(منبرو محراب) حضرت ابراہیم ؑ کی دعائیں - ابو ابراہیم

4 /

حضرت ابراہیم  ؑ کی دعائیں

(سورۃ ابراہیم کی آیات 35تا 41کی روشنی میں )

مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے5مئی 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبۂ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (56)} (الذاریات)’’اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
عبادت کے مفہوم میں جوشے مطلوب ہے وہ تذلل ہے ۔ یعنی جھک جانا ، بچھ جانا ۔ مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے جھک جائے، اُس کی بندگی اختیار کرلے ، بندگی کا یہ تقاضا انفردی اور اجتماعی دونوں پر سطوں پر ہے اور پوری زندگی کے لیے ہے۔ البتہ ا س تذلل کی کیفیت کابہت زیادہ اظہاراس وقت ہوتاہے جب بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہے ۔ اس حوالے سے رسول اللہﷺ کی بہت جامع احادیث ہیں۔آپﷺ نے فرمایا:
((الدعاھوالعبادۃ)) ’’دعا عبادت ہے۔‘‘ اور ((الدعا مخ العبادۃ)) ’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘
دعایہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتاہے ،اپنی کمزوری ،محتاجی ،بے بسی کا اللہ کے سامنے اظہار کرتاہے ۔ پھراللہ تعالیٰ کی شان کریمی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود دعائیں ہمیں سکھاتاہے ۔ کبھی اللہ تعالیٰ لفظ قل لاتاہے ارشاد ہوتاہے :
{وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(24)} (بنی اسرائیل)’’اور دعا کرتے رہو : اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔‘‘
{وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(114)}(طٰہٰ) ’’اور آپؐ یہ کہتے رہا کیجیے کہ اے میرے ربّ! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
اورکبھی اللہ تعالیٰ دعائیہ کلمات عطا کرتاہے ۔ جیسا کہ سورۃالفاتحہ ہے :
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo } یہ دعائیہ انداز خود اللہ تعالیٰ سکھارہاہے ا ورکبھی اللہ تعالیٰ پیغمبروں اوراپنے نیک بندوںکی دعائیں قرآن حکیم میں نقل کرتاہے۔یہاں تک کہ حضرت آسیہ ؓ کی دعا بھی سورۃالتحریم کے آخر میں موجود ہے ۔ ارشاد ہوتاہے :
{رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ} (التحریم:11) ’’اے میرے پروردگار! تُومیرے لیے بنا دے اپنے پاس ایک گھر جنّت میں۔‘‘
بہرحال ان مختلف پیرایوںمیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا مانگنا سکھایاہے۔قرآن مجید کے13ویں پارے میں سورۃ ابراہیم کا چھٹا رکوع اس حوالے سے انتہائی اہم ہے جس میں سیدناابراہیمd کاذکرخیر بھی ہے ،دعا کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں ، عاجزی اور انکساری کا ذکر بھی آرہا ہے ، دعا کے اعتبار سے پیغمبرانہ طرزعمل بھی اللہ تعالیٰ نقل فرما رہا ہے ، روحانی نعمتیں مانگنے کا تذکرہ بھی آرہا ہے ۔ اسی طرح مقصد زندگی بھی واضح ہو رہا ہے اور اپنی اولاد کے بارے میں فکر مند ہونے کے اعتبار سے یہ رہنمائی بھی آرہی ہے کہ اگر اولاد کو سیٹل کرنا ہے تو کن مقاصد کے تحت سیٹل کرنا چاہیے۔ امیگریشن یامائیگریشن ہمارے ہاں بھی بہت ہو رہی ہے ۔یقیناًلوگوں کے معاشی مسائل بھی ہیں جس کی وجہ سے پچھلے چندمہینوں کے اندر پاکستان سے دس لاکھ بندہ باہر چلا گیا۔ یہ مائیگریشن تودنیوی مفادات کے زیر اثر ہوتی ہے ۔ لیکن مذکورہ رکوع میں مہاجرت کے اعلیٰ ترین مقاصد کی بھی نشاندہی ہوتی ہے ۔ یہ بھی سکھایاجارہاہے کہ صرف اپنی ذات کی فکر کرنا کافی نہیں بلکہ اپنے گھروالوں اورتمام مسلمانوں کے بارے میں بھی فکرمند ہوناچاہیے اور یہ فکر مندی صرف دنیا کے لیے نہیں بلکہ اصل میں آخرت کے حوالے سے ہونی چاہیے ۔ اسی طرح صرف اللہ سے ہی مانگنا ، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ، اللہ کی شکرگزاری کا راستہ اختیار کیے رکھنا وغیرہ یہ سارے پہلو ان آیا ت کے ذیل میں ان شاء اللہ ہمارے سامنے آئیں گے جن کا آج ہم مطالعہ کرنے جارہے ہیں اور وہ مذکورہ رکوع کی آیات 35تا 41ہیں۔فرمایا :
{وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا} ’’اور یاد کرو جب کہا ابراہیم ؑنے کہ اے میرے رب اس شہر (مکہ) کو بنا دے امن کی جگہ۔‘‘(ابراہیم :35)
پہلی دعاامن کے حوالے سے ہے۔یہ دعائیں ہم اپنے شہر، اپنے ملک اور پورے عالم کے لیے بھی کر سکتے ہیں۔ امن کتنی بڑی نعمت ہے آج پوری دنیا اس کی ضرورت محسوس کررہی ہے ۔امن ہوگا تو معاشی سرگرمی بھی ہوگی اور اللہ کی بندگی کے تقاضے پورے کرنے میں سہولت بھی ہوگی اور لوگ اپنی آخرت کے لیے بھی تیاری کر سکیں گے۔ یہ دعامادی اور روحانی نعمتوں کے اعتبار سے بہت بڑی دعا ہے ۔آگے فرمایا:
{ وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ(35)} ’’ اور بچائے رکھ مجھے اور میری اولاد کو اس سے کہ ہم ُبتوں کی پرستش کریں۔‘‘(ابراہیم :35)
چونکہ سورۃابراہیم مکی سورت ہے اور مکہ مکرمہ میں جولوگ آباد تھے وہ اپنی نسبت ابراہیم ؑ کی طرف کرتے تھے مگر بدقسمتی سے وہاں بت پرستی پھیل چکی تھی اور خانہ کعبہ میں 360بت رکھے ہوئے ۔ لہٰذااس آیت میں اللہ تعالیٰ ان کو یاد کرا رہاہے کہ تم ابراہیم ؑ کی نسل سے ہو،تم ان سے نسبت رکھنے کے دعوے دار ہواورتم نے اللہ کے گھرکوبتوں کی گندگی سے بھر دیا ہے حالانکہ حضرت ابراہیم ؑ تو موحد تھے اورتوحید کی دعوت دینے والے تھے۔ یہ ہے پیغمبرانہ اخلاق۔ پیغمبر تومعصوم ہوتے ہیںاور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی براہ راست نگرانی میں ہوتے ہیں، اس لیے وہ خطا سے پاک ہوتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود ابراہیم ؑ فرمارہے ہیں کہ اے میرے رب! مجھے بھی بت پرستی سے بچائے رکھ اور میری اولادکو بھی ۔یہ پیغمبر کی عاجزی ہے اور امت کے لیے تعلیم ہے ۔ رسول اللہﷺ جب نماز کاسلام پھیرتے تھے توپڑھتے تھے :
((اللہ اکبراستغفراللہ ،استغفراللہ ،استغفراللہ !))  ہمارا توخیال ہے کہ گناہوں پراستغفار کرناچاہیے وہاں رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد بھی استغفراللہ کرتے تھے۔ اورپھردعاکرتے تھے :
((اللھم اعنی علی ذکرک وشکرک و حسن عبادتک))’’اے اللہ!میری مدد فرمااپنے ذکراوراپنے شکر اور اپنی عمدہ عبادت کے لیے ۔تیری توفیق کے بغیرتیری بندگی ممکن نہیں۔ ‘‘
بہرحال یہ پیغمبرانہ اخلاق ہیں جوہماری تربیت کے لیے ان دعائوں کی تعلیم کے نتیجے میں سامنے آرہے ہیں ۔ آگے فرمایا:
{رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ ج} ’’اے میرے پروردگار! ان ُبتوں نے (پہلے بھی) بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔‘‘(ابراہیم :36)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا ہے ۔فرمایا :
{اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا(۳)}(الدھر) ’’اب چاہے تو وہ شکر گزار بن کر رہے ‘چاہے ناشکرا ہوکر۔‘‘
دونوں آپشنز دے دیے کہ چاہے تو شکرکا راستہ اختیار کرے، چاہے تو کفر کی طرف جائے ۔ رب کو چھوڑ کر جو لوگ بتوں کی پرستش میں لگ جاتے ہیں تو وہ کفر اور ناشکری کا راستہ ہی اختیار کرتے ہیں ۔ اس لحاظ سے بتوں نے بہت سی قوموں کو گمراہی میں ڈالا اور وہ آخرت کے لحاظ سے نامراد ہوگئیں ۔یہ بڑی تباہی ہے جس سے بچنے کے لیے یہ دعا سکھائی جارہی ہے ۔ آگے فرمایا:
{ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ ج }’’تو جو کوئی میری پیروی کرے وہ تو ُبلاشبہ مجھ سے ہے‘‘(ابراہیم :36)
ان مشرکین مکہ کوسمجھایاجارہاہے کہ تم حضرت ابراہیم ؑ سے نسبت جوڑتے ہو لیکن تمہاری حرکتیں یہ ہیں کہ 360بت تم نے رکھے ہوئے ہیں ۔ بتایا جارہا ہے کہ حضرت ابراہیم d سے نسبت تو صرف انہی کی ہے جو اُن کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہی بات اللہ کے رسول ﷺ نے بھی فرمائی ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا:
((من احب سنتی فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنۃ))’’جس نے میری سنت سے محبت کی بے شک اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔‘‘
ہمیں کتناشوق ہے کہ ہم جنت میں حضورﷺ کے ساتھ ہوں۔ صحابہ کرام ؓ اس حوالے سے کتنے فکر مند تھے ۔ حضرت ثوبان ؓ کاواقعہ ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان کو غمزدہ دیکھاتوپوچھا کہ تمہاری یہ کیفیت کیوں ہے؟ انہوں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ!یہ بات رلاتی ہے کہ پتا نہیں چلتاکہ جنت ملے گی یانہیں اوراگر اللہ نے فضل فرمایا تو وہاں آپﷺ کاساتھ ملے گابھی یانہیں کیونکہ آپ ﷺ تومقام محمود پرہوںگے اور ہم پتانہیں کہاں ہوں گے۔ پتا نہیں ہمیں وہاں آپﷺ کادیدارملے گایانہیں۔ اس پراللہ کی آیت کانزول ہو :
{وَمَنْ یُّطِـعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا(69)}(النساء)’’اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور رسولؐ ‘کی تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں معیت حاصل ہو گی اُن کی جن پر اللہ کا انعام‘ہوا‘یعنی انبیاء کرام‘ صدیقین‘ شہداء اورصالحین۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے۔‘‘
صحابہ کرام کہتے ہیں کہ اس آیت کے نزول پرہمیں جتنی خوشی ہوئی اس سے پہلے نہ ہوئی ۔ شرط یہ آرہی ہے کہ اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت ہو اوراطاعت کا تقاضا فقط رمضان سے منسلک نہیںہے یاجمعہ کی دورکعت یاصرف پنج وقتہ نماز سے منسلک نہیں ہے بلکہ یہ پورا پیکج ہے ۔ سورۃ البقرۃ میں فرمایا:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص}(آیت:208) ’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
اطاعت پک اینڈ چوز کا معاملہ نہیں ہے کہ دل کیا تو کسی سنت کی پیروی کرلی ، یا جس کو آسان سمجھا اس پر عمل کرلیا ۔ ہرگز نہیں۔ مسواک سنت ہے ، اس میں کوئی شک نہیں مگر کبھی اُحد کے میدان میں جاکر مسواک کرنا پڑے گی ، بہترین خوشبو لگائیں کوئی حرج نہیں مگر کبھی طائف کی گلیوں میں جاکر خوشبو لگانا پڑے گی۔یعنی اللہ کے دین کے لیے تکالیف بھی اُٹھانی پڑیں گی ۔ نبی اکرم ﷺکی کوئی ادا غیراہم نہیں بلکہ ہرادا قیمتی ہے ۔ البتہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ23برس کی مسلسل محنت کس مشن کے لیے ہے ، اُس مشن کے لیے اپنی جان بھی کھپانی پڑے گی ۔ آگے پیغمبر کی دعا میں ہمارے لیے تعلیم ہے کہ اللہ سے مانگنے کے آداب کیا ہیں ۔ فرمایا :
{وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ(36)}’’اور جومیری نافرمانی کرے تو بلاشبہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (ابراہیم :36)
حضرت ابراہیم ؑ کی اس بات میں شفاعت کاایک لطیف انداز ہے ۔یہ ابوالانبیاء ابراہیم ؑ بھی سکھاتے ہیں اوریہ روح اللہ عیسیٰ ؑ کاایک انداز قیامت کے دن ہوگااورپھریہ انداز امام الانبیاء محمدمصطفیﷺ نے زمین پربھی اختیار کیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کااس حوالے سے قرآن میں مکالمہ نقل ہواہے ۔ سورۃالمائدہ کے آخرمیں فرمایا:
{اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّـہُمْ عِبَادُکَ ج وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (118)}’’اب اگر تو انہیںعذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں۔اور اگر تُو انہیں بخش دے تو تو زبردست ہے ‘حکمت والا ہے۔‘‘
تیرے اختیار کوکوئی چیلنج نہیں کرسکتا،ٹال نہیں سکتا اور پھرتوحکیم ہے تیرا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اے اللہ! اگر توسب کو معاف کرنے کافیصلہ کرلے توتیراپورا اختیار بھی ہے اورتیرایہ فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہے۔ پیغمبر ہمیں مانگناسکھارہے ہیں ۔مسنداحمد کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت پوری رات تلاوت کی ہے ۔کیونکہ رسول اللہﷺ کوامت کاخیال تھا۔ ہم توخیرچار مرتبہ ہی پڑھ کرتھک جائیں گے لیکن وہ رحمۃ للعالمین ﷺ ہیں ۔ ارشادہوتاہے :
{عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(128)}(التوبۃ)’’‘بہت بھاری گزرتی ہے آپؐ پر تمہاری تکلیف‘تمہارے حق میں آپؐ(بھلائی کے) بہت حریص ہیں ‘اہل ایمان کے لیے شفیق بھی ہیں ‘ رحیم بھی۔‘‘
سورۃ ابراہیم میں آگے فرمایا: {رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ} ’’اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد (کی ایک شاخ) کو آباد کر دیا ہے اس بے آب و گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس‘اے ہمارے پروردگار ! تاکہ یہ نماز قائم کریں‘ تو تُولوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے‘‘
ابراہیم ؑ کی پوری زندگی امتحانات سے گزری ۔ ارشا د باری تعالیٰ ہے :
{وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط} (البقرۃ:124)’’اور ذرا یاد کرو جب ابراہیم ؑکو آزمایا اُس کے ربّ نے بہت سی باتوں میں تواُس نے ان سب کو پورا کردکھایا۔‘‘
یہ امتحان لینے والارب ان کو یہ سرٹیفیکیٹ دے رہاہے ۔ انہی امتحانات میں ایک یہ بھی تھا کہ انہوں نے اپنے دودھ پیتے بچے (حضرت اسمعیٰل ؑ ) کواس کی ماں (بی بی حاجرہؓ) کے ساتھ مکہ کی بے آباد زمین میں چھوڑدیا ۔ بی بی حاجرہ ؓ کاآخری ایک سوال یہ تھاکہ کیایہ اللہ کاحکم ہے؟ توآپؑ فرمایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے ۔ بی بی حاجرہ ؓ نے کہا : پھر آپؑ بے فکر ہو کر واپس چلے جائیں اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا ۔ یہ حضرت ہاجرہ ؓ کااللہ پرتوکل تھا ۔ پھر صفا و مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں دوڑنا اور اللہ تعالیٰ کا آب زم زم عطا کرنا ، یہ مشہور واقعات ہیں ۔ بہرحال اس سارے واقعہ سے تعلیم یہ ملتی ہے کہ اللہ کی فرمانبرداری میں زندگی گزارو ، گھر بار چھوڑنا پڑے تو اللہ کی رضا اور اللہ کے دین کے لیے چھوڑو ۔
دوسری بات یہاں یہ معلوم ہوئی کہ خانہ کعبہ پہلے سے مکہ میں موجود تھا ۔ روایت کے مطابق اس کی تعمیر سب سے پہلے آدم ؑ نے کی تھی ۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ نے اس کی دوبارہ تعمیر کی۔آپ ؑ نے جو دعا کی تھی کہ اے اللہ! اس فیملی کو تیرے حکم پر یہاں آباد کررہا ہوںتاکہ تیرا یہ گھردوبارہ آباد ہو،یہاں تیرا ذکر ہو،تیرا نام لیاجائے اوردنیاجہاں سے لوگ یہاں پرآئیں۔ آج کروڑوں مسلمانوں کے دل اس مقدس مقام کی طرف مائل ہیں۔ یعنی اس ہجرت کا اصل مقصد روحانی تھا باقی سب باتیں اس مقصد کے تابع تھیں۔ اسی لیے اس کے بعد آپ ؑ نے دنیوی نعمتوںکے لیے دعا کی ۔ فرمایا:
{وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ(37)} (ابراہیم) ’’اور ان کو رزق عطا کر پھلوں سے‘ تاکہ وہ شکر ادا کریں۔‘‘
ثمرات کا لفظ پھلوں کے لیے بھی آتاہے ،کھانے پینے کی چیزوں کے لیے بھی آتاہے ،پیداوار کے لیے بھی آتاہے اورمحنتوں کے نتائج کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں پر مادی اعتبار سے جوکھانے پینے کی چیزیں ہیں ان کی طر ف اشارہ ہے۔ آج بھی مکہ مکرمہ کے پہاڑوں میں اُگتا کچھ بھی نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسی کون سی نعمت ہے جو وہاں عطا نہیں کر رکھی ۔ یہ ابراہیم ؑ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان رب کا شکر ادا کریں۔ نماز پڑھنا بھی شکر ہے ، اللہ کے دین کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا بھی شکر کا تقاضا ہے ۔ لیکن آج مسلمان یہ تقاضا بھول چکے ہیں ۔ آگے عرض کرتے ہیں :
{رَبَّنَآ اِنَّکَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَمَا نُعْلِنُ ط }’’اے ہمارے پروردگار! تو ُخوب جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
بیوی اور اولاد سے فطری محبت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے جناب ابراہیم ؓ کا انتقال ہوا تو حضورﷺ کی آنکھ میں آنسو تھے ۔ لیکن آپﷺ نے فرمایا: بیٹا تیری جدائی پر دل غمگین ہے ، آنکھ آنسو بہاتی ہے مگر زبان پر وہی ہوگا جس سے اللہ راضی ہو جائے ۔ یعنی دل کے جذبات تو اللہ جانتاہے مگر زبان سے شکوہ نہیں کرنا ۔ اسی طرح ابراہیمd دودھ پیتے بچے اور بیوی کو چھوڑ کر جارہے ہیں ۔ ان کے دل کے جذبات بھی تھے مگر ان کا ایمان تھا کہ اللہ تعالیٰ اسباب پیدا کردے گا اور ان کی حفاظت فرمائے گا۔ یہ غیب اور ظاہر کی تقسیم ہمارے اعتبارسے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی شے غیب یاپوشیدہ نہیں ہے ۔آگے فرمایا:
{وَمَا یَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ(38)} ’’اور اللہ پر تو کوئی شے مخفی نہیں زمین میں اور نہ آسمان میں ۔‘‘
{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ ط} ’’کل ُشکر اور کل ثنا اُس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے عطا فرمائے‘ باوجود بڑھاپے کے اسماعیل ؑاور اسحاق ؑ(جیسے بیٹے)۔‘‘
ابراہیم ؑ جب کم وبیش 87برس کے ہوئے تب برسوں کی دعائوں کے بعد اسمعیٰلd عطا ہوئے۔
آگے فرمایا: {اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآئِ(39)} ’’یقینا ًمیرا پروردگار دعائوں کا سننے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ دعامانگنے کا حکم بھی دیتا ہے ، دعا کے آداب بھی سکھاتاہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ دعاکی قبولیت کایقین بھی رکھواوردعا کی قبولیت کااقرار بھی کرو۔ ارشاد ہوتاہے :
{رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ق رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِ(40)}’’اے میرے پروردگار! مجھے بنا دے نماز قائم کرنے والا اور میری اولاد میں سے بھی‘اے ہمارے پروردگار! میری اس دعا کو قبول فرما۔‘‘
پیغمبرسے بڑھ کرکون اللہ کی بندگی کرنے والا ہو گا لیکن وہ بھی دعا کررہے ہیں کہ مجھے نماز قائم کرنے والا بنااور میری اولاد کوبھی ۔ یعنی نماز اس قدر اہم ہے ۔آج بچوں کے سکولز کے رزلٹس کی ہمیں کتنی فکر ہے لیکن ان کی نمازیںضائع ہورہی ہیں کیاہمیں فکر ہے ۔انگلش انگریز کے لہجے میں نہیںبول پارہے توپریشانی ہے لیکن اللہ کاکلام گھر میں بند پڑا ہے، کیااس پرپریشانی ہے؟ حالانکہ ایک مسلمان کے لیے فکرمندی کی بات کیا ہونی چاہیے اللہ کے پیغمبروں کی ان دعاؤں میں ہمیں تعلیم دی جارہی ہے ۔ آگے فرمایا:
{رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo} (ابراہیم) ’’اے ہمارے پروردگار! مجھے‘میرے والدین اور تمام مؤمنین کو بخش دے‘ جس دن حساب قائم ہو۔‘‘
ابراہیم ؑ کی یہ دعا ایک جامع دعا ہے جس میں اپنے لیے بھی دنیا و آخرت کی بھلائی مانگی گئی ، اپنی اولاد کے لیے بھی اور پھر اپنے والدین کے لیے بھی اور اس میں آخرت کی فکرمندی بھی آگئی۔ آج بعض یونیورسٹیز میں جانے کا موقع ملا تووہاں کے طلبہ نے کہا کہ آج ہمیں احساس ہواکہ ماں باپ کے لیے دعا بھی کرنی ہوتی ہے۔ اب توبڑے شہروں میں اولڈہائوسز بہت بڑھ رہے ہیں۔ جواولاد والدین کو گھر سے دھکے دے کرنکال رہی ہے ایسی اولاد سے کم ہی توقع ہے کہ وہ ماں باپ کے لیے دعا بھی کرتی ہوگی۔اس میں ماں باپ کابھی قصور ہے کہ انہوںنے اپنی اولاد کی تربیت ان خطوط پر نہیں کی جن کی تعلیم پیغمبروں نے دی تھی ۔ اللہ ہمیں ان نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورقرآن کی تعلیمات پر غوروفکر کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !