(کارِ ترقیاتی) پنہاں ہیں جو اسرار خدا دیکھ رہا ہے! - عامرہ احسان

10 /

پنہاں ہیں جو اسرار خدا دیکھ رہا ہے!عامرہ احسان

 

عقل کی جولانیوں کو لگام دے کر ایک مہینہ مرشدِ اولین کی سپردگی میں دیے روح کی زندگی کا سروسامان فراواں کیا جاتا ہے۔ عقل ودل ونگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق، عشق نہ ہو تو شرع ودیں بتکدۂ تصورات! اللہ نے یہ دنیا یونہی الل ٹپ نہیں بنائی۔ ایک زبردست بے چوک کامل اکمل روحانی نظام ہے۔ عقیدۂ توحید رب تعالیٰ نے وعدۂ الست (دنیا میں آنے سے پہلے اللہ کے روبرو گواہیٔ حق) کے ذریعے ہر انسان کے خون کے ایک ایک قطرے اور ڈی این اے میں پیوست کردیا۔ اعلیٰ ترین تہذیب، روحانی نظامِ تعلیم وتربیت، انسانی قیادت تیار کرنے کا سامان فراواں کیا۔ انبیاء ورسل کے بعد ان کے پیغام کو آگے لے کر چلنے والی امتیں اور ان کا سال بھر سامانِ تربیت۔ ہم ایک دورۂ تربیت سے ہوکر ابھی گزرے نہیں اور آگے لبیک اللھم لبیک کی خنک پکار دھیمی دھیمی سنی جاسکتی ہے۔ اپنے مرکزِ وجود اللہ کے گھر کا طواف اور … اے خنک شہرے کہ آنجا دلبراست کی تڑپ، اہلِ دل کی زندگی میں روشنی بھر دیتی ہے!
رمضان بھرپور ساز وسامانِ تزکیہ اور ہر فرد کے لیے بقدر ہمت انعامات تحائف لٹاتا اب سمٹ چلا۔ ایک احتسابی نگاہ خود پر، اسٹاک ٹیکنگ، کیا پایا کہاں سنبھالا تاکہ سال بھر کام آسکے۔ رمضان کے پھل: تقویٰ… خداخوفی، دیکھے جانے کی فکر ہربنِ مومیں اتر آئے۔ ہر دائرۂ زندگی میں روشنی بھر دے۔ آج کی دنیا میں جا بجا انتباہی نوٹس لگا رکھتے ہیںکہ ’کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔‘ ماہِ رمضان روح کی دنیا کے قیمتی احساسات کی بیداری، قوت کا مہینہ ہے۔ نعیم صدیقی مرحوم کی کیا خوبصورت یاد دہانی اندر کی دنیا کے ہر دروازے کو کھٹکھٹاکر بے عیب بے مثال البصیر، الخبیر، العلیم دیکھنے والے کا پتا دیتی ہے: ’اے دانشِ عیار خدا دیکھ رہا ہے۔ اور پھر ہر حس کو مخاطب کرتے جاتے ہیں۔ اے خواہشِ سرشار، اے قلبِ فسوں کار، اے دیدۂ پرکار، ہنگامۂ افکار، پنہاں ہیں جو اسرار، اے مرد ریاکار، غایت گفتار، جذبۂ بیمار، کیا جیت ہے کیا ہار… خدا دیکھ رہا ہے۔‘ اور یہی غایت رمضان ہے کہ ہر حس تقوے میں بھیگ جائے۔ اللہ کا قرب، اس کی محبت، اسی کا خوف، بے عیب خالق وپروردگار کی غلامی وفرمانبرداری! اس کی کبریائی کی عظمتوں کا رویں رویں میں سما جانا اور اس کا پرچارک بن جانا۔ ولتکبروا اللہ علی ما ھداکم ولعلکم تشکرون۔ اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف اور سراپا شکرگزاری ہوجانا۔ قریب ومجیب (دعاؤں کا سننے اور جواب دینے والے) کی راہ پا جانا۔ یہ اعتماد رمضان کے شب وروز ہمارے اندر اتارتے ہیں کیونکہ ہم آج کی لاعلم روحانی جاہلیت میں ڈوبی دنیا میں حق کی واحد آواز، روشنی اور امید کی واحد کرن ہیں۔ بھولی بھٹکی دنیا کو راستہ دکھانے پر مامور انبیاء کے وارث ہمی ہیں۔ وہ راستہ ایک ہی ہے۔ باقی سب بھول بھلیوں کے بھٹکاوے ہیں۔ صراطِ مستقیم! وہ توسط اور اعتدال کی شاہراہ عظیم جس پر رب تعالیٰ خود ہے۔ ان ربی علی صراط مستقیم۔ بے شک میرا رب صراط مستقیم پر ہے۔
وہی راستہ جس کی طلب، تڑپ، تمنا قرآن کے پہلے صفحے پر رکھ دی۔ نماز کی ہر رکعت کا جزو بنا دی۔ جس پر چلنے والا، جسے پا لینے والا ہر گمراہی، غضب ناکی، رنج والم، دھوکے فریب سے بچ کر لاخوف علیھم ولاھم یحزنون میں شامل ہوجاتا ہے۔ انہیں کسی خوف اور رنج کا سامنا نہ ہوگا… دنیا وآخرت کی کامیابی کی شاہ کلید۔ قطرے برابر دنیاوی زندگی کی کلفتیں بھی چھٹ کر قلبی روحانی سکینت پائیں گی اور آگے لامنتہا بحر بے کنار سی زندگی کی ابدی بے مثل راحتیں! اسی صراط مستقیم پر محمد ﷺ اپنے پیش رو انبیاء کی نبوت کی تکمیل کا اعزاز لیے ہوئے ہیں۔ ’یٰسین۔ قسم ہے قرآن حکیم کی کہ تم یقیناً رسولوں میں سے ہو، سیدھے راستے (صراطِ مستقیم) پر ہو، غالب اور رحیم ہستی کے نازل کردہ قرآن (کے حامل)۔ (یٰسین: 1تا5)
یہ راستہ کس کا ہے، دکھا کون رہا ہے؟ ’(محمدؐ) یقیناً تم سیدھے راستے (صراطِ مستقیم) کی طرف رہنمائی کر رہے ہو، اس اللہ کے راستے کی طرف جو زمین وآسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے۔ خبردار رہو، سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘‘ (الشوریٰ: 52،53) فیصلے اللہ کے ہاں ہوتے ہیں، ہم دنیا والوں کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں! پڑھتے جائیے۔ قرآن مسلسل صراطِ مستقیم پر جب رہنمائی دیتا جاتا ہے، انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین کا عظیم راستہ، شاہراہِ کامیابی، تو اپنی خوش نصیبی پر… ہزاروں سجدے تڑپ اٹھتے ہیں جبیںِ نیاز میں! دنیا کے 7ارب انسانوں میں سے چن کر نکالے گئے دو ارب سے زائد مسلمان! مقصد ِوجود؟ حامل قرآن، وارثینِ نبوت، پوری لاعلم جہل میں غرق انسانیت کو اللہ سے جوڑکر، اس کی راہ دکھاکر ہر شعبۂ زندگی کی اصلاح۔ زمین کو جنت نظیر بنا دینا۔ یہ صرف پاکستان نہیں جو ’مخمصتان‘ بنا ہوا ہے۔ پورا گلوب ہی مخمصوں کا گہوارہ ہے۔ سرا ہاتھ نہیں آتا۔ انسان حیران ویران تاریکیوں میں ڈوبا سنسناتا پھر رہا ہے اور علاج کا آبِ حیات، آبِ نشاط انگیز لیے ہم خزانے پر سانپ بنے بیٹھے ہیں۔ ہر شعبۂ زندگی سے شر مٹاکر خیر، فساد کی جگہ اصلاح، فتنے کی جگہ سکینت بھری فلاح بھری دنیا ہمارے ذمہ ہے۔ نسخۂ شفا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ دلوں (بے تاب بیمار، مضطرب ڈیپریشن کی ماری روحوں) کے امراض کی شفا، ہدایت ورحمت، اللہ کا فضل ومہربانی، بے مثل زندگی کا نسخہ… قرآن! (یونس:57،58) رمضان اسی نصاب کی پختگی کرواتا ہے شب وروز کے اوقات میں۔ آخری دس دن رات میں۔ اس کے صفحات پر انسانیت کی مستند ترین تاریخ گویا کوزے میں بند ہے۔ خالق ومالک کی پہچان، مقصد زندگی، ہماری شناخت، زندگی کے سفر کی منزلیں اور انجام۔ معرکہ ہائے خیر وشر۔ دشمن کی پہچان۔ تہذیب وتربیت نفس۔ باثمر زندگی کا نسخہ انسانی رشتوں کو برتنے کا سلیقہ۔ حکمت ودانائی۔ بین الملی وبین الاقوامی امور پر رہنمائی، عدل وانصاف، پاکیزہ مبنی بر انصاف دولت برتنے کے اصول وضوابط۔ تقسیم دولت کے بے مثل اصول۔ انسانوں پر کامل انصاف سے رہنمائی دینے والے رب کی کتاب۔ اسے برسر زمین عمل میں لانے والا کریم نبی ورسول، انسان کامل! ’تمہارا نقصان میں پڑنا جس پر شاق ہے۔ تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے۔ ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔‘ (التوبہ: 128)
ہماری خوش نصیبی کو الفاظ کے موتیوں میں یوں پرویا گیا: یا رب تو کریمی ورسول تو کریم، صد شکر کہ ہستیم میان دو کریم! کہاں بندۂ مومن کی یہ کیفیت اور کہاں اس سے منہ موڑے سیاسی گھڑمسوں میں مارا پھرتا پاکستان۔ اللہ ہمیں ہمہ گیر رہنمائی میں (انسانی تاریخ کی روشنی میں سب دکھاکر) حکم دیتا ہے کہ جن لوگوں پر اللہ غضب ناک ہوا ان کی نافرمانیوں کی بنا پر ان سے دوستی نہ کرو۔ (الممتحنہ)، انہیں اپنا جگری دوست، رازدار نہ بناؤ… ان کے دلوں کے بغض سے ہمیں مطلع کرتا ہے اور ان کے سینوں میں چھپی دشمنی سے آگاہ کرتا ہے۔ ( آل عمران) مگر ہم ہیں کہ اسی کوئے ملامت کے طواف جاری رکھتے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ پی ٹی آئی، امریکی نائب صدر کے آگے شکوؤں کا پٹارا کھولے پاکستان کی شکایات لگا رہی ہے۔ کہیں زلمے خلیل زاد جیسے تنکے کا سہارا لے رہی ہے جو خود اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کے لائق بھی نہیں اور امریکا میں بھی بے وقعت ہو چکا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں جب مغفرت، رحمت اور فضلِ ربی کے سارے خزاے کھلے، رب پکار رہا تھا…
’’(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔ یقینا ًاللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے وہ تو غفور رحیم ہے۔ پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آ جائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سکے اور پیروی اختیار کرلو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو… الخ‘‘(الزمر: 53تا55) آیات کا تسلسل آگے تک جھنجوڑ کر رکھ دینے والا ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہروِ منزل ہی نہیں
رحمتوں بھری شاہراہ چھوڑکر اعلیٰ مناصب کے طالب (سیاست دان، عدلیہ، ہمہ نوع اشرافیہ) ہر بے فیض وادی کی خاک چھان رہے ہیں رمضان میں بھی رجوع الی اللہ سے کوسوں دور۔ اللہ نے یاد بھی دلایا: ’لوگو تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیلِ روشن آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔ اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل وکرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا۔‘ (النساء: 175) ہم، عوام الناس، اللہ کے آگے ہی گڑگڑا سکتے ہیں کہ فکن انت ولینا… بس تو ہی ہمارا والی بن جا اور ہمیں سیدھے راستے کی طرف لے جا… پاکستان پر رحم فرما! (آمین)