قرآن اور سُنّت کا باہمی تعلق(5)
ڈاکٹر اسرار احمدؒ
یہ مضمون بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمد ؒ کے انجمن کے سالانہ اجلاس منعقدہ1984ء کے موقع پر صدارتی خطاب
کا خلاصہ ہے۔ خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس کو قارئین ندائے خلافت کے لیے شائع کیا جا رہا ہے ۔(ادارہ )
(گزشتہ سے پیوستہ)
ایک نئے فتنے کا آغاز
جہاں تک اصلاحی صاحب کا معاملہ ہے‘ میں ان کے لیے فتنے کا لفظ استعمال نہیں کرتا۔ میں نے اس معاملے میں فقط اتنا کہا ہے کہ وہ منکرین ِ سُنّت کی صف میں آ گئے ہیں‘ لیکن جس نوجوان کا آغاز یہاں سے ہو رہا ہے وہ یقیناً ایک فتنہ اٹھارہا ہے۔ اصلاحی صاحب تو عمر کے آخری دَور میں ہیں‘ ان کی خدمات کا پلڑا بہت بھاری ہے۔ ایک معاملے میں ان سے بہت بڑی لغزش ہوئی‘ اس سے ہم نے اعلانِ براء ت کر دیا۔ اس کے علاوہ ان کی پوری زندگی میں کوئی ایسی بڑی چیز نظر نہیں آتی۔ صرف یہی چند چیزیں ہیں جو میں نے عرض کر دیں۔ لیکن ایک ایسی شے جو ائمہ اربعہ کی مجمع علیہ ہے‘ خلفائے اربعہ کی مجمع علیہ ہے‘ جس کے بارے میں بخاری و مسلم کی احادیث صحیحہ موجود ہیں ‘ اس سے روگردانی کرنا یقیناً بہت بڑی گمراہی ہے‘ اور میرے سابقہ تعلق کی وجہ سے میرے ذمے یہ فرض تھا کہ اس معاملے میں اپنا موقف کھل کر سامنے رکھ دوں۔ ان کے شاگرد کا جومسئلہ ہے اس کے بارے میں مَیں عرض کر چکا ہوں کہ میں اسے فتنہ سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ ایک نوجوان یہ کہے کہ ’’کلالہ‘‘ کے معنی آج تک کسی نے نہیں سمجھے ‘ صرف میں نے سمجھے ہیں اور اس کے گرد کچھ ایسے نوجوان بھی جمع ہو جائیں جو یہ مان لیں کہ ہاں اسی نے سمجھے ہیں اور وہ برملا کہے کہ ہم ایک نئی شریعت کی ترتیب کرنے والے ہیں‘ اس کے فتنہ ہونے میں کچھ شبہ نہیں۔
ایک بات جان لیجیے کہ دنیا میں جتنے بھی فتنے اٹھے‘ اسی طرح اٹھے۔ عام آدمی تو کوئی فتنہ نہیں اٹھایا کرتا۔ ایساتو کوئی باصلاحیت آدمی ہی کرتا ہے۔ غلام احمد قادیانی نے بھی پہلے دین کی بڑی خدمت کی تھی جس کی وجہ سے اس کے گرد لوگ جمع ہو گئے تھے۔ اُس نے مناظروں میں عیسائیوں کو شکستیںدی تھیں‘ آریہ سماجیوں کو شکستیں دی تھیں تب جا کر لوگ اس کے گرویدہ ہوئے۔ اس کے بعد اُس نے ایک ایک کر کے چیزیں ان کے حلق سے اتروانی شروع کر دیں ۔ تو جس کو بھی کسی نئے فتنے کا احساس ہو اور جس کو اللہ تعالیٰ تنبّہ عطا فرمائے اس کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اس بارے میں خبردار کرے۔
اصل میں علماء کو بحیثیت ِ مجموعی قرآن کے نام پر اٹھنے والی تحریکوں سے جو اندیشے لاحق ہیں اور ان کے بارے میں ان کا جو ایک allergic attitudeہے اس کا سبب ہی یہی ہے۔ مجھے تو اب علماء کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو رہی ہے کہ جب بھی انہوں نے سنا کہ کوئی شخص قرآن کا نام لے کر اٹھ رہا ہے تو ایک دم ان کے کان کھڑے ہو ئے کہ کہیں کوئی اور نئی مصیبت تو نہیں آنے والی! کہیں کوئی نیا فتنہ تو نہیں اٹھنے والا؟ اس کی وجہ یہی ہے۔ غلام احمد قادیانی آنجہانی نے بھی اپنے کام کا آغاز قرآن ہی سے کیا تھا۔ اس کا ایک شعر ملاحظہ ہو : ؎
اے بے خبر بخدمت قرآں کمر بہ بند
زاں پیشتر کہ بانگ براید فلاں نہ ماند!اور: ع
قمر ہے چاند اوروں کا ‘ ہمارا چاند قرآں ہے!یہ سب کچھ اُس نے کہا۔ پھر دیکھئے سرسید احمد خان کا اوڑھنا بچھونا قرآن تھا۔ انہوں نے پندرہ پاروں کی تفسیر لکھی جس میںساری گمراہیاں پھیلائیں۔ اہل ِقرآن اور منکرین ِ سُنّت تو معلوم ہوتا ہے قرآن کے ٹھیکیدار ہیں ۔
چونکہ قرآن کے نام پر فتنے اٹھتے رہے ہیں لہٰذا ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ لوگ آثارِقدیمہ کو کروڑوں روپیہ صرف کر کے محفوظ (preserve) کرتے ہیں‘ تو ہمارے لیے دین کے آثار صحابہ کرامj اور آئمہ ٔ دین کی آراء ہیں۔ یہ ہمارے لیے بہت قیمتی ہیں اور ان کو بڑی مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔ ((عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ)) کے مصداق اگر ہم ان کو دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے تھامیں گے تبھی اس دور کے فتنوں سے بچیں گے۔ ورنہ ایک سے ایک نیا فتنہ آتا ہے اور وہ کچھ نہ کچھ لوگوں کو دین کی طرف سے برگشتہ کر کے انہیں اصل راستے سے ہٹا کر غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ ایسے فتنے اٹھانے والوں میں کچھ نہ کچھ تو ذہانت و فطانت اور صلاحیت ہوتی ہے جو لوگوں کو اصل راستے سے ہٹا کر لے جاتی ہے۔
رسول اللہﷺ کی الوداعی وصیت
اب ہم ایک حدیث ِنبوی ؐ کا مطالعہ کرتے ہیں:
عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ صَلّٰی لَـنَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ صَلَاۃَ الْفَجْرِ ثُمَّ وَعَظَنَا مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً ذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ وَ وَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ‘ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُوْلَ اللہِ کَاَنَّھَا مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَاَوْصِنَا‘ قَالَ:((اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللہِ عَزَّوَجَلَّ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَ اِنْ کَانَ عَبْدًا حَبْشِیًّا‘ فَاِنَّـہٗ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا‘ فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ‘ عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ‘ وَاِیَّاکُمْ وَالْمُحْدَثَاتِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ))… وَفِیْ رِوَایَۃٍ : ((وَکُلَّ ضَلَالَـۃٍ فِی النَّارِ)) (سنن الترمذی)
’’حضرت عرباض بن ساریہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد ہمیں ایسا پُراثر وعظ فرمایا کہ ہماری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور ہمارے دل اس سے لرز گئے۔ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! یہ تو ایسے لگتا ہے کہ آپؐ نے کوئی الوداعی وعظ فرمایا ہے (یعنی اس انداز سے جیسے آپؐ ہم سے وداع ہو رہے ہیں یا ہمیں وداع کر رہے ہیں) تو ہمیں نصیحت کیجیے! (یعنی اگر یہ علیحدگی کا وقت ہے اور الوداعی خطاب کا انداز ہے تو ہمیں وہ اصول دے دیجیے کہ جنہیں ہم تھام لیں) آپﷺ نے فرمایا: ’’(سب سے پہلے تو) مَیں تمہیں وصیت کرتا ہوں اللہ کے تقویٰ کی‘ وہ جو العزیز ہے اور بہت جلالت ِشان والاہے۔اور (دوسری نصیحت ہے) سننے اور ماننے کی (یعنی اجتماعی نظم و ضبط) اگرچہ ایک حبشی غلام تمہارا امیر بنا دیا جائے۔ اس لیے کہ جو کوئی تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا وہ عنقریب بہت سے اختلافات دیکھے گا۔ پس تمہارے لیے میری سُنّت اور ہدایت یافتہ راست رَو خلفاء کی سُنّت کی پیروی لازم ہے۔ اسے اپنے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑے رہنا ۔(یہ محاورہ ہے‘ یعنی کسی کو شدت اور مضبوطی کے ساتھ پکڑلینا) اور دیکھنا (دین میں) نئی نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچتے رہنا‘ اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے‘ اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘…اور ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں: ’’اور ہر گمراہی آگ میں جھونکی جانے کے قابل ہے۔‘‘
اب مَیں دو چیزوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ خلفائے راشدین سے کیا مراد ہے! عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ خلفائے راشدین یہی خلفائے اربعہ ہیں‘ یعنی حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر‘ حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ میرے نزدیک شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس کی جو شرح کی ہے وہ زیادہ صحیح ہے کہ یہاں دونوں خلافتیں مراد ہیں‘ خلافتِ علمی اور وہ خلافت جو حکومت کی سطح پر قائم ہوئی۔ اس لیے کہ یہاں الفاظ استعمال ہورہے ہیں : ((سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ)) اور خلافت ِراشدہ کا جو نظام بعد میں سیاسی طور پر قائم ہوا وہ نظام تو اُس وقت پردئہ غیب میں تھا۔ مراد اس سے یہ ہے کہ میرے خلفاء یا میرے بعد آنے والے وہ لوگ جو راشد ہوں‘ مہدی ہوں‘ رشد و ہدایت پر ہوں‘ ہدایت یافتہ ہوں۔ ان میں یقیناً چاروں خلفاء بھی شامل ہیں جو ہمارے خلفائے راشدین ہیں‘ ان پر تواہل ِسُنّت کا اجماع ہو گیا‘ اس لیے کہ یہی وہ چار ہیں جن میں اختلاف کی کوئی بات نہیں ہوئی‘ لیکن اس کے بعد کا معاملہ سیاسی اعتبار سے مختلف فیہ ہے۔ بعد میں آنے والوں میں جو لوگ علم ِ نبوت کے وارث بنے‘ یعنی علماء‘ ائمہ ٔ دین‘ فقہاء اور محدثین‘ یہ بھی یقیناً محمدرسول اللہ ﷺکے خلفاء میں سے ہیں۔ یہ خلافت ِ علمیہ ہے۔ پھر خلافت ِ باطنیہ ہے۔ خلافت ِظاہری وہ ہے جس پر حکومت کا نظام ہمارے ہاں چلا ہے‘ البتہ ’’خلافت ِ راشدہ‘‘ میں یہ تینوں ایک وحدت ہیں۔ باطنی خلافت‘ علمی خلافت اور سیاسی خلافت یہ تینوں جمع ہو گئی ہیں حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر‘حضرت عثمان اور حضرت علیjکی ذات میں۔ لیکن بعد میں پھر تقسیم ہوتی چلی گئی۔ ایک خلافت سیاسی رہ گئی‘ ایک خلافت علمی اور ایک خلافت باطنی۔ اس کے علاوہ روحانی خلافتوں کا جو سلسلہ ہمارے ہاں بیعت کی بنیادپر چلا ہے اور جو ہماری ساری روایات ہیں ان میں سے کوئی بھی درحقیقت اس ڈگر سے ہٹ کر نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بدعت محض کسی رسم کا نام نہیں۔دین میں نیا خیال ظاہر کرنا اور بالکل مجمع علیہ چیزوں کے خلاف کوئی نئی رائے دینا بھی یقیناً بدعت میں شامل ہے۔بدعت صرف عمل کا نام نہیں بلکہ نیا خیال بھی بدعت ہے‘ نیا نظریہ بھی بدعت ہے۔ وہ چیز جو دین کے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو وہ بھی بدعت ہے۔
متذکرہ بالا آیت کے الفاظ {وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ} ’’اور جو کوئی مخالفت کرے رسولؐ ‘کی‘‘ کا مصداق رسولؐ کے ساتھ ساتھ سُنّت ِرسولؐ ‘بھی ہے‘ اور {وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ}’’اور چلے مسلمانوں کی راہ کے خلاف۔‘‘اس ’’سبیل المؤمنین‘‘ کی وضاحت میں کر چکا ہوں کہ یہ کن ذرائع سے وجود میں آئی ہے۔ جو کوئی اس سے ہٹ کر کوئی راستہ نکالے گا‘ چاہے وہ کوئی رسم ہو‘ کوئی خیال ہو‘ کوئی رائے ہو وہ راستہ قابل ِ قبول نہ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ کوئی رائے اکیلی نہیں ہوتی‘اس کا پورا کنبہ ہوتا ہے۔ ایک نئی رائے آئے گی تو اس کے ساتھ ملی ہوئی چیزیں اس میں شامل ہوتی چلی جائیں گی۔ چنانچہ اس نئے مکتب فکر کے روبرو ایک مرتبہ جب گفتگو ہو رہی تھی اور مَیں نے یہ بات کہی کہ آپ ایک بالکل نیا دین ایجاد کر لیں گے تو انہوں نے کہا :’’نیادین نہیں بلکہ نئی شریعت‘ نئی فقہ ہم ضرور بنانا چاہتے ہیں۔‘‘بہرحال میں ان حضرات کے طرزِعمل سے اعلانِ براء ت کرتا ہوں اور یہ بات پوری طرح واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں کسی کمپرومائز کی گنجائش نہیں۔ اگر دین کے کسی معاملے میں ہم نے مداہنت کا راستہ اختیار کیا اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مابین کوئی تفریق کرنے کی کوشش کی تو ہماری یہ ساری محنتیں اکارت چلی جائیں گی اور ان کا حاصل کچھ نہ ہو گا۔
ہم اُس قرآن کے ماننے والے ہیں جو محمد رسول اللہﷺ پر نازل ہوا‘ اور آپؐ پرصرف قرآن ہی نازل نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐکی رہنمائی بہت سے طریقوں اورچینلز سے کی۔ اس پر تو علماء نے کتابوں کی کتابیں لکھ دی ہیں اور بیسیوں مثالیں دی ہیں۔ مثلاً یہ جو سورۃ البقرۃ میں فرمایاگیا: {وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ط} (آیت:143) ’’اور ہم نے نہیں مقررکیا تھا وہ قبلہ جس پر کہ آپؐ تھے مگر اس لیے کہ ہم ذرا جانچ لیں کہ کون رسولؐ ‘کی پیروی کرتا ہے اور کون اُلٹے پائوں پھر جاتا ہے۔‘‘ غور کیجیے قرآن مجید میں کہاں ہے وہ آیت جس کی تعمیل میں رسول اللہﷺ نے بیت المقدس کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھی؟ تو معلوم ہوا کہ کوئی اور چینل ہے جس کے ذریعے آپﷺ کو وہ بات کہی گئی تھی‘ کوئی اور بصیرتِ باطنی تھی جس کے ذریعے آپؐ کو یہ ہدایت دی گئی تھی۔اس طرح کی بیسیوں مثالیں آپ کو مل جائیں گی جن سے ثابت ہو جائے گا کہ محمد رسول اللہﷺ کو صرف قرآن ہی نہیں مل رہا تھا‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی بہت سے دوسرے چینلز سے بھی آپؐ کے پاس آرہی تھی۔ جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((اُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہٗ مَعَہٗ)) ’’مجھے قرآن بھی دیا گیا اور اس جیسی چیز اور بھی۔‘‘ یہی وہ چیز ہے جس نے سُنّت کی شکل میں ظہور کیا۔
سُنّت اور حدیث کا فرق
سُنّت درحقیقت کہتے ہیں سیرت‘ راستے اور طریقے کو۔(السنۃ فی الاصل الطریقۃ والسیرۃ) رسول اللہﷺ کا جو راستہ اور طریقہ ہے اس کا علم ہمارے پاس دو واسطوں سے پہنچا ہے۔ اوّلاً تواتر ِعمل اور ثانیاً حدیث کا ریکارڈ۔ ان میں سے اہم تر واسطہ یا ذریعہ اُمت کا تواتر ِعمل ہے۔ نبی اکرمﷺ کو دیکھ کر صحابہ کرام ؓ نے عمل کیا‘ صحابہ کو دیکھ کر تابعین نے اور تابعین کو دیکھ کر تبع تابعین نے عمل کیا۔ اس طرح یہ نسلاً بعد نسلٍ دیکھ کر منتقل ہو رہا ہے۔ بالکل اسی طور سے قرآن منتقل ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ سے صحابہؓ نے سنا اور یاد کیا اور پھر صحابہ سے اگلوں نے سنا اور یاد کیا۔ اسی طرح یہ آگے چلتا گیا اور نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتا گیا۔رسول اللہﷺ نے اسے باقاعدہ چھپوا کر اس پر دستخط کر کے اور سر‘ ٹیفکیٹ دے کر اس کے نسخے تو دنیا کے اندر نہیں بھیجے تھے۔ قرآن تو رسول اللہﷺ کی اپنی حیاتِ طیبہ تک مابین الدُّفَّـتَین بھی جمع نہیں ہوا تھا۔ وہ تو بعد میں دورِ صدیقی ؓ میں جمع ہوا۔
چنانچہ اوّل درجے میں اللہ کے رسولﷺ کا عمل ہے جس پر اُمّت کا تواتر ِعمل ہے‘ اور پھر ثانوی درجے میں حدیث کا ریکارڈ ہے۔ حدیث کا ریکارڈ جمع کرنے کا جب مرحلہ آیا تو بہت سی چیزیں ایسی ہو سکتی ہیں کہ جن کی وجہ سے کوئی حدیث اس معیار پر پوری نہ اتر رہی ہو۔ ہو سکتا ہے اس کا اصل راوی فوت ہو چکا ہو اور اس کی بجائے کوئی دوسرے درجے کا راوی اسے روایت کر رہا ہو۔ اس طرح کے سارے امکانات موجود ہیں۔ لیکن تواتر ِعمل میں اس طرح کا کوئی خلا پیدا نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا سُنّت کے علم کا زیادہ بڑا ذریعہ (source) ہمارے پاس اُمّت کا تواتر ِعمل ہے ‘ جس نے سبیل المؤمنین کی شکل اختیار کی ہے اور اصل میں اس کی اہمیت زیادہ ہے۔اہل ِایمان کے اِس راستے سے ہٹ کر کوئی راستہ نکالنے کی کوششیں ہر دَور میں ہوتی رہی ہیں۔ ہر دَور اور ہر زمانے کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ جب یونان کی منطق آئی تو بہت سے لوگوں کو بہا کر لے گئی تھی۔ ایک دَور میں جدید سائنس کے زیر اثر سرسید احمد خان اور اُن کے حلقۂ اثر نے کچھ رائیں ایجاد کر لیں۔ لیکن یہ وقتی قسم کے معاملات ہوتے ہیں۔ ہمارا جو تسلسل ہے تواتر عمل کا اور اس سے جو سبیل المؤمنین بنی ہے اس کی پیروی ہم پر لازم ہے۔ ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اِن شاء اللہ قرآن مجید کی اس پوری تحریک اور دعوت کو لے کر چلیں گے اور کہیں بھی سبیل المؤمنین سے اپنا راستہ ہٹا لینے کے لیے تیار نہ ہوںگے۔اس لیے کہ اسی میں عافیت اور حفاظت ہے۔ یہی ہمارے نزدیک قرآن کی رو سے اور سُنّت ِرسولﷺ کے اعتبار سے صحیح راستہ ہے۔
اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات
tanzeemdigitallibrary.com © 2024