(امیر سے ملاقات ) امیرسے ملاقات قسط 14 - آصف حمید

10 /

یہ تنظیم اسلامی کا طرئہ امتیاز ہے کہ آج رمضان کی راتیں ترجمہ قرآن کے

ساتھ بسر ہوتی ہیں ۔ الحمد للہ !

وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خلاف فیصلے کو ایک سال ہوگیا مگر اللہ

اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ ختم نہ ہو سکی

اولاد کی دینی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود دین پر عمل کریں

رمضان کے اختتام پر ضروری ہے کہ ہم اپنا محاسبہ بھی کریں کہ روزے کا حاصل کیا ہے؟

پاکستان 27 رمضان المبارک کو قائم ہوا جس کے بارے میں گمان غالب ہے کہ یہ قدر کی رات ہے

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: رمضان المبارک میں آپ کے لائیو دورئہ قرآن کی مصروفیات کیسی ہوتی ہیںاوراس میں آپ اپنی تراویح کوکیسے manageکرتے ہیں ؟
امیرتنظیم اسلامی:اس لائیو دورہ قرآن کا وقت ساڑھے نوبجے رات سے ساڑھے بارہ بجے ہے۔ جس چینل پر یہ دکھایا جاتاہے اس کو دنیا کے 150ممالک میں لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں ۔ الحمدللہ !کورونا کے دور سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھاکیونکہ کورونا کے پہلے سال میں تو دورئہ ترجمہ قرآن مسجد میں کرانا ممکن نہیں تھا ،پھریہ آپشن اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔جہاں تک میری تراویح کامعاملہ ہے تو الحمدللہ میرا بیٹا حافظ قرآن ہے ۔ اللہ کاشکر ہے ہم گھر میں تراویح کااہتمام کرتے ہیں۔ رات کوساڑھے بارہ بجے سے تقریباً صبح اڑھائی بجے تک۔بیٹاپڑھاتاہے اورمیں سنتاہوں اورپھردوبچے اوربھی ہیں ان کو پھرساتھ کھڑا کرلیتے ہیں ۔
سوال: رمضان المبارک میں دورئہ ترجمہ قرآن بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ نے 1983ء میں شروع کیا تھا اوراللہ کے فضل سے اب پورے ملک میں ڈاکٹر صاحب کے شاگرد یہ دورہ کرواتے ہیں۔کیایہ ایک برینڈ نہیں بن گیا؟
امیرتنظیم اسلامی:جب ہم دورئہ ترجمہ قرآن کہتے ہیں تولوگ فورا ً ڈاکٹر اسرار احمد ؒ تک پہنچ جاتے ہیں ۔ میں کہوں گاکہ یہ اللہ تعالیٰ کابہت بڑا فضل ہواہے اوراس کے کچھ مزید فوائد بھی ہیں۔یقینایہ بڑا مشقت والا عمل ہوتاہے اورپورے ماہ میں تقریباً 140گھنٹوں کاپروگرام بنتاہے۔اس میں تین مرتبہ قرآن پاک کی تکمیل ہوتی ہے اوراللہ کی مخلوق کوبہت فائدہ پہنچ رہاہے ۔اس کو آپ برینڈ کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس سے لوگوں کے لیے قرآن کو سمجھنا آسان ہو جاتاہے ۔ دورہ ترجمہ قرآن کے لیے روزانہ تقریباً چار ساڑھے چاڑ گھنٹے درکار ہوتے ہیں تاہم ہمارے ہاں اس کامختصردورانیہ بھی ہوتاہے جس کوہم خلاصہ مضامین قرآن کہتے ہیں۔اس میں ایک یادوسیشن کے دوران آیات کی مختصر تشریح اور کچھ مضامین کابیان ہو جاتا ہے جس کاوقت دواڑھائی گھنٹے ہوتاہے ۔ہم نے یہ بھی دیکھاکہ بہت ساری مساجد میں عمومی اعتبار سے علماء یا خطباء نے بیس منٹ یاآدھاگھنٹہ کاچندمنتخب آیات کا بیان شروع کیاتواس سے بھی ایک فضا قائم ہوگئی ۔ الحمدللہ ! لیکن یہ تنظیم اسلامی کا طرئہ امتیاز ہے کہ رمضان کی راتیں قرآن اور ترجمہ قرآن کے ساتھ بسر ہوتی ہیں ۔
سوال: موجودہ رمضان کی26تاریخ کو سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کوایک سال ہوجائے گا۔ اس فیصلے کے نتائج میں کیاپیش رفت ہوئی یاپھرپسپائی ہوئی ؟
امیرتنظیم اسلامی:پاکستان میںانسداد سود کے حوالے سے کوششیں بہت پرانی ہیں ۔ کہاجاسکتا ہے کہ 1947ء سے اس حوالے سے کچھ کمیشنزا ورکمیٹیز بنتی رہی ہیں۔ پھر1973ء کے آئین کے آرٹیکل 38-Fمیں یہ بات طے شدہ ہے کہ حکومت جلد ازجلدسود کے خاتمے کی کوشش کرے۔ پھرجنرل ضیاء الحق کے دور میں وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی مگر بقول بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ اس کے ہاتھ پیرباندھ دیے گئے تھے کہ یہ عدالت دس سال تک آئین، معیشت اورعائلی قوانین کے معاملات کوٹچ نہیںکرے گی۔ یہ دس سال کی قدغن 1991ء میں ختم ہوئی ۔ اس کے بعد جسٹس تنزیل الرحمن (اللہ ان کوغریق رحمت کرے ) نے پہلافیصلہ ڈیڑھ سو صفحات کادیاکہ بینک انٹرسٹ رباہی ہے جس کو دین حرام قرار دیتاہے اوراللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر یہ سود کے معاملات ختم نہیںکرتے تواللہ اوراس کے رسولﷺ سے جنگ کے لیے تیار ہوجائو۔اس کے بعد نوازشریف صاحب نے ریویوپٹیشن دائر کردی اور stayلے لیااوریہ معاملہ لٹک گیا اور تاخیر کا شکار ہوتا رہا ۔ پھر1999ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں یہ مسئلہ زیرگفتگو آیاجس میں مفتی تقی عثمانی صاحب s بھی موجود تھے۔ اس بینچ نے ساڑھے بارہ سوصفحات کابہت تفصیلی فیصلہ دیاکہ1991ء کا وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے اوراس میں مزیدکچھ گوشوں کو نمایاں کیاگیا۔جنرل مشرف نے آکربینچ بدل دیا۔ جب نیابینچ آیاتو اس نے کیس کو پھروفاقی شرعی عدالت کوریفر کر دیا اور پھر معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ تنظیم اسلامی اور جماعت اسلامی کی طرف سے بھی کوششیںہوئیںکہ معاملے کو دوبارہ اوپن کیاجائے۔ چنانچہ وفاقی شرعی عدالت میں 2002ء میں درخواست دائر کی گئی تا آنکہ2013ء کے بعد سے دوبارہ شنوائی شروع ہوئی اوربات کچھ آگے بڑھی۔ بہرحال پچھلے سال وفاقی شرعی عدالت نے 319صفحات کاتفصیلی فیصلہ دیا جس میں بینک انٹرسٹ کورباقرار دیاگیا اور حکومت کوپانچ سال کاٹائم فریم دیاگیاکہ دسمبر2027ء تک کہ حکومت سود کاخاتمہ کرے اورملک میں پوری معیشت کواسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن کچھ لوگ ابھی بھی باز نہیںآتے اورسٹیٹ بنک اورآٹھ نجی بینکوں نے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی جس کامطلب ہی یہ تھاکہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پرعمل درآمد نہ ہوسکے۔ کیونکہ جب تک وہاںاپیلیں موجود ہیں فیصلے پر عمل درآمد کاراستہ نہیںکھل سکے گا۔اس وقت پاکستا ن کی معیشت کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ ہم ماہ رمضان میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ کرے کہ ہمارے مقتدر طبقات اس کی طرف توجہ کریں اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پرعمل درآمد کاسلسلہ شروع ہوتاکہ جب اللہ اوراس کے رسولﷺ سے جنگ ختم ہوگی توہم امید کرسکتے ہیں کہ ہماری معیشت کی بہتری کے معاملات شروع ہوسکیں ۔
سوال: کیااس پرعمل درآمد میں رکاوٹ IMF تونہیں ہے کیونکہ اس سے ہم سود پرقرضے لیتے ہیں ؟
امیرتنظیم اسلامی:ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں تھوڑی ایمانی جرأت کامظاہرہ کرناچاہیے ۔IMF ہو یا ورلڈ بینک ہوہمارا ایمان ہے کہ اس پوری کائنات کا حقیقی بادشاہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔آپ نے صدق دل اورwill کی بات کی تواللہ کہتاہے کہ تم چل کرمیری طرف آئوگے تو میں دوڑ کرتمہاری طرف آئوں گا۔لہٰذا قدم اٹھانا ہو گا۔IMF ہو،ورلڈ بینک ہو،یہاںتک کہ چین بھی ہو ان کے ساتھ ڈیلنگز کرنے کے دوران نفع ونقصان کی بنیاد پر بھی آپشنز دستیاب ہیںاوریہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے آخری پیجز میں لکھاہواہے کہ آپ اس تناظر میں بھی ان سے ڈیل کر سکتے ہیں لیکن سارا مسئلہ وہی ہے کہ نیت توہو۔ پچھلے سال نوہزارارب روپے کا بجٹ تھا،چارہزار ارب روپیہ سود کی مد میں تھا۔اس میں سے بھی 35سو ارب روپیہ سود توپاکستان کے اندر کا ہے ۔ حالانکہ پاکستان کے اندر کاسودختم کرنے میں کیارکاوٹ ہے ؟ یعنی کہیں سے توشروعات ہونی چاہیے۔میں سچی بات کہتاہوںکہ نیت میں فتور نظر آرہاہے کیونکہ ہمارے سول حکمرانوں اورعسکری قیادت میں اس حوالے سے سنجیدگی نظر نہیں آئی۔حالانکہ جہاں اپنی رٹ قائم کرنا ہوتی ہے تو رات کے بارہ بجے بھی عدالتیں کھل جاتی ہیں اور سوموٹو ایکشن لیے جاتے ہیں اور اپنی رٹ قائم کی جاتی ہے ۔ لیکن اللہ اوراس کے رسولﷺ سے جنگ کے خاتمے کے لیے ہماری نیتیں درست نہیں ہو رہیں۔
سوال: 31مارچ کوڈاکٹر اسرارا حمدؒ کے یوٹیوب چینل کی بندش کو ایک سال گزرگیا آج کیاصورت حال ہے ؟
امیرتنظیم اسلامی:جیسا کہ ایک شعر ہے ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے یہ لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
یہ تواللہ کامنشاء ہے کہ اللہ اپنے دین کاکام لے گا۔ قرآن میں ارشاد ہوتاہے :
{وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ(8)} (الصف) ’’اور اللہ اپنے نُور کا اتمام فرما کر رہے گا ‘خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ ہمارے استاد ہیں ۔ انہوںنے اسلام اورقرآن کی خدمت کی ۔ اس چینل کی بندش کے بعد علماء اوردوسرے لوگوں کاپہلاسوال یہ تھاکہ آپ لوگوں کا ڈیٹا محفوظ ہے یانہیں ؟کیونکہ عام طور پر جب کوئی چینل بند ہوتاہے تواگربیک اپ نہ ہو تو پھر سارا ڈیٹا ہی ختم ہوجاتاہے ۔لیکن الحمد للہ ! ہمار ڈیٹا ضائع نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یقینا اس بندش کے پیچھے سازشیں تھیں ۔ لوگوں نے نبیوں کو نہیں چھوڑا،ان کی باتیں روکنے کی کوشش کی تو باقی کسی کی کیاحیثیت ہے ؟ہمارے ہاں برادر آصف حمید کواللہ تعالیٰ نے توفیق دی جوبہت عرصے سے میڈیاکے معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔اسی طرح ہمارے کچھ تنظیمی رفقاء اور دیگر بہت سارے لوگوں نے جو تنظیم میں شامل نہیں ہیں مگر وہ دین سے، قرآن پاک سے اورڈاکٹر اسرار صاحب ؒ سے محبت رکھتے ہیں ان سب کی محنت سے ہم نے یوٹیوب پرایک اورچینل بنالیا الحمدللہ! اور پچھلے ایک ہی سال میں اس چینل سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میںہے ۔اس چینل پرڈاکٹر صاحب کا بیان القرآن اوردوسرے لیکچر ز موجود ہیں۔ پھر اس پرشارٹ کلپس بھی موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی ہے، ایک راستہ بند ہوتا ہے تواللہ تعالیٰ دس راستے ہمارے لیے کھول دیتاہے ۔ اخلاصِ نیت ڈاکٹر میں بھی تھا اور ہمارے ساتھیوں میں بھی ہے جن کی کوششوں سے وہ چینل بنا اوراس میں پروگرامز کی ورائٹی پیش کی جارہی ہے۔
آصف حمید(میزبان):یہ سب کا م اللہ کی تائید وتوفیق سے جاری ہے ۔ لیکن ہم نے ڈاکٹر صاحب کے contentکے اوپرمونیٹائزیشن کوکبھی آن نہیں کیا۔دوسرا یہ کہ ہم دیگر لوگوں کو بھی ڈاکٹر صاحب کا contentرکھنے سے نہیں روکتے۔ لیکن اگر وہ مونیٹائز کرتے ہیں (یعنی کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں ) یاخدانخواستہ contentمیں تبدیلی کرتے ہیں توہمارے پاس اتنااختیار موجود ہے کہ ہم ان کے چینل کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں کیونکہ اشتہار ات غیراسلامی ہوتے ہیں اوران میں موسیقی بھی ہوتی ہے اورعورت کو اشتہار بنا کربے حیائی بھی پھیلائی جاتی ہے ۔ لہٰذا درس قرآن یاتلاوت کے دوران ایسے اشتہارات کاچلنا دین کی روح کے خلاف ہے اور اس کی کمائی بھی مشکو ک ہوجاتی ہے لیکن کچھ لوگوں نے اس کوحلال سمجھاہواہے ۔اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے ۔
امیرتنظیم اسلامی:ڈاکٹر صاحب ؒ اپنی حیات میں میڈیا کے مختلف چینلزپرپروگرام کرتے رہے۔ انہوں نے بھی طے کررکھاتھا اورآج تک الحمدللہ تنظیم اسلامی میں یہی طے شدہ پالیسی ہے کہ اگر ہم کسی میڈیا چینل پر پروگرام کرتے ہیں تواپنی شرائط پرجاتے ہیں ۔ حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ کسی خاتون اینکر یاکسی خاتون مہمان کے ساتھ نہ بیٹھیں ۔ دوسری بات ہم ان سے ایک پیسہ نہیں لیتے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے بھی نہیں لیااور ہمارا کوئی مدرس اس سے استفادہ نہیں کرتا ۔ الحمدللہ!ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جواللہ تعالیٰ نے ہمیں آمدن کے ذرائع عطا کیے ہیں اسی پراکتفا کریں اوریہ کام صرف اللہ کی رضا کی خاطر ہو۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحبؒ مختلف تعلیمی اداروں میں لیکچرز کے لیے جاتے تھے، وہاں سے بھی کوئی معاوضہ نہیں لیا اور اسی روایت کو ہم آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو قبول فرمائے ۔آمین !
سوال: بھارت میں ہندتوا کے تحت مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں کیا ایسی صورت حال میں مسلمان کسی دوسرے ملک (کینیڈا) میں ہجرت نہ کر جائیں؟ قرآ ن وحدیث کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔ (محمد یامین، بھارت)
امیرتنظیم اسلامی:پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھارت میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے لیے خیر و عافیت کامعاملہ کرے۔ کیونکہ وہاں پاکستان سے زیادہ تعداد میں مسلمان بستے ہیں۔ بھارت سیکولرملک ہونے کا دعویدارہے لیکن وہاں بھی اب مذہبی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے نتیجے میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر اقلیتوں کی زندگی اجیرن کی جا رہی ہے ۔بھائی نے سوال کیا کہ کیااس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ کوئی ہجرت کرجائے ۔ ہم پاکستان میں جی رہے ہیں جس کو ہم نے اسلام کے نام پرحاصل کیا مگر مکمل اسلام تویہاں پربھی نافذ نہیں ہے اور ہم بھی کوشش ومحنت کر رہے ہیں ۔ البتہ وہاں چونکہ جان کے بھی لالے پڑرہے ہیںلہٰذا اگر کسی کے لیے آپشن بنتاہے تووہ کوشش کرے اورنیت یہ رکھے کہ میں اپنے عقیدے اورا یمان کی حفاظت کرسکوں اور دین کے تقاضوں پرعمل کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کرسکوںتو وہ ہجرت کرسکتاہے ۔ البتہ انہوں نے سپیشل طورپرکینیڈا کی بات کی ہے تو ہماری تجویز یہی ہوگی کہ اگر آپ کے حالات آپ کو اجازت دیتے ہیں تو کسی مسلم ملک میں جانے کی کوشش کریں۔ مشہور حدیث ہے :((انما الاعمال باالنیات))کہ اعمال کی قبولیت کا دارومدار نیتوں پرہے اورآگے حدیث کے الفاظ ہیں کہ جس کی ہجرت اللہ اوراس کے رسولﷺ کے لیے ہوگی اس کی ہجرت اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی طرف مانی جائے گی ۔تویہ ہجرت راہ خدا میں ہی سمجھی جائے گی اوراس کا اجر بھی عطا ہوگا۔
سوال: مسلمان گھرانے میں یاغیرمسلم گھرانے میں پیدا ہونے والے بچوںمیں بنیادی فرق کیاہے؟ (عبدالرحمن)
امیرتنظیم اسلامی: اصل میں یہ سوال بہت پراناہے ۔ اس کے کئی اعتبار ات سے جوابات ہوسکتے ہیں۔ ہمارے فقہاء اورآئمہ (بشمول امام شافعیؒ)میں ایک رائے یہ ہے کہ اگرکسی تک اسلام یعنی محمدرسول اللہﷺ کی دعوت کاپیغام نہیںپہنچاتوآخرت میں اس سے سوال نہیں ہو گا۔دوسری رائے امام ابوحنیفہ ؒ اودیگر فقہاء کی بھی ہے کہ کم از کم اللہ کا تعارف فطرت میں موجود ہے کہ خالق کائنات ہے اوربنیادی انسانی اخلاقیات انسان میں ودیعت شدہ ہیں ان دوکے بارے میں سوال ضرور ہو گا۔ امام صاحب ؒ کی اس رائے کے حوالے سے بانی تنظیم ڈاکٹر اسرارا حمدؒ نے سورۃلقمان کے درس میں روشنی ڈالی ہے۔ جناب لقمان نبی تونہیں تھے اورایک رائے کے مطابق ان تک شاید کسی نبی کی تعلیم بھی نہیں پہنچی تھی مگر ان کی بیٹے کے لیے وصیت میںتوحیداور آخرت کا تصور جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ کچھ بنیادی اخلاقیات ان وصیتوں میں نظر آتی ہیں ۔ سورئہ لقمان کے دوسرے رکوع کے مضامین بتارہے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے میں وزن ہے ۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ ہم دوسری رائے کو رد کررہے ہیں ۔البتہ جس تک تعلیم پہنچ گئی ہے تووہ اس تعلیم کے تقاضوں پرعمل کاپابند ہے ۔ اب ایمان اور اس کے تقاضوں پرعمل کرناایک مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔ ارشاد ہوتاہے :
{وَالْعَصْرِ (1) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(2) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3)}(العصر)’’زمانے کی قسم ہے۔ یقیناً انسان خسارے میں ہے۔ سوائے اُن کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
یعنی اللہ نے یہ قانون دے دیا کہ ایمان لائو گے تو پھر تمہاری نجات ہوگی ۔اورایمان کیاہے :
((ھوتصدیق القلب بما جاء من عند الرب)) ’’یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رسول اللہﷺ پر نازل ہوا اس کی دل سے تصدیق کرنا۔‘‘
یہ ایمان مجھ تک پہنچ گیاتومجھے ماننا ہے اورعمل کرناہے ۔ لیکن میں آخری رسولﷺ کاامتی ہوںتومیرے لیے اکیلے اکیلے مان کرعمل کرناکافی نہیں ہوگابلکہ حق کی دعوت، اور اس کی سربلندی کے لیے جدوجہد بھی کرناضروری ہے۔ زیادہ اہم سوال کیاہے ؟جس تک نہیں پہنچا اس کا کیا ہوگا، اسے اللہ پوچھے گا:
{ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰکَ وَاَنَّ اللہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(10)} (الحج)’’(اور اسے کہا جائے گاکہ) یہ سب کچھ تیرے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کی وجہ سے ہے‘ اور یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔‘‘
بندوں پرظلم فرمانے والا نہیں ہے ۔اللہ نے قانون ہمارے لیے بنایاہے اللہ کسی قانون کاپابند نہیں ہے ۔
{یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ ط} (الفتح) ’’وہ بخشے گا جس کو چاہے گااور عذاب دے گا جس کو چاہے گا۔‘‘
جس کو چاہے گابخش دے گاجس کوچاہے گا عذاب دے گا۔اورفرمایا:
{لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط}(البقرہ) ’’اللہ تعالیٰ نہیںذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔‘‘
اصل سوال یہ ہے کہ جوایمان لاچکے ہیں انہوں نے اس پر عمل کتنا کیا، اس کی دعوت دوسروں تک پہنچائی ہے یانہیں ہے ؟
سوال: ہم اپنے بچوں میں خلافت اورانقلاب کے نظریے کو پید اکرناچاہتے ہیں ۔بچوں کو قرآن وحدیث کاعلم کون سی عمر سے سکھایاجائے؟ (محمدجعفر حسین ،حیدر آباد انڈیا)
امیرتنظیم اسلامی: تربیت اولاد ایک موضوع ہے اوراس کے ذیل میں بہت ساری باتیں بیان کی جاتی ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ بچے تھوڑے بڑے ہوں گے توان کی تربیت کا اہتمام ہوگا۔ قطعاً نہیں ۔ احادیث کی روشنی میں علماء نے بڑا عجیب نکتہ پیش کیا کہ کل کو پیدا ہونے والے بچے کا باپ پر یہ حق ہے کہ وہ نکاح کرنے کے لیے ایک نیک خاتون کاانتخاب کرے۔ یہاں سے بات شروع ہوتی ہے ۔ پھرزوجین سے تعلق کی دعائیں ہمارے ہاں بیان نہیں ہوتیں جو کہ یہ ہیں ۔
((اللھم جنب الشیطان وجنب الشیطان مارزقنا))
اے اللہ !ہم دونوں (شوہر وبیوی) کوبھی شیطان سے بچا اورجورزق توہمیں عطا کرے اس کوبھی شیطان سے بچا۔یہاں رزق اولاد کو کہاجارہاہے ۔ اب اس تعلق کے بعد کب کبھی ایک خاتون کوحمل ٹھہرے گااس کاپتا نہیں ۔ لیکن ہرتعلق کے موقع پریہ دعا رسول اللہﷺ نے سکھائی۔پھراللہ نے اولاد (بچہ یابچی) عطا فرمادی توپہلے کان میں اٰذان ہے ۔یہ توحید کی دعوت ہے، رسالت کی دعوت ہے اورآخرت کی دعوت ہے۔ عمل میں حی علی الصلوٰۃ، نماز کی بات آرہی ہے ۔اللہ کی بڑائی کی بات آرہی ہے ۔ یہ پورے دین کا ایک خلاصہ ہے جوپیدا ہوتے ہی اس کے کان میں ڈالاجارہاہے ۔پھر ماں باپ جو بھی کریں گے اولاد اسی کی نقل کرے گی ۔ مرد گھر میں ہے اور اس کی زبان پر قرآن اور دعائیں ہوں گی تو بچہ اس کو کاپی کرے گا۔ فرض نماز کے لیے مسجد میں جائے اور نوافل گھر میں ادا کرے تواس سے بھی بچوں کی خود بخود تربیت ہورہی ہوتی ہے۔ یعنی ہم خود باعمل بن کراولاد کی تربیت کریں گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ پہلاکلمہ جوتمہارے بچے کی زبان پر آئے وہ لاالٰہ الا اللہ ہو۔ سیدناعلی ؓ نے یہ بھی فرمایاکہ سات سال تک اپنے بچوں سے کھیلویعنی اپنے بچوں کووقت دو۔ لیکن آج بچوں کوکہاں وقت دیاجاتاہے۔پہلے سکول، پھر ٹیوشن، پھرتھوڑا وقت اگر بچا تو موبائل نے چھین لیا ۔ حضور ﷺ نے سات سال کی عمر میں نماز کی ترغیب دینے کو کہا۔ سات سال سے پہلے ماں باپ اس کووقت دیں اور اس کو اچھی چیزیں سکھائیں ۔ خاص طور پرماں کابہت اہم رول ہے ۔ جب وہ بولنے کے قابل ہوتواسے اللہ ،بسم اللہ، الاالٰہ الااللہ کے کلمات سکھائے جائیں ۔ یہاں سے اس کی تعلیم کاسلسلہ شروع ہو جائے گا۔ پھرفارمل تعلیم کاسلسلہ ہے ۔ ہم تواپنے تنظیم کے رفقاء اورساتھیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ اپنے گھروں میں اسرہ قائم کریں ۔ اس کوہم گھریلواسرہ کہتے ہیں ۔ اسرہ عربی میں خاندان کو کہتے ہیں۔ تنظیم میں اسرہ کانظام ہے جس میں کچھ رفقاء ہوتے ہیں اوران کا ایک نقیب ہوتاہے اوروہ ہرہفتے مل بیٹھ کر قرآن وحدیث کی روشنی میں تربیت کااہتمام کرتے ہیں۔ گھریلو اُسرہ میں تمام گھر والوں کو شامل کیا جاتاہے جس میں چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں اور وہاں دین سیکھنے سکھانے کی بات ہوتی ہے، تلاوت قرآن ہوتی ہے، احادیث سنائی جاتی ہیں ۔ بچے اگر پڑھنے کے قابل ہوں تو ان سے سیرت ، خلافت یا دیگر اسلامی موضوعات پر کسی کتاب کا کوئی حصہ پڑھوا لیں ۔ یہ اُسرہ دینی تربیت کا باعث بنے گا اور بیرونی فتنوں کے خلاف دفاع کے قابل بنائے گا ۔ ان شاء للہ! بہرحال اللہ تعالیٰ نے کرنے کے کام بھی بتائے ہیں نہ کرنے کے کام بھی بتائے ہیں ۔یہ پورا پیکج ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا اورہمارے بچوں کا عقیدہ،ایمان محفوظ رہے توجن کاموں سے شریعت منع کرتی ہے اُن سے خود بھی بچیں اور اولاد کو بھی بچنے کی تاکید کریں ۔ آج سمارٹ فون،کیبل،انٹرنیٹ وغیرہ جیسی چیزیں بچوں کو تباہ کررہی ہیں ۔اللہ ہم سب کی اورہمارے گھرانوں کی حفاظت فرمائے ۔آمین !
سوال: میں بارہویںجماعت کاطالب علم ہوں میں اقامت دین کی جدوجہد کیسے کروں۔ میرے پاس کوئی ایسی جماعت نہیں جس کاواضح ہدف دین کا قیام ہو ۔ میں کافی تشویش میں ہوںکہ کیا کروں؟ (محمد طائف، بھارت)
امیرتنظیم اسلامی:اللہ تعالیٰ اس بچے کی حفاظت فرمائے ۔اس عمر میں کہ جب ابھی صرف کیرئیر کونسلنگ کی بات ہوتی ہے اور ایک سیکولر ملک سے یہ سوال ہور ہا ہے جسے appreciateکرناچاہیے ۔جہاں تک ان کے سوال کا تعلق ہے تو اصل میں اقامت دین کے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی شروعات اپنے وجود ، اپنے جسم سے ہوتی ہے کہ پہلے اپنے وجود پر اسلام کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرو ، پھر اپنے گھر میں اسلام کو غالب کرو ، پھر معاشرے اور نظام کی بات آئے گی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ دعوت کاکام مستقل کرنے کا کام ہے ،اگر یہ انڈیامیں بیٹھ کر خود ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کوسن رہے ہیںتواس کا مطلب ہے کہ یہ اپنے دوستوں کو بھی سنوا سکتے ہیں اوریہی باتیں ان تک پہنچانے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔نبی اکرمﷺ نے مکہ کے تیرہ برس لوہے کی تلوار استعمال نہیں کی مگر قرآن کی تلوار استعمال کی اورجب آپ ﷺنے کام شروع کیا تو اکیلے تھے۔مکہ کے 13برس آپ ﷺ نے صرف دعوت دی اور آپ ﷺ کے سامنے خانہ کعبہ میں 360 بت تھے ، اُنہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔ بہرحال 13برس مکہ میں قرآن کی تلوار چلی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا(52)} (الفرقان) ’’اور آپؐ ان کے ساتھ جہاد کریں اس (قرآن) کے ذریعے سے بڑا جہاد۔‘‘
اس دوران ایک بت کو بھی ہاتھ نہیںلگایالیکن جب مکہ فتح ہوگیا تو سب سے پہلے سارے بتوں کوتوڑا گیا ۔ یعنی اس وقت تک صبرتھا،محنت تھی ،جدوجہد تھی۔اس میں ہم سب کے لیے سبق ہے کہ اپنے دوستوں، کزنز، خاندان کے لوگوں میںدعوت کا کام کریں اور ان کو اپناہم خیال بنانے کی کوشش کریں ۔اگر وہاںکوئی جماعت نہیں جواقامت دین کی جدوجہد کررہی ہوتواللہ سے دعا کریں ممکن ہے آپ کو کوئی اجتماعیت میسر آجائے یاپھر آپ کی دعوت کے ذریعے آپ کو ہم خیال لو گ میسر آتے چلے جائیں۔ یہ کام ابھی کرنا ہے جوان کے لیے ممکن ہے۔ بہرحال دوتین کام کرنے ہیں :
1۔جتنادین سمجھ آیااس پرعمل کریں۔
2۔ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کے دروس سے آپ کو فائدہ ہوا توآپ دوسروںکوبھی سنائیے اوراپنے ہم خیال لوگوں کو بڑھانے کی کوشش کریں۔
3۔ کل کوئی اجتماعیت نظرآتی ہے آپ اللہ کا نام لے کر اس کو جوائن کریں جب تک نظر نہیںآتی آپ اس دعوت کے کام کو جاری رکھ کراپنے ہم خیال لوگوں کو بڑھانے کی کوشش کریں ۔کیاعجب آپ کواللہ تعالیٰ ایسا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سوال: رمضان کے بعد ہماری زندگی کیسی ہونی چاہیے اورآخری عشرے میں پاکستان کی ولادت ہوئی اس پرکچھ تبصرہ کریں۔ (نویدانصاری صاحب )
امیرتنظیم اسلامی:ویسے آخری عشرے میںبہت کچھ ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:رمضان کا آخری عشرہ جہنم سے آزادی کاہے۔یہ بشارت والاپہلو ہے ۔ انذار والاپہلوکیاہے ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور دعا کرنے لگے اوررسول اللہﷺ نے منبر کی ایک ایک سیڑھی پرچڑھتے ہوئے آمین کہا۔ اس دعا میںایک بات یہ بھی تھی کہ وہ شخص تباہ وبرباد ہوجائے جس کے سامنے رمضان کامہینہ آئے اور وہ اپنی بخشش نہ کراسکے۔ تمام فرشتوں کے سردار جبرائیل یہ کہہ رہے ہیں،امام الانبیاء ﷺ اس پر آمین کہہ رہے ہیں ۔یعنی فرشتوں کے امام کی یہ بددعا ہے اوررسولوںکے امام ﷺ کی آمین ہے ۔لہٰذا اگر اللہ نے ہمیں رمضان دے دیاتواس سے فائدہ لازمی اٹھائیں ۔پھررمضان کا آخری عشرہ اس اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں رسول اللہﷺ پوری پوری رات قیام فرماتے تھے۔ (بخاری شریف) اس عشرے میں اللہ کے رسول ﷺ اپنے گھروالوں کو بھی بیدار کرتے تھے۔ پھراس آخری عشرے کی پانچ طاق راتیں ہیںاوران میں ہم نے قدر کی رات کو تلاش کرناہے جوہزار مہینوںسے افضل ہے۔بعض لوگوںنے فقط 27 ویں شب تک محدود کرلیا۔ بعض روایات سے اس کاغالب امکان محسوس ہوتاہے مگر دیگر روایات سے 23ویںشب کا بھی پتا چلتاہے ،کبھی 21کابھی پتا چلتا ہے۔ اوربخاری شریف کی حدیث کہتی ہے کہ ہمیں پانچوں طاق راتوںمیں اس کو تلاش کرناچاہیے۔ تنظیم اسلامی کے تحت پورے رمضان کی راتوںمیں دورئہ ترجمہ قرآن کااہتمام ہوتاہے جولوگ معمول کی تروایح پڑھتے ہیں اورپھر فارغ ہوجاتے ہیں تومیری تجویز یہ ہوگی کہ وہ قیام اللیل کے لیے ہمارے دورئہ ترجمہ قرآن کے پروگراموں میں شریک ہوںتوآپ خود محسوس کریںگے کہ اس پروگرام کی کیابرکت ہے اورانہی راتوں میں ہمیںقدر کی رات بھی میسرا ٓجائے گی ۔ ان شاء اللہ
جہاںتک پاکستان کی ولادت کامعاملہ ہے یہ بھی رمضان کی 27ویں شب میں ہوئی اور قرآن بھی قدر کی رات یعنی رمضان کی 27ویں شب میں نازل ہوا ۔
اپنی ملت پر قیام اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
یہ امت مسلمہ بقیہ انسانوںسے مختلف ہے اوراس امت میںیہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان مختلف ہے ۔ دنیا سیکولرزم کی باتیں کررہی تھی لیکن ہمارا نعرہ تھا : پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ ۔ دنیا افراد کی حاکمیت کی دعویدار ہے لیکن ہم نے آئین میں لکھا ہے کہ یہاں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کی ہوگی ، یعنی حکم صرف اُسی کا چلے گا ۔ کتاب وسنت کی بالادستی ہوگی۔مگر 75برس سے زیادہ ہوگئے ہم کہاںکھڑے ہیں ۔ ہم عام طور پر 14اگست کا دن مناتے ہیںلیکن اگر رمضان کی 27 ویں شب کو بھی رمضان ، قرآن اور پاکستان کے موضوع پر تذکرہ ہو جائے تو یقینا احساس ہوگا اور پھراللہ کے حضورﷺ توبہ بھی کریں ۔ پچھلے سال سود کے خلاف فیصلہ آیا تھا توآج طے کرلیں کہ یااللہ ہم تیرے ساتھ جنگ کاخاتمہ کرناچاہتے ہیں۔ کوئی قدم تو بڑھا لیں۔ انفرادی اوراجتماعی سطح پرکوشش کرنی ہے۔ ہمارے ہاں ستائسویں شب کے بعد مساجد خالی نظر آتی ہیں حالانکہ قیام اللیل کا معاملہ آخری روزے کی شب تک جاری رہنا چاہیے بلکہ اس کے بعد بھی اللہ توفیق دے تو راتوں کو اُٹھ کر تہجد اور دعا کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ آخری بات یہ ہے کہ ایک مہینہ یعنی رمضان میں مشقت کے بعد ہم چیک بھی تو کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ کیا رمضان کا مقصد پورا ہوا ؟ ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہوا ؟ کیونکہ روزے کا حاصل تقویٰ ہے ؟
{فَاتَّـقُوا اللّٰہَ لَـعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ (133)} (عمران) ’’تو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم اللہ کا (صحیح معنی میں) شکر ادا کر سکو۔‘‘
اس رمضان میں قرآن سے تعلق کتنامضبوط ہوا،قرآن کوسمجھنے کی کتنی کوشش کی ۔ مولاناابوالحسن علی ندویؒ نے بڑی پیاری بات فرمائی کہ رمضان ایک مہمان ہے ۔مہمان آتاہے چلاجاتاہے لیکن مہمان کاتحفہ ہمارے پاس رہ جاتاہے ۔ رمضان چلاجائے گا لیکن اس کا تحفہ قرآن ہمارے پاس رہ جائے ۔ اس قرآن کے ساتھ آئندہ ہمارا تعلق کیسا ہوگا۔ تلاوت ،ترجمہ ،سمجھنا،عمل کرنا ، اس کے احکام کے نفاذکے لیے جدوجہد کرنا یہ سب اس کا تقاضا ہے ۔ پھرایک روزہ رمضان کاہے جس میں ہم اللہ کے حکم سے حلال چیزوں کو بھی چھوڑ رہے ہیں ، لیکن ایک روزہ پوری زندگی کا ہے جس میں حرام چیزیں چھوڑنے کا حکم بھی اللہ نے دیا ہے ۔ کیا ہم حرام چھوڑنے کے لیے تیار ہوئے کہ نہیں ؟ رمضان کے روزے کا اختتام شربت پر ہوتا ہے لیکن زندگی کے روزے کااختتام تب ہو گا جب روز محشر رسول اللہ ﷺ حوض کوثر سے پلائیں گے ۔ ان شا ء اللہ اس رمضان کے اختتام پرہم عید مناتے ہیں ۔ مومن کی سب سے بڑی عید تب ہوگی جب اللہ راضی ہو کر فرما دے گا :
{فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ(29) وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(30)} (الفجر)’’توداخل ہو جائو میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہو جائو میری جنّت میں!‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اس لائق بنادے ۔ آمین !