(دعوت و تحریک) قرآن اور سُنّت کا باہمی تعلق(4) - ڈاکٹر اسرار احمد

4 /

قرآن اور سُنّت کا باہمی تعلق(4)ڈاکٹر اسرار احمدؒ

یہ مضمون بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمد  ؒ کے انجمن کے سالانہ اجلاس منعقدہ1984ء کے موقع پر صدارتی خطاب

کا خلاصہ ہے۔ خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس کو قارئین ندائے خلافت کے لیے شائع کیا جا رہا ہے ۔(ادارہ )

(گزشتہ سے پیوستہ)
اسلامی قوانین کے مآخذ
اصولی بات یہ ہے کہ جہاں ہمارے قانون کا اوّلین منبع اور ماخذ (source) قرآن مجید ہے وہاں اس کا دوسرا ماخذ سُنّت ِرسولؐ ہے جو اپنے طور پر خود مختار (independent) ہے۔ تیسرے نمبر پر خود رسول اللہﷺ کے قول کے مطابق‘ سُنّت ِخلفاء راشدین مہدیین ہے۔
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری تاریخ کُل کی کُل تاریک نہیں ہے۔ یہ بہت روشن رہی ہے۔ پچھلی تین چار صدیاں اگر تاریکی میں گزری ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں کہ ہم شرم اور خجالت سے اپنے سر جھکا لیں کہ شاید ہماری پوری تاریخ بالکل تاریک ہے۔ قرآن اور سُنّت رسولؐ نے جو روشنی دی تھی‘ خلافت ِراشدہ کا ایک عظیم نظام اُس پر چلا۔ ا س کے بعد دورِ اُموی اور دورِ بنوعباس میں یہ تو ضرور ہوا کہ حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر دستوری نظام بدل گیا‘ لیکن تہذیبی روایات کا ارتقا اور ان کا تسلسل جاری رہا۔ ان اَدوار میں ہمارے جو ائمہ ٔ دین اور محدثین گزرے ہیں ان میں سے ایک ایک چاند ستاروں کی مانند ہے۔ ہماری تاریخ کے ان افراد کی خدمات‘ ان کا علمی مقام و مرتبہ اور اس پر مستزاد اِن کا تدین‘ تقویٰ ‘احتیاط اور للّٰہیت کا جو معیار ہمیں ملتا ہے‘ ہماری تاریخ ان چیزوں سے بنی ہے۔
سُنّت ِخلفائِ راشدین کے بعد اہل ِسُنّت کے چاروں ائمہ کا اگر کسی بات پر اجماع ہوگیا‘ وہ کسی چیز پر متفق ہو گئے تو یہ خود اپنی جگہ پر ایک دلیل ہے۔ درحقیقت دلیل یہ نہیں ہے کہ یہ ائمہ ٔ اربعہ کا موقف ہے‘ بلکہ یہ درحقیقت اُس تعامل کا مظہر ہے جو پیچھے سے چلا آ رہا تھا۔ دورِ نبوت میں جو کچھ روایات بنی تھیں یہ درحقیقت اسی کا مظہر ہے ۔ کیا ہم امام ابوحنیفہ‘ امام شافعی‘ امام مالک اور امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے پاس سے کوئی چیز گھڑ کر لائے ہوں گے؟ کیا ہم ان کے بارے میں ایسا سوچ سکتے ہیں؟ معلوم یہ ہوا کہ اگر ائمہ ٔ اربعہ کا کسی بات پر اجماع ہے تو وہ بے دلیل نہیں ہے‘ خواہ اس کے بارے میں کوئی نص پیش نہ کی جا سکے۔
ایک بات بڑی سادہ سی ہے۔ بسا اوقات ایک سچی حقیقت بھی عدالت میں جا کر ثابت نہیں ہوتی۔ اس کے یہ معنی تو نہیں کہ وہ سچی حقیقت جھوٹی ہو گئی۔ نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ :لوگو! کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک قطعہ زمین کے متعلق تم میں سے دو افراد کا جھگڑا ہوتا ہے اور وہ میرے پاس آتے ہیں‘ ان میں سے ایک زیادہ چرب زبان ہے اور وہ اپنی بات کو ثابت کر دیتا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہوں‘ لیکن جان لو کہ اگر کوئی مجھ سے غلط فیصلہ لے گیا تو وہ آگ کا ٹکڑا لے کر گیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ کسی شے کا صحیح ہونا اور ہے جبکہ اس کا ثابت ہو جانا اور ہے۔ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ قاضی شریحؒنے اگر حضرت علیhکا دعویٰ خارج کر دیا تھا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علیؓکو جھوٹا کہا گیا؟ قاضی کا موقف یہ تھا کہ جناب آپ کا دعویٰ بالکل سچا ہو گا مگر میری مجبوری یہ ہے کہ مجھے دو گواہ چاہئیں اور گواہی میں بیٹا اور غلام پیش نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ اگرچہ حضرت علیؓکے گواہ آپ کے بیٹے حضرت حسنؓ اور آپؓ کے غلام تھے‘ لیکن ان کی گواہی قبول نہ کی گئی اور زرہ یہودی کو دے دی گئی کہ اس پر آپؓ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوا۔اس پر وہ یہودی ایمان لے آیا اور زرہ بھی واپس کی کہ حضرت علیh کا دعویٰ صحیح تھا۔بہرحال یہ ضروری نہیں کہ ہر صحیح بات ثابت بھی ہو جائے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی حدیث امام بخاریؒ یا امام مسلمؒ کے جرح و تعدیل کے معیار پر پوری نہ اترے‘ لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ حدیث غلط ہے اور موضوع ہے۔ ایسے بہت سے موتی ہو سکتے ہیں جو ہمارے پاس اُن احادیث میں موجود ہوں جو ان بڑے بڑے ائمہ کے جرح و تعدیل کے معیار پر پوری نہیں اترتیں اور انہوںنے انہیں قبول نہیں کیا۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر ہمارے معاشرے میں دورِ خلافت ِ راشدہ میں کسی بات پر عمل ہوا تو یقیناً وہ بات صرف ایک حدیث کے بل پر نہیں تھی‘ دوسرے بہت سے عوامل ہوں گے جن کی وجہ سے دورِ خلافت راشدہ میں اس پر عمل ہوا۔ چنانچہ اگر ائمہ ٔ اربعہ اس کے بعد کسی بات پر متفق ہو رہے ہیں تو یقیناً وہ کسی دلیل پر متفق ہوئے ہوں گے‘ خواہ کوئی حدیث ِ صحیح اس سلسلے میں پیش نہ کی جا سکے۔ اس لیے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ائمۂ اربعہ کا اجماع از خود ایک دلیل بن جاتا ہے۔ آپ حضرات اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
ہمارے ہاں دیت اور قانونِ شہادت وغیرہ پر جو بحثیں چھڑ گئی ہیں‘ اس ضمن میں میرا اپنا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ اصل میں دو چیزیں بالکل جدا ہیں‘ انہیں آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے۔ ایک یہ کہ کسی انسان میں انفرادی طور پر یا کسی قوم میں اجتماعی سطح پر ایک ارادہ (will) پیدا ہو جانا کہ ہمیں مسلمان جینا ہے اور مسلمان مرنا ہے۔ دوسرے ‘ اس کو یہ بتانا کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ان دونوں کو گڈمڈ نہ کیجیے۔ جب تک وہ ارادہ ہی نہیں ہے تو ان بحثوں میں پڑنے کا فائدہ؟ایک آدمی کے اندر ابھی وہ ارادہ ہی پیدا نہیں ہوا کہ وہ اللہ کے حکموں پر چلے اور آپ اسے اللہ کا حکم بتا رہے ہیں ۔ ابھی اس کے دل میں وہ جذبہ ہی نہیں اُبھرا کہ وہ رسول اللہﷺ کی سُنّت کا اتباع کرے اور آپ اسے سُنّت ِرسولؐ پر لیکچر دے رہے ہیں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے اجتماعی اور قومی سطح پر وہ ارادہ پیدا کریں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا‘ یہ بحثیں چھیڑدینا بالکل بے کار ہے۔ اس سے لوگوں میں کنفیوژن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ چنانچہ انقلابی طریقہ کار کے ذریعے سے پہلے ارادہ پیدا کرنا ہو گا‘ اور وہ ہو گا قرآن کی حکمت اور فلسفے سے‘ قرآن کی ہدایت اور روشنی کو عام کرنے سے۔ پھر اس ارادے کا انقلابی انداز میں ظہور ہو گا اور وہ اپنے آپ کو ثابت کرے گا کہ اس ملک میں رہنے والوں کے اندر اب یہ عزم پیدا ہو چکا ہے کہ وہ مسلمان جینا چاہتے ہیں اور مسلمان مرنا چاہتے ہیں۔ پھر یہ سارے معاملات کھلتے چلے جائیں گے۔
اصلاحی صاحب کے موقف سے اعلانِ براء ت
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے ساتھ میرا ایک تعلق بہت طویل عرصے تک رہا ہے کہ میں ہی ان کا spokesmanاور پبلشر رہا ہوں۔ میں نے ان کا پرچہ (میثاق) بھی شائع کیا اور تفسیر تدبر ِقرآن بھی‘ پھر لاہور میں اجتماعات بھی منعقد کروائے۔ اس کے بعد اب ان کی طرف سے حدّ ِرجم کے بارے میں جو موقف سامنے آیا ہے تو اس سے اسی زور شور سے اعلانِ براء ت بھی کرنا ضروری ہے۔ ان کے فکرمیں پہلے بھی بعض چیزیں ایسی آتی رہی تھیں کہ جن پر ہم چونکتے رہے۔ مثلاً سورئہ بنی اسرائیل کی تفسیر کرتے ہوئے معراج کو انہوں نے کچھ دبے لفظوں میں خواب کی شکل میں پیش کیا کہ یہ ایک ’’رؤیا‘‘ تھا۔ اس کے بارے میں ہم نے کہا کہ یہ موقف درست نہیں ہے‘ لیکن اس کا معاملہ ہمارے عقائد کے ساتھ ہے‘ عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ پھر یہ کہ اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ اقوال ہمیں اسلاف میں بھی مل جاتے ہیں‘ جس طرح کہ رئویت ِباری تعالیٰ میں اختلاف ہے کہ معراج میں رسول اللہ ﷺنے اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں! یہ اختلاف صحابہ کرامjسے چلا آ رہا ہے۔ ایک طرف حضرت عائشہkفرماتی ہیں کہ نہیں دیکھا‘ دوسری طرف حضرت علیh فرماتے ہیں کہ دیکھا ہے۔ تو اس میں گنجائش پیدا ہو جاتی ہے کہ کوئی شخص کوئی بات کہے‘ لیکن دین کے عملی پہلو کا معاملہ بہت ہی نازک اور پیچیدہ ہے۔ اس میں اہل ِ ایمان کے راستے سے ہٹ کر کوئی دوسرا راستہ نکالا جائے گا تو وہ قابلِ قبول نہ ہو گا۔ اس کے بارے میں مَیں نے آغاز میں آیت پیش کی ہے :
{وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَــبَـیَّنَ لَــہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ط وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا(115)} (النّساء)’’اور جو کوئی مخالفت کرے رسولؐ کی اس کے بعد کہ اُس پر کھل چکی سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے راستے کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اُس کو اسی طرف جو اُس نے اختیار کی اور ڈالیں گے اس کو دوزخ میں‘ اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔‘‘
اہل ِ ایمان کا راستہ قرآن‘ سُنّت ِرسولﷺ‘ سُنّت ِخلفائے راشدین مہدیین اور اس کے بعد ائمہ ٔ اربعہ کے اجماع سے بنا ہے۔ اہل ِسُنّت کا راستہ متذکرہ بالا مراحل سے ہو کر گزرا ہے اور وہ ایک شاہراہ ہے۔ اس کے لیے تو یوں کہا جائے گا : ’’لَـیْلُھَا کَنَھَارِھَا‘‘ یعنی اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔اب اس راستے سے ہٹ کر جو بات کہی جائے گی اس سے اعلانِ براء ت پوری شدّت کے ساتھ کرنا ہو گا۔
رجم کے معاملے میں مولانا اصلاحی نے جو رائے ظاہر کی اس سے پہلے کا بھی ایک واقعہ بیان کیے دیتا ہوں۔ مولانا کی تفسیر کی دوسری جلد ابھی صرف ’’میثاق‘‘ میں چھپی تھی‘
کتابی شکل میں نہیں آئی تھی کہ سورۃ النساء کی ایک آیت کی تأویل جو مولانا نے کی‘ اس پر بعض علماء کا اعتراض آیا۔ ان میں ایک ساہیوال کے مولانا برکات احمد خاں صاحب تھے‘ جو کوئی معروف عالم ِ دین نہیں تھے۔ مَیں نے مولانا اصلاحی صاحب سے عرض کیا کہ ابھی یہ کتابی شکل میں نہیں چھپی ‘ اس پر آپ نظر ثانی کر لیجیے۔ مولانا نے فرمایا کہ اب مَیں ہر شخص کی بات پر تو غور نہیں کر سکتا‘ کوئی بڑا عالم دین اگر بات کرے گا تو جواب دوں گا۔ یہ معاملہ اصل میں سورۃ النساء کی آیت۳ سے متعلق تھا:{ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج}’’اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر نکاح کر لو دوسری عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں‘ دو دو تین تین اور چار چار سے۔‘‘ اس آیت کے بارے میں اجماعی نقطۂ نظر یہی ہے کہ اس سے مراد ہے کہ تم یتیم بچیوں سے نکاح کر کے اگر یہ سمجھتے ہو کہ ان کی طرف سے بولنے والا کوئی نہیں‘ ان کا کوئی بھائی یا باپ اُن کے حقوق کی نگہداشت کرنے والا موجود نہیںکہ ان کے حقوق اگر تلف کیے جا رہے ہوں تو کوئی ان کی طرف سے کھڑا ہو‘ تو پھر یتیم بچیوں سے نکاح نہ کرو بلکہ جو دوسری عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے دو دو‘ تین تین‘ چار چار تک شادیاں کر لو۔ لیکن مولانا نے رائے ظاہر کی کہ یہاں ’’اُمّھات الیتٰمٰی‘‘ مراد ہیں‘ یعنی یتیموں کی مائوں سے شادیاں کر لو۔ یہ بات اجماع کے خلاف تھی۔ اُن دنوں مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے مولانا اصلاحی صاحب کے ساتھ کافی روابط تھے اور ’’مجلس دعوت و اصلاح‘‘ میں یہ حضرات شریک تھے۔ میں نے جب مفتی صاحبؒ سے یہ معاملہ عرض کیا تو انہوں نے کہا یہ تو واقعتاً بڑی گمراہی ہے۔ میں نے کہا کہ ابھی یہ بات کتابی شکل میں نہیں چھپی‘ اور اگر آپ مولانا کو قائل کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے گا اور ابھی سے غلطی کی اصلاح ہو جائے گی۔ میرے بہت کہنے کے باوجود انہوں نے مولانا سے کوئی خط و کتابت نہیں کی تو مَیں اپنی جگہ یہ سمجھ کر مطمئن ہو گیا کہ مَیںنے اپنا حق ادا کر دیا اور مَیں نے دوسری جلد شائع کر دی۔ وہ مسئلہ بھی خیر اتنا بڑا نہیں تھا۔ اصل میں اس کے ساتھ ہی مولانا نے یہ لکھ دیا تھا کہ جہاں تک تعدّدِ ازدواج (polygamy) کا تعلق ہے وہ ثابت ہے‘ اس میں کوئی اعتراض والی بات نہیں۔
اب یہ جو حدِّ رجم کا مسئلہ سامنے آیا ہے یہ یقیناً ایسی بات ہے جس میں ہماری اُمّت میں سے سوائے خوارج کے آج تک کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ شیعہ‘ سُنّی اور اہل ِظاہر سب اس پر متفق ہیں۔ اہل ِ سُنّت کے چاروں امام‘ شیعوں میں زیدیہ ہوں یا جعفریہ سب کے سب ‘ اہل ِحدیث علماء‘ اہل ِظاہر میں امام دائود ظاہری‘ ان سب کا اجماع ہے کہ اسلام میں شادی شدہ زانی مرد اور شادی شدہ زانیہ عورت کے لیے حدّ ِرجم کی سزا ہے۔ جب مولانا اصلاحی نے اس کے خلاف رائے ظاہر کی اور ایک جلیل القدر صحابی کو جن کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس نے وہ توبہ کی ہے جو سارے مدینہ والوں پر تقسیم کر دی جائے تو ان کے لیے کافی ہو جائے گی( معاذ اللہ!) ’’غنڈہ‘‘ لکھا تو اب یہ بات ایسی تھی کہ جس سے شدّت کے ساتھ اعلانِ براء ت کرنا مجھ پر لازم تھا۔ اس لیے کہ مَیں ہی اس کا پبلشر ہوں‘ اس تفسیر کو مَیں نے چھاپا ہے۔ یقیناً مولانا کا مقام اپنا ہے لیکن اس کو چھاپ کر متعارف کرانے میں میرا بھی حصّہ ہے‘ لہٰذا میں نے اس سے اعلانِ براء ت کیا اور کہا کہ مَیں کم از کم اس معاملے میں مولانا اصلاحی صاحب کو اب منکرین ِ سُنّت کی صف مَیں سمجھتا ہوں۔ یہ ایک مجمع علیہ شے ہے اور اس سے ہٹ جانا یقیناً بہت بڑی گمراہی ہے۔
پھر اصلاحی صاحب کے حلقے کے ایک نوجوان نے اس سے بھی آگے بڑھ کر چھلانگ لگانی شروع کی اور ایک غامدیہ خاتون جن کو رسول اللہﷺ نے رجم کیا تھا‘ ان کے بارے میں کہنا شروع کیا کہ وہ چکلہ چلاتی تھیں۔ وہ خاتون تین دفعہ آپؐ کے پاس چل کر آئی کہ مجھے پاک کر دیجیے‘ جسے آنحضورﷺ نے واپس لوٹا دیا۔ اس سے دریافت کیا کہ: کہیں تمہیں حمل تو نہیں؟ اس نے کہا حمل تو ہے! فرمایا: جائو اس ننھی جان کا کیا قصور ہے‘ جرم ہے تو تمہارا ہے ‘لہٰذا وضع حمل کے بعد آنا۔ وہ اللہ کی بندی پھر چلی آتی ہے کہ مجھے پاک کردیجیے‘ مَیں آخرت کی سزا نہیں جھیلنا چاہتی‘ مجھے یہاں پر بڑی سے بڑی سزا منظور ہے۔ خطا کس سے نہیں ہو جاتی؟ لیکن خطا کے بعد توبہ کا یہ معاملہ کہ اللہ کی ایک بندی رجم کی سزا جھیلنے کو تیار ہے‘ اس کے بارے میں اِس قسم کے الفاظ کہے جائیں!