بد نظری
ام عبد اللہ
عام طور پر غیر محرموں کی طرف تاک جھانک کو بدنظری کہا جاتا ہے۔ سورئہ نور میں مسلمان مردوں اور عورتوں دونوں کو الگ الگ حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں۔ (النور:30 ،31 )جو لوگ اپنی نظروں کی حفاظت نہیں کرتے اور سامنے آنے والے ہر منظر کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ نظر بازی دل پر انتہائی مہلک اثرات مرتب کرتی ہے، یہ نظر ہی ہے جو پہلے دل میں محبت اور پھر عشق کی آگ روشن کرتی ہے، یہ آگ انسان کا امن و سکون ہی نہیں، شرم وحیا کی متاع کو بھی جلا کر خاکستر کر دیتی ہے، جب حیا نہ رہے تو وہ رکاوٹ ختم ہو جاتی ہے جو انسان کو گناہوں اور بدکاریوں کی اندھی وادی میں کودنے سے روکتی ہے۔
قبل اس کے کہ ہم امام ابن قیم ؒ کا قولِ زریں اپنے قارئین اور قاریات کے استفادہ کے لیے نقل کریں، یہ بتانا مناسب سمجھتے ہیں کہ انسان محبت کی پہلی سیڑھی سے لے کر آخری سیڑھی تک جن مراحل سے گزرتا ہے عربی زبان میں ان میں سے ہر مرحلہ کے لیے الگ لفظ وضع کیا گیا ہے یعنی علاقہ، صبابۃ، عزام، عشق اور شغف ہے۔
امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ نظر محبت پیدا کرتی ہے، جوں جوں محبت کا جذبہ شدید ہوتا جاتا ہے، محبت ایک مرحلے کے بعد دوسرے مرحلہ میں داخل ہو جاتی ہے۔ جو لوگ بدنظری اور وساوس کے ذریعہ اس جذبے کی پرورش کرتے رہتے ہیں وہ خود اور ان کا دل کسی بندے کی بندگی کرنے لگتے ہیں، وہ اس کے اشارے پر ناچتے اور تھرکتے ہیں، پہلے ان کا دل بادشاہ اور آزاد تھا لیکن وہ اسے قیدی اور غلام بنا دیتے ہیں۔ پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب ان کی بصیرت ختم ہو جاتی ہے اور باطنی نور بجھ جاتا ہے۔ پھر وہ حق کو حق اور باطل کو باطل نہیں سمجھتے۔ یہ ایسی صورتحال ہوتی ہے جسے انسان اپنے اندر محسوس کرتا ہے کیونکہ دل آئینہ ہے اور باطل خواہشات کی طرح ہیں۔ جب یہ آئینہ زنگ سے پاک ہو گا تو اس میں حقائق کی تصویر بھی اپنی اصل شکل میں جلوہ گر ہو گی اور جب یہ زنگ آلود ہو گا تو اس میں معلومات کی صحیح صورتیں منقش ہوں گی، بلکہ ظلمت، نور محسوس ہو گی اور نور، ظلمت دکھائی دے گا۔(اغاثۃ اللھفان:1/47،48)
یہ عکسِ حقائق نتیجہ ہوتا ہے بدنظری کا۔ اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ یہ موقع آنے ہی نہ دے اور دل کی سرزمین میں برائی کو جڑ پکڑنے ہی نہ دے۔ ظاہر ہے غیر محرم مرد کو دیکھنے کی وجہ سے عورت کے دل میں اور عورت کو دیکھنے کی وجہ سے مرد کے دل میں وسوسہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے جیسے مردوں کو عورتوں کے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے، اسی طرح عورتوں کو مردوں کی طرف تاک جھانک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ابودائود میں حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ میں اور میمونہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھیں، اسی دوران ابن ام مکتوم تشریف لے آئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ’’ تم دونوں اس سے پردہ کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ! کیا وہ نابینا نہیں ہیں، نہ تو ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ ہمیں پہچانتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھ سکتی ہو؟(ابودائود)
چونکہ راہ چلتے ہوئے اچانک نظر پڑ سکتی ہے اس لیے پہلی نظر کی اجازت دی گئی ہے۔ حضور اکرمﷺ نے ایک موقع پر حضرت علی ؓ سے فرمایا تھا: ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا، کیونکہ تمہیں پہلی نظر کی تو اجازت ہے مگر دوسری کی اجازت نہیں۔لیکن آدمی اگر نظر نیچے رکھے تو پہلی نظربھی نہیںپڑے گی۔
نظر کو شیطان کے تیروں میں سے زہریلا تیر بھی قرار دیا گیا ہے جو براہِ راست جا کر دل پر لگتا ہے۔ جو شخص بد نظری کی بیماری میں مبتلا ہو جائے، اسے اس بیماری سے نجات پانے کے لیے بڑا مجاہدہ کرانا پڑتا ہے۔ بدنظری کے ایسے بیمار بھی دیکھنے اور سننے میں آئے ہیں، جن کے بال بڑھاپے سے سفید ہو جاتے ہیں، جسم میں رعشہ آجاتا ہے، کمر جھک جاتی ہے لیکن اس بیماری سے انہیںنجات نہیں ملتی۔ ایسے مریضوں کا عبادت میں دل نہیں لگتا اور نہ ہی حلاوت نصیب ہوتی ہے، ذکر وعبادت کے وقت وساوس کی یلغار ہوتی ہے۔ بظاہر وہ نماز اور تلاوت میں مصروف ہوتے ہیں لیکن ان کے دل کہیں اور ہوتے ہیں۔ ان کے برعکس جو لوگ نظر کی حفاظت کرتے ہیں، ان کے نورِ بصیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اورا نہیں عبادت میں ایسی حلاوت عطا کی جاتی ہے جس کا مقابلہ کوئی حلاوت نہیں کر سکتی۔ بظاہر نظر کی حفاظت بڑا مشکل کام محسوس ہوتا ہے، لیکن اگر انسان ہمت سے کام لے تو اس کے لیے یہ مشکل آسان کر دی جاتی ہے۔
مسلمان کو ہر وقت یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ آنکھیں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں جو مفت اور بن مانگے مل گئی ہے، اللہ چاہتا تو ہمیں نابینا کر دیتا اور اب بھی ایسا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں ہے، اس نعمت کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اللہ کی نافرمانی میں ہر گز استعمال نہ کیا جائے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024