الہدیٰ
پیغمبر شاعر نہیں ہے
آیت 224{وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ(224)} ’’اور شعراء کی پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں۔‘‘
مشرکین ِمکّہ میں سے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ محمد (ﷺ) نے شاعری سیکھ لی ہے اور یہ کہ قرآن دراصل ان کا شاعرانہ کلام ہے۔ اس حوالے سے یہاں دراصل یہ بتانا مقصود ہے کہ شاعروں کے کردار کو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔ تم خود سوچو کہ ایسے کردار کو ہمارے رسول (ﷺ) کے کردار سے کیا نسبت؟
اس آیت میں شعراء کے پیروکاروں کے بارے میں جو بنیادی اصول بتایا گیا ہے اس میں مجھے کوئی استثناء(exception) نظر نہیں آتا۔ اگرچہ علّامہ اقبال کا معاملہ بہت سے اعتبارات سے مختلف ہے مگر ان کے پیروکاروں پر بھی قرآن کا یہ قانون سو فیصد منطبق ہوتا ہے ۔ اس حقیقت کو اس پہلو سے دیکھنا چاہیے کہ علّامہ اقبال ؔ کے حاشیہ نشینوں میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا سامنے نہیں آ سکا جس نے ان کے نظریات کی روشنی سے اپنی عملی زندگی کا کوئی گوشہ روشن کیا ہو اور اپنی شخصیت میں بندۂ مؤمن کے اس کردار کی کوئی رمق پیدا کرنے کی کوشش کی ہو جس کا نقشہ علّامہ اقبالؔ نے اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔ بلکہ علّامہ اقبال تو خود اپنے بارے میں بھی اعتراف کرتے ہیں کہ محض گفتار کے غازی تھے: ؎
اقبال ؔبڑا اپدیشک ہے مَن باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا ‘ کردار کا غازی بن نہ سکا!اس حوالے سے سورۂ یٰسین کی آیت ۶۹ میں حضورﷺ کے بارے میں بہت واضح طور پر فرمادیا گیا ہے : {وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ط} ’’ ہم نے آپؐ کو شعر کہنا سکھایا ہی نہیں اور یہ آپؐ کے شایانِ شان ہی نہیں۔‘‘
درس حدیث
آدابِ استغاثہعَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ ؓ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ:(( إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، وَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ))(صحیح بخاری)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میں بشر ہوں۔ تم اپنے جھگڑوں کے فیصلہ کے لیے میرے پاس آتے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ دوسرے فریق کے مقابلہ میں اپنی دلیل کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ دلائل سننے کے بعد میں ایک فریق کے حق میں فیصلہ کردوں (تو اسے خدا سے ڈرنا چاہئے) اور ایک شخص کو دوسرے کے مال کا مالک بنا دوں تو وہ نہ لے۔ بے شک میں آگ سے ایک ٹکڑا کاٹ کر اسے دے رہا ہوں۔‘‘
تشریح:اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر کے سامنے دو آدمی وراثت کے معاملہ میں جھگڑ رہے تھے۔ ان کی توتکار سن کر حضور ﷺ باہر تشریف لائے اور ان سے فرمایاکہ میں بشر ہوں ہر شخص کے دلائل سننے کے بعد ہی میں نے فیصلہ کرنا ہے اور وہ فیصلہ صرف دلائل کی بنا پر ہوگا۔ بعض لوگ دوسرے فریق کے مقابلہ میںاپنے دلائل کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں درآنحا لیکہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے نہیں ہوتے، تم خدا سے ڈرتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش کرو۔ اگر میں نے کسی فصیح و بلیغ آدمی کے دلائل سے متأثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اسے ایک ایسی چیز کاملک بنا دیا جس کافی الواقع وہ مالک اور مستحق نہیں ہے تو اسے گمان نہ کرنا چاہئے کہ میرے اس فیصلہ سے حرام حلال ہو جائے گا۔ بہر حال جو شخص اپنی طلاقت لسانی کی وجہ سے اپنے حق میں فیصلہ کرا رہا ہے۔ وہ اچھی طرح یہ بات اپنے ذہن میں رکھے کہ اس نے آگ کا ایک ٹکڑا وصول کیا ہے یعنی اس مالِ حرام کی وجہ سے اسے قیامت کے دن آگ میں جانا پڑے گا۔
عدالت صرف اس بات کی مکلف ہے کہ وہ اپنی حد تک مقدمہ کے مواد، دلائل اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں فیصلہ کرے۔ عدالت میں جانے والے ہر شخص کو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم، اس حقیقت کو فراموش نہ کرنا چاہئے کہ مرنے کے بعد اللہ کی بے لاگ عدالت میں بھی یہ مقدمہ زیر بحث آئے گا ۔ طلاقتِ لسانی اور ذہانت کا کوئی حربہ وہاں کارگر نہ ہوسکے گا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024