(منبرو محراب) مغفرت بذریعہ توبہ،اسلام اورقرآن - ابو ابراہیم

9 /

مغفرت بذریعہ توبہ،اسلام اورقرآن

(سورۃ الزمر کی آیات : 53تا 55 کی روشنی میں )

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ،کراچی میں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 7اپریل 2023ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

مرتب: ابو ابراہیم

 

خطبہ مسنونہ اورتلاوت آیات کے بعد !
رمضان کا مہینہ رحمت ، مغفرت اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم اپنی بخشش کے لیےاللہ سے رجوع کریں ، سچی توبہ کریں  اورقرآن سے اپنا تعلق جوڑ لیں۔ اس حوالے سے سورۃ الزمر کی تین آیات میں تین انتہائی اہم باتیں بیان ہوئی ہیں۔ آج ہم ان تین باتوں کو جاننے کی کوشش کریں گے ۔ ان شاء اللہ پہلی آیت میں فرمایا : 
{قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(53)}(الزمر) ’’(اے نبیﷺ!)آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔یقیناً وہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
مفسرین نے اس آیت کو قرآن حکیم کی سب سے زیادہ امید افضا آیت قرار دیا ہے کہ جس میںاللہ اپنے حبیب ﷺ کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کر رہا ہے کہ جو کوئی گناہ کر چکے ہیں تو وہ مایوس نہ ہو جائیں ، اللہ تعالیٰ چاہے توسارے گناہوں کو معاف فرما دے ، بے شک وہ بہت بخشنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ(16)}(البروج) ’’وہ جو ارادہ کر لے ‘ کر گزرنے والا ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
{لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ }(الانبیاء:23) ’’وہ جو کچھ کرتا ہے اُس سے جوابدہی نہیں ہو سکتی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں یوں بھی ارشاد فرمایا :
{کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَلا} (الانعام:54) ’’تمہارے ربّ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے ‘‘
حدیث مبارک کا حاصل ہے ۔ اللہ فرماتا ہے :
((سبقت رحمتی علی غضبی)) ’’میری رحمت میرے غضب پر حاوی آ گئی ہے۔‘‘
اللہ کے رسول فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے فرمائے ایک حصہ اللہ نے مخلوق کو دیا ہے اور 99حصے اپنے پاس رکھے ۔ مخلوق میں تمام مخلوقات شامل ہیں ۔ چنانچہ روایت میں ذکر ملتا ہے کہ ایک گھوڑی بھی جبpregnant ہوتی ہےتووہ بھی احتیاط سے قدم رکھتی ہے کہ حمل میں پرورش پانے والے بچے کو تکلیف نہ پہنچے ۔یہ شفقت بھی اللہ کی رحمت کے سو میں سے ایک حصے کا ظہور ہے۔ انسان کے تو کس قدر رشتے ہیں ۔ ماں ، باپ، بہن بھائی ، بیوی بچے ،تما م رشتوں کے اندر اللہ نے جو محبت ، شفقت اور رحم رکھ دیا ہے تو یہ سب اللہ کی رحمت کے سو میں ایک حصہ کا ظہور ہے ۔ اندازہ کیجئے کہ جس رب نے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہوں گے اس کی رحمتوں کا عالم کیا ہوگا۔ اسی لیے خدارا اللہ تعالیٰ کو underestimate نہیں کرنا چاہیے۔لہٰذا
پہلی بات : مایوس نہ ہونا :
حدیث میں آتا ہے تمہارے گناہ آسمان تک کیوں نہ پہنچ جائیںتو اللہ کو کوئی پرواہ نہیں ہے البتہ شرک نہ کرو ۔ باقی تمام گناہ اللہ چاہے تو معاف کر دے گا۔ البتہ شرک کے لیے توبہ ضروری ہے ۔ یہ ذراایک حساس نقطہ ہے، سورہ نساء کی آیت48 اور سورہ نساء کی آیت116 میں یہ بات آئی ہے:
’’اور یقیناً اللہ اس بات کو ہرگز نہیں بخشے گا کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے‘اوراس سے کم تر جو کچھ ہے وہ جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔‘‘
مراد یہ ہے کہ بقیہ گناہوں کو اگر اللہ چاہے گا تو بغیر توبہ کے معاف فرما دے گالیکن شرک کو توبہ کے بغیر معاف نہیں کرے گا ۔ یعنی توبہ اتنا بڑا عمل ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ شرک جیسے بڑے گناہ کو بھی معاف کر دے گا۔ بشرطیکہ توبہ سچی ہو۔ اس کی تفصیلی روایات میں جائیں تو حضرت وحشی ؓجنہوں نے حضرت امیرحمزہh کو شہید کیاتھا جب ایمان لائے تو رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ میں نے شرک بھی کیاہے اوراسداللہ واسد رسولہ (اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے شیر )کو میں نے شہید بھی کیا تھا،کیامیری بھی معافی ہوجائے گی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:توبھی توبہ کرلے اوراسلام قبول کرلے تیری بھی توبہ قبول ہوجائے گی ۔
سورۃیوسف میں ارشاد ہوتاہے:
{اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ (87)} ’’یقیناً اللہ کی رحمت سے مایوس تو بس کافر ہی ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے بخشش کی امید رکھناہمارے ذمہ فرض ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوناکفرہے۔ اللہ تعالیٰ  سارے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ لیکن گناہوں کی معافی کے لیے توبہ ضروری ہے اوراس رجوع اورپلٹنے کا حاصل جھک جانا بھی ہے جوکہ اسلام کی روش ہے ۔یہ بات اگلی آیت میں آ رہی ہے۔
دوسری بات: اسلام
{وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(54)} ’’اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو‘ اور اُس کے فرمانبردار بن جائو‘اس سے پہلے کہ تم پر عذاب مسلّط ہوجائے ‘پھر تمہاری کہیں سے مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘(الزمر :54)
سچی توبہ کے لیے زیر مطالعہ آیات میں اگلی بات بیان کر دی گئی کہ اپنے رب سے رجوع کرو اور اسلام لے آؤ یعنی اپنے رب کی فرمانبرداری اختیار کرو۔ یہ نہیں کہ رمضان کے جمعہ میں دو آنسو بہا لیے اور اس کے بعد فارغ ہوگئے ۔ رجوع اور توبہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ بقیہ زندگی میں اللہ کی فرمانبرداری کی جائے۔ اللہ کی رحمت توٹھاٹھیں مارتے سمندر کی مانند ہے مگر تم اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کے مستحق تو بناؤ ۔ پھر اس کی شان کریمی دیکھو ، سورہ فرقان میں ذکرآتاہے کہ:
{فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ط} (آیت:70) ’’تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔‘‘
توبہ کے تقاضوں میں یہ بھی شامل ہے کہ حقوق العباد کے حوالے سے جوکوتاہیاں ہوئی ہیں ان کی بندوں سے معافی مانگی جائے اور ان کا حق اداکیا جائے مگر رحمت کے بیان میں ذکر ہو رہا ہے کہ سچی توبہ لے کر آؤ تو صرف معافی ہی نہیں ہے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو نیکی میں بھی بدل دے گا۔ اللہ تو تیارہے۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
’’تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں۔‘‘(سنن الترمذی)
توبہ روح کا غسل ہے جس طرح جسم کا غسل کرنے سے بندہ پاک صاف ہو جاتا ہے ، اسی طرح سچی توبہ سے انسان کی روح پاک صاف ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(53)}’’یقیناً اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ یقیناً وہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
بڑے سے بڑا کافر ،بڑے سے بڑا مشرک سچی توبہ لے کر آ جائے تو اللہ معاف فرما دے گا ۔ اللہ کے رسول نے فرمایا اسلام کو قبول کر لینا پچھلے سارے گناہوں کو مٹا دیتاہے۔ مسلمان بھی اگر سچی توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ توبہ کی کچھ شرائط بھی ہیں ۔ دل میں ندامت کے جذبات بھی ہوں کہ میں نے اللہ کو ناراض کیا ہے، میں نے اللہ کے احکامات کو توڑا ہے،اس ندامت کا اظہار آنکھوں سے بھی ہو، آنسوؤں سے بھی ہو ،حدیث میں آتا ہے کہ دوقطرے اللہ کو بڑے پسندہیں ۔ ایک اللہ کے خوف سے بہنے والا آنسو کا قطرہ اور دوسرا اللہ کی راہ میں بہنے والا خون کا قطرہ ۔
اللہ تو ہر وقت معاف کرنے کو تیار ہے مگر ہم اس قابل تو بنیں ۔ خاص طور پر رمضان کا دوسرا عشرہ مغفرت کا عشرہ ہے ، ہمارے پاس بہترین موقع ہے کہ اپنی بخشش کے لیے اپنا احتساب کریں ، جو گناہ کیے ہیں ان پر نادم بھی ہوں اور اللہ سے رو رو کر گناہوں کی معافی بھی مانگیں ۔ پھر سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری اختیار کریں اور قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ پھر یہ کہ اگرحقوق العباد پامال ہوئے ہیں تو معافی بھی مانگنی پڑے گی اور حق بھی ادا کرنا پڑے گا ۔ یہ انفرادی سطح کی توبہ کے لیے ضروری ہے ۔ بخش کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنا اور اللہ کا فرمانبردار بننا ضروری ہے ۔ اسی لیے فرمایا:
’’اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو‘ اور اُس کے فرمانبردار بن جائو‘اس سے پہلے کہ تم پر عذاب مسلّط ہوجائے ‘پھر تمہاری کہیں سے مدد نہیں کی جائے گی۔ (الزمر :54)
اللہ چاہتا ہے تم میںبخش کی طلب تو ہو، تڑپ تو ہو۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
{وَیَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ(13)} (الشوریٰ)’’اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔‘‘
تم میں رجوع کا جذبہ تو پیدا ہو ۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ابو لہب رسول اللہﷺ کا چچا بھی تھا ، پڑوسی بھی تھا، اسے قرآن کی زبان بھی آتی تھی، حضور ﷺاس کو خود قرآن پڑھ کر سناتے ، اس کے پاس کتنا سنہرا موقع تھا مگر بدقسمت تھا کہ دل میں حق کی طلب نہیں تھی ، اللہ تعالیٰ سے رجوع کی تڑپ نہیں تھی ، نامراد ٹھہرا ۔ اس کے برعکس حضرت سلیمان فارسی ؓ ایک مشرک گھرانے میں پیدا ہوئے جو آگ اور بتوں کی پوجا کرتا تھا ، لیکن آپ میں حق کی طلب تھی ، اللہ تعالیٰ سےرجوع کی تڑپ تھی ، فارس سے چلے ، ملکوں ملکوں کا سفر کیا ، کبھی ایک راہب ، کبھی دوسرے ، کبھی تیسرے سےحق کی تلاش میں ملے ، آخری راہب نے کہا کہ کھجور والی زمین میں اللہ کے آخری پیغمبر کا ظہور ہونے والا ہے وہاں چلے جاؤ۔ سلیمان یہی تڑپ لیے مدینہ پہنچے اوراسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے ۔ محمد مصطفیٰ ﷺنے فرمایا کہ سلمان ہمارے اہل بیت میں شامل ہے۔ اللہ اکبر۔ اسی طلب اور تڑپ کی اللہ کے ہاں قدر ہے ۔ سورہ شوریٰ (آیت:13)میں اللہ فرماتا ہےجو بندہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو اللہ اُسے ہدایت دے دیتا ہے ۔
یہ رمضان ہمارے دلوں کو نرم کرنے کے لیے آیا ہے ، روزہ کا مقصد یہ ہے کہ ہمار ے اندر رب کا خوف ، تقویٰ پیدا ہو ۔ اگر اس کے باوجود بھی ہمارے دل نرم نہیں ہوئے ، دلوں میں خدا کا خوف پیدا نہیں ہوا ، گناہوں پر شرمندگی محسوس نہیں ہورہی ، اپنے رب سے ملنے کی طلب اور تڑپ پیدا نہیں ہورہی تو پھر ہمیں اپنے آپ پر ترس کھانا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :میرابندہ مجھے دل میں یاد کرے، میں دل میں یاد کرتا ہوں ، کسی مجلس میں یاد کرے میں اسے اس سے بہترمجلس میں یاد کرتاہوں۔میرا بندہ ایک بالشت میری طرف آئے میں ایک ہاتھ بھر اس کی طرف آتا ہوں، میرا بندہ ایک ہاتھ بھر میری طرف آئے میں دو ہاتھ بھر اس کی طرف آتاہوں میرا بندہ چل کر میری طرف آئے میں دوڑ کر اس کی طرف آتا ہوں ۔ (صحیح بخاری)
ہم چاہتے ہیں کہ اللہ ہمیں معاف کردے تو ہمیں دوسری شرط پر پورا اُترنا ہوگا : 
{وَاَسْلِمُوْا } ’’ اور اُس کے فرمانبردار بن جائو‘۔
یعنی مسلم ہو جاؤ ۔ ہم سمجھتے ہیں بس کلمہ پڑھ لیا تو اسلام میں داخل ہوگئے ، رمضان میں تھوڑی محنت کرلی تو اسلام پورا ہوگیا۔ ہرگز نہیں ۔ کلمہ بھی ضروری ہے، ایمانیات بھی ضروری ہیں، عبادات بھی ضروری ہیں مگر زندگی کے ہر گوشہ پر اللہ کے دین کو غالب کرنا بھی ضروری ہے ۔ دین جہاں عبادات کی تعلیم دیتا ہے وہاں معاملات ، اخلاقیات ، حقوق العباد ، سیاست ، معیشت ، معاشرت کی تعلیم بھی دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص}(البقرہ:208) ’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
اللہ چاہتا ہے کہ ہماری انفرادی زندگی ، ہمارے گھر ، ہماری مارکیٹوں ، عدالتوں ، سیاست کے ایوانوں سمیت ہر جگہ اسلام نافذ ہو ۔ اللہ کی رحمت کا مستحق بننے کے لیے پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونا ضروری ہے ۔ اپنے وجود پر میرا اختیار ہے تو یہاں فوراً اسلام کو نافذ کروں ، پھر اپنے گھر میں میرا جتنا اختیار چلتا ہے اس کے مطابق شریعت کے احکام پر عمل درآمد کی کوشش کروں ، پھر معاشرے میں دعوت بھی دوں ۔ پھر اس بندگی والےنظام کو غالب اور قائم کرنے کی جدوجہد کرنا بھی دین میں شامل ہے ۔ خطائیں ہر انسان سے ہوتی ہیں لیکن توبہ کا دروازہ بھی ہروقت کھلا ہے ۔ اللہ رحیم ہے، رحمان ہے مگر اللہ کی رحمت کے مستحق بننے کے لیے طلب و تڑپ بھی پیدا کرنی پڑے گی، رجوع بھی کرنا پڑے گا، سچی توبہ بھی کرنی پڑے گی اور پھر اس کا اظہار پورے کے پورے اسلام پر عمل سے بھی ہونا چاہیے ۔
تیسری بات : قرآن کی پیروی
{وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(55)} (الزمر) ’’اور پیروی کرو اس کے بہترین پہلو کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے‘اس سے پہلے کہ تم پر عذاب اچانک آ دھمکے اور تمہیں اس کا گمان تک نہ ہو۔‘‘
قرآن کی اتباع کرو جواللہ کا بہترین کلام ہے اور اللہ نے اپنی رحمت کے طفیل عطا فرمایا سورہ یونس میں فرمایا:
{قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ} (آیت:58)’’ (اے نبیﷺ!ان سے )کہہ دیجیے کہ یہ ( قرآن) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے‘‘
سورۃ رحمٰن کے شروع میںفرمایا:
{اَلرَّحْمٰنُ (1)عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (2)} ’’رحمٰن نے‘قرآن سکھایا ۔‘‘
یہ قرآن اللہ کی رحمت کا سب سے بڑا مظہر ہے جو رحمت اللعالمین محمد مصطفیٰ کریم ﷺ کے ذریعے سے عطا کیا گیا ۔اللہ کی رحمت کے مستحق بننا چاہتے ہو تو قرآن کی
اتباع کرو ۔ اگرچہ محض سننے یا تلاوت کرنے کا بھی ثواب ملے گا مگر اس سے آگے بڑھ کر {ھدی للناس } قرآن لوگوں کے لیے ہدایت ہے ۔
اس سے ہدایت حاصل کی جائےاور جو ہدایت حاصل ہواس کو محض تقریر و بیان تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس پر عمل کیا جائے۔ اماں عائشہ kسے پوچھا گیا حضورﷺ کے اخلاق کیا ہیں ۔ فرمایا : اللہ کے رسول تو مجسم قرآن ہیں ۔ قرآن کی عملی شکل دیکھنی ہو تو حضورﷺ کی سیرت میں دیکھو ۔
آج اس معاشرے میں کرکٹ کے دھندے نظرآجاتے ہیں، اپنے مفادات کا بچایا جانا نظر آ جاتا ہے، فلمیں، ڈرامے، ناچ گانے نظر آ جاتے ہیں، مغربی تہذیب، دجالی تہذیب میں مبتلا ہو کر اس کی رسومات کو اختیار کرنا نظر آ جاتا ہے، مگر قرآن چلتا پھرتا نظرنہیں آرہا۔ الا ماشاء اللہ ۔ فرمایا:
{اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ(13) وَّمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ(14)} (الطارق) ’’یہ (قرآن) قولِ فیصل ہے۔اوریہ کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے۔‘‘
کوئی ایسی شے نہیں ہے جس کو تم نظر انداز کر دوبلکہ یہ فیصلہ کن کلام ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ))’’اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعے سے کچھ قوموں کو بامِ عروج تک پہنچائے گا اور اسی کو ترک کرنے کے باعث کچھ کوذلیل و خوار کر دے گا۔‘‘(مسلم شریف)
آج اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر نمازیوں پر ظلم و ستم کر رہی ہے ۔ مسلم حکمران بیانات سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتے ۔ آج امت اپنی ذلت کا تماشا خود دیکھ رہی ہے ۔ اسی قرآن کی وجہ سے اس اُمت کو عروج ملاتھا اور اسی قرآن کو چھوڑ دینے کی وجہ سے آج دنیا میں ذلیل ہو رہی ہے ۔ یہ دنیا کی ذلت ہے جو عارضی ہے لیکن آخر ت جو مستقل زندگی ہے وہاں بھی دو ٹوک بات قرآن کی ہوگی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((القرآن حجۃ لک او علیک)) یعنی یہ قرآن یا تو تمہارے حق میں حجت ہو گا یا تمہارے خلاف حجت ہو گا۔
ہم چاہتے ہیں کہ روز قیامت قرآن ہماری شفاعت کرے لیکن اگر قرآن ہمارے خلاف گواہ بن کر کھڑا ہوگیا تو کیا ہوگا ؟ نبی کریم ﷺ شکایت لے کر کھڑے ہوگئے تو کیا ہوگا ؟ سورہ فرقان میں فرمایا:
{وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا(30)} ’’اور رسولؐ نے کہا (یا رسول کہے گا): اے میرے پروردگار !میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ ی ہوئی چیز بنا دیا۔‘‘
سب سے بڑھ کر اگر خود اللہ ہی بندے کے خلاف کھڑا ہوجائے تو پھر کیا انجام ہوگا ؟
’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقیناً اُس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی‘اورہم اٹھائیں گے اسے قیامت کے دن اندھا (کرکے)۔وہ کہے گا: اے میرے پروردگار! تُو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ہے‘ جبکہ مَیں (دنیا میں) تو بینائی والا تھا۔اللہ فرمائے گا کہ اسی طرح ہماری آیات تمہارے پاس آئیں تو تم نے انہیں نظر انداز کر دیا‘ اور اسی طرح آج تمہیں بھی نظرانداز کر دیا جائے گا۔‘‘(سورۃ طہٰ:124تا126)
تمہارے پاس میری کتاب کے لیے وقت نہیں تھا، آج میرے پاس تمہارے لیے اپنی رحمت میں سے کچھ نہیں ہے ۔استغفراللہ! لہٰذا ا س قرآن کو ہلکا نہ لیا جائے ۔ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ قرآن کا صرف پڑھنا سننا کافی نہیں، سمجھنے اور ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور پھر اس کے احکام پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔ اجتماعی سطح پر اس کے مطابق نظام کے قیام کی جدوجہد کرنا بھی ضروری ہے ۔ سورۃ المائدہ میں فرمایا:
’’(اے نبی ﷺ) کہہ دیجیے: اے کتاب والو تم کسی چیز پر نہیں ہو‘جب تک تم قائم نہ کرو تورات اور انجیل کواور جو کچھ نازل کیا گیا ہے تم پرتمہارے رب کی طرف سے۔‘‘ (آیت :68)
آج تورات validکتاب نہیں ہے آج قرآن valid کتاب ہے ،اگر آج ہم قرآن کے احکام کو نافذ نہیں کر رہے تو ہماری بھی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کشکول اور غلامی ہمارا مقدر بن چکی ہے ۔ زیر مطالعہ آیات میں فرمایا :
{وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(55)}’’اور پیروی کرو اس کے بہترین پہلو کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے‘اس سے پہلے کہ تم پر عذاب اچانک آ دھمکے اور تمہیں اس کا گمان تک نہ ہو۔‘‘
آج ہم پر اچانک کوئی نہ کوئی عذاب ، کوئی نہ کوئی آفت آن پڑتی ہے تو اس کی اصل وجہ یہی ہے جو قرآن بتا رہا ہے ۔ لہٰذا توبہ اور رجوع کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن کی اس بات پر توجہ کریں اور جو اللہ نے کتاب اُتاری ہے اس سے اپنا تعلق جوڑیں ، اس کو پڑھیں،  سمجھیں اور اس کی پیروی کی کوشش کریں ۔ تنظیم اسلامی ، انجمن ہائے خدام القرآن کے زیر اہتمام پورے پاکستان میں دورہ ترجمہ قرآن مع تراویح کا اہتمام ہر سال کیا جاتاہے ۔ کوشش کریں شرکت کریں ۔ تفصیلات ہماری ویب سائٹس پر آپ کو مل جائیں گی ۔ رمضان کے بعد بھی دروس قرآن کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اس کی تفصیل بھی ہماری ویب پر مل جائے گی ۔
زیر مطالعہ آیات میں مغفرت کا پورا package ہےجس میں تین چیزیں ہیں کہ اگر گناہ کر بیٹھے ہو تو مایوس نہ ہو بلکہ اللہ سے رحمت اور بخشش کی دعا کرو۔ (2)رب سے رجوع کرو اس کے فرمانبردار بن جاؤ۔یعنی پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ (3)۔قرآن کی پیروی کرو۔یعنی اسلام کو نافذ کرو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین