(دین و دانش) نماز جنازہ میں شرکت کی اہمیت اور فضیلت - پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

9 /


نماز جنازہ میں شرکت کی اہمیت اور فضیلت

پروفیسرمحمد یونس جنجوعہ

 

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ چھوٹا، بڑا، نیک، بد، غریب، امیر عالم، جاہل، پیر، مرید، حاکم اور محکوم غرض ہرایک کا انجام موت ہے۔ جو فوت ہو جاتا ہے اُس کو قبر میں اتارنے کی ذمہ داری زندوں پر ہوتی ہے۔ اسلام ہی واحد سچا دین ہے، اس کے تمام طور طریقے اور احکام فطری اور اچھے ہیں۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ جب تمہارا کوئی فرد فوت ہو جائے تو اُس کو بڑے اکرام کے ساتھ الوداع کہو۔ فوت ہو جانے والے کو صاف پانی کے ساتھ صابن لگا کر اچھی طرح سے غسل دو۔ سفید کپڑے کے کفن میں اُسے لپیٹو۔ خوشبو لگائو اور پھر اُس کی نماز جنازہ پڑھ کر اُسے قبرستان کی طرف لے چلو۔ جو لوگ راستے میں جنازہ دیکھیں وہ میت کا اکرام کرتے ہوئے کھڑے ہو جائیں اور جن کو فرصت ہو وہ جنازے کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ میت کی چار پائی کو کندھا دینا بھی باعث اجر و ثواب ہے۔
نماز جنازہ کیا ہے؟ یہ ایک جامع اور خوبصورت دعا ہے جس میں اللہ کی حمد، رسول اللہﷺ پر درود اور پھر حاضر میت اور تمام مسلمانوں کی بخشش کے لئے دعا مانگی جاتی ہے۔ جب نماز جنازہ پڑھ لی جاتی ہے تو میت کو قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔ دفن کے بعد ایک مسلمان قبر کے سرہانے کی طرف دوسرا پائوں کی طرف کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ دونوں سورۃ البقرہ کے اول و آخر سے چند آیات تلاوت کرتے ہیں۔ گویا لوگ بڑے اکرام کے ساتھ اپنے مسلمان بھائی کو اللہ کے سپرد کر کے واپس ہوتے ہیں۔
نماز جنازہ میں شرکت بڑی فضیلت کی بات ہے۔ بلکہ فوت شدہ کا زندوں پرحق ہے کہ وہ اُس کی نماز جنازہ پڑھیں اور اُس کے لئے اللہ کے حضور بخشش کی دعا کریں۔ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے ،یعنی اگر کسی محفل میں سے ایک آدمی بھی نماز جنازہ میں شامل ہو گیا تو باقی لوگوں سے یہ فرض ساقط ہو جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کو نماز جنازہ میں شامل سمجھا جائے گا بلکہ ثواب تو صرف اس کو ملے گا جس نے جا کر نماز جنازہ میں شرکت کی ہے البتہ جو لوگ شامل نہیں ہوئے وہ گناہ گار نہ ہوں گے۔ یہ رعایت صرف اس لئے ہے کہ شاید کچھ لوگ کسی حقیقی عذر کی بنا پر شامل نہ ہو سکتے ہوں تو وہ گناہ گار نہ ہوں۔
نماز جنازہ میں شمولیت بہت بڑاکار ثواب ہے۔ اس لئے احادیث میں اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے اور طلب ثواب کی غرض سے جائے، اس کے ساتھ رہے اس پر نماز پڑھے اور اس کی تدفین تک وہاں رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے جس میں سے ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور جو شخص صرف جنازہ کی نماز پڑھ کر لوٹ آئے اور دفن میں شریک نہ ہو اس کو ایک قیراط ثواب ملتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
نماز جنازہ میں شامل ہونے سے ایک تو فرض کی ادائیگی ہوئی۔ دوسرے فوت شدہ کے لئے بخشش کی دعا مانگی گئی اور پھر اتنا بڑا اجر و ثواب پایا۔ یہ بات پیش نظر ہو تو کیا کوئی مسلمان موقع پا کر نماز جنازہ میں شرکت سے کیوں محروم رہے گا۔ جب کہ اُسے یہ بھی احساس ہو کہ ایک دن اُس کا جنازہ بھی تیار ہو گا اور لوگ اُس کی نماز جنازہ میں شریک ہو کر اللہ کے حضور اُس کی بخشش کی دعا کریں گے۔ تو آج اگر یہ دوسروں کی نماز جنازہ میں شریک ہوتا ہے تو کل دوسرے لوگوں کو بھی توفیق ہو گی کہ وہ اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوں۔ حدیث کے الفاظ میں حصول ثواب کے لئے ایماناً و احتساباً کی شرط ہے۔ یعنی یہ عمل ایمان و یقین کی بنیاد پر ہو اور ثواب کی نیت سے کیا گیا ہو۔ یہ بات غورطلب ہے کہ محض رشتہ داری اور دوستی کے تعلق کی بنا پر یا میت کے لواحقین کا جی خوش کرنے کے واسطے اگر جنازے میں شرکت کی مگر اللہ اور رسولﷺ کے حکم اور آخرت کا ثواب اس کے پیش نظر نہ تھا تو وہ اس ثواب عظیم کا مستحق کیسے ہو گا۔ پس جو شخص گلی محلے میں فوت ہو جانے والے ہرواقف یا ناواقف کے جنازہ کی نماز میں شرکت کرتا ہو، ظاہر ہے کہ اُس کی غرض حصول ثواب کے علاوہ کوئی دوسری نہیں۔ مگر صرف دوست احباب اور رشتہ داری کے تعلق کی بنیاد پر نماز جنازہ میں شمولیت تو محض دکھاوا اور مجبوری ہوتی ہے۔
نماز جنازہ میں جتنے زیادہ لوگ ہوں گے اتنا ہی میت کے حق میں بہتر ہو گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ، جس میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑھے جن کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور وہ سب اللہ کے حضور اس میت کے لئے سفارش کریں (یعنی مغفرت و رحمت کی دعا کریں) تو ان کی یہ سفارش اور دعا ضرور ہی قبول ہو گی۔(صحیح مسلم)
اس کے علاوہ ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے اُس شخص کے لیے بھی بخشش کی خوشخبری سنائی ہے جس کی نمازجنازہ میں چالیس آدمی شریک ہو کر اُس کی بخشش کے لیے پُر خلوص دعا کریں۔ اسی طرح اُس شخص کے لیے بھی بخشش کی نوید ہے جس کی نماز جنازہ میں تین صفیں ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس مسلمان بندے کا انتقال ہو جائے اور مسلمانوں کی تین صفیں اس کی نماز جنازہ پڑھیں (اور اس کے لیے بخشش اور جنت کی دعا کریں) تواللہ ضرور اس بندے کے واسطے (مغفرت اور جنت) واجب کر دیتا ہے۔ (سنن ابی دائود) یہی وجہ ہے کہ جب کسی مسلمان کی نماز جنازہ میں لوگوں کی تعداد کم ہو تو اُنہیں ضرور تین صفوں میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسi کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا اور اُس کی نماز جنازہ کے لیے بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ حضرت ابن عباسi نے اپنے خادم خاص کریب کو کہا کہ جو لوگ باہر جمع ہو گئے ہیں اُن پر نظر ڈالو کہ وہ کتنی تعداد میں ہیں۔ کریب نے اطلاع دی کہ کافی لوگ ہیں۔ آپؓ نے پوچھا، کیا چالیس ہوں گے۔ تو کریب نے جواب دیا چالیس تو ضرور ہوں گے۔ اس پر عبداللہ بن عباسi کہنے لگے، اب جنازہ باہر لے چلو۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، آپؐ فرماتے تھے کہ ’’جس مسلمان کا انتقال ہو جائے اور اس کے جنازے کی نماز چالیس ایسے آدمی پڑھیں جن کی زندگی شرک سے بالکل پاک ہو (اور اس میت کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا اور سفارش کریں) تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش اس میت کے حق میں ضرور قبول فرماتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
معلوم ہوا کہ زندوں کو چاہیے کہ فوت ہونے والوں کو پورے اکرام و احترام کے ساتھ غسل دیں۔ کفن پہنائیں اور تدفین کے لئے قبرستان لے جائیں۔ پھر نمازجنازہ میں زیادہ لوگ شرکت کر کے عنداللہ ماجور ہوں اور پورے خلوص کے ساتھ میت کی بخشش کے لیے دعا کریں۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگوں کو نمازجنازہ کی دعائیں یاد نہیں ہوتیں اور وہ زبانی یاد بھی نہیں کرتے۔ شاید نفسیاتی طور پر انہیں موت، میت اور جنازے کے الفاظ سے وحشت ہوتی ہے اور ڈرلگتا ہے۔ ورنہ جنازے کی دعائیں تو بہت مختصر سی ہیں اور تھوڑی سی توجہ سے یاد ہو جاتی ہیں ،پھر موت کے ذکر سے گریز کریں گے تو موت ٹل تو نہ جائے گی اور کسی اٹل شے سے چشم پوشی چنداں مفید نہیں۔ نماز جنازہ کی دعائیں نہ صرف خود بلکہ اپنے بچوں کو بھی یاد کرانی چاہئیں تاکہ وہ اپنے والدین کے جنازے میں شامل ہو کر اُن کے لئے بخشش کی دعا کر سکیں۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ جس باپ نے انتہائی جدوجہد اور مشقت اٹھا کر بچے کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ پھر مزید تعلیم کی خاطر بیرون ملک بھیجا اور بھاری اخراجات برداشت کئے۔ بچے نے مقصد حاصل کر لیا اور بڑا آدمی بن گیا۔جب باپ کی وفات کا وقت آیا تو یہ صاحبزادہ جنازے میں کھڑا تو ہو گیا تو مگر دعا نہیں مانگ سکا۔ کیونکہ نہ تو اُسے فرصت ملی کہ نماز جنازہ کی دعائیں یاد کرتا اور نہ ہی باپ کو اس بات کا کبھی خیال آیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ نماز جنازہ کے چند الفاظ یاد کرا دیتا۔ لیکن یہ سب کچھ اُس وقت ہے جب آدمی کو اپنے دین اور مذہب کے ساتھ لگائو ہو، آخرت پر ایمان مضبوط ہو، نماز روزے کی پابندی ہو۔ صرف دنیا کمانے اور عیش و عشرت کی طرف دھیان نہ ہو بلکہ یہ حقیقت ہر وقت ذہن میں مستحضر رہے کہ ایک دن میرا بھی جنازہ لوگوں نے کندھوں پر اٹھایا ہو گا اور دفن کے لئے قبرستان لے جا رہے ہوں گے اور قبر کے اندر ہی سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، نہ مال و دولت وہاں کام آئے گی اور نہ ہی ماں باپ اور اولاد۔ اس سے بڑی محرومی کیا ہو سکتی ہے کہ مرنے والا اپنے پیچھے مال و دولت تو چھوڑ گیا جو مفت میں ان وارثوں کے ہاتھ آئے گی جو اُس کے لئے بخشش کی دعا بھی نہ کر سکیں۔ کیونکہ انہیں نماز جنازہ یاد نہ تھی۔
ایک بات اور یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مسلمان کے اعمال میں شرک نہ ہو کیونکہ جن لوگوں کی دعائے مغفرت میت کے حق میں قبول ہو گی رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق اُن کے عمل میں شرک کا شائبہ نہیں ہونا چاہیے ۔ معلوم ہوا کہ شرک سے بے زاری انتہائی ضروری ہے۔ شرک میں ملوث ہونا نجات کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے۔ اس بات کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر واضح کیا گیا ہے اور رسول اللہﷺ نے بھی شرک سے بچنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے۔