اداریہایوب بیگ مرزا
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے ……
آقائے نامدار رہبر و رہنما حضرت محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کو دنیا کے جس خطے سے ٹھنڈی ہوا آئی تھی اُس کی کانٹ چھانٹ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم ہوا۔ دین ِاسلام پاکستان کی بنیاد تھا اور جمہور نے 1946ء میں ووٹ کے ذریعے اس بنیاد پر ایک ڈھانچہ تعمیر کر دیا۔ اسلام اور جمہوریت دونوں حوالوں سے آغاز کے چار (4) سال کوئی ایسے بُرے نہیںتھے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ 1951ء تک مثبت پیش رفت ہوئی تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس قلیل عرصہ میں قومی اسمبلی جو آئین ساز اسمبلی بھی تھی، اُس نے قرار داد مقاصد منظور کی جو ایک بڑی پیش رفت تھی اور اکتیس (31) علماء نے بائیس (22) نکاتی دستاویز پر دستخط کرکے اُن عناصر کو دندان شکن جواب بھی دےدیا جو اس طرح کا بے ہنگم شور مچا رہے تھے کہ پاکستان میں کس کے مسلک کا اسلام نافذ ہوگا۔ پھر یہ کہ جمہوری طرزِ حکومت کے حوالے سے لیاقت علی خان ایک مستحکم حکومت قائم کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہے تھے۔ ایک ایسی نوزائیدہ ریاست جسے تقسیم کے بعد اپنے جائز اثاثے بھی عیار ہندو سے وصول نہیں ہوئے تھے، اچھے متوازن بجٹ بھی منظور کرانے میں کامیاب ہو رہی تھی۔ غیر ملکی قرضے نہیں تھے۔ اپنے وسائل سے معاملات چل رہے تھے۔ لیکن پھر نجانے کس بدبخت کی نظر اس ملک کی آسودگی کو نگل گئی۔
اکتوبر 1951ء میں لیاقت علی خان شہید کر دیئے گئے۔ تب اسلام اور جمہوریت دونوں کو ریورس گیئر لگ گیا۔ نظریاتی سطح پر آہنی پردے حائل کرکے حقیقی اسلام کے نفاذ کا راستہ یوں روک دیا گیا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست بننے کی بجائے محض مسلمانوں کا ملک بن جائے، جس میں اسلام بحیثیت نظام نہیں ہوگا بلکہ ایک اسلامی ٹچ دے کر عام مسلمان کو مطمئن کر دیا جائے۔ گویا سیکولرازم پر اسلام کے کچھ چھینٹے ڈال دئیے گئے یعنی دوسرے عام ممالک کی طرح مملکت خداداد پاکستان میں بھی مذہب کا ریاستی معاملات میں دخل بند کر دیا گیا۔ انفرادی سطح پر نماز پڑھو، روزے رکھو، زکوٰۃ بھی چاہو تو دے دو، لیکن اجتماعی سطح پر اور law of the land کے حوالے سے زبان بند رکھنا ہوگی۔ 1951ء سے 1958ء تک جمہوری طرزِ حکومت کو گھسیٹتے رہے اور دھکیل دھکیل کر چلاتے رہے۔ لیکن 1958ء میں اس کی کمر پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ بیچاری آج تک کُبڑی چل رہی ہے۔ اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسلام جسے ہمارے نزدیک پاکستان کی روح کا درجہ حاصل ہے اور جمہوریت جو پاکستان کا جسد ہے، دونوں انتہائی کمزور، لاغر اور ضعیف ہو چکے ہیں۔ فضا میں گِدھ بے تابی سے منڈ لا رہے ہیں اور نوچنے کے لیے مناسب وقت کے انتظار میں ہیں۔ آئیے مریض کی نبض چیک کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ مرض کتنا سوہانِ روح بن چکا ہے اور جسد میں کس درجہ سرایت کر چکا ہے۔
اسلام کو ہم نے کتابوں میں بند کر رکھا ہے۔ آئین میں بڑے خوبصورت انداز میں اس کا ذکر ہے۔ اس اسلام کو چوما اور چاٹا تو جا سکتا ہے لیکن اس کا نفاذ نہیں ہو سکتا۔ اب تو کوئی اسلامی جماعت بھی اپنے منشور میں دھڑ لے سے یہ کہنے کو تیار نہیں کہ اسلام کو اجتماعی سطح پر بلا شرکت غیرے نافذ کیا جائے۔ انتخابات میں اسلام اب موضوع بحث ہی نہیں ہے۔ رہی بات جمہوریت کی تو اُس سے ہمارا تعلق صرف اتنا ہے کہ ہم اِسے اقتدار کے لیے بطور سیڑھی استعمال کرتے ہیں۔
جمہوری طرز حکومت میں ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں۔ (1) اسمبلی بطور قانون ساز ادارہ جس کے ارکان عوام منتخب کرتے ہیں۔ (2) انتظامیہ جو اسمبلی کے بنائے ہوئے قوانین کی بنیاد پر اپنی اتھارٹی قائم کرتی ہے جس میں اوّلین فریضہ عوام کی خدمت اور اُن کی بنیادی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے۔ تمام Law Enforcing Agencies اور عسکری ادارے اُس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ (3) عدلیہ بھی ریاست کا ایک ستون ہے جو آئین اور قانون کی تشریح کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر قانون ساز اسمبلی آئین سے ماورا یا اُس کی منشا کے خلاف کسی ذاتی مفاد میں کوئی قانون بناتی ہے تو عدلیہ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اُس قانون کو ختم کر دے اور اُس کے نفاذ کی اجازت نہ دے یا انتظامیہ کسی شہری یا ادارے کے خلاف ایسی کارروائی کرتی ہے جس کی آئین اور قانون اجازت نہ دیتا ہو تو عدلیہ اُس شہری یا ادارے کی مدد کو پہنچتی ہے اور انتظامیہ کو ایسا کرنے سے روکنے کا اختیار رکھتی ہے۔ جمہوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ جمہوریت کے ان تین ستونوں کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ کوئی ادارہ سپریم نہیں ہے بلکہ آئین سپریم ہے اور آخری فیصلہ عدالت عالیہ کرے گی کہ کس کی domain کیا ہے اور یہ فیصلہ حتمی ہوگا۔ اس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل تو کی جا سکتی ہے لیکن اس کا انکار نہیں کیا جا سکے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں باہم سر پھٹول میں مصروف ہیں۔ سب اقتدار اور قوت کے حصول کے لیے اندھے ہو چکے ہیں۔ کوئی اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر کچھ دیکھنے سننے اور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کوئی سیاست دان فوج میں میر جعفر اور میر صادق کی موجودگی بتا رہا ہے۔ کوئی جرنیل کسی انتہائی مقبول عوامی سیاست دان پر کاٹا لگا رہا ہے کہ اسے کسی صورت اقتدار میں آنے نہیں دیا جائے گا چاہے عوام کی بھاری اکثریت اُس کے ساتھ کیوں نہ ہو۔ کوئی سیاست دان اپنے خلاف فیصلہ ہونے پر عوامی جلسوں میں اعلیٰ عدالت کے ججوں پر کھلم کھلا کیچڑ اچھال رہا ہے۔ کوئی جج از خود نوٹس لے کر آدھی رات کو وقت کے وزیراعظم کو فارغ کر رہا ہے اور کوئی جج اقامہ کا بہانہ بنا کر وزیراعظم کو نااہل قرار دے رہا ہے۔ کوئی سیاست دان G.H.Q کے گیٹ نمبر 4 پر تکیہ لگائے بیٹھا ہے۔ اسمبلی میں اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں سے حددرجہ بدتمیزی ہو رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ شہریوں کو غیر قانونی طور پر اٹھا لینا اور مہینوں عدالت میں پیش نہ کرنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ وہ غداری کے سرٹیفکیٹ بھی فراخ دلی سے ٹانک دیتے ہیں اور یہ بات تو شاید دنیا میں صرف پاکستان میں ہو رہی ہے کہ حکومت صاف اعلان کر رہی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اتنا ہنگامہ برپا ہے، اس قدر اُدھم مچا ہوا ہے اور طوفان ہی نہیں اٹھا ہوا بلکہ ایک سونامی ہے جو ملکی سلامتی کی دیواروں سے اس بُری طرح ٹکرا رہا ہے کہ ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ خیر کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری حالت اس شعر کے مصداق ہے
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُلو کافی تھا
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگااس سیاسی بھونچال نے اتنی معاشی بدحالی کر دی ہے کہ غریب ہی نہیں متوسط طبقہ بھی بُری طرح پِس گیا ہے اور مایوسی کی طرف جا رہا ہے تعلیم اور صحت کی اب ثانوی حیثیت ہوگئی ہے اس لیے کہ دو وقت کی روٹی نہیں مل رہی بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ اس محدود جگہ میں ہم مکمل معاشی صورتِ حال کا نقشہ تو نہیں پیش کر سکتے صرف ٹیکسٹائل کے ایک شعبہ کی زبوں حالی کا ذکر کیے دیتے ہیں۔ گزشتہ ماہ سالانہ بنیادوں پر ٹیکسٹائل برآمدات میں 29% اور ماہانہ بنیادوں پر 1.6% کمی ریکارڈ کی گئی اور ٹیکسٹائل برآمدات میں کوششیں تاحال کارگر ثابت نہیں ہو سکیں۔ رواں مالی سال کے پہلے دس(10) ماہ جولائی تا اپریل کے دوران برآمدات میں 14.20% کمی ہوئی۔ ماہ اپریل میں ٹیکسٹائل برآمدات ایک ارب 24 کروڑ ڈالر رہیں اور پورے سال میں جولائی تا اپریل 13 ارب 24 کروڑ ڈالر رہیں۔ جبکہ گزشتہ سال جولائی تا اپریل 15 ارب 97 کروڑ ڈالر رہی۔گویا دن بدن ہم کنگال ہو رہے ہیں۔ آخر میں ہم حکومت کو یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ آج آپ ایک غیر مقبول حکومت ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرنا چاہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی آپ کی پشت پر اُتنے زوردار انداز میں نہیں ہے جیسے ایک سال پہلے تھی کل کلاں اگر کوئی مقبول حکومت سپریم کورٹ کی حکم عدولی یہ کہہ کر کرے گی کہ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے تو اُسے روکنا بڑا مشکل ہو جائے گا اور اُس گناہ کا بھار بھی آپ پر ہی پڑے گا۔ خدارا یہ رِیت نہ ڈالیں۔ آج حکومت غیر مقبول ہے اور شکست کا امکان ہے کل معاملہ برعکس ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ملک کو کسی بڑے حادثہ سے دوچار ہونے سے بچائیں۔ ملک کو بنانا ریپلک یا پولیس سٹیٹ بننے سے بچائیں وگرنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024