کم ہیں اور یہ امکان ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیںہونی چاہیے۔لیکن آپ کو معلوم ہے کہ یہ پاکستان ہے ،یہاںنظریہ ضرورت کہاں کہاں چلتا ہے اورکہاں کہاں استعمال ہوتاہے۔ ویسے توکہاجارہاہے کہ اس فیصلے نے نظریہ ضرورت کودفن کیاہے جوتقریباًپچاس سال سے چلا آرہا تھا ۔لیکن بہرحال میں سمجھتاہوںکہ الیکشن کے انعقاد کے 95فیصد امکانات ہیں سوفیصد نہیں ہیں۔
سوال: پی ڈی ایم میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے جوچاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی ہے اوراس کی احتجاجی سیاست کی ایک پوری تاریخ ہے ؟
ایوب بیگ مرزا: اخباری اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی نے باقاعدہ اعلان کردیاہے کہ ہم الیکشن میں حصہ لیں گے۔لہٰذا وہ کسی احتجاج میں جانے کا کوئی موڈ نہیں رکھتے ۔ میں مانتاہوں کہ پیپلز پارٹی میں احتجاجی سیاست کامعاملہ ہے لیکن اتنازیادہ نہیںہے۔ ورنہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پرانہوںنے کون سا احتجاج کر لیاتھا۔بہرحال وہ اس وقت احتجاج کے موڈ میں نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ن لیگ کے پاس پنجاب میں اب بھی ووٹروں کی ٹھیک ٹھاک تعداد ہے لیکن الیکشن سے فرار کی وجہ سے لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ن لیگ کے پاس ووٹر نہیں ہیں اس لیے وہ بھاگ رہی ہے ۔ اس طرح ن لیگ خود اپنا نقصان کررہی ہے ۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی یہ ظاہر کر رہی ہے کہ جوناکامی ہوئی ہے وہ ن لیگ کی ناکامی ہے ۔ ہرسیاسی جماعت اپنی ایک چال چلتی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے پاس بڑی اہم وزارتیں ہیں ۔ آپ نوٹ کریں کہ پیپلز پارٹی نے کوئی ایسی وزارت نہیں لی جس کابراہ راست تعلق عوام سے ہو اور عوام میں اُن کے خلاف شکایات پیدا ہوں ۔ پیپلز پارٹی احتیاط سے چل رہی ہے ۔ لہٰذا اگر الیکشن ہوتے ہیں اورکچھ کہا نہیں جا سکتا کہ کون جیتے گا لیکن امکانات ہیں جیساکہ سروے آرہے ہیں کہ پی ٹی آئی الیکشن جیت جائے گی اورن لیگ احتجاج کی پوزیشن میں قطعاً نہیں ہوگی ،لہٰذا سیاسی انتشار خودبخود ختم ہوجائے گا۔لیکن اگر الیکشن کسی وجہ سے نہیں ہو پاتے توپھرملکی حالات پربہت بڑا سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
سوال:کیاسپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے نے ایک نیاعدالتی اورآئینی بحران پیدا کردیاہے ؟
رضاء الحق:پاکستان کی پوری تاریخ میں سیاسی ، عدالتی اورآئینی بحران مختلف ادوار میں سامنے آتے رہے۔ چاہے وہ جسٹس منیر کافیصلہ ہوجس نے ایک عدالتی بحران کو جنم دیا اور پھر جسٹس کارنیلئس کے فیصلے نے بحران سے نکالابھی ۔ پھربھٹو کی پھانسی کے معاملے میں جس طرح کیس کو سنا گیا ،جس طرح فیصلے کو ڈلیور کیا گیا اور جو اس کی ٹائمنگ تھی اس نے بحران پیدا کیا۔اسی کے نتیجے میں ایک اورمارشل لاء یعنی ایک آئینی بحران بھی سامنے آگیا۔ ماضی قریب میں مشرف نے جب عدلیہ پر شب خون مارا تو ایک بحران پیدا ہوا پھر وکلاء نے عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی اور اس کے نتیجے میں جسٹس افتخار چودھری کوبحال کیاگیا۔ بہرحال ایسے بحران تب پیدا ہوتے ہیں جب ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسلام ہمیں عدل کاحکم دیتاہے اورعدل یہ ہے کہ ہرحق دار کواس کاپورا پورا حق ادا کردیاجائے ۔ قرآن میں ارشاد ہوتاہے :
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ }(النحل: 90) ’’یقیناً اللہ حکم دیتا ہے عدل کا‘ احسان کا۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں مفسرین نے لکھاہے کہ عمومی معاملات میں جہاں ریاست کا عمل دخل ہو اورلوگوں کو برابر حقوق دیے جائیں تو یہ انصاف ہوگا کیونکہ انصاف کے معنی ہیں برابرتقسیم کرنا ۔ پھرجوغریب اور کمزور ہواس کو کچھ اضافی بھی دیاجائے تو یہ احسان کی صورت میں آتاہے ۔ سپریم کورٹ کاlogoہے :
{ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ}(ص:26) ’’پس تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو‘‘
یہ بھی قرآن کی آیت کا ٹکرا ہے ۔اسی طرح لاہور ہائیکورٹ کے اوپرlogoلکھاہواہے :
{اِعْدِلُوْا قف ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّـقْوٰی ز}(المائدہ:8) ’’عدل سے کام لو ‘ یہی قریب تر ہے تقویٰ کے‘‘
لیکن ہمارے عدالتی فیصلے عدل ،تقویٰ کے کتنے قریب ہیںاس حوالے سے ہم نے پوری تاریخ بیان کی ہے ۔ اس میں بہت سارے فیصلے حق کے قریب تھے اور کچھ ایسے تھے جنہو ںنے حق کو تہ تیغ کیا۔
سوال: موجودہ فیصلے کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس نے نظریہ ضرورت کودفن کیا اورنظریہ محبت کو اجاگر کیا؟
رضاء الحق:یہ لوگوں کا تبصرہ ہوسکتاہے ۔لیکن جہاں تک عدالتی بحران کاتعلق ہے تومیرے نزدیک فیصلہ آئین اورقانون کے مطابق ہواہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ جب ججز کے اندر تقسیم دکھائی دی تو پھرمقتدرحلقوں، حکومت نے اُسے بھرپور استعمال کیا۔پریس کانفرنسز کی گئیں اور پارلیمنٹ میں بھی اس پرتقریریںکی گئیں لیکن وہ ان کااستحقاق ہے وہ اس پر بات کرسکتے ہیں۔ لیکن جب عدلیہ کے اندر سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ججز کا دوسرا گروہ کوئی ایکشن لیتاہے تو پھر عدالتی بحران بن جاتا ہے ورنہ یہ آئینی اورعدالتی بحران نہیں بنے گا۔
سوال: ماضی میںکسی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے،اگر کی ہے تواس کے کیانقصانات ہوئے ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:میری یادداشت میں توکسی حکومت نے سپریم کورٹ کےحتمی فیصلے کی کبھی خلاف ورزی نہیںکی۔ صرف یوسف رضا گیلانی کا واقعہ ہوا تھاکہ سپریم کورٹ نے ان کوبار بار کہاتھاکہ خط لکھیں ،لیکن انہو ںنے خط لکھنے سے انکار کردیاجس کی وجہ سے ان کو کورٹ کے فارغ ہونے تک قید کی سزا دی گئی اور توہین عدالت کی وجہ سے وہ پانچ سال کے لیے نااہل ہوگئے تھے۔ البتہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اظہار خیال کا حق تو ہوتاہے ۔دنیابھر میںاعتراضات ہوتے ہیں اورہر ایک کو اپنامؤقف پیش کرنابھی چاہیے ۔ لیکن آپ کسی جج کی ذات پرحملہ نہیں کر سکتے، آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر چہ یہ جرم اب عام ہوگیاہے ۔
سوال:سپریم کورٹ کاحالیہ فیصلہ کیساثابت ہوگا؟
سلمان غنی :یہ معاملہ عدالت کانہیں تھا بلکہ یہ سیاستدانوں کا آپس کا معاملہ تھااورپاکستان کی سیاسی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاںسیاسی ڈائیلاگ کاعمل نہیںہے ۔ ماضی میں تمام ترمحاذ آرائی اورتنائو کے باوجود سیاسی طاقتیں آپس میں بیٹھ کر نگران حکومت کے حوالے سے فیصلہ کرتی تھیں اورالیکشن کاعمل بھی پایہ تکمیل کوپہنچتا تھا،انتخابی نتائج بھی تسلیم کرلیے جاتے تھے لیکن حالیہ صورتحال کی وجہ سے جب ڈیڈلاک ہوا ہے تو پھر تحریک انصاف نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیااورعدالت نے یہ سارامعاملہ دیکھا۔ آئین کی رو سے پاکستان کی عدلیہ کو بہت سارے اختیارات حاصل ہیں لیکن الیکشن کے حوالے سے جوسیاسی پارٹیزایکٹ ہے اس میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کا بھی ذکر ہے کہ اس کی مرضی کے بغیرالیکشن کی تاریخ نہیںدی جاسکتی اوراب بھی یہی فورس کیاجارہا تھاکہ شاید عدالت عظمیٰ یہ معاملہ دوبارہ الیکشن کمیشن کی طرف ریفر کرے گی اوروہ نئی تاریخ دے گا۔ اب جوعدالت کافیصلہ آیاہے اس میںپنجاب کے لیے 14مئی کی تاریخ دی گئی ہے۔ اس فیصلے کے بارے میں یہ نہیںکہاجاسکتا کہ اس سے پاکستان کے اندر استحکام آئے گاکیونکہ حکمران اتحاد اس کے حوالے سے فل کورٹ کامطالبہ کرتا رہاہے اور انہوں نے اس پرایک قرار داد بھی پیش کی۔ جب یہ سارا عدالتی عمل شروع ہواتوکچھ ججز نے بھی فل کورٹ کی بات کی تھی بلکہ کچھ ججز نے اسمبلیوں کے خاتمے کو ٹارگٹ کیا تھا کہ کیایہ خاتمہ آئین کے تحت ہوا ہے لیکن چیف جسٹس صاحب نے اس سے صرف نظر برتااور معاملات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اب کیا فیصلے کے مطابق 14مئی کو الیکشن ہوپائیں گے ۔یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔فیصلے میں حکومت کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ 10اپریل تک الیکشن کمیشن کو 20ارب روپے اور سکیورٹی کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔ 10اپریل کا یہ دن 14مئی کے الیکشن کے حوالے سے بہت اہم ہے کیونکہ اس دن معلوم ہو جائے گا کہ حکومت فیصلے پر عمل کرتی ہے یا نہیں ۔
سوال: چندماہ بعد جنرل الیکشن ہوں گے۔ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پہلے ہی الیکشن ہو جاتے ہیں تو پھر جنرل الیکشن کی کیا حیثیت رہ جائے گی ؟
سلمان غنی :پہلے پنجاب کے انتخابات ہوں گے، پھرکے پی کے اورپھرمرکز اورسندھ اوربلوچستان میں انتخابات ہوںگے ۔ پاکستان میں ایسی نظیرپہلے نہیں ملتی۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کے پاس اتنے معاشی وسائل ہوں گے کہ اس طرح کے مرحلہ وار الیکشن کروائے جاسکیں؟ میں سمجھتا ہوںکہ ایک الیکشن ہی پاکستان میں استحکام کا ذریعہ بن سکے گا اور حکومت سازی پایہ تکمیل کو پہنچے گی ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی اناکو چھوڑ یں ، ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں اور ملک کو ایک قدم آگے بڑھائیں۔ میراخیال ہے کہ14مئی کے الیکشن میں وفاق کا بھی فیصلہ ہو جائے گا کیونکہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اوراصل میدان اِدھر ہی لگناہے اوریہاں جس نے بھی میدان مار لیاوہ وفاق میں بھی کامیاب ہوگا ۔
سوال:سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرناحکومت کی آئینی ذمہ داری ہے ۔ ایسی خبریںآرہی ہیں کہ حکومت سپریم کورٹ کافیصلہ مسترد کرسکتی ہے ایسی صورت حال میں حالات کس طرف جاسکتے ہیں ؟
سلمان غنی :اس سے پہلے یہ تقسیم عوامی سطح پرتھی ۔ ایک ہفتے سے یہ تقسیم اداروں کی سطح پرہوگئی ہے اورپاکستان کی عدالت عظمیٰ بھی تقسیم ہوئی نظر آرہی ہے۔ حکومت اور عدلیہ کی مخاصمت کوسامنے رکھیںتوحکومت نے اس کے لیے اپناسیاسی مورچہ پارلیمنٹ کوبنایاہے ۔ یقیناً اصلاحات کے حوالے سے بنیادی رول پارلیمنٹ کاہی ہوتاہے لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ کواس طرح بروئے کار نہیں لایا گیا جس طرح لایاجانا چاہیے تھااوراگر عدالتی اصلاحات مقصود تھیں توبروقت کرنا چاہیے تھیں تاکہ زیادہ موثر ہوتیں۔ میرا خیال ہے کہ فل کورٹ کامعاملہ پارلیمنٹ میں بعدمیں آیاہے اوریہ نکتہ پہلے کچھ سینئرججز کے درمیان ڈسکس ہواہے لیکن چیف جسٹس صاحب فل کورٹ بنانے کے لیے تیار نہیں تھے اور باوجود اس کے کہ انہوں نے ایک بڑا واضح فیصلہ دے دیاہے ۔ لیکن پہلے نو،پھرسات اورچار پھرصرف تین رکنی بینچ کے فیصلے کی ساکھ اتنی مضبوط نہیں ہے جس طرح کورٹ کے فیصلے کی ہوتی ہے ۔
سوال:جن ممالک میں فیڈریشن ہوتی ہے وہاں پرمرکزاور ریاستوں کے انتخابات اکٹھے بھی ہوتے ہیں الگ الگ بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ کیوں مسئلہ بناہوا ہے کہ یہاںپرانتخابات اکٹھے نہیں ہوسکتے ؟
ایوب بیگ مرزا:میں خود اس بات پرپریشان ہوں کہ الگ الگ انتخابات ہونے سے کیامسئلہ پید اہوجائے گا۔ایسے ایسے عذر تراشے جارہے ہیں جن کی سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں ۔ میںکہتا ہوں کہ سکیورٹی کے لحاظ سے بھی الگ الگ الیکشن ہونا زیادہ بہتر ہوگا ۔ کیونکہ پہلے پورے پاکستان میں الیکشن ہوتے تھے تو پورے پاکستان میں سکیورٹی کے معاملات دیکھنا ہوتے تھے اب ایک ایک صوبہ میں دیکھنا زیادہ آسان ہوگا ۔ویسے بھی 2008ء اور 2013ء کی بنسبت آج سکیورٹی صورتحال کافی بہتر ہے ۔ جہاں تک مالی وسائل کاتعلق ہے تووہ ایک ساتھ الیکشن میں بھی اُتنے ہی لگنے ہیں جتنے الگ الگ الیکشن میں لگنے ہیں۔ایسا تو ہرگز نہیں ہے کہ پنجاب میں دوبارہ الیکشن کرانے پڑیں گے ۔ آپ نے سیاسی اورعدالتی بحران کی بات کی۔ میں سمجھتاہوںکہ اس کے ساتھ چھ رکنی بنچ کا جو فیصلہ حافظ قرآن کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلہ کو کالعدم کرار دیتے ہوئے آیا ہے اس نے عدالتی بحران کو کافی حدتک حل کرلیا۔یہ جو فل کورٹ کا شور ڈالا جارہا ہے اس شورشرابہ میں بھی کوئی اتنی جان نہیں ہے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر فل کورٹ فیصلہ بھی آجاتا تو وہ بھی اس سے مختلف نہیں ہونا تھا جیسا کہ چھ صفر کے فیصلے نے ثابت بھی کردیا ہے ۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ چھ ماہ بعد پھرالیکشن کرائے جائیں گے اورفلاں ہوگاتو اس حوالے سے واضح رہنا چاہیے کہ عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آئین کیا کہتا ہے ۔ اگر اکٹھے الیکشن کرانے کا معاملہ تھا تو پھر دو ہی طریقے تھے ۔ یاتوالیکشن اکتوبر میں کردیے جاتے تو اس صورت میں آئین شکنی ہوتی ہے کیونکہ آئین کے مطابق پنجاب اور کے پی کے میں 90دن کے اندر الیکشن کرانا ضروری تھا ۔ دوسرا حل یہ تھا کہ باقی اسمبلیاں بھی توڑ دی جاتیں اور تین ماہ بعد الیکشن ایک ساتھ ہو جاتے تو اس صورت میں آئین پر بھی کوئی حرف نہیں آتا۔ انڈیا کے سابق چیف جسٹس کابیان آیا ہے کہ میں نے پاکستان کاسارا آئین پڑھا ہواہے میرے نزدیک یہ پانچ منٹ کافیصلہ تھاکہ 90دن میںالیکشن کروا لیے جائیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے 297 ریٹائرججوں نے بھی کہاہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں کہ 90دن کے اندر الیکشن کروائے جائیں ۔ تمام بڑے بڑے آئینی اور قانونی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے لوگ بھی یہی کہہ رہے ہیں حالانکہ ان کا تعلق حکمران اتحاد میں شامل جماعت سے ہے ۔ پھر سابق اٹارنی جنرل بھی اسی فیصلے سے متاثر ہوکراستعفیٰ دے گئے۔ لہٰذا بات توبڑی کلیئرتھی کہ نوے روز میںالیکشن ہوجاتے ۔سب سے بہتر یہ تھا کہ دوسری اسمبلیاں بھی توڑ دی جاتیں اور ایک ساتھ الیکشن ہو جاتے ۔ اگر ایک ساتھ ممکن نہیں ہے تو الگ الگ بھی ہو سکتے ہیں ۔ دنیا میں اس طرح بھی الیکشن ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ انڈیا میں مختلف ریاستوں میں الگ الگ انتخابات ہوتے ہیں ۔ امریکہ میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ پاکستان میں پہلے کبھی ایسا نہیںہوا تھااس لیے کچھ لوگوں کوعجیب لگ رہاہے۔اس کے برعکس حکومت کی جتنی بھی بھول بھلیاں ہیں وہ صرف الیکشن کے معاملے کو ملتوی کرنے کے لیے ہیں ۔ جبکہ بہتر یہی ہے کہ آئین شکنی سے بچاجائے اور سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کی جائے ۔
سوال:سپریم کورٹ کے فیصلے پرہمارے سیاسی راہنمائوں نے بڑے تندوتیزا ورمتنازعہ بیانات دیے ۔ نواز شریف نے کہاکہ ان ججز کے خلاف فل کورٹ ریفرنس فائل ہونا چاہیے ۔ بلاول بھٹو نے کہاکہ تخت لاہور کی لڑائی میںپاکستان ٹوٹ جائے گا۔ آپ کے خیال میں یہ جو اخلاقی حدیں پارکرنے والے بیانات ہیں ان کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں ؟
رضاء الحق:یہ ہماری قوم کابہت بڑاالمیہ ہے کہ اخلاقی سطح پرسیاستدانوں کی تربیت شاید اس طرح سے نہیںہوسکی اورعوامی سطح پربھی اس تربیت کافقدان نظر آتا ہے ۔ آپ نے نواز شریف اوربلاول بھٹو کے بیانات کا حوالہ دیا۔ بلاول بھٹو نے یہاںتک کہاکہ اس فیصلے کے نتیجے میں ایمرجنسی اورمارشل لاء کاخطرہ ہے ۔ مارشل لاء کی باتیں ان لوگوں کی طرف سے آنا جوکہ جمہوریت کے champion بنے ہوئے ہیں انتہائی افسوسناک ہے ۔ حالانکہ آئین بنانے والی پیپلز پارٹی تھی اور اس کے لیے اس پارٹی کی بڑی جدوجہد بھی تھی ۔ ن لیگ کی خاتون لیڈر نے اپنی ٹویٹس میں ججز کی ذات کو بھی نشانہ بنایا اورکہاکہ ان کوعدالت کے کٹہرے میںلاناپڑے گا۔ہمارے سیاستدانوںکا اخلاقی ریکارڈ اتنا اچھا نہیں ہے ۔ نواز شریف اور بے نظیر کی سیاسی جنگ میں بھی اخلاقی حدود کو پامال ہوتا ہوا سب نے دیکھا ۔ سابق وزیراعظم عمران خان کوجب نکالاگیاتووہ بھی سپریم کورٹ کے ججوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
بہرحال اس ساری صورت حال کودیکھیں توہمارے ہاں اخلاقی تربیت کافقدان ہے۔ ہمارادین اسلام اس حوالے سے بڑی خوبصورت راہنمائی کرتا ہے ۔ رسول اللہﷺ کی حدیث ہے کہ اگر تم میں شرم وحیا نہ رہے توپھرجوچاہے کرو۔ حیاصرف فزیکل شرم وحیا نہیںہوتی بلکہ حیا ایک پورا فلسفہ ہے اس میں یہ بھی ہوتاہے کہ آپ دوسرے کے بارے میں کیا بات کر رہے ہیں، کس حد تک اخلاقی دائرے میں رہ کر بات کررہے ہیں،آپ میں مروت کتنی ہے اورآپ کس حد تک رحماء بینھم کا مصداق بنتے ہیں ۔ پھرہمارے ادارے بھی اخلاق کی اس سطح سے اتنے گر گئے ہوئے ہیں کہ اعلیٰ ترین منصب پربیٹھے لوگوں کی آڈیوز اورویڈیوز بھی ریکارڈ ہورہی ہیںاور اُنہیں لیک کر دیا جاتا ہے۔مغربی جمہوری نظام میں بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جن کی اہمیت کو ہم تسلیم بھی کرتے اور ان سے بہت کچھ سیکھا بھی جا سکتا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ مغربی جمہوری نظام کی بنیاد اسلام سے ہی لی گئی ہے لیکن ہم نے اقتدار کو ہی مقصد بنا لیا ہے۔ حالانکہ مقصد اور طریقہ کار یہ ہوناچاہیے کہ آپ منتخب ہوکر اسمبلی میں جائیں تو لوگوں کی خدمت کریں ۔ ایسی قانون سازی کریں جس سے عوام کو فائدہ ہو اور جس مقصد کے لیے یہ ملک بنایا گیا ہے وہ پورا ہو تاکہ پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن سکے ۔