تحریک انصاف کے کارکنوں نے توڑ پھوڑ کرکے غلطی کی اورانتظامیہ نے
خاموش تماشائی بن کر غلطی کی ۔ آئین میں واضح کہا گیا ہے کہ 90روز میں
الیکشن کروائے جائیں کیا کسی نے مانا؟
اگر عوام کے نمائندے آئین کی پاسداری نہیں کریں گے تو پی ٹی آئی کے
عام کارکنوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے ؟
مارشل لاء لگانا آسان ہے لیکن اس سے نکلنا مشکل ہے : ایوب بیگ مرزا
عمران خان کی گرفتاری اورملکی صورتحال کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میںمعروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :رضاء الحق
سوال:عمران خان کو 9مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ پیشی کے لیے گئے تھے ۔ اس کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں کا شدید ردعمل سامنے آیا جو پُرتشدد شکل اختیار کر گیا ۔ آپ کی نظر میں یہ سب کچھ کسی جمہوری ملک کی سب سے بڑی پارٹی کوزیب دیتاہے یاجواس پارٹی کو کرناچاہیے تھاوہ کرپائی ؟
ایوب بیگ مرزا:پہلی بات یہ ہے کہ جمہوریت میں سب کواحتجاج کوحق حاصل ہوتاہے لیکن کسی کوبھی یہ حق قطعی طورپرحاصل نہیں ہوتاکہ کسی پراپرٹی(نجی یا سرکاری) کوکسی قسم کانقصان پہنچایاجائے۔جب نقصان پہنچتاہے تو اس کی تین وجوہات ہوتی ہیں یاتین قسم کے لوگ نقصان پہنچاتے ہیں۔ سب سے پہلے تووہ لوگ جو متاثرہوتے ہیںتو وہ جذباتی ردعمل دکھاتے ہیں ۔ جیسے تحریک انصاف متاثرہ پارٹی تھی کیونکہ ان کے نزدیک ان کے سربراہ کو ناجائز گرفتار کیا گیا ۔ اسی طرح متاثرہ پارٹی کے جوشیلے جوان کنٹرول میں نہیں رہتے اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں جوکہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ پسندیدہ چیز نہیں ہے کہ آپ کسی کی جائیداد کونقصان پہنچائیں۔سرکار ی املاک بھی عوام کے پیسے سے ہی بنتی ہیں لہٰذا جو سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں تو وہ گویا اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو معاشرے کے فسادی اور گمراہ لوگ ہوتے ہیںیا غیر ملکی عناصر ہوتے ہیں، وہ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو مخالف فریق سے تعلق رکھتے ہیں یا انتظامیہ کے اشارے پر متاثرہ پارٹی کو بدنام اور ٹارگٹ کرنے کے لیے توڑپھوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں۔اصولی طورپراس معاملے کودیکھناچاہیے کہ جب عمران خان اور کسی فوجی افسر کے درمیان تلخ کلامی کامعاملہ سامنے آیاتوایک بات بڑی واضح تھی کہ جوبھی عوام کی طرف سے ری ایکشن آئے گااس کا رخ افواج کی طرف ہوگا۔
رضاء الحق: آپ نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی اور ایک فوجی افسر کاجھگڑا ہوا۔ لیکن ہم نے دیکھاکہ اپریل 2022ء سے جب عمران خان کی حکومت کوتحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیا گیا جس کے بارے میں لوگوں کا مختلف نقطہ نظر رہاہے ۔کوئی کہتے ہیں کہ یہ سازش تھی اور کچھ کہتے ہیں کہ یہ مداخلت تھی اور کچھ کہتے ہیںکہ یہ آئینی اقدام تھا۔ لیکن عمران خان نے اپنی سیاسی تقریروں میں سابقہ آرمی چیف قمرجاویدباجوہ اور دوسرے فوجی افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اب بھی انہوں نے ایک خاص فوجی افسر کا نام لیا۔ آپ کے نزدیک کیایہ اُکسانا نہیں تھا ؟
ایوب بیگ مرزا:میں یہی عرض کررہا ہوں کہ افواج پاکستان کے خلاف ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ا س کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے باہمی جھگڑے چاہے جتنے بھی ہوں لیکن سرزمین پاکستان کوتحفظ توافواج نے ہی دیناہے ۔ ہمیں حفاظت کے حوالے سے افواج پرہی بھروسا کرناپڑے گا۔لہٰذا ایسا نہیں کرناچاہیے تھا۔ ہوا یہ کہ ان کے کرنے سے یہ بات کارکنوں تک پہنچ گئی ۔ اس کے بعد یہ بات متوقع تھی کہ جب عمران خان کو گرفتار کیاجائے گا تو تحریک انصاف کے جوشیلے کارکنوں کا ردعمل فوج کے خلاف ہی ہوگا ۔حالانکہ ان کے ماضی میں ایسا نہیں ہے ۔ آپ نے دیکھا کہ27 مارچ کو جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا اورعمران خان نے اسلام آباد میں جلسہ کیاتوکوئی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی ۔ دس اپریل کوجب اسے فارغ کیاگیاتو تب بھی عوام نکلے لیکن کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ اسی طرح جب عمران خان نے لانگ مارچ کیا تھا تو اُن کے کارکنوں نے کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ لیکن اس مرتبہ خدشہ تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد حالات کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں لہٰذا انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ حفاظتی تدابیر اختیار کرتی ۔ اس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ کور کمانڈر ہاؤس کی حفاظت کرتی ، وہاں کنٹینرز لا کر کھڑے کیے جاتے ، اگر فوج نہ آتی توپولیس آجاتی۔ان کے پاس شیلنگ کا سامان ہوتا ہے ، واٹر کینن کا انتظام ہوتاہے وغیرہ وغیرہ لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی ۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے توڑ پھوڑ کرکے غلطی کی اورانتظامیہ نے خاموش تماشائی بن کر غلطی کی ۔ حالانکہ عام آدمی کو بھی معلوم تھا اس مرتبہ ردعمل فوج کے خلاف ہوگا ۔ یقیناً آئی بی اور آئی ایس آئی نے یہ ساری رپورٹس انتظامیہ کو دی ہوں گی اس کے باوجود انتظامیہ کی طرف سے کھلی چھوٹ دے دینا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ حالانکہ حملہ چھ گھنٹے کے بعد ہوا اس دوران حکومت حفاظتی انتظامات کرسکتی تھی لیکن اس نے نہیں کیے۔ بہرحال دونوں طرف سے غلطی ہوئی ہے ۔
سوال: چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اوران کی پارٹی کا ہمیشہ ایک مؤقف رہا ہے کہ وہ انصاف کی حکمرانی چاہتے ہیں ۔ انصاف ان کا کیچ ورڈ ہے ۔ آج بھی ان کا مؤقف یہی ہے کہ عدل اورانصاف ہمارے معاشرے کے لیے ضروری ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے کارکنوں کو کنٹرول کیوں نہیں کرتے ؟فیصلے بہرحال عدالت ہی کرتی ہے ، اگرلیڈر قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے میڈیا پر یہ کہنا شروع کردیں کہ یہ فیصلے ہمیںپسند نہیںہیں توپھریہ معاملہ حل کی طرف جائے گا یا مزید خرابی کی طرف جائے گا؟
ایوب بیگ مرزا:اصل بات یہ ہے کہ ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں ،ہم انصاف اورعدل کی بات کرتے ہیں لیکن ہم عملی طور پر کسی چیز پرعمل پیرا نہیںہوتے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہرقانون، ہرشے دوسرے کے لیے ہے میں اس کے لیے آزاد ہوں۔ مجھ پرکوئی حرف نہ آئے لیکن دوسرے اس پر عمل کریں ۔یقیناً آپ نے درست فرمایاکہ عمران خان کو اپنے کارکنوں کی تربیت اسی نہج پر کرنی چاہیے تھی جو ان کی پارٹی کے منشور کا مرکزی نکتہ تھا یعنی انصاف ۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی مشکل ہے کہ ایک سیاسی لیڈر کے لاکھوں کارکن ہوں اور وہ سب کے سب اس کی بات سے دائیں بائیں نہ ہوں ۔ ہمارامعاشرہ توویسے ہی بڑا آزاد معاشرہ ہے ۔ آپ سڑک پر جاکرمشاہدہ کرسکتے ہیں کہ وہاں بھینسیں انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں چل رہی ہوں گی۔ انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ جس کو جہاں رخ ملتاہے ادھرچل پڑتاہے ۔اشارہ بند ہوگا مگر سب اپنی من مانی کر رہے ہوں گے ۔ عدل کوجتناہم نے بدنام کیاہے کسی نے نہیںکیا۔ ظاہرہے تحریک انصاف کے لوگ بھی ہم میں سے ہی ہیں ۔ کیسے ممکن ہے کہ کہ وہ بالکل ہی الگ تھلک فرشتے بن کرنکلیں ۔ لہٰذا آپ کیسے توقع کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکن اتنے نظم کے خوگر ہوں گے کہ جب انہیں لگا کہ ان کے رہنما کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ یہاں کوئی قانون کو ماننے کو تیار نہیں ہے ۔ کیا پاکستان میںآئین کوپائوں تلے روندا گیا ہے یانہیں ؟ بالکل واضح کہاگیاہے کہ نوے روز میں الیکشن کروائے جائیں لیکن کیا کسی نے مانا؟ آئین میں لکھاہے کہ آپ سپریم کورٹ کے جج کی ذات پربحث نہیں کرسکتے لیکن آج اسمبلیوں اور چوکوں میں ججوں کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں۔ اگر عوام کے نمائندے آئین کی پاسداری نہیں کریں گے تو پی ٹی آئی کے عام کارکنوں سے آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں ؟ اس کے باوجود میں انہیں جسٹیفائی نہیںکرتا۔ خدارا!ہمیں عقل آ جائے ،ہم انسان بن جائیں ۔
سوال: سپریم کورٹ کافیصلہ ہے کہ14مئی کو پنجاب میں الیکشن ہوںلیکن دوسری طرف پی ٹی آئی کی ٹاپ لیڈر شپ کی گر فتارہو چکی ہے ۔ اسی طرح PDMچاہ رہی ہے کہ الیکشن کم ازکم اتناآگے ضرور چلے جائیںکہ عوام میں ان کا کھویا ہوا اعتماد اس دوران بحال ہو سکے ۔ تیسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہر صورت میں آئین پر عمل درآمد چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے وہ سٹینڈ لے چکے ہیں ۔ چوتھی طرف چین کے وزیر خارنہ نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے ملاقات میں عندیہ دیا ہے کہ پاکستان اپنا سیاسی انتشار ٹھیک کرے گاتوتب ہی اس کے چین کے ساتھ تعلقات بہتر ہو سکیں گے۔کیاآپ ان تمام چیزوں میں لنک دیکھتے ہیں؟نیز یہ بھی بتائیے کہ آپ کو انتخابات جلددکھائی دیتے ہیں یاپھرمعاملہ مارشل لاء کی طرف جاتادکھائی دیتاہے ؟
ایوب بیگ مرزا:چین کے حوالے سے ایک بات واضح ہے کہ اس نے اگرچہ ساری دنیا کو قرضے دیے ہیں لیکن اس نے کسی ملک کے اندرونی معاملا ت میں اب تک مداخلت نہیں کی ۔ یہ پہلاموقع ہے کہ اس نے پاکستان کو یہ مشورہ دیا ہے ۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب چن گانگ وزیرخارجہ بنے تھے تو کہاجاتا تھاکہ ان کاپہلادورہ پاکستان کا ہو گالیکن وہ نہ ہوسکا۔ وجہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام تھا ۔ چنانچہ انہوں نے یہ مشورہ دیا۔ مجھے چین کا 1971ء کامشورہ بھی یاد آگیا ۔1971ء میں بھی چین کے اس وقت کے وزیر اعظم چون این لائی نے یحییٰ خان کو مشورہ دیاتھا کہ تم مشرقی پاکستان میں طاقت کااستعمال نہ کروبلکہ تم سیاسی مذاکرات کرکے مسئلہ حل کرو اورجوبہت زیادہ لوگ دوسری سائیڈ پہ چلے گئے ہیں ان کے علاوہ باقیوں سے سیٹلمنٹ کرو تویحییٰ خان نے بڑا عجیب جواب دیاتھاکہ :I thought you are our friend. یہ کہہ کر اس نے بھونڈے انداز میں چون این لائی جیسے بندے کو ڈانٹ دیاتھا۔ چنانچہ پھر جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے ۔اب بھی چینی وزیرخارجہ نے بڑا نیک نیتی پر مبنی اوربڑا صحیح مشورہ دیا ہے ۔یہ قطعی طورپر لوگ غلط کہتے ہیں کہ اس نے کہا ہوگاکہ عمران کولے آئویافلاںکولے آئو۔ یہ اس نے ہرگز نہیںکہاہوگاکیونکہ وہ اتنی مداخلت نہیں کرتے۔ اس نے یہی کہاہوگاکہ آپ کسی کوبھی اپنے ملک کاسربراہ بنائیں ، آپ استحکام لے آئیں، آپ کی پالیسیوں میں تسلسل ہوناچاہیے ۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آج آپ ایک طرف ہیں اورکل دوسری طرف اچھل کرجارہے ہوں۔چار پانچ سال سے چین کی طرف رینگ رہے تھے پھر اچانک چھلانگ لگا کر امریکہ کی گود میں جا بیٹھے ۔ یہ رویہ غلط ہے ۔میں کہتاہوںکہ چین کوبھی ہمارے ساتھ کوئی اتناپیار نہیں ہے بلکہ اس کو اپنامفاد عزیز ہے۔پاکستان میں نوازشریف کی حکومت ہو یا عمران خان کی اس سے چین کو کوئی غرض نہیں ہے ۔ ہاں البتہ اگر آج پاکستان بالکل امریکہ کی سائیڈ لے جائے اورچین کے بالکل خلاف چلاجائے توچین کوکسی صورت یہ قبول نہیںہوگا ۔ وہ ہمیشہ یہی چاہیںگے کہ اگر پاکستان ہماری سائیڈ پہ نہ ہوتوکم ازکم غیرجانبدارکی حیثیت سے ہو۔ لہٰذا اس نے اسی تناظر میں یہ مشورہ دیا ہے کہ پاکستان میں استحکام لے آئیں ۔ میری رائے میں استحکام صرف قانون اور انصاف کی سربلندی سے ممکن ہے ۔ یہ چیزیں اگر نہیں ہوں گی تو پھر ملک انارکی اور انتشار کی طرف چلا جائے گا ۔
سوال:موجودہ صورت حال میں اگر الیکشن وقت پرنہ ہوئے توکیاصورت حال مارشل لاء کی طرف جاسکتی ہے؟
ایوب بیگ مرزا:اللہ رحم کرے ،نہ مارشل لاء کی طرف جاناچاہیے اور نہ ہی ایمرجنسی کی طرف جاناچاہیے۔ مارشل لاء کی طرف اس لیے نہیں جاناچاہیے کہ مارشل لاء لگاناآسان ہے لیکن اس سے نکلنابڑا مشکل ہے۔ پاکستان میں لگنے والے چاروں مارشل لاء کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹرز کودیکھ لیں۔ ایوب خان کس بری حالت میں گیا، اس کے خلاف کتنے خراب نعرے لگے ۔ یحییٰ خان توایوب خان کی ہی باقیات میں سے تھا لیکن وہ بھی بہت بری طرح گیا۔ ضیاء الحق کاانجام بھی اچھانہیں تھا۔ مشرف تواپنی بقیہ زندگی میں پاکستان ہی نہ آسکا حالانکہ وہ یہاں آرمی چیف رہ چکا تھا ۔ اس سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ مارشل لاء لگایاجاسکتا ہے لیکن اس سے باہرنکلنا بہت مشکل ہے۔لہٰذا مجھے مارشل لاء کے لگنے کے قطعی طورپرکوئی امکانات نظر نہیں آتے بلکہ جونظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ایسی حکومت جسے پوری عسکری حمایت حاصل ہو وہ چل سکتی ہے اور اس میں ایمرجنسی لگانے کا بھی مسئلہ ہے ۔ لیکن ایمرجنسی کے لیے صدر کے دستخط ضروری ہیں اورصدر پی ٹی آئی کاہے ۔اگر ایسا نہ ہوتاتوایمرجنسی بہت دیر کی لگ چکی ہوتی۔اسی لیے صدر کے رہنے اورنہ رہنے کا بھی انتظار ہو رہا ہے ۔
سوال:عمران خان کی گرفتاری کی وجہ سے ملک میں جو پرتشدد واقعات ہوئے ۔پھروزیراعظم نے بھی قوم سے خطاب کیا اورپیپلز پارٹی کے لیڈران نے موجودہ صورت حال کوبے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت کی صورت حال سے تشبیہ دی ہے اورکہاکہ اُس وقت آصف علی زرداری صاحب نے’’ پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگاکرصورت حال کو کنٹرول کرلیاتھا۔ لیکن موجودہ صورت حال میں عمران خان صاحب کی جماعت پرتنقید یہ ہورہی ہے کہ انہوںنے اس طرح کاکوئی ردعمل نہیں دیاجس سے حالات کی کشیدگی کو تھوڑا کم کیاجائے۔ آپ کااس پر کیا تبصرہ ہے؟
ایوب بیگ مرزا:پی ٹی آئی والے کیاکرسکتے تھے۔ یہی ہوسکتا تھاکہ الیکشن کے مطالبے سے دستبردار ہو جاتے۔ ا گر ایسا کرتے تووہ بالکل ہی سیاست سے باہر ہو جاتے ۔ اصل چیز آئین پر عمل درآمد ہے ۔ 90دن کے اندر الیکشن آئین کا واضح تقاضا ہے ۔ اس کے اوپر اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے لوگوں نے واضح موقف اختیار کیا اور اس معاملے میں انہوں نے اپنی پارٹی (پیپلز پارٹی) کا ساتھ نہیں دیا بلکہ انہوں نے قانون اورآئین کاساتھ دیا ہے ۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پی ڈی ایم خاص طور پر نون لیگ نے جو الیکشن نہ ہونے دینے کا عزم کر لیا ہے یہ خود ان کے لیے نقصان دہ ہے ۔ اس سے ان کی مقبولیت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر 25مئی کو الیکشن ہو جاتے تو پنجاب میں ن لیگ کا پلہ PTIپر بھاری ہوتا ۔ لیکن الیکشن سے بھاگنے کی وجہ سے ہر ایک کو یہ تاثر ملا کہ ن لیگ جیت نہیں سکتی ۔ اگر تو پاکستان کے معاشی حالات کی بہتری کی کوئی امید نظر آتی ہو تو پھر تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر الیکشن چھ ماہ یا ایک سال تاخیر سے ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں ۔ لیکن اس حوالے سے کوئی بہتری کی امید دور دور تک نہیں ہے ۔ پاکستان جس بری طرح سے قرضوں میں پھنس گیا ہے اگر پانچ یا دس سال میں بھی اپنے معاشی حالات بہتر کرلے تو بڑی بات ہوگی ۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ حکومت الیکشن ملتوی کرکے دانشمندی کا ثبوت دے رہی ہے ۔ اس وقت ڈالر 300سے اوپر چلا گیا ہے ۔ جوں جوں ڈالر مہنگا ہوگا تو قرضہ بڑھے گا ، مہنگائی بھی بڑھے گی اورحکمران اتحاد کی مقبولیت مزید کم ہوگی ۔ میں نے چھ ماہ پہلے کہاتھا کہ نون لیگ کے لیے بہتر یہی ہے کہ فوری الیکشن کرالے کیونکہ میں اس وقت بھی یہی سمجھتاتھاکہ یہ حالات ہوں گے اوروہ حالات ہوئے ۔ ظاہرہے کہ آج ان کے لیے جیتنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیے کہ جلسوںکی بات اور ہوتی ہے اورالیکشن کے Dynamicsالگ ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیںہوتا کہ ایک آدمی کے جلسے میں سوا لاکھ لوگ آئے ہیں اوراس کے مخالف کے جلسے میں 25 ہزار لوگ آئے ہیں تویقیناًسوالاکھ والا ہی الیکشن جیتے گا۔ امکان ہے ۔ لیکن اس کوبنیاد نہیں بنانا چاہیے ۔ الیکشن اورچیز ہے۔ ہمارے ہاں برادری ،جاگیرداری اور تعلقات کے سرپر الیکشن ہوتے ہیں ۔ بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی بنیاد پرالیکشن کے رزلٹ آتے ہیں لہٰذا وہ الیکشن کوڈیلے کرنے کی غلطی کرچکے ہیں ، کررہے ہیں اور لگتا ہے کہ کرتے رہیںگے جس کا نقصان پی ڈی ایم خاص طورپرنون لیگ کوہوگا۔کیونکہ پی ڈیم میں بڑی جماعت تو ن لیگ ہی ہے جس کا پنجاب میں اب بھی کافی ووٹ بینک ہے اور کے پی کے میں بڑی جماعت تھی لیکن اب وہاں پی ٹی آئی کا زیادہ زور ہے ۔
سوال: لیکن سندھ میں تو ہم نے دیکھا کہ لوکل الیکشن میں پیپلز پارٹی ایک طرح سے Sweepہی کر گئی اور کراچی میں بھی پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:جنرل الیکشن میں جے یوآئی اپنے مسلک کی بنیاد پرسیٹیں لیتی ہے اور کسی جگہ مذہبی جماعت کو کامیابی ہوتی نظر نہیںآتی۔ اگر جماعت اسلامی کراچی میں جیتی تووہ بلدیاتی انتخابات میںجیتی اوربہت ہی مشکل ہے کہ وہ قومی یاصوبائی اسمبلی کی کوئی سیٹ جیت سکے ۔ پہلے دیرکی سیٹ ہوتی تھی لیکن اب وہ بھی مشکوک ہوچکی ہے ۔لہٰذا مذہبی جماعتوں کو لوگ ووٹ نہیں دیتے۔ خداجانے کیاسمجھ کرنہیں دیتے۔ ہمارے ہاں ایک انتہائی غلط تصور ہے کہ یہ مولوی ہیں۔ انہوںنے الیکشن لڑکے کیا کرنا ہے ۔ حالانکہ سیاست بھی دین کاحصہ ہے ۔ وہ بندہ جومولویوںسے بڑے اچھے تعلقات رکھتاہوگا،ان کے پیچھے نمازیں پڑھتا ہوگاوہ ووٹ دوسری جماعت کودے گا چاہے وہ پی پی ہویانون لیگ ہویاپی ٹی آئی ہو۔ ایک لحاظ سے دیکھاجائے تویہ بات درست نہیںہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہیںکہ فلاںجماعت کے لوگ بہتر ہیں تو جس کو آپ بہتر سمجھتے ہیں اس کوووٹ دیناچاہیے ۔
سوال:کیاموجودہ صورت حال میں پرامن رہ کرکوئی تحریک اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:ایک بات توسیدھی ہے کہ ہمارا دین عوام کو حق رائے دہی دینے سے نہیں روکتا ۔ حضرت عمرفاروقؓ حج کے لیے گئے تووہاں لوگ کھسرپھسر کر رہے تھے کہ عمر کے بعد فلاںشخص کو خلیفہ بنادیں گے۔ ایک شخص نے آکر حضرت عمر ؓ کو بتایا تو وہ طیش میں آگئے اورکہاکہ یہ تو لوگوں کاحق ہے کہ وہ کس کواپناخلیفہ بناتے ہیں۔میں ابھی اس کا اعلان کرتاہوں۔ جوساتھ مشورہ دینے والے تھے انہوں نے کہا کہ یہ حج کا موقع ہے،جب آپ مدینہ واپس تشریف لے جائیںتو تب اس کااعلان کریں ۔ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی مثال لے لیں۔جب انہیں بتایا گیا کہ آپ کو خلیفہ نامزد کر دیا گیا ہے تو آپ نے عہدہ قبول نہیں کیا جب تک تمام قبائل کے سرداران کو بلا کر رائے نہیں لے لی ۔ ہمارے ہاں بڑی غلط فہمی ہے کہ اسلام آمریت کا مذہب ہے ، حالانکہ اسلام جس طرح انسانوں کو دوسرے حقوق دیتاہے اسی طرح یہ حق بھی دیتاہے کہ وہ اپنا حکمران خود چن لیں ۔ البتہ ہمارے ہاں انتخابات میں جو کچھ خرید و فروخت کا معاملہ ہوتاہے اس کی اجازت اسلام ہرگز نہیں دیتا ۔ اسلام اپناحق حاصل کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق کو سلب کرنے کی ا جازت ہرگز نہیں دیتا۔ میں ذاتی طور پریہ بھی سمجھتاہوں کہ اسلام میںووٹ دینے کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں ہے کہ نیک آدمی کی کیاپوزیشن ہوگی اوربد کی کیاپوزیشن ہوگی۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی باپ کے دوبیٹے ہوں توجیسی وراثت نیک کوملے گی ویسی وراثت بد کو بھی ملے گی ۔یہی اصول ووٹر کے حوالے سے ہے ۔البتہ امیدوار کے حوالے سے کوئی نہ کوئی پابندی ہونی چاہیے۔ لوگ سمجھتے ہیںکہ اسلام جمہوریت دشمن چیز ہے حالانکہ ایسا ہرگزنہیں ہے ۔ میں تویہاںتک کہتاہوں کہ جمہوریت نے تمام اچھے اصول اسلام سے لیے ہیں۔کیاجمہوریت صرف اس چیز کانام ہے کہ جاکرڈبے میں ووٹ ڈال دو؟ بلکہ جمہوریت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ جمعہ پڑـھانے کے لیے آرہے ہیں ۔ مسجد کے دروازے پر ایک صحابیؓ نے زور سے ان کو ٹوکا : اے عمر ؓ: کیا ہم تمہارے غلام ہیں کہ تمہارا انتظار کرتے رہیں اور تم دیر سے آؤ؟ حضرت عمرؓ خاموشی سے جاکر منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا : میرے پاس ایک ہی کرتاہے جو دھویا تھا ،میں سوکھنے کا انتظار کرتا رہا لیکن نہیں سوکھا تو میں اسی طرح پہن کر آگیا ہوں ۔ اسی طرح جمہوریت یہ ہے کہ ایک عورت حضرت عمر ؓ کا راستہ روک کر کہتی ہے : اے عمرؓ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ حق مہر مقرر کریں جبکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے یہ کام نہیں کیا۔ اگر ایسی جمہوریت ہو تو پھر سو بسم اللہ ۔ لیکن اگر اس طرح کی جمہوریت ہو کہ اتنے پلاٹ ، اتنے پرمٹ ، اتنے پیسے ملیں گے تو پھر وہی کچھ ہوگاجواس وقت ہورہاہے کہ صوابدیدی فنڈز اپنے خاندانوں میں خرچ ہورہے ہیں۔ اصل جمہوریت وہی ہے جوقرآن وسنت کی بالادستی میںقائم کی جائے اورہمیں وہی چاہیے ۔یہ مادرپدر آزاد جمہوریت ہمیں نہیں چاہیے اورنہ اسلام اس کی اجازت دیتاہے ۔
سوال:اسلام آباد ہائی کورٹ کاعمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے فیصلہ پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میںچیلنج کر دیاتھا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ (جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ)نے فیصلہ دیاکہ عمران خان کورہا کردیا جائے ۔ آ پ کے نزدیک یہ معاملات آگے کس طرف جائیں گے ؟
ایوب بیگ مرزا:میں سمجھتاہوں کہ باہمی مفاہمت اور ملکی حالات کو درست کرنے کے حوالے سے ،اورجوملک میں اضطراب پھیلاہوا ہے اورایک ہیجانی کیفیت ہے وہ یقیناً فوری طورپرختم ہوجائے گی ۔ اس کے بعد سیاستدانوں کوچاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اورآپس میں مل بیٹھیں اوریہ طے کریں کہ وہ قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کب کرائیں گے ۔ ایک دن طے کرلیں اور پھر اس میں جیتنے کے لیے اپنا سارا زور لگائیں ۔ جس کو عوام منتخب کرلیں اس کو دوسرے تسلیم کرلیں ۔ یہی جمہوریت کا اصول ہے ۔ لیکن مجھے اس بندے پر ترس آرہا ہے جو آئندہ وزیراعظم بنے گا کیونکہ اس کے لیے اتنی مشکلات ہوں گی جیسے غالب ؔنے کہا تھا: ع ’’مشکلیںمجھے پر پڑیں اتنی کہ آساںہوگئیں ۔‘‘لیکن وہ آسان کوئی آسان نہیں ہوں گی ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024