رمضان المبارک کے بعد بھی نیکیاں جاری رہنی چاہئیں
مولانا ندیم احمد
ماِہ رمضان المبارک سراپا خیر و برکت ہے۔ اس کے اہتمام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کو گیارہ مہینوں تک سجایا جاتا ہے اور اس مبارک ماہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت بارش کی طرح برستی ہیں۔ شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور ہر طرف نیکیوں کا ماحول ہوتا ہے، جس کے چلتے ہر ایمان والے کے لیے نیک عمل کرنا سہل بلکہ سہل ترین ہو جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ جیسے ہی یہ مبارک ماہ ختم ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے پھر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ جو یقیناً کم ہمتی کی علامت اور سخت محرومی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی زندگیوں میں بار بار رمضان المبارک عطا فرمائے اور اس سے مستفید ہونے کی توفیق سے بھی نوازے اور پوری زندگی محرمات سے اجتناب اور طاعت کا اہتمام نصیب فرمائے۔ آمین
روزوں کا مقصودِ اصلی
ارشاد ربانی ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی و پرہیزگار بن جائو۔‘‘(البقرۃ:183)
معلوم ہوا کہ روزوں کا مقصوِد اصلی تقویٰ کا حصول ہے۔ لہٰذا ایک مہینے مسلسل روزے رکھنے کے بعد بھی اگر ہمارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا نہ ہو تو یہ بات مناسب نہیں۔
ماِہ رمضان کی سچی قدر دانی
رمضان المبارک کی سچی قدر دانی یہ ہے کہ نیک اعمال پر اس کے بعد بھی مداومت و استقامت اختیار کی جائے۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ آپ لوگ ڈرو نہیں اور غمگین نہ ہو اور خوشیاں منائواس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔‘‘ (حٰم السجدہ)
استقامت کی تعریف
پہلے جز کو لفظ استقامت سے تعبیر فرما کر ارشاد ہوا:{ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا} یعنی جن لوگوں نے سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو اپنا رب یقین کرلیا اور اس کا اقرار بھی کرلیا۔ یہ تو اصل ایمان ہوا، آگے اس پر مستقیم بھی رہے، یہ عمل صالح ہوا۔ اس طرح ایمان اور عمِل صالح کے جامع ہوگئے۔ لفظ استقامت کی تفسیر حضرت صدیق اکبرؓ سے منقول ہےکہ ایمان وتوحید پر قائم رہے، اس کو چھوڑا نہیں۔اور تقریباً یہی مضمون حضرت عثمان غنی ؓ سے منقول ہے۔ انہوں نے استقامت کی تفسیر اخلاص عمل سے فرمائی ہے۔ اور حضرت فاروق اعظم ؓ نے فرمایا کہ ’’استقامت یہ ہے کہ تم اللہ کے تمام احکام، اوامر اور نواہی پر سیدھے جمے رہو، اس سے ِادھر ُادھر راِہ فرار لومڑیوں کی طرح نہ نکالو‘‘۔اس لیے علما نے فرمایا کہ استقامت تو ایک لفظ مختصر ہے مگر تمام شرائِع اسالمیہ کو جامع ہے جس میں تمام احکامِ الٰہیہ پر عمل اور تمام محرمات و مکروہات سے اجتناب دائمی طور پر شامل ہے۔
تفسیر کشاف میں ہے کہ انسان کا ربنا کہنا جبھی صحیح ہوسکتا ہے جب کہ وہ دل سے یقین کرے کہ میں ہر حال اور ہر قدم میں اللہ تعالیٰ کی زیِرتربیت ہوں۔ مجھے ایک سانس بھی اس کی رحمت کے بغیر نہیں آسکتا اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان طریِق عبادت پر ایسا مضبوط و مستقیم رہے کہ اس کا قلب اور قالب دونوں اس کی عبودیت سے سِرمو انحراف نہ کریں۔حضرت علی اور ابن عباسiنے استقامت کی تعریف اداے فرائض سے فرمائی ۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں جن نیک اعمال کی توفیق مرحمت فرمائی تھی، ان پر ہمیں رمضان کے بعد بھی جمے رہنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے۔
رمضانی مسلمان
رمضان المبارک میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکیوں کی ایک خوش گوار فضا قائم تھی، اب وہ مبارک و مسعود زمانہ گزر گیا لیکن یہ اس کی ناقدری ہوگی کہ عید کی خوش خبری ملتے ہی رمضان المبارک کے درس کو بھلا دیا جائے۔اگر ایسا ہوا تو یہ ہمارے لیے خوشی نہیں بلکہ ڈرنے کا مقام ہے۔ جس میں نمازوں کی پابندی ختم اور قرآن مجید سے دوری پیدا ہو جائے اور ذکر و اذکار سے غفلت ہو۔رمضان المبارک کے گزرتے ہی عبادتوں سے دور اور گناہوں پر دلیر ہو جانا گویا اس بات کی علامت ہے کہ ہم رمضان کی برکات سے کچھ حاصل نہیں کر پائے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو مسلمان رمضان المبارک کی سنت و نفل نماز تراویح میں ایک ڈیڑھ گھنٹے کھڑے رہتے تھے، وہ رمضان کے گزر جانے پر فرض نمازوں کے لیے دن رات میں کل ملا کرایک ڈیڑھ گھنٹہ نہیں نکال پاتے۔ ہمارے اس رویے کی وجہ سے اگر کوئی ان معمولات کو موسمی بخار یا ہمیں رمضانی مسلمان سے تعبیر کرے تو اس سے بڑی بد قسمتی و محرومی اور کیا ہوگی؟
مزید چاک و چوبند رہنے کی ضرورت
رمضان المبارک توہماری زندگیوں میں خوش گوار تبدیلیاں لانے کے لیے آیا تھا،جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مخصوص انتظامات فرمائے تھے اور اپنے بندوں کو نیکیوں پر کار بند کرنے کے لیے سرکش شیاطین کو بھی بیڑیوں میں جکڑ دیا تھا، اب وہ آزاد ہوا ہے تو ہمیں اس سے مزید چاک و چوبند رہنے کی ضرورت ہے نہ کہ پرانی یاری نبھانے کی۔
نیکیوں پر مداومت کی فضیلت
نیکیوں پر مداومت و ہمیشگی ہی صالحین کا طریقہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے۔جب حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفیi نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ایسا کام بتائیں جسے میں مضبوطی سے تھامے رکھوں، تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کہومیرا رب اللہ ہے، پھر اس بات پر ثابت قدم رہو۔نیز خود آپ ﷺ کا مبارک طریقہ نیکیوں کے اہتمام کا تھا، جیسا کہ ام المٔومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں: رسول اللہﷺ جب کوئی کام کرتے تو اس پر ہمیشہ قائم رہتے۔(مسلم) ایک حدیث میں واردو ہوا ہے : پسندیدہ اعمال میں اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے، خواہ مقدار میں وہ تھوڑا ہو۔ (مسلم) ایک روایت میں ہے:’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین و عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو۔‘‘ (بیہقی)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال پر مداومت نصیب فرمائے اور اپنی نافرمانیوں سے بچائے رکھے۔ آمین
tanzeemdigitallibrary.com © 2024