(منبرو محراب) قرآن مجید سے تعلق:چندعملی تجربات - ابو ابراہیم

9 /

قرآن مجید سے تعلق:چندعملی تجربات

(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے28اپریل 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
ماہ رمضان مہمان کی طرح آیا اور رخصت ہوگیا مگر اس مہمان کا خوبصورت اور عظیم ترین تحفہ قرآن مجید کی صورت میں ہمارے پاس ہے ۔یہ تذکرہ رمضان میں عام ہوتا ہے کہ قرآن رمضان کی مبارک شب (شب قدر) میں آسمان دنیا پر نازل ہوا تھا اور اسی قرآن کی بدولت اس شب اور اس ماہ کو فضیلت حاصل ہوئی۔رمضان میں تلاوت قرآن بھی ہوتی ہے اور تراویح میں سنا بھی جاتاہے لیکن رمضان کے بعد قرآن مجید کے ساتھ ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہیے ؟ آج یہی توجہ دلانا مقصود ہے کہ قرآن مجید کو پڑھنے ، سیکھنے ، سکھانے ، سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کے حوالے سے انفرادی سطح سے لے کر ریاستی سطح تک کرنے کے کام کیا ہیں ۔ چار پانچ سال پہلے بھی اسی موضوع پر میں نے خطاب کیا تھا جس میں آٹھ نکات بیان کیے تھے ۔ آج انہی کا خلاصہ بیان کرنا مقصود ہے لیکن اس سے پہلے فہم قرآن کے مختلف درجات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کیونکہ فہم قرآن کے درجات اگر ہم سمجھ جائیں توکنفیوژن سے بچ جائیں گے ۔
فہم قرآن کے دوپہلو
قرآن حکیم کی مشہور آیت ہے جوسورۃ القمر میں چار مرتبہ دہرائی گئی ہے :
{وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ(17)}’’اور ہم نے قرآن کو آسان کر دیا ہے نصیحت اخذ کرنے کے لیے‘تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا!‘‘
یہاں قرآن نے لفظ ذکراستعمال کیاجس کامفہوم نصیحت، یاددہانی اورقرآن کابنیادی پیغام ہے۔ یعنی نصیحت اور یاددہانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کو آسان کردیا۔
لیکن سورۃ ص ٓ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰـتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(29)}’’(اے نبیﷺ!) یہ کتاب جو ہم نے آپؐ پر نازل کی ہے بہت بابرکت ہے‘ تاکہ وہ اس کی آیات پر تدبر کریںاور ہوش مند لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔‘‘
یہاں تدبر کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی ہیں غووفکر کرنا ۔اس تعلق سے فہم قرآن کے دودرجے یادوپہلو ہیں۔ تذکر کا پہلو نسبتاً آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کا سادہ پیغام،بنیادی ہدایت اور نصیحت ہمارے سامنے آجائے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیاہے ، ہمیںپیدا کرنے والا کون ہے،وہ ہم سے کیاچاہتاہے ،کن باتوں سے راضی ہو گا،کن باتوں سے ناراض ہوگا۔ قرآن کے اس میسج کو ایک عام آدمی اور غیر مسلم بھی آسانی سے سمجھ سکتاہے اور نصیحت پا کر اسلام قبول کر سکتا ہے۔فہم قرآن کا دوسرا پہلو یعنی تدبر نسبتاً مشکل ، گہرا اور تفصیل طلب ہے ۔ اس میں ایک ایک آیت اورایک ایک لفظ پرگہرائی میں جاکر غور و فکر کرنا، عربی اسلوب کے اعتبار سے کلام کرنا، فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے کلام کرنا، پھر دور جدید کے مسائل کے لیے قرآن حکیم سے راہنمائی لینا،فقہی مسائل کی تفصیلات معلوم کرنا،نئے مسائل سامنے آجائیں گے توان کاحل تلاش کرناوغیرہ شامل ہے ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا،جواپنی زندگیاں حق کی کھوج میں لگائیں گے انہیں اس تدبر کے کچھ نہ کچھ موتی مل جائیں گے مگر یہ سپیشلائزیشن کاپہلوہے ۔
دوانتہائی رویے:
مفسرین نے متفقہ رائے قائم کی ہے کہ فہم قرآن کے ان دونوں پہلوؤں کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔ اگر اس فرق کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا تو پھر لوگ صرف ترجمہ پڑھ کر ہی خود کو عالم ، مفسر ، علامہ ، مفتی اور مجتہد سمجھنا شروع ہو جائیں گے ۔ یہ انتہا بھی درست نہیں ہے ۔ دوسری طرف یہ کہنا کہ قرآن کاترجمہ نہیں پڑھناچاہیے گمراہ ہوجائوگے‘ یہ انتہا بھی غلط ہے ۔ یہ علماء نے سینکڑوں تراجم لوگوں کوگمراہ کرنے کے لیے کیے ہیں ؟ایک غیرمسلم ہے، اسے عربی نہیں آتی، اس نے انگریزی،جرمن یاکسی دوسری زبان میں قرآن کا ترجمہ پڑھا ،اس کوکچھ سمجھ آیااوروہ اسلام قبول کرلے توکیاہم اس کے قبول اسلام کاانکار کریں گے کہ تم نے ترجمہ پڑھ کے اسلام قبول کیاہے ؟ یہ بڑی عجیب بات ہے اوریہ دوسری انتہاہے۔ اعتدال یہ ہے کہ بندہ نصیحت اور رہنمائی کے لیے قرآن پڑھے اور اس پر غوروفکر کرے اور جو نصیحت اور رہنمائی حاصل ہو اس پرایمان بھی لائے اور عمل بھی کرے ۔ اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کتنی سطحیں ہیں اور ان سطحوں پر کس طرح قرآن کی پیروی کی جاسکتی ہے ۔
1۔پہلی سطح :فرد کی سطح پر:
سب سے پہلے انفرادی سطح پر قرآنی تعلیمات کے نفاذ کا تقاضا ہے ۔ ہم غور کریں کہ اپنے اوقات میں قرآن کو کیسے شامل کرسکتے ہیں، کیسے اس سے نصیحت اور رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں اور دنیا و آخرت کی بھلائی پا سکتے ہیں ۔ ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ غیر مسلموں نے قرآن میں تذکر اور تدبر کے ذریعے ہدایت کی راہ پالی ۔ان میں سے کوئی ادب کی دنیا کا بڑا کردار تھا ، کوئی میڈیکل کے شعبے میں تھا ، کوئی بزنس مین تھا ، کوئی سائنسدان تھا لیکن اس کی زندگی کا کوئی واقعہ ، کوئی تجربہ ایسا ہوا جس پر اس نے غوروفکر کیا اور قرآن سے رہنمائی اور ہدایت لی تو وہ اسلام میں داخل ہوگیا ۔ کبھی قرآن کی ایک آیت ، کبھی دو آیات اور کبھی ایک سورت نے کسی کی زندگی بدل دی ۔علامہ محمد اسد تاریخ پاکستان کی معروف شخصیت ہیں ۔ وہ پہلے یہودی تھے پھر مسلمان ہوئے اور مشہور کتاب The Road to Mecca تصنیف کی۔ انہیں سورۃالتکاثر کی پہلی دوآیتوں نے اسلام کی طرف راغب کیا۔ وہ ٹرین کی فرسٹ کلاس بوگی میں سفر کررہے تھے ۔ گھرآکربیگم سے کہا کہ فرسٹ کلاس میں سارے مالدار لوگ سفر کررہے تھے ، لباس بھی عمدہ تھے مگر سارے اداس تھے ۔ اتنا مال ہونے کے باوجود وہ مطمئن نہیں ہیں ۔ اس پر وہ غوروفکر کر رہے تھے کہ ان کی نظر قرآن پر پڑی ، جب کھولا تو سامنے سورۃالتکاثرآگئی ۔ شروع کی دو آیات نے ہی ان کو متاثر کردیا :
{اَلْہٰىکُمُ التَّکَاثُرُ (1) حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (2)} ’’تمہیں غافل کیے رکھا ہے بہتات کی طلب نے!یہاں تک کہ تم قبروںکوپہنچ جاتے ہو۔‘‘
انہیں یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس طرح ان کی زندگی بدل گئی ۔
ڈاکٹر حمیداللہ ؒ بڑی شخصیت تھے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے ۔ اللہ نے بعد میں ان سے بہت کام لیااورکئی زبانوں میں لیا۔ ایک فرانسیسی ماہر میوزیشن ان کے پاس آیا اور کہا میرامیوزک کاتجربہ ہے اور میں قرآن کے صوتی آہنگ پر ریسرچ کر رہا ہوں لیکن ایک سورۃ(النصر) کی صوتی ترتیب میری سمجھ میں نہیں آرہی ۔ ڈاکٹر حمیداللہm نے اس کو ایسا جواب دیا کہ وہ اُچھل پڑا اور جھومنے لگا ۔ اس کے بعد اس نے اسلام قبول کرلیا ۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھ سے زیادہ قرآن کے صوتی آہنگ کو کوئی appriciateنہیں کر سکتا۔ یعنی وہ شخص ماہر میوزیشن تھا اور اس کو قرآن کے صوتی آہنگ نے ہی اتنا متاثر کر دیا کہ وہ اس کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان لے آیا۔ ایک غیر عرب شخص نے عربی میں پی ایچ ڈی کرلی۔ اس کے عرب طلبہ نے اس سے ایک سوال کیا کہ سر!آپ نے بہت عربی پڑھی ہے ، ایسے الفاظ بتائیں جو جہنم کی وسعت کی صحیح ترجمانی کر سکیں ۔ اس نے بہت سارے الفاظ لکھ دیے ۔لیکن جہنم کی وسعت کے تصور کا احاطہ نہ ہوسکا۔ کہا گیا سورۃ ق ٓکی یہ آیت پڑھیے :
{یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَئْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ (30)}’’جس دن ہم پوچھیں گے جہنّم سے کہ کیا تُو بھر گئی؟اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے؟‘‘
وہ دھنگ رہ گیا اورایمان لے آیا ۔کیونکہ ماہر لسانیات کی حیثیت سے وہ سمجھ گیا کہ یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہزاروں مثالیں دنیا میں موجود ہیں۔ہم تو پیدائشی مسلمان ہیں۔قرآن کے دس دس نسخے ہمارے گھروں میں ہیں کیایہ قرآن ہماری زندگیوں میں انقلاب نہیں برپا کردے گا؟اپنے معاشرے میں بھی نظر دوڑائیں تو کتنے ایسے بے عمل مسلمان تھے جن کی زندگیوں میں قرآن کی بدولت انقلاب آگیا۔ قرآن پر ایمان تو ہم سب مسلمانوں کا ہے مگر اصل چیزاس کو پڑھنا ، سمجھنا ، نصیحت حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے ۔
2۔دوسری سطح:گھراورخاندان میں:
ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے گھرانے اچھے ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھرانے جنتی ہوں۔ ہمارے پاس اب موقع ہے ۔ مہلت توکسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہے۔ ہم لوگوں کے جنازے پڑھتے ہیں کل ہمارا جنازہ پڑھاجائے گا۔کل ہم کہاں ہوں گے۔ ہماری فیملی کدھر ہوگی ۔خدارا !اس قرآن سے گھروالوں کوجوڑئیے۔ ایسے ایسے پیارے گھرانے ہیں جہاں رات کے کھانے پردس پندرہ منٹ قرآن کابیان ہوتا ہے۔چاہے وہ کوئی تفسیر پڑھ کربیان ہو ۔ ہمارے استاد ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کا بیان القرآن بھی ہے ۔ایسے گھرانے ہیں جہاں پہلے زندگی کا رخ کچھ اورہی تھا۔گھر کے کسی ایک فرد کو سمجھ آگئی اس نے گھروالوں کواس طرف متوجہ کیا۔بعض لوگ اتوار کی چھٹی کو ایک ڈیڑھ گھنٹے کابیان لگالیتے ہیں، کھانا بھی ہوتا ہے اورپھرگفتگو بھی ہوجاتی ہے اورقرآن کو سننے ، سمجھنے کاسلسلہ چل رہاہوتاہے ۔ گھر کے بعد خاندان کی سطح پر یہ کام ہورہا ہے ۔ ایک بڑے خاندان کے دس ،پندرہ بیس گھرانے ہیں ۔ جب وہ اکٹھے ہوتے ہیں تو قرآن کی محفل سجتی ہے ۔ یہ صر ف پاکستان کے شہروں میں نہیں بلکہ سڈنی اورنیویارک جیسے شہروں میں بھی ہورہا ہے ۔ انہیںآخرت کی فکر ہے ۔ کہیں ایک گھنٹہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کادرس لگا کر سناجاتا ہے ۔بچوں کی ذمہ لگائی جاتی ہے کہ دو تین آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور پھر والدین ان کی تفسیر سنا دیتے ہیں۔ اگر آخرت مطلوب ہے تو یہ ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں ہے ۔اللہ کو راضی کرناہے توقرآن کو بائی پاس کرکے یہ ممکن نہیں ہے ۔ قرآن کے ذریعے ہی اللہ سے جڑ سکتے ہیں ۔
3۔تیسری سطح:مساجد:
مساجد اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہیں ۔بالخصوص جمعہ کے دن توکروڑوں مسلمان بغیر کسی اشتہار یااعلان کے آرہے ہیں۔جمعہ کے خطبہ کا مقصد ان لوگوں کو قرآن سے جوڑنا تھا ۔ رسول اللہﷺ کامعمول احادیث میں بیان ہوا :
((کان یقراء القرآن و یذکرالناس)) ’’آپﷺ قرآن پڑھتے اورقرآن کے ذریعے لوگوں کو تذکیرفرماتے تھے ۔‘‘ڈاکٹر اسراراحمد ؒ نے اس سنت کو زندہ کیا اور اب تنظیم اسلامی کے مدرسین اورعلماء خطبات جمعہ میںکہیں قرآن کا سلسلہ وار مطالعہ کرواتے ہیں اور کہیں منتخب مقامات کی تشریح بیان کرتے ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ مساجد کو اس طرح استعمال میں لاناچاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ کابڑا رول مسجد نبوی میں ہوتاتھا۔ مسجدنبوی کو دیکھیں توچوبیس گھنٹے کا استعمال تھا۔ہمارے ہاں قرآن اکیڈمیز کی مساجد میں جمعہ کے علاوہ بھی دروس قرآن ہوتے ہیں۔ ایسے دروس قرآن کا اہتمام ہو ، خواتین کے لیے باپردہ انتظام ہو ۔
4۔چوتھی سطح:دینی اداروںمیں :
بہت سارے دینی ادارے اور دینی اجتماعیتیں ہیں جنہوں نے بہت کام کیا ہے ۔ الحمدللہ! مدارس اور دیگر اداروں کابھی اس میں بہت کردارہے ۔انجمن خدام القرآن بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹرا سرارا حمدؒ نے اولاً لاہور میں 1972ء میں قائم کی ۔پھرپاکستان کے کئی شہروں میں انجمن خدام القرآن اوران کے تحت قرآن اکیڈمیز اور قرآن سنٹرز یاقرآن مراکزکاسلسلہ جاری ہے۔ جن میں کئی کورسز بھی کرائے جاتے ہیں ۔ سب سے بڑا رجوع الی القرآن کورس ہے جوخود ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے 1980ء کی دہائی میں شروع کیا،اب پاکستان کے کئی شہروں میں جاری ہے ۔ لاہوریکم مئی سے شروع ہو چکا ہے۔اسی طرح کراچی میں چار مقامات پراورحیدرآباد میں ایک مقام پر اورکچھ دوسرے شہروں میں یہ کورس ہوتاہے ۔ تفصیلات ہماری ویب سائٹس پرموجود ہیں۔ ہم اس کی آفر کرتے ہیں ۔ خاص طورپران لوگوں کے لیے جواپنی دنیوی تعلیم مکمل کرچکے ہیں،اب وہ آئیں اوردین کا اورقرآن کا بنیادی علم حاصل کرکے باعمل مسلمان بھی بننے کی کوشش کریں اور دین کی دعوت اوردین کی اقامت کی جدوجہد کاکام بھی کریں ۔اب یہ کورسز آن لائن بھی ہوتے ہیں ۔بڑی دلچسپ بات ہوئی کہ پچھلے سال UKسے کچھ لوگوں نے وہ کورس آن لائن مکمل کیا۔الحمدللہ !اسی طرح تنظیم اسلامی اورانجمن خدام القرآن کے تحت شام کے اوقات میںبھی ہم کچھ کورسز آفر کرتے ہیں ۔ہفتہ اتوار کو بھی بعض مرتبہ کچھ کورسز آفر کرتے ہیں۔ان سب کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن سے جوڑا جائے ۔
5۔پانچویں سطح:عصری تعلیمی اداروں میں :
عصری تعلیمی اداروںمیں سکولز،کالجز،یونیورسٹیز شامل ہیں ۔انگریز کے بنائے ہوئے تعلیمی نظام میں قرآن سے جوڑنے کا تصور نہیں تھا لیکن اب الحمد للہ یہ سلسلہ کئی عصری تعلیمی اداروں میں چل رہا ہے ۔ الحمدللہ !بعض ایسے سکولوں کومیں جانتاہوں جہاں اسمبلی کے وقت میں طے کیاگیاکہ 7،8منٹ قرآن پاک کے لیے مخصوص ہوں گے ۔ان سکولوں نے طے کیا کہ ایک طالب علم نے آ کر تین چار آیات کی تلاوت کرنی ہے ،دوسرے طالب علم نے آکرترجمہ کرناہے اورپھرٹیچر نے آکرتشریح کرنی ہے۔ انہوں نے اس طرح سترہ پارے دوسال میں مکمل کرلیے تھے ۔ایسی کچھ مثالیں پاکستان کے دوسرے شہروں کی بھی ہیں جن کو میں ذاتی طورپرجانتاہوں ۔اسی طرح بعض سکولوں نے کوشش کی کہ صرف اسمبلی میں قرآن نہ پڑھایاجائے بلکہ قرآن ناظرہ اورترجمہ کمپلسری مضمون کے طورپرپڑھایاجائے ۔بعض سکول عربی گرائمر بھی پڑھارہے ہیں ۔ ہم ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ تفصیلات درکار ہوں گے توہم آپ کو فراہم کردیں گے ۔ ان شاء اللہ!اسی طرح پرائیویٹ کالجز میں بھی یہ کام ہو رہا ہے۔ایک کالج میں اسلامیات کی پروفیسر نے یہ قدم اٹھایا کہ انٹرمیڈیٹ کے طلبہ اسمبلی میں تلاوت بھی کریں گے، ترجمہ بھی کریں گے اورٹیچر ان کی تشریح کریں گے۔ اورپھربچے بھی بیان کریں گے ۔جب ایک سورت مکمل ہوتی تھی تومجھے یاہمارے ساتھیوں میںسے کسی کو بلاکراس کا پندرہ بیس منٹ کاریویو کروالیتی تھیں۔ الحمدللہ! یہ ممکن ہے ۔اسی طرح بعض کالجز نے باقاعدہ دروس قرآن کا اہتمام کیا، لڑکیوں کے لیے کسی معلمہ کاانتظام کیااورلڑکوں کے لیے الگ کسی معلم کا انتظام کیا۔ یہ سب ممکن ہے ۔ بس جب آخرت کی فکر ہوگی، اللہ کو راضی کرنے کی فکرہوگی تویہ سب کام ہوگا۔اگر ماں باپ سوچتے ہیں کہ ہماری اولاد صدقہ جاریہ بن جائے، ایک سکول کامالک سوچے کہ پانچ سوبچہ روزانہ پندرہ منٹ قرآن پڑھے گاتوصدقہ جاریہ کا لیول کیا ہوگا ۔اسی طرح کالجز کے انوسٹر اورآنرزہیں جن کی کالج انتظامیہ مانتی ہے وہ سوچیں کہ اگر اللہ کو راضی کرنا ہے تو کتنا بڑا موقع ہے ۔ اگر ایک chainکے اندر دس ہزار بچہ پڑھ رہاہے ۔روزانہ قرآن کی تلاوت ، ترجمہ اور تشریح کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے تو اس معاشرے کے ہزاروں بچے قرآن سیکھ لیں گے اور قرآن کا پیغام ان تک پہنچ جائے گا ۔ اس کا قوم کو کتنا فائدہ ہوگا ۔ اسی طرح یونیورسٹیز ہیں۔ میں خود کئی یونیورسٹیز میں درس کے لیے جاتا رہا ہوں ، انہوںنے باقاعدہ درس رکھوائے ہیں اور پھرقرآنی گرائمر کی کلاسز رکھوائیں ۔ بعض یونیورسٹیز نے باقاعدہ تنخواہ پر مدرس رکھے ہوئے ہیں ، بعض نے اپنے پورے دن کی لاٹس میں ایک لاٹ فکس کر دیا، دورومز فکس کردیے ۔ ان کے اندر جن بچوں نے قرآن پڑھنا ہوتاہے وہ پڑھتے ہیں ۔ یہ سب کام ممکن ہے ۔ اگر ہم بھی تھوڑی محنت کریں اورسکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز کی انتظامیہ کو ترغیب دلائیں تو مزید بہتری آسکتی ہے ۔
6۔چھٹی سطح:تجارتی ادارے:
کاروباری ادارے ہیں، کمپنیزاورفیکٹریزہیں۔ ان میں بھی دروس قرآن ہو تے ہیں ، میں خود درس دینے جاتا رہا ہوں ۔ ایک ادارے کے مالک نے ایک عالم کی خدمات حاصل کیں کہ نماز ظہر کے بعد تین چار آیات کی تلاوت ، ترجمہ اور تشریح کرنی ہے ۔ مالک سمیت سارا سٹاف پندرہ منٹ قرآن سنتا ہے ۔ساڑھے تین سال میں قرآن کی تکمیل ہوئی، انہوں نے celebrateکیا۔ ایک دوسری ٹریڈنگ کمپنی ہے ا ن کے ہاں تین مرتبہ دس سال میں قرآن حکیم کی تکمیل ہوئی۔ان کاساراسٹاف وہاں ہیڈآفس آتا تھا،ان کوچائے پلاتے تھے ،پیز ا بھی کھلاتے تھے ۔آنرخود بھی بیٹھتا تھا۔آنراورسٹاف نے تجربہ بیان کیا کہ ہمارے اندر تبدیلی آئی ہے ۔ الحمدللہ رب العالمین ! یہ سب ممکن ہے ۔اسی طرح ایسے لوگوں کو میں جانتاہوں جن کو کمپنی نے ڈیوٹی کے دوران اجازت نہیں دی لیکن انہوں نے پونے نو سے لے کر59 :9تک درس قرآن کاسلسلہ شروع کیا،ڈھائی سال میں قرآن کی تکمیل ہوگئی۔اسی طرح آڈٹ ٹرینیز تھے، ظاہرآڈٹ فرم تواجازت نہیں دے گی لیکن انہوں نے سوا آٹھ بجے سے 27:8تک اس فرم قرآن کے درس کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ ساری مثالیںآج کے دور میں موجود ہیں ۔
7۔ساتویں سطح:میڈیا پر
میڈیامیں فرنٹ لائن سیٹلائٹ چینلز بھی ہیں اور اب توسوشل میڈیا ہے ۔اگرچہ بہت کچھ بگاڑ اور فساد بھی ہے ، جتنا بچیں اتنا کم ہے لیکن اگر ہم دینی وقار کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال میں لائیں تو فائدہ ہوگا ۔میڈیا والے بزنس کمیونٹی کے لوگوںکی پروڈکٹس بیچنے کے لیے، فلموں ، ڈراموں کو پروموٹ کرنے کے لیے اشتہارات چلاتے ہیں ، کیاعجب کہ اسی فیلڈ سے کوئی اللہ کا بندہ درس قرآن کا اشتہار بھی اپنے چینل پر چلادے ۔میڈیا میں محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمت کے پیروکار بھی ہیں ، ان کی بھی ذمہ داری ہے ، اُن سے بھی کل سوال ہوگا ۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر تنظیم اسلامی کے مختلف پلیٹ فارمز سے قرآن کے پیغام پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے ، دیگر دینی حلقوں کے لوگ بھی یہ کوشش کررہے ہیں ۔ میڈیا کا مثبت استعمال کرکے دین کی خدمت کی جاسکتی ہے ۔
8۔آٹھویں سطح:ریاست کی سطح پر:
آئین کی پاسداری بالکل ہونی چاہیے ۔ آئین کا تقاضا ہے کہ انتخابات وقت پرہوں بہت اچھی بات ہے ۔ مذاکرات بھی ہورہے ہیں ،ہونے چاہئیں لیکن یہ جوانتشار او ر ہیجانی کیفیت ملک میں چل رہی ہے اورمعاشی ابتری اپنی انتہاکوپہنچی ہوئی ہے،اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے جس نظریہ کی بنیاد پر ملک حاصل کیا تھا اس کو عملی شکل نہیں دی۔ ہم جس جمہوریت کی با ت کرتے ہیں اور جو سیاسی سطح پر شعور انسانی کی معراج سمجھی جاتی ہے اس کی جڑ اور بنیاد ہمیں رسول اللہﷺ اورخلفائے راشدین j کی تعلیم سے ملے گی۔ ہمارے دین نے مشاورت کی تعلیم عطا فرمائی،اس کو سامنے رکھیں گے توملکی سالمیت ہمیں میسر آسکے گی۔اللہ تعالیٰ اس میں آسانی پیدا فرمائے ۔
بہرحال آئین کے آرٹیکل 31 میں لکھاہوا ہے کہ وقت کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کوکتاب وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیں ۔ پانچ ساڑھے پانچ کروڑ بچہ سکولوں میں ہے، ڈیڑھ کروڑ سکولوں سے باہرہے ،لاکھوں یونیورسٹیز میں ہیں۔ یہ 60 فیصد یوتھ اگر قرآن سے گزر جائے توکتنااچھاکام ہوگا۔ ریاست کی سطح پرایک متفق علیہ ترجمہ بھی موجود ہے جس پرتمام مکاتب فکر کے علماء کااتفاق ہے ۔ اللہ کرے کہ وہ پراسس آگے بڑھے اورواقعتا ًوہ اپنی روح کے ساتھ آگے چلے ۔ میں نے جمعہ کے خطبہ میں ذکر کیا تو ماشاء اللہ دو تین ساتھیوں نے رابطہ کیا کہ اورکہاکہ ہم بات آگے چلائیں گے ۔ اللہ ان کوجزائے خیر دے ۔
بہرحال ان آٹھ سطحوں سے قرآن کی بات چلنا شروع ہوجائے توآپ سوچئے کہ یہ پیارا پاکستان اور کتنا پیار اہوجائے گا۔یہاں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کئی مثبت تبدیلیاں آئیں گی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک سے تعلق کی مضبوطی اورفہم قرآن کے حوالے سے آج سے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین!