عید سعید
عیدالفطرمسلمانوں کی خوشی کا دن
مولانامحمد طارق نعمان
رمضان المبارک کامہینہ ہم سے جدا ہورہاہے ، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو رحمان کوراضی کررہے ہیںاورشیطان کی قید سے فائدہ اٹھارہے ہیں ،اس مبارک ماہ میں اللہ پاک نے جن لوگوں پر خاص انعام وفضل وکرم کیاہے وہ قابل دیدوقابل صدتحسین ہیں ۔رمضان کا مبارک ماہ اللہ پاک کی طرف سے احسان عظیم ہے جس میں عبادات کالطف وسروراور رحمتوں کانزول ہوتارہتاہے اس مبارک ماہ کے اختتام پر اورشوال ماہ کے آغاز پر اللہ پاک نے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم دن اور مقرر کیا ہے جسے عیدالفطر کے نام سے جانااور منایاجاتاہے عیدالفطر مسلمانوں کی خوشی کادن ہے عیدالفطر کی رات کوعرف عام میں چاند رات کہاجاتاہے ۔چاند رات کو فرشتوں میں خوشی کے مارے دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العزت فرماتاہے کہ بتائو، مزدور اپنی مزدوری پور ی کرچکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں اس کو پوری پوری اجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرشتو!تم گواہ رہو میں نے محمد (ﷺکی امت )کے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی۔ اسی لیے یہ رات لیلۃ الجائزہ انعام کی رات کے نام سے بھی مشہور ہے۔
ذراغور کریں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس رات میں پوری مزدوری ضائع کردیتے ہیں؟ حدیث پاک میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو شب بیداری کرے گا نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا ، جس دن اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو، ان کے رمضان کے روزے اور نمازوں کی وجہ سے میں اپنے بندوں سے خوش ہوگیا ہوں اور ان کو بخش دیا ہے۔ اور فرماتا ہے:اے میرے بندو!تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا وآخرت کی جو کچھ بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمہارا خصوصی خیال رکھوں گا اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے، تمہاری خطائوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی بزرگی اور عزت کی قسم ہے!نہ تمھیں رسوا وذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمہاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو میںنے معاف کردیا، تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی، میں تم سے راضی ہوگیا یہ اعلان اور انعام ِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پرجشن مناتے ہیں۔ روزہ اور قرآن دونوں بارگاہ الٰہی میں سفارشی حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: رمضان میں رکھنے والا روزہ اللہ کی بارگاہ میںپیش ہوگا اور رمضان سفارش و شفاعت کرتے ہوئے کہے گا:اے رب!میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوت سے دن بھر روکے رکھا تھا،اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ اس کی تائید کرتے ہوئے قرآن بارگاہِ ایزدی میں عرض کرے گا:اے رب!میں نے اسے رات کے آرام سے روکے رکھا، تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ اللہ ان دونوں کی سفارش قبول کرے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں بہتر اجر سے نوازے گا۔
درحقیقت عید ان لوگوں کی ہے جنہوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں اور اس ماہ مبارک کی تمام عبادتیں ادا کر کے اپنے دامن مراد کو نیکیوں سے بھر لیا ہے اور امتحان میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ عید ان لوگوں کی نہیں ہے جنہوں نے اس ماہ کو غفلت اور لاپرواہی میں ضائع کر دیا اور امتحان میں ناکام ہو گئے۔ کسی نے سچ کہا ہے : ’’عید اس کی نہیں جس نے نئے اور زرق برق لباس پہن لیے،عید اس کی ہے جو اللہ کی وعید سے ڈرگیا‘‘۔ یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھ کر متقی اور پرہیزگار بن گیا اور ایفائے عہد وذمہ داری کے امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وطیرا ہے کہ ان کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اسے کبھی فنانہیں۔ جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے۔اللہ تعالیٰ سورہ محمد ؐ میں فرماتے ہیں:’’اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔‘‘
عید کی مسرت اور خوشی یقیناً ان لوگوں کو زیادہ ہوگی جنہوں نے روزوں کا احترام اور قیام اللیل کیا ۔اللہ والے عید کے دن بھی آنسو بہاتے ہیں اور رب کو مناتے ہیں ۔ ایک مرتبہ عید کے دن لوگ خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم h کے کاشانہ خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں، لوگوں نے تعجب سے عرض کیا، یا امیر المؤمنین !آج تو عید کا دن ہے، آج تو شادمانی و مسرت اور خوشی منانے کا دن ہے، یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا ؟ آپ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا: اے لوگو !یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے، آج جس کے نماز روزہ مقبول ہوگئے، بلاشبہ اس کے لیے آج عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز روزہ کو مردود کرکے اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اس کے لیے تو آج وعید ہی کا دن ہے اور میں تو اس خوف سے رو رہا ہوں کہ آہ !مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہوں یا رد کر دیا گیا ہوں۔ یہ وقت کے امیرالمؤمنین تھے جن کے ان جملوں نے ہر مسلمان کو تڑپا کر رکھ دیا کہ مسلمانو! اپنے اعمال پہ نہ اترائو بلکہ اعمال کی قبولیت کے لے دامن کو بھی پھیلائو۔ اللہ پاک اس ماہِ مبارک میں کی جانے والی ہماری تمام عبادات کو قبول ومنظور فرمائے اور عید کے دن کی خوشیاں ہمیں نصیب فرمائے! (آمین یارب العالمین )
tanzeemdigitallibrary.com © 2024