رمضان ،قرآن اورپاکستان
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رمضان المبارک
کی 27 ویں شب کے خصوصی خطاب کی تلخیص
27رمضان المبارک وہ مبارک شب ہے جس کے بارے میں غالب امکان ہے کہ یہ شب قدر ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ماہ رمضان کی اسی مبارک شب میں قرآن نازل فرمایا اور رمضان مبارک کی اسی مبارک شب کواللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی مشیت کے مطابق ہمیں یہ مملکت خداداد پاکستان عطا فرمائی تھی۔ تحریک پاکستان کا سب سے مقبول نعرہ تھا ’’ پاکستان کامطلب کیا:لاالٰہ الا اللہ ‘‘!یعنی پاکستان کا نظریہ کلمہ مبارک تھا جس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خطہ زمین عطا فرمایا۔جس کے بارے میں بلامبالغہ اوربلاشک وشبہ یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ مملکت خداداد ہے ۔ایک طرف انگریز کی حاکمیت اوردوسری طرف ہندو کی اکثریت بحیثیت قوم مسلمانوں کے وجود کے لیے خطرہ تھی اور مسلمان اندیشوں کا شکار تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس خوف اور خطرے سے نجات عطافرمائی اور ہم نے اللہ کی مدد اور مشیت سے اسلام کے نام پر ملک حاصل کر لیا ۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں وعدے کے مطابق اسلام کو نافذ کیا جاتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط}(الحج :41) ’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکن ّعطا کر دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘
ہمیں اللہ نے قرآن حکیم عطا فرمایاجواپنانفاذ چاہتا ہے۔ اللہ فرماتاہے :
{وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(44)} (المائدہ)’’اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو احکام نازل فرمائے ان کو جو نافذ نہیں کرتے عملاًوہ کفرکی روش پرہیں۔ ہوناتویہ چاہیے تھاکہ قیام پاکستان کے بعد ہم ان احکامات کے نفاذ کی طرف بڑھتے ۔ 1949ء میں قرارداد مقاصد سے ایک سمت متعین ہوئی ،پھرتمام دینی جماعتوں کے چوٹی کے 31علماء نے نفاذ اسلام کے لیے 22نکات پر مشتمل متفقہ لائحہ عمل بھی دے دیا ۔ اگراس کے مطابق شریعت کانفاذ ہوتاہے توتمام مکاتب فکرکے علماء کا متفقہ فیصلہ تھا کہ وہ اس پر راضی ہوں گے ۔ لیکن ہوایہ کہ اس کے بعد ہماراریورس گیئرلگا اورشریعت کانفاذ ہماری ترجیحات میں شامل نہ رہا۔نہ حکمران اورنہ ہی عوام کی کوشش رہی کہ شریعت کے نفاذ کی طرف پیش قدمی ہو ۔ کچھ انفرادی کوششیں ہوئیں جواپنی جگہ بڑی مبارک ہیں لیکن اجتماعی سطح پراسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کی طرف پیش قدمی نہ ہو سکی۔ نوٹ کیجیے گایہی سب سے بڑا ہمارا مسئلہ ہے۔ آج ملک کے جتنے مسائل ہیں ان سب کی جڑ اوربنیاد یہ ہے کہ ہم نے اللہ سے کیے گئے وعدوں کوپورا نہیں کیا۔ آج ہمارااجتماعی معاملہ یہ ہے کہ اسلام کے عادلانہ نظام پرعمل تودور کی بات ہے ہم توبنیادی اسلامی اخلاقیات سے بھی تہی دامن ہو چکے ہیں ۔ نفاق کی علامات جھوٹ، خیانت،وعدہ خلافی،گالم گلوچ وغیرہ ہمارے ہاں عام ہو چکی ہیں۔ اناللہ و انا الیہ راجعون! ہمارے سیاستدانوں (الاماشاء اللہ) اوربعض مذہبی سیاسی راہنمائوں کی گفتگو انسانی اخلاقیات سے بھی بالکل عاری دکھائی دیتی ہے ۔ قومی سطح پرہماری اخلاقیات کاجنازہ نکل چکا ہے۔ 75برس کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ساری سر پٹھول اور جنگ کرسی اور اقتدار کے لیے رہی، سیاستدان ہمیشہ اس کے لیے باہم دست و گریباں رہے ، اب اس کے لیے ذاتی دشمنی اور عناد کا معاملہ بن چکا ہے ، ساری جدوجہد اسی کے لیے ہے جبکہ دوسری طرف قوم دین سے دور ہوتی جارہی ہے ۔ اس کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملکی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔ ہمیں قوم بنانے والا واحد نظریہ اسلام تھا ، اس نظریہ کی بنیاد پر ملک وجود میں آیا تھا اور اس کا استحکام بھی اسی نظریہ کے نفاذ پر منحصر تھا لیکن 75سال گزرگئے ، ملٹری والوں کی حکومتیں بھی آئیں ، جمہوریت کے دعویدار سیاستدانوں کی حکومتیں بھی لیکن نظریہ پاکستان کے نفاذ کی کی طرف کسی نے پیش رفت نہیں کی ۔ سود جواللہ اوررسولﷺ سے جنگ کے مترادف ہے اس کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ اسی طرح معیشت کابھٹہ بیٹھاہوا ہے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کسمپرسی کاعالم یہ ہے کہ حکومتی اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ایک بچہ جوپاکستان میں پید اہوگاوہ سوادولاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض پید اہوگا۔
ہمیں نام نہاد جمہوریت کے بڑے حسین خواب دکھائے گئے ۔’’عوام کی حکومت ، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ‘‘جیسے سلوگن پڑھائے گئے، سیاستدانوں کے پیچھے ان کے ورکرز جانیں تک دیتے ہیں لیکن نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ وہی سامراجی نظام اور استعمار کے کٹھ پتلی حکمران ہردفعہ ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ تمام پالیسیاں اور انسٹریکشنز کہیں اور سے آتی ہیں ۔ شریعت کے نفاذ کامعاملہ تودور کی بات ہے اب توعلی الاعلان شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کامعاملہ ہورہاہے۔ لگتاہے کہ سامراج کے کٹھ پتلی حکمران ہم پرمسلط کیے جاتے ہیں اوروہ انہی کو راضی رکھنے میں دن رات ایک کیے دیتے ہیں جوسیاسی کارکن جانیں دیتاہے اس کو یہ سوال کرنے کاحق نہیںہے کہ جوہم پرمسلط ہوئے اس لیے مسلط ہوئے کہ سود کے دھندوںمیںمبتلا کریںاورعالمی ساہوکاروں کے قرضوں کے چنگل میں گرفتارکرکے ملکی معیشت کا ستیاناس کریںاوراس ملک کے اندر خلاف شریعت قوانین پاس کیے جائیں۔ یہاں پرخاندانی نظام بالکل سٹیک پر آجائے۔ عورت کو نیم برہنہ کرکے دکھایاجائے ،حیا کادامن تارتا ر کردیاجائے۔ ٹر انس جینڈر ایکٹ کے نام پرہم جنس پرستی کے راستے کو کھولاجائے ۔ آخر یہ سب کچھ کیوں ہے؟ معلوم ہوتاہے کہ نام نہاد جمہوریت ہم پرمسلط ہے لیکن پیچھے کچھ اور ہے ۔عالمی سامراج کی بنیادی طورپریہ فلاسفی ہے کہ جمہوریت کے خوشنما نام پرسامنے کچھ اور ہوتاہے پیچھے کچھ اور ہوتاہے ،اورآج یہی عالمی سامراج ہے کہ جواپنی ایجنسیز کے ذریعے کچھ دہشت گردی کی کارروائیاں کروا کر ان کو مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش کرتاہے اور پھر ان گھناؤنی سازشوں کو آڑ بناکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رکیک حملے کرتا ہے اور دنیا کو اسلامو فوبیا میں مبتلا کرتاہے ۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان عالمی دہشت گردوں کو خوف نظام خلافت سے ہے ۔ وہ نظام خلافت جواللہ کاعطا کردہ ہے۔ جومظلوم کی دادرسی کرتا ہے اوربندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کررب کی غلامی میں لانے کی بات کرتاہے ۔ پاکستان ہم نے ا سی مقصد کے لیے لیاتھا کہ یہاں پرخلافت کا نظام قائم ہو۔قائد اعظم کے الفاظ موجود ہیں ۔ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے الفاظ موجود ہیں کہ قائد اعظم کہتے ہیں پاکستان کاقیام رسول اللہﷺ کاخصوصی فیضان ہے اورہمارافرض ہے کہ خلافت راشدہ کو سامنے رکھیں اورعہدحاضر کی اسلامی فلاحی ریاست دنیاکے سامنے پیش کریں۔سچی بات ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل بھی نظام خلافت کے سوا کچھ نہیں ۔ملک ہم نے اسلام کے نام پرلیا،یہاں اسلام اگر آئے گاتوملک محفوظ ہوگا۔ اسرائیل دھونس ، دھمکی اور بدمعاشی کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ یہ دھونس ،دھمکی ،بدمعاشی اورفرنگ کی پشت پناہی اگر اس کوحاصل نہ ہوتو اسرائیل ٹھہرنہیں سکتا۔اس کے برعکس پاکستان نظریہ اور کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ۔ ہم نے اس نظریہ سے منہ موڑ ا تو 1971ء کا کوڑا ہم پر برسا اور بنگلہ دیش الگ ہو گیا۔اگر ہم نے اسلام کے نظام کی طرف پیش قدمی نہیں کی توہمارے حالات نہیں سنور سکتے۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی سطح پر مسائل بہت ہیں لیکن ان سب کی اصل بنیاد اور جڑ یہ ہے کہ ہم نے جس وعدے کی بنیاد پر ملک حاصل کیا اس کے مطابق یہاں نظام خلافت کو قائم نہیں کیا ۔ غور فرمائیے گا! اللہ تعالیٰ ہمیں باربار جھنجوڑا رہا ہے ،کبھی سیلاب کی صورت میں ،کبھی رمضان المبارک میں زلزلوں کے جھٹکے ،کبھی شدید معاشی بحران کے ذریعے۔ مگر شاید ہم جھنجوڑنے کے اس عمل سے عبرت حاصل کرنے کو تیار نہیں ہورہے ۔ہماری دعوت یہی ہے :
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاط} (التحریم:8) ’’اے اہل ِایمان! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ۔‘‘
اللہ رحمٰن ورحیم ہے ۔ اللہ غفور و کریم ہے ،اللہ تعالیٰ علی کل شی قدیرہے ۔ان حالات کو بدل دینااس کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ مگر ہم بھی تواللہ کی طرف پلٹیں۔وہ کہتاہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} (محمد)’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
یہی تنظیم اسلامی کی دعوت ہے ۔ خود اللہ کی بندگی کی کوشش کریں،بندگی کی دعوت دوسروں کودیںاور بندگی والے نظام کوقائم کرنے کی جدوجہد کریں ۔ اِس مغربی جمہوریت کافر سودہ نظام بھی فیل ہوچکا ہے ۔اس کا کھوکھلا پن سامنے آچکا ہے ۔واحد ر استہ اسلامی انقلاب ہے اورنظام خلافت کے قیام کے لیے پرامن اورمنظم سمع و طاعت والی اجتماعیت ہواور جس کے لیے منہج انقلاب نبویﷺ کو سامنے رکھتے ہوئے پرامن انقلابی تحریک برپا کی جائے۔
رمضان مبارک کے نتیجہ میں کیااچھاہوکہ ہمارے دل نرم ہوں اوراللہ ہمیں انفرادی طور پراوراجتماعی طورپر بھی رجوع الی اللہ کی توفیق عطا فرمائے ۔اللہ اپنی جناب میں ہمیںتوبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اگر ہم واقعتاً سچی توبہ کرلیںتواللہ علی کل شی قدیر ہے ۔اللہ دلوںکو بدل دے گا،اعمال کوبدل دے گااورپورے اجتماعی ماحول کو بدل دے گا۔شرط یہ ہے کہ :
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجاتاس کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔ اس کے سوا ہمیں کوئی پناہ نہیں ملے گی ۔ بقول شاعر ؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میںاللہ تعالیٰ ہمیں سچی پکی توبہ کی توفیق دے ۔ لیلۃ القدر میں جوپاکستان ہمیںملااس حقیقی پاکستان کواگر ہم حاصل کرناچاہتے ہیں تویہ سچی پکی توبہ کرنی ہوگی ۔ قرآن کے نظام کوتھامنا ہوگا اوراس کے نفاذ کی جدوجہد،نظام خلافت کے لیے جدوجہدکرنا ہوگی ، اس کے سوا ہمارے لیے کوئی حل نہیں ہے ۔ اسلام کے نام پرملک لیااوراسلام ہی کے نفاذ سے یہ ملک بچے گا بھی اور صرف اسی طرح اس کو سلامتی اور امن ملے گا ۔
اللہ تعالیٰ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پرسچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2024