(زمانہ گواہ ہے) پاکستان بحرانوں کی زد میں - محمد رفیق چودھری

9 /

1971ء میں بھی ہم نے عوام کے فیصلے کو قبول نہیں کیا تھا

تو ملک دولخت ہو گیا تھا ، اب کی بار ایک قدم مزید آگے بڑھ کر

ہم انتخابات ہی نہیں ہونے دے رہے :ایوب بیگ مرزا

مسئلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب نااہل لوگ اعلیٰ عہدوں

پر پہنچ جاتے ہیں، ہمارے تمام شعبوں اور اداروں میں اہلیت،

عدل اورانصاف کی کمی ہے : رضاء الحق

پاکستان بحرانوں کی زد میں کے موضوع پر

 

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال:اس وقت پاکستان انتہائی غیریقینی کی صورت حال سے دوچار ہے ۔ سپریم کورٹ کافیصلہ ہے کہ 14 مئی کو انتخابات ہونے چاہئیںجبکہ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ ایک ہی تاریخ میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں۔ کیا آپ کو14 مئی کوانتخابات ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:آپ نے درست فرمایا کہ اب غیریقینی کی صورتحال ہے اور یہ صورتحال گزشتہ ایک سال سے چل رہی ہے کیونکہ عوام نے رجیم چینج کافیصلہ قبول نہیں کیا۔ اس واقعہ کے اگلے ہی دن عوام سڑکوں پرآگئی تھی حالانکہ کسی نے کوئی تحریک شروع نہیں کی تھی اورنہ کسی نے کچھ انائونس کیاتھا۔وہاں سے یہ صورتحال شروع ہوئی اور اب یہ معاملہ اپنی انتہاکوپہنچ گیاہے اورملکی سلامتی کےلیے خطرناک ہوچکاہے۔ہم دعویٰ کرتے ہیںکہ ہم جمہوری ملک ہیں توجمہوریت کاتقاضا یہ ہوتا ہے کہ اگر ملک میں تنازع کھڑا ہوجائےتواس کا جمہوری حل یہ ہوتا ہے کہ انتخابات کےذریعے عوام سے فوری رجوع کیاجائے اورعوام کا فیصلہ حاصل کیا جائے یاپھرمعاملہ عدالت میں چلاجاتاہے اور جوبھی کسی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہوتی ہے ا س کافیصلہ سب کو قبول کرناپڑتاہے ۔ یہاں المیہ یہ بن چکا ہے کہ نہ تو الیکشن کی طرف جارہے ہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کیا جارہا ہے ۔ یقیناً اس سے پہلے بھی ہم نے آئین کے ساتھ کبڈی کھیلی ہے لیکن جمہوری حکومتوں میں جونہی معاملہ سپریم کورٹ تک جاتاتھا تو معاملات درست ہو جاتے تھے ۔ اب بھی اگر آپ کہتے ہیںکہ ہم عوام کے پاس نہیں جاتےتوپھردوسرا حل یہی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مانا جائے۔ یہ کہناکہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتےیہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہواہے ۔ہمیں یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ ہم انتہائی نازک موڑ سے گزر رہے ہیں ۔ 1971ء میں بھی ہم نے عوام کے فیصلے کو قبول نہیں کیا تھا توملک دولخت ہوگیا۔اس مرتبہ ہم ایک قدم آگے ہیںکہ ہم آئین کو بائی پاس کرکے الیکشن ہی نہیں ہونے دے رہے ۔ آئین میں واضح لکھا ہے کہ وقت پورا ہونے سےپہلے اگر آپ نے اسمبلیاں توڑی ہیں تو آپ کو90 دن کے اندرالیکشن کرانا پڑیں گے اور اگر وقت پورا ہونے پر اسمبلیاں ٹوٹ گئی ہیں تو ساٹھ روز میں الیکشن کرانےپڑیں گے۔ یہ آئین کا بالکل واضح اور صاف فیصلہ ہے۔ سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دے دیا اب اس فیصلے کو نہ ماننا آئین کے ساتھ کھلواڑ ہے اور یہ ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے ۔
سوال:انتخابات کے انعقاد کے لیے اس وقت سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں اور عمران خان بھی انتخابات کو 14 مئی سے آگے جون تک لے جانے پر تیار ہو گئے ہیں تو کیا اس طرح عمران خان بھی سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کر رہے ؟
ایوب بیگ مرزا: ایک ہے انتخابات کو گھسیٹ کر آگے لے جانا اور ایک ہے یہ اعلان کر دینا کہ الیکشن فلاں وقت پر ہوں گے ۔ ان دونوں باتوں میں فرق ہے ۔ آرٹیکل254 ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ کہیں فلاں دن نہیں ہو گا، فلاں دن ہو گا۔ آرٹیکل254کہتا ہے کہ اگرالیکشن نا گزیر وجوہات کی وجہ سے آگے چلا گیا ہے (آگے لایا نہیںگیا) توجو وقت گزر چکا ہے اس کو ایڈجسٹ کر لیا جائے گا ۔ یہ آرٹیکل ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ کہیں کہ کیونکہ اب نہیں ہوا لہٰذا دوماہ بعد ہوگا بلکہ وہ کہتاہے کہ اگر اب نہیں ہوا تو فوراً ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اور وجہ ہےتو وہ سپریم کورٹ کے سامنے لائی جائے ۔اگر سپریم کورٹ تسلیم کرلے تو ٹھیک ہے ۔
سوال:سیاسی جماعتوں کی باہمی مشاورت سے جو تاریخ بھی طے پاتی ہے توآپ کے خیال میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گااورپھرسپریم کورٹ انائونس کرے گاکہ الیکشن کاانعقادفلاں تاریخ کوہو؟
ایوب بیگ مرزا:جی سپریم کورٹ نے ہی یہ آپشن دیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوںکہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے فیصلے سے تھوڑا سا آگے بڑھ کر سیاستدانوں کو موقع دے رہا ہے کہ وہ آپس میں مل کر طے کرلیں کہ الیکشن ایک ہی دن کروانے ہیں یا الگ الگ کروانے ہیں لیکن اگرآپ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے تو پنجاب کے انتخابات 14 مئی کو ہی ہوں گے ۔ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ الیکشن کو 14 مئی سے آگے لے جا سکے ۔ البتہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اتنے محدود وقت میں پرنٹنگ مکمل نہیں ہوسکتی لہٰذا مزید کچھ وقت دیا جائے ۔ اس سے زیادہ الیکشن کمیشن انتخابات میں تاخیر نہیں کرسکتا ۔ ہاں اگر سپریم کورٹ نے خود کہا ہے کہ سیاستدان مل کر فیصلہ کرلیں کہ الیکشن ایک ساتھ کرانے ہیں ، اگر ایک متفقہ دن کا تعین ہو جاتاہے تو الیکشن کمیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ اس میں چند دن کا اضافہ کر دے گابشرطیکہ سپریم کورٹ ضروری سمجھے۔ لیکن اگر سیاستدان متفقہ فیصلہ نہیں کرتے تو پھر سپریم کورٹ مجبور ہے ، اس نے آئین کا ڈنڈا چلانا ہی چلانا ہے ۔
سوال: حامد میر نے مسئلہ کشمیر پر جنرل باجوہ کے حوالے سے جو باتیں کی ہیںاس سے بہت سے سوالات کھڑے ہو گئےہیں ۔ آپ کی نظر میں اس میں کتنی سچائی ہے اور یہ بھی بتائیے کہ عمران خان کے دور حکومت میں کیا جنرل باجوہ مسئلہ کشمیر پر حکومت کے ساتھ ایک پیج پر نہیں تھے ؟
رضاء الحق:حامد میر سے پہلے جاوید چودھری نے بھی اپنے ایک مضمون میں اس حوالے سے لکھا تھا جس کی کچھ باتوں کا حوالہ حامد میر نے بھی دیا ہے ۔ اصل مسئلہ وہیں سے شروع ہوتا جب ہم نااہل لوگوں کو ذمہ دار بنا دیتے ہیں ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا(النساء:۵۸)’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘‘
پھر اس کے بعد اسی آیت کے آگے یہ بھی حکم ہےکہ :عدل کے ساتھ احکام نافذ کرو اور عدل کے مطابق ہی فیصلے کرو ۔ اسی طرح آپ نے سورہ احزاب کی آیت70اور71 کا حوالہ دیا۔ اس میں بھی ایک اور پیرائے میں ایک حکم بڑا واضح طور پر مسلمانوں کو اور تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ہے :
’’اے اہل ِایمان !اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور بات کیا کرو سیدھی۔ اللہ تمہارے سارے اعمال درست کردے گا اور تمہاری خطائیں بخش دے گا۔ اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت پر کاربند ہوگیا تواُس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی۔‘‘
اب ان دونوں چیزوں کو دیکھیں تو پاکستان کا اصل مسئلہ سمجھ میں آجاتاہے ۔ ہماری سول اسٹیبلشمنٹ ہو ، ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہو یا جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ ہو ، یہ سب اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات حد سے بڑھ بھی جاتے ہیں ۔ اسی طرح ہماری سیاست میں بھی اہلیت ، عدل اور انصاف کی بجائے نااہلی ، کرپشن ، بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ غالب ہے۔ اسی طرح ہمارے اداروں میں جو لوگ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی اسی معاشرے سے اُٹھ کر آئے ہیں اور ان کے اندر وہ تمام برائیاں موجود ہیں جو معاشرے کا حصہ ہیں۔ اسی طرح ہمارے تمام شعبوں میں حق، عدل ، انصاف ، اہلیت کی کمی ہے ۔ ہمارے ہاں کہا تو یہی جاتا ہے کہ چیف ایگزیکٹیو وزیراعظم ہوتاہے ، آئین بھی یہی کہتا ہے لیکن عملاً ہمارے ہاں طاقت کا تمام تر سرچشمہ اور منبع آرمی چیف ہوتاہے ۔ کچھ باتیں آن دی ریکارڈ ہیں کہ امریکہ کے ساتھ ہم تعلقات کم کرتے رہے اور چین اور روس سے بڑھاتے رہے ۔اسی طرح بھارت اور اسرائیل کے حوالے سے ہمارا ایک اصولی موقف شروع سے تھالیکن اب جو آف دی ریکارڈ خبریں آرہی ہیں کہ مودی سے ڈیل کر کے کشمیر کے مسئلہ کو پچیس سال تک فریز کرنے کا پلان تھا ۔یہ پاکستان کی آفیشل سٹیٹ پالیسی کے خلاف تھا ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مودی سے ڈیل کروا کر شاید نوبل پرائز حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔
سوال:یہ خبر تو سچ ثابت ہوئی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر انہوںنے سیز فائز کروا دیا تھا۔ یہ خبر توان کے حق میں جارہی ہے ؟ 
رضاء الحق: اس میں کوئی شک نہیں کہ سیز فائر کروایا۔اس سے پہلے کشیدگی زیادہ تھی ۔ خاص طور پر پلوامہ واقعہ کے بعد کشیدگی بڑھ گئی تھی جب بھارت نے مبینہ سٹرائیک کیا اور جواب میں پاکستان نے بھی بھارتی طیارے گرائے ۔ اس وقت آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب تھے۔پھر 5اگست2019ءکو بھارت نےایک اور ظلم کیا کہ آرٹیکل 370اور35اے کو ختم کرکے کشمیر کو بھارت میں ضم کردیا ۔ اس وقت سے لے کر اب تک پاکستان کا آفیشل موقف یہی رہاہےجب تک بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت بحال نہیں کرتا پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات بحال نہیں کرے گا ۔ پھر اسرائیل کے ساتھ مبینہ تعلقات کے حوالے سے بھی خبریں سامنے آئیں ۔ کچھ صحافیوں نے کہا کہ میٹنگز ہوا کرتی تھیں ۔ اس حوالے سے ہم واضح طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین کے مطابق وزیراعظم چیف ایگزیکٹیو ہوتاہے ۔ اگر عمران خان کے دورحکومت میں یہ سب باتیں ہوئی ہیں تو اس کے ذمہ دار عمران خان بھی ہیں ۔ ظاہر ہے ان کے علم میں ہوں گی ۔ انہیں اس پر شپ اپ کال دینی چاہیے تھی یا کم ازکم عوام کو اعتماد میں لیتے ۔ اگر یہ سب نہیں کر سکتے تھے ، ظاہر اقتدار کی وجہ سے مجبوریاں ہوتی ہیں تو پھر ان ایکسٹینشن والے معاملے میں جنرل باجوہ کا ساتھ نہ دیتے ۔ میرے خیال میں اس کی ایک مکمل صاف، شفاف ٹرانسپیرنٹ ہائی لیول انویسٹیگیشن ضرور ہونی چاہیے۔
سوال: امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق صاحب جو باقی سیاسی جماعتوں پر سخت تنقید کرتے تھے اور موجودہ ملکی حالات کا ان کو ذمہ دار قرار دیتے تھے آج وہ انہی سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کروا رہے ہیں ۔ آپ کے خیال میں انہیں یہ ایجنڈا کس نے دیا؟
ایوب بیگ مرزا:پہلی بات میں یہ عرض کردوں کہ سراج الحق صاحب میرے نزدیک انتہائی نیک اور شریف انسان ہیں۔وہ اسلام اور پاکستان سے مخلص ہیں اس لیے وہ ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے یہ سب کررہے ہیں ۔ لیکن میرے خیال میں انہیں اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے تھا کیونکہ یہاں مقتدر قوتوں کی مرضی کے بغیر کوئی معاملہ سیٹل نہیں ہو سکتا ۔ اگر سراج الحق صاحب یہ کوشش مقتدرقوتوں کے اشارے پر کر رہے ہیں تو میری نظر میں بری بات تو تب بھی نہیں لیکن پھریہ کہا جاتا کہ سراج الحق صاحب استعمال ہورہے ہیں ۔ اب فریقین کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں لیکن سراج الحق صاحب کا کہیں نام نہیں ہے ۔
سوال: سراج الحق صاحب کی سادگی جیسے آپ نے فرمایا وہ بالکل واضح ہو رہی ہے کہ ایک طرف آپ ان تینوں جماعتوں کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اور پھر آپ ان کے درمیان صلح بھی کروانا چاہ رہے ہیں؟
ایوب بیگ مرزا: وہ ان پر تنقید کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ ان پارٹیوں کو ختم کردیا جائے ۔ وہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے نیک خواہش رکھتے ہیں ۔ البتہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں وہی کچھ ہوتاہے جو مقتدر قوتیں چاہتی ہیں ۔ جس پارٹی پر ان قوتوں کا دست شفقت ہوتاہے وہ بڑی بھی ہو جاتی ہے اور اچھی بھی ہو جاتی ہے ۔ پھر وہ ہر وقت اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اے پی سی بلائی جائے ۔ حالانکہ درجنوں اے پی سی میں نے اپنی زندگی میں دیکھی ہیں کسی کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ بہرحال ہم ان کی سادگی اور اخلاص پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ان باتوں میں نہ پڑیں تو بہترہے ۔
سوال: پاکستان کی ماضی کی تاریخ اور حال کے واقعات سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا آئین ایسی ایک دستاویز بن چکی ہے جس پہ اپنی خواہشات کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔ چاہے جمہوری حکمران ہوں یا فوجی آمر وہ موم کی ناک کی طرح آئین کو اپنی طرف موڑ لیتے ہیں ۔ آپ کے خیال میں آئین کے ساتھ کھلواڑ کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟
رضاء الحق:آپ نےبالکل درست فرمایا۔ خاص طور پر فوجی مارشل لاء کے دور میں تو آئین نام کی کوئی چیز نہیں رہتی ، اس کی جگہ کوئی اور چیز لے آئی جاتی ہے جس طرح ایل ایف اوجیسی کاریگری ہم نے دیکھی ۔ ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاءالحق نے تو باقاعدہ مارشل لاء کا نام استعمال کیا۔پرویز مشرف نے بڑی چالاکی سے چیف مارشل لاء  ایڈمنسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکٹیو کا لیبل اختیار کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مارشل لاء کا نام Outdatedہو چکا ہے ۔ پھر بعد میں انہوں نے emergency plus کے نام سے نئی چیزیں متعارف کروائیں ۔ اصل میں ہمارے ہاں آئین کو وہ حیثیت حاصل نہیں ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی۔ مثال کے طور پر اسلامی تشخص کے حوالے سے آئین کی جتنی دفعات ہیں ان کو توسب سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے، ان کو اپلائی کرنے کی ضرورت ہےلیکن وہ بھی اپلائی نہیں ہوتیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں بنیادی انسانی حقوق کی جتنی شقیںہیںان پر بھی عمل نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ جب اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہو ۔ آرٹیکل 19 آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے بارے میں بات کرتا ہے، اس پر جتنا عمل ہوتاہے ہمارے سامنے ہے ۔ پھر آرٹیکل 10ہر ایک کو عدالت میں اپنا مؤقف پیش کرنے کا حق دیتاہے مگر یہاں اٹھا کے غائب کر دیا جاتا ہےاور پھر لواحقین مسنگ پرسنز کا صرف انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں ۔ اور تو اور انتخابات کے حوالے سے آئین جو کہتا ہے اس پر کتنا عمل ہورہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اصل معاملہ مافیاز کا ہے۔ یہاں شروع سے ہی ہر ادارے میں مافیاز کی اجارہ داری ہے ۔ اگر یہی صورت حال رہی اور آئین پر عمل درآمد نہ ہوا تو عوام کا بھی آئین سے اعتماد اُٹھ جائے گا اور پھر ہر طرف فساد ، انارکی اور انتشار پھیلے گا ۔
سوال:مئی کے آغاز میں شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن (SCO) کا اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ اس میں پاکستان کے وزیر خارجہ بھی شرکت کریں گے ۔ آپ کے خیال میں انہیں کشمیر کے حوالے سے کیا موقف اپنانا چاہیے اور ان پیچیدہ حالات میں ہمارے آرمی چیف چین کا چار روزہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں وہ کتنی اہمیت کا حامل ہے ؟
رضاء الحق: پہلی بات تو یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک علاقائی تعاون کی تنظیم ہے جس میں روس بھی ہے ، چین بھی ہے ، دیگر وسطی ایشیا ئی ممالک بھی ہیں اور اب تو ساری دنیا مبصر کے طور پر آتی ہے۔ پاکستانی وزیرخانہ کا اس میں شرکت کرنا بھارت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کےچارٹر پر دستخط کر چکا ہوا ہے لہٰذا اس میں جاناہی جاناہے۔اگر پاکستان اس کابائیکاٹ کرے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے وزیر دفاع بھی آن لائن شرکت کریں کیونکہ چین اور روس کے وزیر دفاع بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جارہے ہیں ۔ اس کے بعد سربراہان کی سمٹ ہوگی اس میں شاید ہمارے وزیر اعظم بھی جائیں ۔ اس کے بعد اگلے دو تین سال میں اس تنظیم کی صدارت پاکستان کو مل جائے گی تب بھارت سمیت تمام رکن ممالک کو پاکستان آنا پڑے گا ۔ جہاں تک آرمی چیف کے دورہ چین کی بات ہے تو یہ بہت خوش آئند ہے ، پاکستان کو روس اور چین سے تعلقات بڑھانے چاہئیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ امریکہ سے تعلقات بگاڑ لیے جائیں لیکن اتنا بھی امریکہ کی غلامی اختیار نہ کی جائے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچا سکے ۔ پاکستان کو اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ جب پاکستان امریکہ کی دوستی میں حد سے بڑھا ہے تو نقصان اُٹھایا ہے جیسے نائن الیون کے بعد اُٹھایا اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی پراکسیز پاکستان میں متحرک ہو جاتی ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کرواتی ہیں ۔ اس کے برعکس پچھلے چار پانچ سال سے پاکستان امریکہ سے تھوڑا پیچھے ہٹا ہے تو دہشت گردی بھی کنٹرول ہوئی ہے ، اس دوران ہماری پالیسی بھی قدرِ آزاد ہوئی ہے اور چین سے بھی تعلقات بڑھے ہیں۔ روس سے بھی پاکستان کے تعلقات بڑھ رہے ہیں ۔ اب آرمی چیف کا دورہ چین انتہائی اہم ہے جس میں چین کے انتہائی اہم فوجی اور سول اعلیٰ عہدیداران سے ملاقاتیں ہوں گی ۔ چین یہ چاہ رہا ہے کہ اس خطہ میں امریکی اثر رسوخ کو محدود کیا جائے ۔ جس طرح اس نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ کروا کر امریکی مفادات کو ضرب لگائی ہے ۔ پھر اسی شنگھائی تعاون تنظیم اور BRICSکے تحت یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں نئی کرنسی کا استعمال شروع کیا جائے ۔ یہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا کہ کیونکہ ڈالر سے جان چھوٹے گی اور قرضوں اور سود سے بھی جان چھوٹے گی ۔ خاص طور پر ایشیائی ممالک کے ساتھ ہماری تجارت بڑھے گی تو ہمارے بہت سارے مسائل اس وجہ سے حل ہوں گے ۔ پاکستان میں بہتری آسکتی ہے بشرطیکہ دیانت دار قیادت ہو اور ملکی مفاد میں فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتی ہو ۔ اس کانفرنس میں شرکت کے ذریعے پاکستان کے پاس موقع ہوگا کہ وہ کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اُٹھائے ۔
سوال: پچھلے ایک سال میں پاکستان میں سیاسی انتشار بڑھا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آڈیو اور ویڈیو لیکس کا پاکستان میں ایک نیا trend آیا ہے۔ اب تو ٹاپ لیول کے لوگوں کی خواتین کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے جو کہ انتہائی شرمناک فعل ہے اور اس کے بہرحال معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوں گے ۔ آپ کے خیال میں یہ ٹرینڈ کہاں سے آیا اور اس کے مقاصد کیا ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا: پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی چیز جب ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔ شروع شروع میں لوگوں نے اس طرح کے ہتھکنڈوں کو سیریس لیا ۔ لیکن اب عوام کی اکثریت اس کوسنجیدہ لیتی ہی نہیں۔اگرچہ ان آڈیوز اور ویڈیو لیکس سے بعض افراد کا دہرا معیار اور اخلاق باختگی بھی سامنے آئی ہے جو قابل مذمت ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی ویڈیوز بنانا بڑا جرم ہے ۔ بجائے اس کے کہ ویڈیو میں جو کچھ ہے اس پر توجہ دینے کے ویڈیو بنانے والے کو گرفت میں لیا جائے اور اس سے پوچھا جائے اس نے ویڈیو کس مقصد کے تحت بنائی ۔کون سے آئین اور قانون میں یہ شامل ہے کہ آپ لوگوں کے پرائیویٹ معاملات میں دخل اندازی کریں ۔ لہٰذا اصل جرم ایسی ویڈیوز بنانا ہے ، بنانے والوں کو پکڑا جائے اور ان کو سزا دی جائے ۔
سوال:ہمارے موبائلز ، ہماری نجی زندگی تک رسائی تو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے ۔ کوئی عام بندہ کسی کی فون کال ٹیپ نہیں کر سکتا ۔ لہٰذا جو یہ کر سکتے ہیں وہی ذمہ دار ہیں ان کے کیا مقاصد ہیں ، کیا یہ بات اب عوام کے سامنے نہیں آنی چاہیے ؟
ایوب بیگ مرزا: بالکل یہ بات اب سامنے آنی چاہیے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک طاقتور لوگوں کو آئین کے تابع نہیں کیا جائے گا ، انہیں قانون کی گرفت میں نہیں لیا جائے گا ، جب تک قانون کی نظر سب برابر نہیں ہو جاتے اس وقت تک مسائل ختم نہیں ہو سکتے ۔