اسلام میں عورت کا مقام
مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت
’’اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے؟‘‘اس پر بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ کہ بے اعتدالی اور افراط و تفریط کی اس دنیا میں صرف اسلام کا دیا ہوا نظام تمدن ہی ایک ایسانظام ہے جس میں اعلیٰ درجہ کا اعتدال و توازن پایا جاتا ہے۔ اس نظام میں فطرت انسانی کے ہر ہر پہلو، یہاں تک کہ خفی سے خفی پہلو کی بھی رعایت کی گئی ہے۔ انسان کی جسمانی ساخت، اس کی حیوانی جبلت، اس کی انسانی سرشت، نفسانی خصوصیات اور اس کے فطری داعیات کے متعلق نہایت مکمل اور تفصیلی علم سے کام لیا گیا ہے۔ ایک ایک چیز کی تخلیق سے فطرت کا جو مقصدہے اس کو بتمام و کمال اس طرح پوراکیا گیا ہے کہ کسی دوسرے چھوٹے سے چھوٹے مقصد کو بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ اور با لآ خر یہ سب مقاصد مل کر اس بڑے مقصد کی تکمیل میں مدد گار ہوتے ہیں جو خود انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ یہ اعتدال ، یہ توازن ، یہ تناسب اتنا مکمل ہے کہ کوئی بھی انسان خود اپنی عقل اور کوشش سے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ انسان کا وضع کیا ہوا قانون ہو اور اس میں کسی جگہ بھی یک رخی ظاہر نہ ہو، ناممکن ہے، قطعی ناممکن ہے۔ خود وضع کرنا تو ایک طرف رہا حقیقت یہ ہے انسان اس معتدل و متوازن اور انتہائی حکیمانہ قانون کی حکمتوں کو بھی پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکتا خواہ وہ کتنی ہی غیر معمولی سلامت طبع رکھتا ہو اور سالہا سال تک علوم و تجربات کا اکتساب کرے اور خواہ برسوں غورو خوض بھی کرتا رہے۔
ہم اس قانون کی تعریف اس لیے نہیں کرتے کہ ہم اسلام پر ایمان لائے ہیں۔ بلکہ در اصل ہم اسلام پر ایمان لائے ہی اس لیے ہیں کہ فطرتِ انسانی میں کمال درجہ کا توازن اور تناسب اور قوانین کے ساتھ اس کا مطابقت رکھنا ایسا ثبوت ہے کہ جسے دیکھ کر ہمارا دل گواہی دیتا ہے کہ یقیناً اس قانون کا واضع وہی ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور غیب و شہادت کا عالم ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ مختلف سمتوں میں بہک جانے والے بنی آدم کو عدل و توازن کا محکم طریقہ وہی بتا سکتا ہے۔
’’ آپؐ کہیے: اے اللہ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! غائب اور حاضر کے جاننے والے!یقینا ًتو فیصلہ کرے گا اپنے بندوں کے مابین اُن تمام چیزوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔‘‘ (الزمر:46)
کائنا ت میں زوجیت کا اہتمام:
اسلام کے نظام تمدن میں پہلی اہم شے زوجیت کا اہتمام ہے ۔ سورۃ الذاریات آیت نمبر 49 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے ہیں تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو۔ ‘‘
زوجیت اصل میں یہ ہے کہ ایک شے میں فعل ہو اور دوسرے میں قبول و انفعال ۔ یہی دو چیزوں کے درمیان زوجیت کا تعلق ہے۔ اب اسی قانون ِ زوجیت کا اسلام کے معاشرتی نظام پر انطباق کریں تو تین ابتدائی اصول حاصل ہوں گے
1) اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق کی ہے۔ اسی نے مرد و عورت دونوں کو پیدا کیا۔ دونوں کی جسمانی ساخت جدا جدا بنائی ۔ دونوں کی نفسانی کیفیات مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس طریقے کو اپنے کار خانۂ قدرت کو چلنے کا ذریعہ بنایا ہے وہ ہر گز ناپاک اور ذلیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کے اجزاء ۔ چونکہ مردو عورت دونوں مل کر اس معاشرے کی مختلف ضروریات کو پورا کرتے ہیں لہٰذا اپنی اصل کے اعتبار سے کوئی بھی گھٹیا یا کم تر نہیں بلکہ اعلیٰ اور محترم ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے چونکہ وہ خالق کی منشاء کو پورا کرتے ہیں۔
2) فعل اور انفعال دونوں اس کا ر خانہ کو چلانے کے لیے یکساں ضروری ہیں۔ فاعل کی فاعلی حیثیت میں نہ کوئی عزت ہے اور نہ ہی منفعل کی انفعالی حیثیت میں کوئی ذلت ۔ ایک معمولی مشین کے پرزے کو بھی اگر کوئی شخص اس کے اصلی مقام سے ہٹا کر اس سے کوئی اور کام لینا چاہے گا جس کام کے لیے وہ بنا ہی نہیں گیا تو وہ شخص انتہائی احمق سمجھا جائے گا۔
3) جس طرح وقوعِ فعل کے لیے فاعل اور منفعل دونوں کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ فاعل میں کمال درجہ کا غلبہ اور قوت و تاثیر ہو اور منفعل میں کمال درجہ کی مغلوبیت ، کمزوری اور تاثر ہو۔ کیونکہ اگر دونوں قوت میں یکساں ہوں اور کسی کو کسی پر غلبہ حاصل نہ ہو تو ان میں کوئی بھی دوسرے کا اثر قبول نہیں کرے گا۔ اگر کپڑے میں بھی وہی سختی ہو جو سوئی میں ہے تو سینے کا فعل پورا ہوہی نہیں سکتا۔
انسان کی حیوانی فطرت اور اس کے تقاضے:
عورت اور مرد کا وجود محض ایک مادی وجود ہی نہیں بلکہ وہ ایک حیوانی وجود (Biological Existence) بھی ہے۔ سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر 11 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے خود تمہیں میں سے جوڑے بنائے اور جانوروں میں سے بھی جوڑے بنائے ۔ اس طریقہ سے وہ تم کو روئے زمین پر پھیلاتا ہے ۔ ‘‘
یعنی انسان اور حیوان دونوں کے جوڑے بنانے کا ایک ساتھ ذکر کرنے کا ایک مشتر ک مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے زوجی تعلق سے تناسل کا سلسلہ جاری ہو۔
پھر سورہ البقرۃ آیت نمبر 223 میں ارشاد گرامی ہے۔
ترجمہ:’’ تمہاری عورتیں تمہارے لئےکھیتیاں ہیں۔‘‘
یعنی جس طرح کھیتی میں کسان صرف بیج پھینک کر فارغ نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے لیے پانی اور کھاد بھی مہیا کرتا ہے اور اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ اسی طرح عورت بھی وہ زمین نہیں ہے جس میں ایک جانور چلتے پھرتے کوئی بیج پھینک جائے بلکہ عورت اس بات کی محتاج ہے کہ مرد اس کی حفاظت اور اس کی تمام ضروریات بھی پوری کرے۔
مزید برآں مرد و عورت میں جو صنفی کشش ہے، وہ عین اسی نوعیت کی ہے جو دوسرے حیوانات میں پائی جاتی ہے پس خالق کائنات انسان کی حیوانی فطرت کے اس کمزور پہلو سے بے پرواہ نہیں ہو سکتا۔ مرد عورت میں صنفی انتشار (Sexual Anarchy) کی طرف شدید میلان رکھتا ہے لہٰذا اسے تحفط کی خاص تدابیر کے بغیر قابو میں نہیں رکھا جا سکتا ۔ اور اگر وہ ایک مرتبہ بے قابو ہوجائے تو انسان کو حیوانات میں بھی سب سے بد تر بننے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ سورۃ التین آیت نمبر 4 تا 6 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر ہم نے لوٹا دیا اس کو پست ترین حالت کی طرف۔ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے۔ ‘‘
اسی غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے حدود شرعی مقرر فرمائی ہیں۔ تاکہ انسان کے افعال کو ایک ضابطہ کا پابند بنایا جائے۔ اور ساتھ ہی تنبیہہ بھی کردی کہ اگر افراط و تفریط کا طریقہ اختیار کیا اور ان حدود سے تجاوز کیا تو اپنے آپ کو تباہ کرلو گے۔ جیسا کہ سورۃ الطلاق آیت نمبر 1 کے آخر میں فرمایا گیا ہے:
’’ جس نے اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کیا پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا ۔ ‘‘
مندرجہ بالا تمام مقاصدکو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے لیے دائرہ کار کو الگ الگ کردیا ہے۔ اور زوجین کے درمیان ذمہ ہ داریوں کی نہ صرف تقسیم کی ہے بلکہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تفصیلی قوانین بھی مرتب کردیئے ہیں۔ مثال کے طور پر چونکہ بچوں کی پرورش اور ان کی تربیت عورت کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا عورت کی فطرت اللہ نے جذباتی بنائی ، اس میں محبت کے جذبات زیادہ رکھ دیئے تا کہ وہ بچوں کو بھر پور توجہ دے، گھر کے اندر کا ماحول صاف ستھرا رکھے۔ گھر کی مکمل دیکھ بھال کرے تاکہ شوہر جب باہر کی معاشی ضروریات سے فارغ ہو کر تھکا ہارا گھر آئے تو بیوی اسے مکمل سکون اور آرام بہم پہنچائے۔ جیسا کہ سورۃ الروم آیت نمبر 21 میں فرمایا گیا ہے:
’’اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اُس نے پیدا کیے تمہارے لیے تمہاری نوع میں سے جوڑے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اُس نے تمہارے مابین محبت اور رحمت پیدا کر دی۔یقینا ًاس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کریں۔‘‘
مرد کا سربراہِ خاندان ہونا:
خاندان در اصل ایک چھوٹا سا انتظامی ادارہ ہے اور کسی بھی ادارہ میں مساوی اختیارات کے حامل دو سربراہ نہیں ہوسکتے، عقل و منطق کا تقاضا ہے کہ کسی ادارے کا صرف اور صرف ایک ہی سربراہ رہے۔
زوجیت کے اعتبار سے چونکہ مرد میں غلبہ اور قوتِ تاثیر ہے اور عورت میں مغلوبیت اور قبولیت کے اثر کی استعداد ۔ لہٰذا فطری طور پر مرد ہی کو سربراہ خاندان بھی ہونا چاہیے۔
قرآن حکیم سے ظاہر ہوتا ہےکہ یہ اختیار مرد ہی کو حاصل ہے۔ سورۃ البقرہ آیت نمبر 228 کے آخری حصہ میں ارشاد الٰہی ہے:
’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ ترجیح کا حاصل ہے۔ اور اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔ ‘‘
مندرجہ بالا آیت میں مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کے توازن کا بھی بیان آگیا اور خاندان کے اعتبار سے مرد کی قوامیت (سربراہِ خاندان) بھی واضح ہوگئی۔ سورۃ النساء آیت نمبر 34 کے شروع میں فرمایاگیا ۔
ترجمہ:’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں بسبب اس فضیلت کے جو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر دی ہے۔ اور بسبب اس کے جو وہ خرچ کرتے ہیں اپنے مال میں سے ۔‘‘
یعنی مرد کی قوامیت ایک تخلیقی تفضیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو عطا کی ہے۔ یہ مرد کی تخلیقی ونفسانی ساخت اور فطرت میں موجود ہے ۔ مندرجہ بالا آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ معاشی کفالت کا تمام بوجھ مرد کے کاندھوں پر ڈالا گیا ہے۔
نسب کی حفاظت اور صنفی انتشار (Sexual Anarchy) سے بچاؤ:
خاندان کے ادارے کو مضبو ط بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نسب کی حفاظت کی جائے اور صنفی انتشار سے بچا جائے، اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ’’زنا ‘‘کو حرام قرار دیا بلکہ انتہائی دور دور تک اس کےر استے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کردیں۔ مخلوط محافل سے منع کیا ۔ بلا ضرورت گھر سے نکلنے کو ناپسند قراردیا ۔ محرم کے سامنے مکمل ستر میں آنے کا حکم دیا اور نا محرم سے مکمل حجاب کرنے کا حکم دیا۔ محرمات کی تفصیل قرآن و حدیث میں موجود ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔سورۃ الاحزاب آیت نمبر 32،33 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
’’اے نبیؐ کی بیویو! تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہومراد یہ ہے کہ نبی مکرمﷺ کی بیویاں ہونے کی حیثیت سے تمہیں تا قیامِ قیامت امت کی خواتین کے لیے اُسوہ بننا ہے۔ اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو گفتگو میں نرمی پیدا نہ کرو، کہ وہ شخص جس کے دل میں روگ ہے وہ کسی لالچ میں پڑ جائے اور بات کرو معروف انداز میں۔ اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑواور مت نکلو بن سنور کر پہلے دورِ جاہلیت کی طرح اور نماز قائم کرو‘زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت پر کاربند رہو۔اللہ تو بس یہی چاہتا ہے اے نبیؐ کے گھر والو! کہ وہ دور کر دے تم سے ناپاکی اور تمہیں خوب اچھی طرح پاک کر دے۔‘‘
درج بالا آیات میں درج ذیل چند اہم ہدایات دی گئی ہیں۔
1) فطری طور پر عورت کی آواز میں ایک دلکشی ہے اور چونکہ اس کی وجہ سے کوئی بھی بد اخلاق شخص غلط معنی لے سکتا ہے۔ لہٰذا عورت کو بوقت ضرورت کسی مرد سے بات کرتے ہوئے شیریں اور لوچ دار اندازِ میں گفتگو کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اسے چاہیے کہ مختصر ، صاف صاف اور سیدھی بات کرے۔ اس میں بلا ضرورت طوالت نہ ہو۔
اب ظاہر ہے کہ جو دین عورت کی غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار اندازِ گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا ، مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے روکتا ہے۔ کیا وہ کبھی اس بات کو پسند کرسکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آکر گائے اور ناچے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سنا سنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ بھڑکائے۔ یا ائیر لائن اور بسوں میں میزبان (Host) بنائی جائیں۔اور انہیں خاص طور پر مسافروں کا دل لبھانے کی تربیت دی جائے۔ یا کلبوں اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھل مل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں۔
2) جب گھر میں قرار پکڑنے اور حجاب کے احکام آگئے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی تمدنی ضرورت سے گھر سے باہر نکلنا ہو تو کیا کیا جائے۔ اس کے لیے سورۃ الاحزاب آیت نمبر 59 میں فرمایاگیا:
’’اے نبی(ﷺ)!اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں۔ یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں تو انہیں کوئی ایذا نہ پہنچا ئی جائے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
عربی میں ’’جلباب‘‘ اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو پورے جسم کو ڈھانپ لے اور چھپالے۔ زمانۂ جاہلیت ( زمانہ قبل ازاسلام) میں بھی اعلیٰ اور شریف خاندان کی عورتیں عموماً جب باہر نکلتی تھیں تو اس طرح کی چادر لپیٹ کر نکلتی تھیں۔ قرآن مجید نےاس میں یہ اضافہ کیا گیا کہ اس کا ایک حصہ چہرے پر بھی لٹکا لیا جائے۔
عورتوں کے لیے مناسب تعلیم کا بندوبست:
عورتوں کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں۔ اپنے گھر میں آمدنی کے حساب سے مناسب خرچ کریں۔ گھر کا خرچ چلانے کے لیے مناسب بجٹ بنائیں۔ لہٰذا اسلام عورتوں کے لیے ایسی تعلیم ، جس کے ذریعے وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں ، کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ اس طرح عورتوں کے لیے مناسب دینی تعلیم کا حصول بھی ضروری ہے تاکہ نماز اور روزہ وغیرہ کی صحیح ادائیگی ہو سکے۔ انہیں طہارت کے مسائل کا بھی علم ہونا چاہئے۔ اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
((طَلَبُ الُعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسۡلِمَۃٍ)) ’’ہر مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ ‘‘
مزید برآں معاشرے میں جن شعبوں میں بھی عورتوں کی خدمات کی ضرورت ہے وہاں بھی ان کی ضروریات کے مطابق حکومت کو عورتوں کی تعلیم کا بندوبست کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر چھوٹے بچوں کی تعلیم کا شعبہ یا ہسپتالوں میں مریض عورتوں کی نگہداشت کے لیے لیڈی ڈاکٹرز اور نرسنگ وغیرہ اسی طرح عدالتی یا سکیورٹی کے شعبوں میں بھی عورتوں کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ عورتوں کے لیے تعلیمی ادارے مردوں سے الگ ہو نے چاہیئں اور انہیں چاہیے کہ وہ پردے میں رہ کر تعلیم حاصل کریں۔
اس بات کا اعادہ ایک بار پھر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں میں زوجیت کے اعتبار سے نہ کوئی گھٹیا ہے اور نہ کوئی افضل ۔ خالصتاً انسانی سطح پر دینی اخلاق، روحانی ترفع اور جنت کے اعلیٰ مقام و مدارج تک پہنچنے کے جتنے مواقع مردوں کے لیے میسر ہو سکتے ہیں ، اتنے ہی خواتین کے لیے بھی موجود ہیں۔ کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ دونوں ہی اپنی اپنی ذمہ داریاں جو اللہ نے ان کے ذمہ لگائی ہیں ان کو احسن طریقہ سے ادا کریں۔ اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق بھی احسن طریقہ سے ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کما حقہٗ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دور حاضر کے فتنوں اور خاندانی انتشار سے محفوظ رکھے ۔ آمین یار ب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024