(اداریہ) جمہوریت کی تائید کیوں ؟ - ایوب بیگ مرزا

10 /

اداریہ

حافظ عاکف سعید (سابق امیر تنظیم اسلامی)

جمہوریت کی تائید کیوں ؟

نوٹ: یہ مضمون اوآخر اگست 1990ء میں (بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے دورِ امارت کے دوران) رفقاء تنظیم اسلامی لاہور کے ایک مقامی اجتماع میں حافظ عاکف سعید صاحب حفظہ اللہ (سابق امیر تنظیم اسلامی) نے پڑھا۔ اِسے ماہِ اکتوبر 1990ء کے میثاق میں شائع کیا گیا۔ موجودہ ملکی حالات کے پس منظر میں اس تحریر کی قندِ مکرر کے طور پر اشاعت قارئین کے لیے بہت مفید رہے گی۔ (ادارہ)
رفقاء محترم ‘آج کے اس اجتماع میں جو موضوع مجھے دیاگیا وہ ہے تنظیم اسلامی اور جمہوریت ۔ اور اس موضوع سے مقصود جہاںتک میںسمجھ پایا ہوں یہ ہے کہ لوگوںکے ذہنوںمیںموجود اشکال کودو ر کرنے کی کوشش کی جائے کہ تنظیم اسلامی ایک جانب توخودکو ایک انقلابی تنظیم قراردیتی ہے لیکن دوسری جانب جمہوریت کی انتہائی شد و مد کے ساتھ وکالت اسی پلیٹ فارم سے ہوتی ہے ۔ آخر ہم پا کستان کے لئے جمہوریت کو لازمی و ضروری کیوں قرار دیتے ہیں !!
اس ضمن میںسب سے پہلی بات یہ سمجھ لینے کی ہے کہ جمہوریت اسلام سے متصادم ہر گز نہیں ہے ۔ بالخصو ص ’’جمہوریت بمقابلہ اسلام‘‘ کا نعرہ محض کم علمی اور کوتاہی پر مبنی ہے !
دیکھئے ‘جمہوریت کی روح کیا ہے ؟ کیا یہی نہیں کہ ایک خطۂ زمین میں رہنے والوں کو یہ حق ملناچاہئے کہ اس خطے کے اجتماعی معاملات ان کے باہم مشورے اور اکثریت کی رائے کے مطابق طے ہوں ۔ کوئی فرد واحد سیاہ و سفید کا مالک نہ بن بیٹھے ۔ ملک کی تقدیر کا مالک کوئی ایک شخص نہ ہوبلکہ وہاںکے رہنے والوں کی رائے اور مرضی کو بھی وہاں کے معاملات میںحق حاصل ہو۔۔۔۔۔یہ ہے جمہوریت کی روح جو اسلام سے ہرگز متصادم نہیں ہے ’’امَر ھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ‘‘ کے قرآنی حکم کے منشا سے بہت قریب ہے ۔ مادر پد ر آزاد جمہوریت جس میںعوام یا عوامی نمائندوں کے اختیار پر کہیں کوئی حدبندی نہ ہو ‘ قانون سازی کا کُل اختیار عوامی نمائندوں کو حاصل ہو‘ دین وشریعت کی با لا دستی کاکہیںکوئی حوالہ نہ ہو‘ بلا شبہ دین سے کوئی مناسبت نہیںرکھتی ۔ یہ درحقیقت مغرب کا تصور جمہوریت ہے ۔ وہ چونکہ عیسائی دنیاہے ‘ وہاں شریعت و قانون کو مذہب کے دائرے سے خارج سمجھا جاتا ہے ۔ (موجودہ شکل میں موجود تحریف شدہ) انجیل میںسرے سے شریعت ہے ہی نہیں‘ لہٰذ اوہاں قانون سازی کا اختیارحاکم وقت کو ہوتا ہے۔اگر کہیں بادشاہت کانظام برقرار ہے تو بادشاہ کا قانون نافذ ہو گا‘کہیں کوئی آمر مطلق مسلط ہے تو وہ اپنی مرضی کے قانون بنوائے گا اور اگر جمہور یعنی عوام کی حاکمیت ہوگی تو قانون سازی کا تمام اختیار عوام کو حاصل ہوگا ۔۔۔۔۔جبکہ ہم مسلمان چونکہ مدعی ہیںکہ ہمارے پاس اللہ کی عطا کردہ شریعت موجود ہے ‘ اور یہ کہ ہمار ا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر معاملے میںہمیںرہنمائی دیتا ہے لہٰذا ایک اسلامی ریاست میںلامحالہ شریعت کو بالادستی حاصل ہوگی ۔ اگر ملوکیت اور بادشاہت کا دور ہے تو بادشاہ وقت حدود و تعزیرات کے مکمل نظام کو نافذ کرنے کا پابندہوگا اور اگر سلطانی جمہور کا زمانہ ہے توبھی یہ حد بندی بر قرار رہے گی کہ قر آن وسنت کی معین کردہ حدود کے دائر ے کے اندر اندر تما م اجتماعی معاملات قرآنی حکم ’’امَر ھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ‘‘ کے مطابق طے ہوںگے ۔ ملکی نظم و نسق کو چلانے کے لئے عوام اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمائندوں کا چناؤ کریں گے اور وہ عوامی نمائندے مل جل کر اجتماعی معاملات کو چلائیں گے۔ قانون و شریعت کی تنفیذ کاعمل بھی اسی Institutionکے واسطے سے ہوگا۔
ا س پس منظر میںآپ غور کریں تو صاف نظر آئے گا کہ جمہوریت اپنے مزاج کے اعتبار سے ہرگز اسلام سے متصادم نہیں‘بلکہ اسلام کے عطا کردہ سیاسی نظام سے قریب ترین ہے ۔ ’’امَر ھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ‘‘ کا تقاضا جتنا کچھ اس میںپور ا ہو سکتا ہے ‘ملوکیت یاآمریت میںا س کا عشر عشیر بھی ممکن نہیں!
دور خلافت راشدہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔اس دور میں جبکہ ہر طرف ملوکیت کا دور دورہ تھااور دنیا جمہوری اقدار سے ناآشنا تھی ‘نبی اکرمﷺ نے جومعاشرہ تشکیل دیا اس میںجمہوری اقدار کی جھلک نمایا ں نظر آتی ہے۔ آپ ؐ صراحتہ ً کسی کواپنا نائب منتخب کیے بغیراس دنیاسے تشریف لے گئے ۔ آپ کو اپنے صحابہؓ پر اعتماد تھا کہ وہ باہم مشورے سے اپنے میں سے کسی ایسے فر د کابطور امیر انتخاب کر لیں گے جو منصب ِ خلافت کا اہل ہو دور خلافت راشدہ میںاگرچہ ملکی معاملات میںحتمی فیصلے کااختیار خلیفتہ المسلمین کوتھا لیکن خلیفہ کی رہنمائی کرنے والی اور اس کے فیصلوںپر تنقید ی نگاہ رکھنے والی ایک شوریٰ بھی وہاں موجود تھی۔ اس مجلس میںشریک افراد کی اصابتِ رائے اور فقاہت پر سب کو اعتماد ہوتا تھا۔ان کی حیثیت گویا مسلم عوام کے نمائندوں کی ہوتی تھی اور اہم معاملات میں امیر مشورے کے لئے ان سے رجوع کیا کرتا تھا۔ اُس دور میںجمہوریت کا اِس طرح کا کوئی تصور ممکن نہ تھا!
یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے اگرچہ اپنے مزاحیہ کلام میں جمہوریت پر طنز بھی کیا ہے خاص طور پر انتخابی سیاست کاجو انداز مغربی ممالک میںاختیار کیا جاتا ہے اس کے مفاسدپر چست کی ہیںکہ ؎
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن‘ ممبری‘ کونسل‘ صدارت
بنائے ہیں خوب آزادی نے پھندے
یہ شعر بھی بہت مشہور ہے ؎
گریز از طرز جمہوری غلامے پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکرے انسانے نمی آید
اپنے سنجیدہ کلام میںاو راپنے خطابت (تشکیلِ جد ید الٰہیاتِ اسلامیہ) میںوہ جمہوریت کی افادیت اور جمہوری نظام کی ضرورت و اہمیت کو پوری طرح اجاگر کرتے ہیں۔ وہ برملا اعلان کرتے ہیں کہ یہ دور ’’سلطانی جمہور ‘‘ کا دور ہے۔ اس میں کوئی اور نظام نہیں چل سکتا۔ وقت کے اس تیز رفتار دھارے کے سامنے تمام قدیمی نظام ریت کی دیوار ثابت ہوں گے ۔ حالانکہ اقبال کے وقت میںجمہوریت کو عملاً اس درجے فروغ حاصل نہیںتھا۔ وہ ایک مقبول نظریئے کے طور رپر ضرور متعارف تھی لیکن بالفعل جمہوری نظام دنیا کے بہت ہی کم حصے پر رائج و نافذ ہواتھا۔ تاہم اقبال کو ’روح عصر‘ کے پہنچانے میںکوئی دیر نہیں لگی ۔ وقت کے تقاضے اور تاریخ کے رخ کو انہوں نے اسی وقت بھانپ لیاتھا بلکہ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ جمہوریت اپنی روح کے اعتبار سے اسلام کے عطا کردہ سیاسی نظا م سے بہت قریب ہے ۔ چنانچہ اپنے خطبات میں انہوں نے اپنے اس موقف کو وضاحت سے بیان کیا ہے کہ اسلامی دنیاکے لئے جمہوریت کوئی نئی شے نہیںہے۔ مسلمانوں نے تو چودہ سال قبل جمہوری نظام کی جھلک دنیا کو دکھادی تھی ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جمہوریت اپنی اصل کے اعتبار سے اسلام کے ساتھ متصادم نہیں بلکہ ہم آہنگ ہے ۔
اب ہم اس بحث کے دوسرے اور حساس تر گوشے کی طرف آتے ہیںکہ ایک جانب ہم انقلاب کی بات کرتے ہیںاور ایک اسلامی انقلابی جماعت کی تشکیل کے لئے کوشا ںہیںلیکن دوسری جانب جمہوریت اور جمہوری عمل کی اہمیت پر سب سے زیادہ تاکیدی انداز بھی ہماری ہی طرف سے اختیار کیا جاتا ہے ۔ آخر کیوں؟
اس کے جواب میں یہ بات آپ نے بارہا بانی تنظیم ڈاکٹر اسرار احمدؒ سے سنی ہوگی کہ اس ملک کا استحکام اگرچہ اسلام اور حقیقی اسلامی انقلاب کے ساتھ وابستہ ہے لیکن اس کی سالمیت اور اس کی بقا کا دار ومدار جمہوریت پر ہے۔۔۔۔۔۔ سادہ الفاظ میںاسے یوںکہا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں اسلا م اگر اپنی صحیح روح کے ساتھ نہ آیا اور حقیقی معنوں میں اسلام کے نظام عدل اجتماعی کا نفاذ اگر یہاں نہ ہواتو یہ ملک نہ صرف یہ کہ ہمیشہ غیر مستحکم اور متزلزل رہے گا بلکہ اس کے لئے وجہ جواز ہی باقی نہ رہے گا۔ اس کے داخلی استحکام اور اس کی دیرپا بقا کا معاملہ صرف اور صرف اسلام کے ساتھ وابستہ ہے ۔ لیکن اگریہاں جمہوریت نہیں ہوگی سرے سے ملک کاوجود ہی برقرارنہیں رہ سکے گا۔ اور اس ملک کے مزید حصے بخرے ہوتے دیر نہیں لگے گی ۔
یہ موقف محض وقیاس کی بنیاد پر قائم نہیں کیاگیا بلکہ اس کی پشت پر بڑے مضبوط دلائل موجود ہیں :
(۱) پہلی بات یہ کہ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میںآیا تھا لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک جمہوری عمل (Democratic Process)کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔ اسی بات کو بانی تنظیم اسلامیؒ بیان فرماتے ہیںکہ پاکستان کی ولادت جمہوری Processکے ذریعے ہوئی ۔ گویا پاکستان کا باپ اگر اسلام کو قرار دیاجائے تو ا س کی ماں جمہوریت قرار پائے گی۔ پا کستان کی پیدائش میں جمہوریت کا جو حصہ ہے اسے نظر انداز نہیںکیا جاسکتا!
(۲) دوسرے یہ کہ یہاں کے مخصوص داخلی حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہاںجمہوری عمل بہرصورت جاری رہنا چاہیے ۔ اس لئے کہ یہ امرواقعہ ہے کہ پاکستان میںکوئی ایک نسل یا ایک ہی زبان بولنے والے آباد نہیںہیں او ریہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہوچکی ہے۔
جب تک اس ملک کے ہر علاقے کے لوگ یہ محسوس نہ کریںکہ کسی ایک ہی علاقے کے لوگ ملکی معاملات کے اجارہ دار نہیںبلکہ ملکی معاملات میں ان کی رائے کو بھی دخل ہے ‘ اس وقت تک اس ملک کی سا لمیت شدیدخطرے سے دوچار رہے گی۔ مختلف نسلوںاور علاقوں کے لوگوں کا یہ Sense of Participation اس ملک کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے !
تیسرے یہ کہ وقت کادھاراجس رخ بہہ رہا ہے اسے کسی صورت اب تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ نوعِ انسانی اپنے عہد طفولیت سے نکل کر پختگی اور بلوغت کے دور میں داخل ہوچکی ہے ۔ اپنے سیاسی حقو ق کا شعور مزدوروں اور کسانوں کی سطح تک بیدار ہو چکا ہے ۔اسے کسی طور دبانا اب ممکن نہ ہوگا۔ بقول اقبال سلطانی جمہور کے زمانے کا آغا ز ہو چکا ہے ‘اب چار وناچار اسی رخ پر آگے بڑھنا ہوگا۔
کسی بھی زوایہ نگاہ سے جائزہ لے لیا جائے نتیجہ یہی نکلے گا کہ پاکستان کی بقا اور سا لمیت اسی کے ساتھ وابستہ ہے ۔ مارشل لاء و مطلق العنان آمریت دونوں اس ملک کے لئے زہرقاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اوریہ وہ بات ہے جس کا اقرار نہ صرف تمام سیاست دان کرتے ہیں بلکہ ملک کے تمام ہوش مندلوگ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں ۔ ہاں اگر آنکھوں پر ذاتی مفادات کی پٹی بندھی ہویا کسی ایک جماعت کی دشمنی میںکوئی ہوش وحواس کھو چکا ہو تو اس کامعاملہ مختلف ہوگا۔ بصورت دیگر ہر باشعو ر پاکستانی یہ ماننے پر مجبور ہے کہ پاکستان کی سا لمیت کے لیے جمہوریت ناگزیرہے۔
یہ بات ذہن میں رکھیے کہ ایک انقلابی جماعت کے سر بر آور دہ لوگوں کا ہاتھ اگر حالات کی نبض پر نہ ہو اور وہ ‘روح عصر اور وقت کے تقاضوں کا شعور نہ رکھتے ہوں تو ملک میںبسنے والے ہوش مند اور باشعور لوگ اس جماعت اور اس کے انقلابی پر وگرام کو کوئی اہمیت نہیں دیںگے۔ جیسے کہ ہمارے پڑھے لکھے طبقات میں یہ خیال عام ہے کہ دینی مدارس سے فراغت یافتہ لوگ جنہوںنے جدید علوم کا مطالعہ نہیںکیا‘ آج سے صدیوںپرانے دور میںرہ رہے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔ یہی سوئے ظن ان کااس انقلابی جماعت کے بارے میںہوگا۔ لیکن اگر معلوم ہو کہ اس جماعت کی قیادت کرنے والے وقت کے تقاضو ں سے کماحقہ ‘واقف اور اسلام کے حَر کی تصور سے آگاہ ہیںتو وہ اس انقلابی جماعت اوراس کے پیغام پر کان دھرنے پر مجبور ہوں گے اور اگر صحیح انداز میں ان کے سامنے بات رکھی جائے تو وہ اس دعوت سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکیں گے۔ انقلاب کے نقطہ نگاہ سے یہ بات بہت اہم ہے ۔ اس لئے کہ پڑھے لکھے طبقات جنہیں ہم Intellectualsکہتے ہیں در حقیقت معاشرے کی قیادت کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ کو بدلے بغیر اور انہیں قرآن کی تلوار سے گھائل کئے بغیر کوئی ہمہ گیر تبدیلی لانا بعید از قیاس ہے ۔
ہمارے لئے جمہوریت کی تائید کرنااس لئے بھی ضروری ہے کہ جس خطے میںہم انقلاب برپا کرناچاہتے ہیں اور جسے ایک مثالی اسلامی ریاست بنانے کے خواہش مند ہیں‘وہ خطہ اگر اپنی آزاد حیثیت کھو دے یا ٹکڑوں میں منقسم ہو کر عملاً کالعدم ہو جائے تو اسلامی انقلاب برپا کرنے کا موقع ہمیںحاصل نہیں رہے گا۔ وہ شاخ ہی باقی نہ رہے گی جس پر ہم آشیانہ تعمیر کر نے چلے ہیں :
کہ بر گ و خس بیا ور دیم و شاخِ آشیاں گم شد
اس بات کو سمجھنے کے لئے ہندوستان کے مسلمانوں کا معاملہ ذہن میں لائیے ۔ وہ شدید خواہش رکھنے کے باوجود وہاں اسلامی نظام کی تحریک نہیں چلا سکتے جبکہ ہمیں یہ سہولت حاصل ہے کہ ہم ایک آزاد مسلمان ریاست کے شہری ہیں اورا س میںاسلامی انقلاب کی تحریک برپا کرنے کا موقع ہمیں حاصل ہے۔۔۔۔ چنانچہ اس خطہ زمین کا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم اس کے مستقبل اور اس کی سالمیت کے بارے میں غور وفکرکریں اور اس کی بقا اورا ستحکام کے تقاضوں کو پوراکرنے کے لئے اپنی سی سعی کریں!
ایک اور پہلو سے غور کیجئے ! ہجرت مدینہ کے بعد نبی اکرم ﷺ نے جوفوری اقدامات فرمائے ان میں یہودیوں کو معاہدوں میںجکڑ لینا بھی انتہائی اہم قدم تھا۔ غور کرنے سے آپﷺ کے اس اقدام کی یہ مصلحت سمجھ آتی ہے کہ ہجرت کے نتیجے میںجو خطۂ زمین مسلمانوں کو حاصل ہوا تھا اور جسے عالمی غلبۂ دین کے لئے اساس بننا تھا ‘ درحقیقت اس کی حفاظت مقصود تھی ۔ اندیشہ تھا کہ یہود مسلمانوں کو یہاں سے بے دخل کرنے کے لئے ہر ممکن سازش کریں گے۔ اس اعتبار سے ہر اس خطہ زمین کی حفاظت او رسا لمیت کے لئے تدابیر اختیار کرناجہاں دین حق کے غلبے کے لئے کام کا موقع حاصل ہو‘ نہ صرف یہ کہ بہت ضروری ہے بلکہ غلبۂ دین کی جد وجہد میں ایک جزو لازم کی حیثیت رکھتا ہے۔