(اداریہ) عید آزاداں یا عیدِ محکوماں - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

عید آزاداں یا عیدِ محکوماں

قرآن پاک سے یہ ثابت ہے کہ اللہ رب العزت نے انسانی ارواح کو جسد عطا کرنے سے پہلے ان کا ایک اجتماع کیا اور ان سے پوچھا :’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے اجتماعی طور پر اقرار کیا اور کہا ’’کیوں نہیں‘‘۔ یعنی حضرت آدمdسے لے کر اس دنیا میں آنے والے آخری انسان نے عالمِ ارواح میں یہ اقرار کیا تھاکہ اللہ ہی اس کا رب ہے ۔ رب عربی میں مالک کو کہتے ہیں۔ گویا پوری انسانیت اللہ کی اقرارکردہ اور تسلیم شدہ غلام ہے ۔ اللہ نے اس روح کو جسددے کر اس فانی دنیا میں بھیجا تو اس اقرار کی یاد دہانی کے لیے اور اسے تازگی بخشنے کے لیے ان ہی بندوں میں سے کچھ کو اپنے نمائندے کی حیثیت سے بھیجا، تاکہ بندگی ٔرب کے شعور سے بہرہ ور بندوں کو آدابِ غلامی کے صحیح طریقے سکھائے جائیں۔ یہ خصوصی نمائندے انبیاء اور رسل کہلائے۔ ان میں سے بعض کو صحیفے اور کتابیں دے کر بھیجا گیا۔ ان انبیاء اور رسل نے انسانوں کو کس نوعیت کی دعوت دی اور الہامی صحیفے اور کتابیں کیا پکار پکار کر کہتی رہیں، ان کا خلاصہ اور نچوڑ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو وہ یہ ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ ساری کائنات کا خالق‘ مالک‘ رازق‘ پروردگار اور مشکل کشا صرف اللہ ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کا نہ کوئی ساجھی، کوئی ہمسر ہے نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا ہے۔ انسان سب برابر ہیں۔ کسی گورے کو کسی کالے پر او رکسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل نہیں البتہ فضیلت کی بنیاد تقویٰ ہے۔ کسی انسان کو دوسرے انسان کا مالی‘ جانی‘ معاشرتی اور سیاسی استحصال کرنے کی اجازت نہیں۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانوں کو احکاماتِ الٰہی اور انبیاء و رسل کے ذریعے لاگو کی گئی شریعت یعنی قانون اور ضابطے کا پابند ہونا ہو گا۔ لیکن انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے انسان نے بالعموم باغیانہ روش اختیار کی۔ اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے خدائی اختیارات اپنے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہر فرعون ‘ نمرود‘ ہٹلر اور بش کو عارضی کامیابی کے بعد ابدی ناکامی ہوئی اور عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے، لیکن کسی نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ ان میں سے ہر ایک نے انسانی حقوق غصب کرنے اور انسانوں کا استحصال کرنے کے لیے ایک جیسے بھی اور مختلف حربے بھی استعمال کیے، لیکن ناکامی ان سب کا مقدر بنی۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان انسان کے زرخرید غلام ہوتے تھے۔ غلام کی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بھی اپنے اِس مالک کے لیے وقف ہوتی تھیں حتیٰ کہ وہ اس کی جان کا مالک بھی ہوتا تھا۔ اگر کوئی مالک اپنے غلام کو قتل بھی کر دیتا تو یہ اس کا حق سمجھا جاتا تھا۔نبی اکرمﷺ کے دور مبارک میں غلامی کی تمام قسموں کو ختم کر دیا گیا سوائے جنگی قیدیوں کے، ان کی رہائی اور آزادی کے بھی کئی طریقے مقرر کر دیے گئے۔ پھر یہ کہ ان سے حُسنِ سلوک کی جس طرح اور جتنی تاکید کی گئی یہ کہا جا سکتا ہے کہ غلامی کا پرانا تصور ایک طرح ختم ہوگیا۔خلافت نے جب بادشاہت اور شہنشاہیت کا لبادہ اوڑھ لیا تو اقتدار اورکشورکشائی کی ہوس نے ریاستوں اور ممالک کوغلام یا باجگزار بنانے کی راہ دکھائی۔ جس کی ہندوستان میں مغل‘ تغلق اور لودھی وغیرہ واضح مثالیں ہیں۔
غیر اسلامی دنیا پہلے ہی ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کی قائل تھی۔ سترہویں صدی عیسوی میں دنیا بھر میں مسلمانوں کا زوال اپنے عروج پر پہنچ گیا اور تمام اسلامی ممالک بلاواسطہ یا بالواسطہ غیروں کے تسلط میں آگئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں مسلمان ممالک میں آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں اور اس صدی کے وسط تک مسلمانوں نے جانی و مالی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی۔ ہم نے ہمیشہ ان کے جوش اور جذبے کو سراہا ہے لیکن آج اگر حالات کا معروضی جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہیں کہ مسلمان اگر آزادی حاصل کرنے اور غیروں کو اپنے ملکوں سے نکالنا چاہتے تھے تو غیر بھی اندازِ حکمرانی کو بدلنا اپنے لیے ناگزیر سمجھنے لگے تھے۔ بات کو اگر کھول کر بیان کیا جائے تو وہ یوں ہے کہ انیسویں صدی میں جمہوریت کے غلغلے اور بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی نے ان حکمرانوں کے لیے کچھ مشکلات پیدا کی تھیں، لہٰذا اندازِ حکمرانی بدلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ حکمرانی کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا وسائل پر جابرانہ قبضہ کرنے کے لیے پہلا کام یہ کیا گیا کہ ریاست اورمذہب کا رشتہ کاٹ دیا گیا اور ان کے راستے الگ کر دیے گئے، تاکہ کوئی اخلاقی یا ماورائی قدغن اِس تسلط کے راستے میں حائل نہ ہو سکے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور کاغذ کی کرنسی نے ان کے کام کو آسان کر دیا۔ مواصلات کی ترقی نے دنیا کو چھوٹا کر دیا تھا۔ حاصل شدہ وسائل سے میڈیا کو خریدا گیا اور نظریات کی خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ظاہر ہے، وسائل پر قابض ہونے کی وجہ سے اسی گروپ کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس حکمران گروپ نے ایک قدم اوربڑھایا اور سرمائے کو یکجا کرنا شروع کر دیا ۔ دوسرے الفاظ میں ملٹی نیشنل کمپنیاں قائم ہو گئیں اور اس سرمایہ پرست نظام کے مقابلے میں جو نظام تھے اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے ان پر حملہ آور ہوئے۔ سوشلزم اور کمیونزم اگرچہ انسانی استحصال ختم کرنے کے جھوٹے دعوے دار تھے تب بھی انہیں قبول نہیں تھے لہٰذا سوویت یونین کو نشانہ بنا کر اشتراکیت کا جنازہ نکال دیا گیا۔
یہ سرمایہ پرست گروپ باہم ضم ہوتے ہوئے اب چند بینکوں کے مالکان پر مشتمل ہے۔ یہ گروپ عالمی سطح پر بادشاہ گر بن چکا ہے اور دنیا کی حکومتوں کو کنٹرول کرتا ہے اور ان کی دفاعی قوت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسلامی نظام اگرچہ دنیامیں کسی ایک اسلامی ملک میں بھی نافذ نہیں، لیکن ایک انتہائی پرکشش اور فطری نظام تو ہے، لہٰذا تمام اسلام دشمن قوتیں مسلمان ممالک پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمان ممالک میں کسی ایسے شخص کو اقتدار کے قریب نہیں پھٹکنے دیا جاتا جو نظریاتی ہو اور اس مالیاتی غلامی سے نکلنے کی سوچ رکھتا ہو۔ اگر ایسا کوئی شخص کسی مسلمان ملک میں برسراقتدار آ بھی جائے تو اُسے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے ظاہری مسلمان حکمران ان بینک کاروں کی غلام سپر قوتوں کے غلام ہیں یعنی امریکہ اور مغرب وغیرہ ان بینک کاروں کے غلام ہیں اور مسلمان حکمران امریکہ برطانیہ وغیرہ کے غلام ہیں۔ ہمیں کسی حد تک اندرونی سطح پر آزادی حاصل ہے اور اُن معاملات میں آزادی حاصل ہے جنہیں ہمارے انیسویں صدی کے حکمران جدید دور میں اپنے لیے درد سر سمجھنے لگے تھے ۔ اور یہ بات ہمارے سامنے کھل کر سامنے آئی ہے کہ حقیقی آزادی ابھی کوسوں دور ہے۔
سابقہ آقائوں نے جسمانی قبضہ چھوڑ کر جو ان کے لیے مسائل پیدا کر رہا تھا، ذہنی اور نظریاتی قبضہ حاصل کر لیا تھا اور گزرتے ہوئے ہر دن میں اس تسلط اور قبضہ کو مستحکم کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس وقت مسلمان ممالک کی حالت کسی کی کم اور کسی کی بیش اس بیل کی سی ہے جو ہل کے آگے جتا ہوا ہے۔ اسے کھانے کو ملے گا اگر وہ فرمانبرداری سے اپنی ڈیوٹی ادا کرتا رہے گا بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بیل کو صرف زمین کے مالک کی ماننی ہوتی ہے۔ جبکہ مسلمان ممالک اس امریکہ اور یورپ کے غلام ہیں جو خود ان چند بینکاروں کے غلام ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کے لیے کٹھ پتلی کالفظ بھی غلامی کا پورا مفہوم ادا نہیں کرتا۔ عالم اسلام اپنی گردن میں پڑے غلامی کے اس پھندے سے اُس وقت تک نجات حاصل نہیں کرسکتا جب تک سرمایہ پرستوں کے اِس گروپ کے بنائے ہوئے نظام کو تہہ و بالا نہ کردے اور اُمت مسلمہ حقیقتاً وجود میں نہ آجائے اور نظام خلافت کو بحال نہ کردیا جائے۔ اُس وقت تک ہماری عید کیسی ہوگی۔ آیئے علامہ اقبال کے اس شعر پرغور کرتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم کون سی عید منانے چلے ہیں ؎
عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیں
عیدِ محکوماں ہجومِ مؤمنیں