(اداریہ) اے اللہ ہم پر رحم فرما! - ایوب بیگ مرزا

4 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

اے اللہ ہم پر رحم فرما!

ہمیں کسی اور زبان کا تو خاص علم نہیں البتہ اردو لغت پاکستان کی سیاسی اور معاشی دگرگوں حالت بیان کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ قومی سطح پر جو اضطراب، اضطرار ہے اور ہیجانی و پریشانی اور بے یقینی کی کیفیت ہے اُس کا نقشہ ان الفاظ کے استعمال سے بھی پورے طور پر سامنے نہیں آتا۔ سرمایہ کاری رک چکی ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں، روزگار کی پہلے ہی کوئی ایسی اچھی حالت نہ تھی۔ صنعتیں بند ہونے اور تجارتی مندی اور کساد بازاری سے بے روزگاری کا اژدھا منہ کھولے معصوم زندگیاں ہڑپ کر رہا ہے۔ کوئی باپ بے روزگاری اور معاشی تنگ دستی سے مجبور ہوکر حرام موت کو گلے لگا رہا ہے تو کوئی ماں بھوک سے بلکتے بچوں کو بے سہارا چھوڑ کر زمین کے پیٹ کو زمین کی پیٹھ پر ترجیح دے رہی ہے۔ کراچی جس کی رونقیں کبھی مشہور تھیں وہاں اگر کوئی ساعت ایسی گزر جائے کہ راہزنوں کی شہریوں سے چھینا چھپٹی نہ ہو تو یہ ایک خبر ہے۔ لاکھوں پاکستانی اپنا دیس چھوڑ کر دیار غیر جا چکے ہیں، لاکھوں رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ گزشتہ سال تک ہم کہہ رہے تھے کہ کہیں ہمارا حال سری لنکا جیسا نہ ہو جائے، آج معاشی لحاظ سے ہم سری لنکا سے بھی کمتر سطح پر آگئے ہیں۔
پاکستان میں اگرچہ موسم گرما ابھی زوروں پر نہیں ہے لیکن ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر برف کی طرح پگھل رہے ہیں۔ سینکڑوں کنٹینرز بندرگاہوں پر آئے پڑے ہیں اور ہمارے پاس پیسے نہیں کہ اُنہیں چھڑا کر ملک کے اندر لائیں اور اپنے عوام کو ضروریاتِ زندگی فراہم کر سکیں۔ اگرچہ ہمارا روایتی کشکول پوری طرح حرکت میں ہے لیکن اوّل تو کوئی سخی اب اُس میں کچھ ڈالنے کو تیار نہیں اور ویسے بھی ہم اس بدترین صورتِ حال میں بھی اس کے سوراخ بند کرنے کو تیار نہیں۔ ڈالر جو خود دنیا بھر میں بے توقیری کا شکار ہے پاکستان میں اُس نے ٹرپل سنچری مکمل کر لی ہے، لیکن پھر بھی نایاب ہے۔ ڈالر آگے آگے بھاگ رہا ہے اور ہمارا امپورٹر گرتا پڑتا اُس کا تعاقب کر رہا ہے اور ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کئی ارب روپے کے مساوی زرمبادلہ یورپ خاص طور پر امریکہ کے اسفار میں لگا چکے ہیں لیکن نتیجہ صفر نہیں بلکہ مائنس میں ہے۔ کیونکہ اس حکومت کو شروع میں جو امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل تھی وہ بھی نہیں رہی۔ اُس کی وجہ حکومتی کارکردگی کی بُری طرح ناکامی اور کرپشن ہے۔
حکومتی جماعت کے اپنے انتہائی اہم رکن اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی مفت آٹے کی تقسیم میں 20 ارب روپے کی کرپشن کی آواز لگا رہے ہیں، لیکن کسی انکوائری کی ضرورت نہیں۔ عجب اور حیران کن بات یہ ہے کہ ساری دنیا کا سیر سپاٹا کرنے والے وزیر خارجہ نے سوا سال میں ہمسایہ اسلامی برادر ملک افغانستان جس کے ساتھ ہمارے بہت سے مسائل جڑے ہوئے ہیں، وہاں جانے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔ بلکہ وزیر مملکت حنا ربانی کھر کو وہاں بھیج کر افغان طالبان کی حکومت کو مزید ناراض کیا ہے جو امریکہ سے ضرورت سے زیادہ ہماری گہری وابستگی اور اُس کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ پر پہلے ہی ہم سے ناراض تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ملک کو اس حالت میں چھوڑ کر جبکہ معاشی ابتری انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے ماضی کے آقاؤں کی رسم تاج پوشی میں قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے پہنچے۔ جہاں سرکاری دورہ ہونے کے باوجود برطانیہ کی وزارتِ خارجہ کے ایک جونیئر آفیسر نے اُن کا استقبال کیا۔ کون ہماری عزت کرے گا جب ہم اپنی عزت کی نیلامی خود ہی کرتے رہیں گے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ بھارت نے اپنے وزیر کی سطح پر بھی اُس تقریب میں شرکت کرنا گوارا نہیں کیا بلکہ رسمی عہدہ پر فائز نائب صدر نے تقریب میں حصہ لیا۔
یہاں قارئین کرام کے یہ گوش گزار کرنا بھی ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ بھارت کے وزیر خارجہ نے کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کو بے نقط سنائی تھیں کہ انگریز ہندوستان میں حکومت کے دوران ہماری دولت لُوٹ کر برطانیہ لے گیا تھا اور ہمارا خطہ جو دنیا کا امیر ترین خطہ تھا اُسے دیوالیہ کر دیا تھا۔ انگریز کے ہندوستان آنے سے پہلے ہندوستان کو سونے کی چڑیا اور اناج گھر کہا جاتا تھا۔ بہرحال پاکستان ہنگامی صورتِ حال سے دو چار تھا اور وزیراعظم پانچ روز کے لیے لندن میں براجمان تھے۔ عوام جانیں اور اُن کی غربت و افلاس اور بے چارگی جانے ہمیں کیا تعلق ہم خود سونے کا چمچ لے کر تو پیدا نہیں ہوئے تھے لیکن ہمارے بچے دنیا بھر کی کرنسی منہ میں دبائے پیدا ہو رہے ہیں۔
جہاں تک اپوزیشن یعنی تحریک انصاف کا تعلق ہے جو ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے اور عدل و انصاف، انسانی حقوق اور جمہوریت کے نعرے لگاتی ہے۔ خود کو دوسری سیاسی جماعتوں سے منفرد اور بلنداخلاقی کا دعویٰ کرتی ہے وہ بھی ایک آزمائش میں بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔ چند روز پہلے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو اُس کے کارکنوں نے جو طوفانِ بدتمیزی برپا کیا اور سرکاری املاک کا جو حشر کیا وہ صرف اُن کی جماعت کے لیے ہی نہیں ہر پاکستانی کے لیے باعث شرمندگی اور خجالت تھا۔ لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس میں داخل ہوگئے۔ وہاں توڑ پھوڑ کی اور یقیناً لوٹ کھسوٹ بھی کی گئی ہوگی۔ سڑکوں پر گزرتے ہوئے عام فوجی سپاہیوں پر پتھر پھینکے گئے۔ ذرائع آمد و رفت میں رکاوٹ ڈال کر عوام کے لیے مصائب کھڑے کر دیئے۔ ریل گاڑیاں روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی اُس روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتاری اور اُن سے پولیس کی بدسلوکی کوئی اچھا طرزِ عمل نہیں تھا۔ گرفتاری کا عمل پہلے عام آدمی کے نگاہ میں مشکوک تھا، پھر عدالت عظمیٰ نے اُس کو غیرقانونی قرار دے کر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ لیکن تحریک انصاف سے سوال پوچھنا لازماً بنتا ہے کہ اس میں بے چارے عوام کا کیا قصور تھا کہ دو دن اُن کی زندگی عذاب بنی رہی اور اُن کے لیے روزمرہ زندگی کا تسلسل برقرار رکھنا ممکن نہ رہا۔ خدا جانے کتنی ایسی موٹر سائیکلیں نذر آتش ہوگئیں جو بے چارے غریب عوام نے خون پسینہ ایک کرکے بمشکل حاصل کی تھیں۔ اُس دیہاڑی دار کا کیا قصور تھا جس کے لیے آپ نے سڑکوں اور راستوں سے گزرنا عذاب بنا دیا اور وہ خالی ہاتھوں واپس گھر لوٹا۔ ذرا اپنے ضمیر کو ٹٹولیں اور جواب دیں کہ آپ نے انسانیت کی کیا خدمت کی۔ ریڈیو پاکستان کا یہ قصور تھا کہ وہ آپ کو خبریں پہنچا رہا تھا لیکن آپ نے اُس کی عمارت جلا دی۔ عمران خان کی گرفتاری کے ساتھ کسی ادارے کا تعلق تھا یا نہیں تھا، اُسے نقصان پہنچانے کا کیا جواز تھا۔ صوبہ KPK اس معاملے میں دوسرے صوبوں سے بازی لے گیا۔ وہاں اس طرح کی غیر اسلامی ہی نہیں غیر انسانی حرکت بھی کی گئی جس کا ذکر کرکے روح کانپ اُٹھے۔ ایک ایمبولینس کو روک کر مریض کو سڑک پر کھڑا کر دیا گیا اور ایمبولینس کو آگ لگا دی۔ اے انصاف کے دعوے دارو! بتاؤ کیا پھر بھی درندگی اور وحشیانہ پن کسی اور چیز کا نام ہے۔ حکومت کی بات چھوڑو، روزِ قیامت اللہ کو کیا جواب دو گے۔ یہ خلاف اسلام ہی نہیں خلاف انسانیت بھی ہے۔
افسوس صد افسوس! ہمارے ریاستی اداروں کا بھی حال اچھا نہیں، کوئی طاقت کا غلط استعمال کر رہا ہے اور کوئی انصاف کا خون کر رہا ہے۔ ریاستی ادارے سیاسی جماعتوں سے نسبت اور تعلق کے حوالے سے تقسیم ہو چکے ہیں اور سیاسی جماعتوں کا ریاستی اداروں سے اپنے مفاد کے حوالے سے تعلق ہے۔ اگر آج ایک ریاستی ادارہ اُن کے مفاد میں کام کر رہا ہے تو بہت اچھا ہے اور وہی ادارہ اگر دوسری جماعت کے اسی طرح کے مفاد کو دیکھے تو بہت بُرا۔ ذاتی اقتدار اور مفادات کے لیے مکمل طور پر خود غرض بلکہ اندھے ہو چکے ہیں۔ ایک جماعت اپنے ہی سرحدی محافظوں پر چڑھ دوڑی ہے۔ کیا ہم اتنا بھی نہیں سوچتے کہ انہیں کمزور کرکے ہم قومی سطح پر خود کشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کبھی یہ جماعت فوج کے ساتھ ایک پیچ پر تھی۔ دوسری جماعت جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے پر فخر محسوس کرتی تھی، آج اُس کے کندھوں پر سوار ہو کر حکومت کر رہی ہے اور عدلیہ پر گولہ باری کر رہی ہے۔ ججوں کو اُن کے گھر جلانے کی دھمکی دے رہی ہے۔ وزیرمملکت خاتون ہو کر ججوں کو کہہ رہی ہے کہ ہم تمہیں گریبانوں سے پکڑ کر باہر گھسیٹ لائیں گے۔ وہ جو ایک ترانہ ہے ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘ کیا ہم اِس زندگی سے اُکتا تو نہیں گئے۔ کیا دنیا میں کہیں اور بھی علاقے کے کور کمانڈر کا گھر لوٹا گیا، کیا دنیا کی کسی اور حکومت کے وزیروں نے بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا گھر جلانے اور گریبان سے پکڑ کر باہر گھسیٹ لانے کے بیانات دیئے ہیں؟ حالانکہ یہ وہی چیف جسٹس ہیں جنہوں نے عمران خان کو آدھی رات کو فارغ کیا تھا۔ ہماری عدلیہ نے یہ بھی عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے کہ اپنا فیصلہ ویب سائٹ پر چڑھا کر عمران کی گرفتاری کے بعد اتار دیا اور کہا گیا کہ نئے فیصلے کے لیے نیا بینچ بنے گا۔ یہ کچھ ہو تو پھر کیوں نہ کہیں ’’ہم مردہ قوم ہیں‘‘ ۔کتنی عجیب بات ہے کہ ہم خود اپنے پر رحم نہیں کر رہے اور اللہ سے کہتے ہیں اے اللہ ہم پر رحم فرما۔ بہرحال یہ کہے بغیر چارہ بھی نہیں کہ اے اللہ ہم پر رحم فرما۔