(دعوت فکر) رشتہ داروں کے حقوق - پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

10 /

رشتہ داروں کے حقوق

پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

رشتہ دار وہ افراد ہوتے ہیں جن کے ساتھ قریبی اورفطری تعلق ہو۔ ان میں اولیت ماں باپ اور بہن بھائیوں کو حاصل ہوتی ہے۔ یہ سب سے زیادہ حسن سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ قریبی تعلق خود اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ آپس کی محبت ان تعلقات کو مضبوط کرتی ہے۔ ماں باپ کے احسانات کا بدلہ تو انسان چکا نہیں سکتا البتہ ان کی خدمت کر کے ان کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش کر سکتا ہے۔ ماں باپ کو ناراض کرنا یعنی ان کے احسانات فراموش کر کے ان کے ساتھ برا سلوک کرنا انتہائی بداخلاقی اور بڑا گناہ ہے۔ والدین نے سالہا سال اولاد کی پرورش کی ہوتی ہے ان کی چھوٹی بڑی ضرورت پوری کی ہوتی ہے لہٰذا اُن کا حق ہے کہ ان کی خدمت کی جائے۔اس لیے قرآن مجید میں اولاد کو یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ {رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(24)}(بنی اسرائیل) ’’اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ انہوں نے مجھے چھوٹے ہوتے پرورش کیا۔‘‘
ماں باپ کے بعد بھائی بہنیں ہیں جن کے درمیان اللہ تعالیٰ نے محبت کا جذبہ پیدا کیاہے۔ اگرچہ اس فطری جذبے کے تحت ان کے ساتھ حسن سلوک آسان ہے مگر وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو خود غرضی اورلالچ کے تحت ان کے اندر دوری پیدا ہو جاتی ہے۔ اور وہ ایک دوسرے کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں جس سے نفرت بڑھتی جاتی ہے جو بڑے بڑے جرائم کا باعث بھی بنتی ہے۔ بہن بھائیوں کو سلوک اور اتفاق کے ساتھ رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم خوار ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کی ضرورت کا احساس ہونا چاہیے تاکہ زندگی حسن و خوبی کے ساتھ گزرے۔ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو صلہ رحمی کہا جاتا ہے جس کا نہ صرف دنیا کی زندگی میں فائدہ ہے بلکہ آخرت کی زندگی میں اجر عظیم ہے۔ صلہ رحمی کا متضاد قطع رحمی ہے یعنی قریبی رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات توڑنا۔ جو بہت بڑا گناہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا قطع رحمی کرنے والا جنت میںداخل نہیں ہوگا۔ جب آپؐ سے پوچھا گیا کہ اگر رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے مگر وہ اس کے جواب میںبُرا سلوک کریں تو کیا کیاجائےتو آپؐ نے فرمایا برے سلوک کے باوجود اچھا سلوک کرنا ہی صلہ رحمی ہے۔ نیکی کے بدلے میں نیکی کرنا صلہ رحمی نہیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کو یہ پسند ہو کہ اس کا رزق کشادہ ہو اور اس کی عمر لمبی ہوتووہ صلہ رحمی کرے یعنی جولوگ اللہ تعالیٰ کے فرمان کی پیروی کرتے ہوئے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں گے اور ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھیں گے اور ان کی بدسلوکی کے جواب میں اچھا سلوک کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں آخرت کی جزا کے علاوہ دنیا میں بھی جزا دے گا۔ ان کی عمروں میں برکت ہو گی اور وافر رزق کا وعدہ ہے رشتہ داروں کا آپس میںحسن سلوک خوشیاں بڑھانا اور غم کم کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نسب کی اتنی تعلیم حاصل کرو جس سے اپنے رشتہ داروں کو جان سکو۔ کیونکہ صلہ رحمی سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ مال بڑھتا ہے اورموت پیچھے ہٹتی ہے یعنی عمر لمبی ہوتی ہے۔(ترمذی) عربوں کے ہاں نسب نامے یاد کرنے کا رواج تھا۔ تاکہ قریبی رشتہ داروں کا علم رہے۔ یہ نسب نامے بچوں کو یاد کرائے جاتے تھے تاکہ آباءواجداد یاد رہیں کہ باپ دادا چچا، ماموں وغیرہ کون ہیں۔ اس طرح رشتہ داروں میں میل ملاپ جاری رہے گا اور سلوک و اتحاد کی برکات ظاہر ہوں گی۔
ہر چھوٹی بڑی بستی میں جہاں دولت مند اور خوشحال لوگ رہتے ہوں وہاں نادار اور غریب لوگ بھی ہوں گے ۔ اگروہاں کے امیر لوگ اپنے اپنے مفلس رشتہ داروں کے حقوق کا خیال رکھیں اور اپنی داد و عیش اور صدقات میں اُن کے حقوق کو یاد رکھیں تو کوئی محتاج نہیں رہے گا۔ اپنے غریب اور مسکین لوگوں کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کا دوہرا اجر ملتا ہے ایک تو انفاق کا اور دوسرا صلہ رحمی کا ۔ اس کا خیال رکھنا بڑا ضروری ہے کیونکہ اپنے کسی ضرورت مند رشتہ دار کو چھوڑ کر کسی دوسرے پرخرچ کرنا مفید نہ ہو گا۔
اگر اختلاف رائے یا کسی اور وجہ سے رشتہ داروں میں ناراضی پیدا ہو جائے تو دوسرے رشتہ دار مداخلت کر کے ان کے اختلافات دور کرنے کی کوشش کریں ان حقوق کا خیال رکھنا آپس کے اتفاق و اتحاد کا باعث بنتا ہے۔ اس سے نہ صرف دنیا میں مفاد حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے آخرت کا اجر بھی حاصل ہو گا۔
حضرت ابوطلحہh مدینے میں سب سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کا ایک باغ بیئر حاء انہیں بہت پسند تھا جو مسجد نبوی کے پاس تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ وہاں جاتے اور اس باغ کا شیریں پانی پیتے اور پھل کھاتے ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ’’ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اس شے کو(اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو جو تمہیں عزیز ہے‘‘ تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ مجھے اپنا باغ بیئرحاء سب سے زیادہ عزیز ہے میں اُسےا للہ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں۔ آپؐ جیسے مناسب سمجھیں اس میں تصرف کریں۔ آپؐ اس پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا اس کا خیرات کرنا تمہیں بہت فائدہ دے گا۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم یہ باغ اپنے رشتہ داروں کو دے دو۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے ایسا ہی کیا اور وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کرایا۔
اپنے غریب اور ضرورت مند رشتہ داروں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینا ہر گز مفید نہیں جب ام المومنین حضرت عائشہ ؓ پر بے جا تہمت لگائی گئی تو مسطح بن اثاثہ ؓ نے بھی کچھ ایسے الفاظ کہہ دئیے جس سے حضرت ابوبکر ؓ کو غصہ آیا کیونکہ وہ نہ صرف آپؓ کا رشتہ دار تھا بلکہ آپؓ اس کو مالی امداد بھی دیتے تھے۔ چنانچہ انہوں نےارادہ کیا کہ اب اس کی امداد نہ کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآنی آیت نازل کر کے حضرت ابوبکر ؓ کو تنبیہہ کی کہ وہ مسطح بن اثاثہؓ کی مالی امداد بند نہ کریں ۔ چنانچہ انہوں نے اس کی مالی امداد نہ صرف بحال کر دی بلکہ زیادہ کر دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی اختلاف کی وجہ سے غریب کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینا درست نہیں ۔ کیونکہ یہ مالی امداد اللہ کی رضا کے لیے ہوتی ہے جس کی بروقت ضرورت ہے۔
رشتہ داروں میں آپس میںکبھی ناراضی بھی ہو جاتی ہے جو آپس کے تعلقات کو متاثر کرتی ہے۔ مگر اس سے صلہ رحمی کا حق متاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ صلہ رحمی کی اہمیت تو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ایک شخص نے عرض کی حضورﷺ میرے کچھ رشتہ دار ہیں، میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں، وہ مجھ سے قطع رحمی کرتے ہیں۔ میںاُن سے حسن سلوک کرتا ہوں، وہ مجھ سے برائی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ صلہ سے پیش آتا ہوں، وہ میرے ساتھ جہالت کا سلوک کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے کہا ہے تو گویا تو انہیں گرم راکھ پنکھا رہا ہے اور جب تک تو اس پر قائم رہے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے خلاف ایک مددگار تیرے ساتھ رہے گا۔ اسی طرح جب آپؐ سے کسی نے شکایت کی کہ میرے رشتہ دار مجھ سے بُرا سلوک کرتے ہیں جبکہ میں اُن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہوں تو اس پر آپؐ نے فرمایا کسی کے حسن سلوک کے جواب میں حسن سلوک کرنا تو اچھا ہے لیکن قابل قدر حسن سلوک وہ ہے جو اُس شخص کے ساتھ کیاجائے جو بدسلوکی کرتا ہو۔
یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ دوسروں کی طرف سے بدسلوکی کو تو محسوس کرتا ہے مگر کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ اپنے عمل کا جائزہ لے کہ اس کا اپنا سلوک کیا ہے۔ اگر انسان اس سلسلہ میں اپنا محاسبہ کرے تو یہ خیال اس کی اصلاح کا باعث بن جائے گا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی دوست کو بھائی بنا لیتا ہے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے حالانکہ اس کا حقیقی بھائی اس کے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے بھائی تو وہی ہوتا ہے جو ماں جایا؟ ہو۔ ہر کسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اچھا ہے مگر رشتہ دار کو اس سلسلہ میں نظر انداز کرنا مستحسن نہیں۔ بد سلوکی تو کسی کے ساتھ اچھی نہیں خواہ وہ اپنا ہو یا پرایا۔ واقف ہو یا ناواقف ۔ کسی دوست کو بھائی بنا لینا یا کسی عزیزہ کو بہن بنا لینا صرف منہ کی باتیں ہیں۔ حقوق کی ادائیگی صرف رشتہ داروں کے لیے لازم ہے۔